مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے بچوں کی مدرسہ احمدیہ قادیان میں تعلیم و تربیت
احمدیت کے حوالہ سے دیوبندی اور اہل حدیث کی آپس میں طعنہ زنی
دیوبندی عالم دین جناب ابن انیس حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے ۱۹۹۷ءمیں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب بعنوان ’’سب سے پہلا فتوائے تکفیر ‘‘لکھی اور اس ’’شاہکار فتویٰ کفر‘‘ کو دیوبندی اکابرین کے اعمال نامہ کی ’’زینت ‘‘ قرار دیا۔ ساتھ کے ساتھ وہابی مخالفت کو بھی نہیں بھولے اور یوں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے براہین احمدیہ پر ریویو کو خوب طنز کا نشانہ بنا کر احمدی وہابی بھائی بھائی کا نعرہ لگا دیا۔حسب توقع جواب میں ایک اہل حدیث پی ایچ ڈی ڈاکٹر جناب محمد بہاءالدین صاحب نے ایک کتاب ’’تحریک ختم نبوت ‘‘لکھی جسے غیر مقلدین کے ادارہ صراط مستقیم نےبر منگھم سے، مکتبہ قدوسیہ نے لاہور سے اورادارہ اشاعۃ السنہ نے دہلی سےشائع کر دیا اور مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے اس کا مقدمہ لکھا۔انہوں نے مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی کے حوالہ سے ثابت کیا کہ احمدیت کا بنیادی فلسفہ و عقائد دیوبندیت سے کشید ہیں اور دیوبندی اور احمدی یکساں و ہم رنگ ہیں۔جواب میں دیوبندی عالم دین نے اَور حوالہ جات کے ساتھ ساتھ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کا عدالت میں لکھ کر دینے کو کہ احمدی بھی مسلمانوں کا ایک فرقہ ہیں اور ساتھ ہی اپنے دو بیٹوں کو یکے بعد دیگرے قادیان پڑھنے کے لیے بھیجنے کو مثال کے طور پر پیش کر دیااور خاص طور پر اس حوالہ سے جب آپ پر اعتراضات ہوئے تو جو اس حوالہ سے اہل حدیث مولوی مولانا ثنا ء اللہ امرتسری اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے دوران اخبارات کے توسط سے خط و کتابت ہوئی اس کو آئندہ اشاعت کا حصہ بنا دیا اور یوں اگر اس بحث و تمحیص کا خلاصہ نکالا جائے تو وہ،گویا یہ تھا کہ احمدی دیوبندی بھی بھائی بھائی ہیں اور احمدی وہابی بھی بھائی بھائی ہیں۔
مولوی ابن انیس حبیب الرحمٰن لدھیانوی صاحب نے صفحہ ۱۹۲ سے ۲۰۲تک اس کہانی کو درج ذیل عنوان سےجگہ دی ہے ( یہاں پر پورا حوالہ درج کیا جا رہاہے)
’’عدالتی بیانات کا پس منظر اور بٹالوی صاحب کے صاحبزادوں کا قادیان میں تعلیم حاصل کرنا‘‘
’’غیر مقلدین کے سرخیل مولانا محمد حسین بٹالوی نے صرف عدالتوں میں جاکر ہی مرزا قادیانی سے کفر کا فتویٰ واپس نہیں لیا بلکہ اس کے لئے عملی قدم بھی اٹھایا۔ وہ اس طرح سے کہ ۱۸۹۹ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ عدالت میں مشترکہ اقرار نامے پر دستخط کرنے کے بعد ۱۹۱۳ء میں گوجرانوالہ میں عدالت میں بیان سے پہلے انہوں نے اپنی اولاد کو قادیان میں تعلیم و تربیت کے لئے بھیجا۔ جیساکہ تاریخ احمدیت زیر عنوان مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب سے چپقلش اور تکفیر سے رجوع لکھا ہے۔
۱۹۰۹ء کا سال اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں سلسلہ کے دو مشہور معاند مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری جو جماعت کو تباہ کرنے کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے آپس میں الجھ پڑےاور ملک کے دوسرے مشہور علماء بھی رفتہ رفتہ اس جنگ میں کود پڑے اور فریقین نے ایک دوسرے کو کافر کہنے پر بس نہ کرکے مرصع گالیاں دیں…اس معرکہ آرائی کے دوران مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی طرف بھی رجوع کر لیا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش گوئی فرمائی تھی ھذا الرجل یومن بایمانی قبل موتہ یہ شخص اپنی موت سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لے گا۔ چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ۱۹۰۹ءمیں اس سلسلہ میں پہلا قدم یہ اُ ٹھایا کہ یہ اعلان کیا کہ آنے والا مسیح موعود آسمانی نشانات و برکات سے اسلام کو غالب کرے گا ان کی اصل عبارت یہ ہے کہ امام مہدی بھی حضرت مسیح موعود ؑکی طرح اپنے مشن میں سیفی جنگ و تلوار و تفنگ سے کام نہ لیں گے بلکہ صرف آسمانی نشانات اور روحانی برکات سے دنیا میں دین اسلام کی اشاعت کریں گے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن اور آپ کا دعویٰ تھا۔ اس حیرت انگیز اعلان کے بعد دوسرا قدم یہ اُٹھایا کہ پہلے اپنے ایک لڑکے ابو اسحٰق کو پھر عبدالباسط کو قادیان کے مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کردیا جس پر اہل حدیث میں بہت شور اُٹھا۔‘‘( تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۲۲۲-۲۲۳)
بٹالوی صاحب کی وضاحت
قادیانی مصنف کے ا س دعوے کے متعلق ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مولانا محمد حسین بٹالوی کی طرف سے وضاحت سامنے آجائے تو اچھا ہے اس کی تفصیل یوں ہے۔ مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۱۰ء کے اخبار اہل حدیث میں اسی حوالہ سے مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب سے ایک سوال ’’جناب مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی صاحب جواب دیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کا جواب آپ نے ۲۵؍ فروی ۱۹۱۰ء کو اسی اخبار میں اس عنوان سے شائع کروایا۔
جواب استفسار متعلق قادیان مندرجہ اخبا ر
اہل حدیث مطبوعہ ۱۱؍ فروری ۳۰؍ محرم۱۳۶۸ھ
میرے پانچ لڑکے یکے بعد دیگرے علم عربی پڑھنے میں کوتاہی اور آخر صاف انکار اور مخالفت احکام شریعت پر اصرار کرنے کے سبب میری اطاعت سے خارج اور عاق ہو گئے…انہی کی دیکھا دیکھی باقی ماندہ دو نابالغ لڑکے گھر سے بھا گنے اور آوارہ پھرنے لگ گئے تھے۔ اور ان میں سے ایک لڑکا ابو اسحٰق اب تک آوارہ پھرتا ہے اور اس کا پتہ نہیں لگتا۔ دوسرا چھوٹا عبدالباسط لڑکا قابو آیا تو منشی یعقوب علی ایڈیٹر ’’الحکم‘‘ نے اس کا حال سن کر ہمدردی کا اظہار اور اپنے سکول کے انتظام کی تعریف کرکے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ ان کو چند روز کے لئے ہمارے سپرد کر دیں…سٹاف سکول اور بورڈنگ کے حسن تدبر و نگرانی و لطف سے لڑکے کا دل وہاں تعلیم پر اچھی طرح لگ گیا اور اس کی آوارگی جاتی رہی۔ عید کے موقعہ پر وہ میرے بلانے سے اپنے گھر آیا تو ایک دن سے زیادہ نہ ٹھہرا اور بولا کہ میری تعلیم کا حرج ہو گا۔ ان کے اس احسان و ہمدردی کے ساتھ اب بھی میں اس فرقہ کا ایسا مخالف ہوں جیسا کہ پہلے تھا…ہاں یہ سوال ضرور ہو گا کہ پنجاب و ہندوستان میں بہت سے مدارس اہل سنت و اہل حدیث ہیں ان کو چھو ڑکر وہاں کیوں بھیجا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں بہت سے مدارس اہل سنت و اہل حدیث کا امتحان کر چکا ہوں ان میں سے کوئی بھی آوارہ لڑکوں کی اصلاح نہ کر سکا۔ میں نے پہلے ایک لڑکے عبدالرشید کو مدرسہ نعمانیہ لاہور کے سپرد کیا پھر اس کو مدرسہ آرہ بازار میں بھیجا۔ پھر دو لڑکوں احمد حسین و محمد اطہر کو مدرسہ اہل حدیث لکھو کے علاقہ فیروز پور میں ایک مدت تک رکھا۔ پھر ایک لڑکے عبدالشکور کو امرتسر کے مدرسہ ثنائی کے سپرد کیا۔ پھر ایک لڑکے عبدالنور کو مدرسہ نعمانیہ لاہور کے سپرد کیا پھر اس کو تعلیم کے واسطے مدرسہ حمایت اسلام کے سپرد کیا اور بودو باش اور نگرانی کے لئے مولوی عبد العزیز سیکرٹری مجلس اہل حدیث کے مکان پر رکھا۔ ان مدارس سے کسی مدرسہ میں ان لڑکوں کی تربیت و تعلیم نہ ہوئی جو قادیان میں اس چھوٹے کی ہو رہی ہے تو مجبور و ناچار ہو کر منشی یعقوب علی ایڈیٹر اخبار الحکم کی دوستانہ درخواست و اصرار پر لڑکے کو قادیان میں بھیج دیا۔ جس کا نتیجہ اس وقت تک خاطر خواہ نکل رہا ہے۔ اب بھی کسی مدرسہ میں بھیجنے کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ اس کا انتظام و تعلیم قادیان سکول سے بڑھ کر نہ ہو تو کم بھی نہ ہو برابر ہو۔‘‘ ( اخبار اہل حدیث ۱۴؍صفر ۱۳۶۸ھ ۲۵؍فروی ۱۹۱۰ صفحہ ۱۰)
بٹالوی صاحب کے صاحبزادے کا قادیان میں لیکچر
اس تعلیم کے اثرات بٹالوی صاحب کے صاحبزادے پر کیا ہوئے اس کے متعلق مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں ’’ جناب مولوی محمدحسین کے صاحبزادہ کا لیکچر قادیان میں‘‘ کے عنوان سے اخبار اہل حدیث میں یہ مضمون ہے ’’ مولوی صاحب جن دنوں آپ نے صاحبزادے مذکور کو قادیان بھیجا تو مسلمانوں میں غلغلہ اٹھا، سوال ہوئے جواب ہوئے، غالباً اسی لئے سیالکوٹ سے واپسی کے وقت گاڑی میں مولوی صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ آپ نے عبدالباسط کا لیکچر دیکھا ( جو اس نے قادیان میں دیا ہے) میں نے چونکہ نہ دیکھا تھا کہا نہیں دیکھا۔ میں نے مکان پر آ کر لیکچر مذکوردیکھا تو خیال آیا کہ چونکہ صاحبزادے کے داخلے کی طرح یہ لیکچر بھی قوم سے ایک قسم کا تعلق رکھتا ہے اس لئے درج اخبار کرنا چاہئے تاکہ مخالف و موافق اندازہ کر سکیں کہ صاحبزادہ کی آئندہ زندگی کیسی ہو گی۔
تقریر عبدالباسط
بزرگان قوم میں نے مختلف واعظوں اور خطبوں میں سنا ہے کہ جو شخص انسان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے میں یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کرتا کہ اس مدرسہ میں داخل ہونے کے بعد میں نے چار مہینے کے اندر تجربہ کیا ہے کہ اس اصول پر یہاں تعلیم دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں اپنے بزرگ شیخ یعقوب علی صاحب کا صدق دل سے شکر گزار ہوں جو میرے یہاں آنے کا موجب ہوئے۔خدا تعالیٰ ان پر اور ان کی اولاد پر بہت بڑے انعام کرے پھر میں اپنے والد بزرگوار کی مہربانی اور فراخدلی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے حال پر رحم کھا کر مجھے یہاں بھیجنا منظور فرمالیا۔ میں آپ میں سے ان صاحبان کو مبارکباد دیتا ہوں جن کے بچے یہاں تعلیم پاتے ہیں کیونکہ وہ نیک استادوں کی نگرانی کے نیچے ہیں۔اور ان کی مذہبی پابندی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ میں اس بات کو بھی خوشی سے ظاہر کرتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ میں آپ لوگوں کے بعض عقائد سے متفق نہیں لیکن مجھے کبھی کسی استاد یا شاگرد نے اس قسم کی چھیڑچھاڑ نہیں کی بلکہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے جو مجھ پر کمال درجہ کی مہربانی اور شفقت فرماتے ہیں فرمایا اگر کوئی تم سے کسی قسم کی مذہبی چھیڑچھاڑ کرے تو مجھے فوراً اطلاع دو۔ تو بھی یہ خوشی کی بات ہے عام مذہبی تعلیم کی حفاظت کے لئے یہاں سامان موجود ہے۔پس آپ لوگ اس وقت کو غنیمت سمجھو اور اپنے بچوں کو یہاں تعلیم حاصل کرنے بھیجو۔ (عبد الباسط طالب علم دوئم مڈل،مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان)( اخبار اہل حدیث ۶؍مئی ۱۹۱۰ءصفحہ۸) ( تحریک ختم نبوت مصنفہ ابن انیس حبیب الرحمٰن لدھیانوی صفحہ ۱۹۴ تا ۲۰۲نا شر رئیس الاحرار اکادمی فیصل آباد مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور)
اللہ تعالیٰ کی عجیب شان کا ظہور
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کی مبشر اولاد اور جماعت اللہ کے فضل و کرم سے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے سائے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم نور الدین رضی اللہ کی قیادت میں خدا کے مزید فضلوں کو سمیٹنے میں مصروف تھی تودوسری طرف آپ کے اول المخالف جناب مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنی بڑی بیگم کے چاربیٹوں اور تین بیٹیوں اور چھوٹی بیگم کے بڑے بیٹے کو بدکردار ثابت کرتے ہوئے عاق کردیا اور ان کے بارے میں اپنی اخبار میں اعلان کردیا کہ’’ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو اسلام چھوڑکر عیسائی یا آریہ ہو جانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ بعض جو میرے جبر سے نماز میں کھڑے ہوگئے تو بے وضو۔ بلا استنجاء بول وبراز۔ اور بعض نماز کو صریح گالیاں بھی دے چکے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جو قانونی جرائم کے بھی مرتکب ہو گئے ہیں اور اُ ن کے مقدمات کی مثلیں عدالت میں موجود ہیں اور بعض میری جان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی ظاہر کر چکے ہیں اور اس کے وسائل بہم پہنچانے میں بھی سعی کر چکے ہیں‘‘(رسالہ اشاعۃ السنۃ ۱۹۰۹ء کی اشاعت میں صفحہ ۲۰۳)
جو چھوٹی بیگم کے دو بیٹے باقی بچے تھے ان کو بچانے کے لیے جماعت نے اپنا دست شفقت دیا اورانکو قادیان لے آئے جن کا حال ہم نے اوپر درج کیا ہے۔ وہ بہت حد تک سدھر بھی گئے تھے۔ مگرافسو س دیگر علمائے کرام کے روز روز کے طعن اور دباؤ سے تنگ آکر آپ نے ان دونوں بچوں کو واپس بلا لیا۔بچے پھر سے واپس آگئےمگر قادیان سے جانے کے بعد عبدالباسط اپنے باقی بھائیوں کی طرح پہلےآوارہ ہوا اور پھر عیسائی ہو گیا اور پھرجوانی میں ہی راہی عدم ہو گیا۔ ( تحریک ختم نبوت مصنفہ ابن انیس حبیب الرحمٰن لدھیانوی صفحہ ۲۰۵نا شر رئیس الاحرار اکادمی فیصل آباد مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور بحوالہ اخبار اہل حدیث یکم فروری ۱۹۱۸ء صفحہ۳)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر صالح اولاد کو آثار اولیاء الرحمٰن بتاتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’خدائے تعالیٰ اُن کو ضائع نہیں کرتا اور ذلّت اور خواری کی مار اُن پر نہیں مارتا کیونکہ و ہ اس کے عزیز اور اس کے ہاتھ کے پودے ہیں… (۲۰) اُن کے آثارخیر باقی رکھے جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کئی پشتوں تک اُن کی اولاد اوران کے جانی دوستوں کی اولاد پرخاص طور پر نظرِ رحمت رکھتا ہے اور ان کا نام دنیا سے نہیں مٹاتا۔ یہ آثاراولیاء الرحمٰن ہیں اور ہریک قسم ان میں سے اپنے وقت پر جب ظاہرہوتی ہے تو بھاری کرامت کی طرح جلوہ دکھاتی ہے۔مگر اس کا ظاہر کرنا خدائے تعالیٰ کے ہی اختیار میں ہوتاہےاب یہ عاجز بحکم اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم ورحیم نے محض فضل وکرم سے اِن تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامورکیا۔ بلکہ یہ تمام نشان دئے ہیں جو ظاہرہورہے ہیں اورہوں گے اورخدائے تعالیٰ جب تک کھلے طورپر حجت قائم نہ کرلے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتاجائے گا۔‘‘( روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۳۳۸ و ۳۳۹)