خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۰۴؍اگست۲۰۲۳ء

اللہ تعالیٰ کرے کہ اس جلسےکے ایسے نتائج ہوں جو احمدیوں کی زندگیوں کو بھی ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والے ہوں، ان کے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں

اللہ تعالیٰ تو ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے اتنا زیادہ اور ایسے ایسے ذرائع اور طریقے سے ہمیں نوازتا ہے کہ ہم کبھی بھی اس کی شکر گزاری کا حق ادا نہیں کر سکتے

شکر گزاری ہمارا کام ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے آگے جھکتے چلے جانا ہمارا کام ہے اور جب تک ہم اپنا یہ فرض ادا کرتے چلے جائیں گے، ہر کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سمجھتے ہوئے کام کرتے رہیں گے ہمارے قدم ان شاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتے رہیں گے

میں کارکنوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں…اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔… سب سے بڑھ کر ایم ٹی اے کہ اس نے اس دفعہ دنیا میں نئے انداز میں جلسےکو دنیا سے جوڑا ہے…
خلیفة المسیح نے تو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سنائیں اور کہا ان کو سنو اور ان کی پیروی کرو (نمائندہ وزارت مذہبی امور، ہیٹی)

آج روئے زمین پر حقیقی بھائی چارے کی جیتی جاگتی تصویر جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہے جہاں سب مسکراتے چہرے کے ساتھ بغیر رنگ و نسل کی تمیز کےایک دوسرے کے ساتھ ایسے مل رہے ہیں جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں (منسٹر آف انفارمیشن، گیمبیا)

سب سے زیادہ اہم چیز جو مَیں نے جلسہ سالانہ میں دیکھی وہ نماز تھی (مارکور سپنٹی ، اٹلی)

پوری دیانتداری سے یہ ایک بات کہہ رہا ہوں کہ جو نظم و ضبط میں نے جلسے پردیکھا ہے وہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ احمدیوں کا خلیفة المسیح سے ایسا پیار ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا … اس جلسے میں جو خاص بات میں نے دیکھی ہے وہ قربانی کا جذبہ ہے (گورنر کولڈا ریجن سینیگال)

جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ جماعت کا اتحاد اور باہمی محبت ہے … ان کے خیال میں ہماری جماعت کے جلسہ کی کامیابی کا راز ہماری یکجہتی ہے جو کہ خلیفہ وقت کے وجود کے ذریعہ سے قائم ہے (ڈاکٹر نیسترسوتو، چلی)

عالمی بیعت کا طریق ہماری عبادت سے ملتا جلتا ہے لیکن مَیں نے اپنی عبادت میں کبھی ایسی روحانیت نہیں محسوس کی تھی جیسے میں نے عالمی بیعت کے دوران کی تھی (Aly Bear، وائس چیف انڈجنس کمیونٹی، کینیڈا)

دنیا بھر سے جلسہ سالانہ برطانیہ 2023ء میں شامل ہونے والے احمدی اور غیر از جماعت مہمانوں کے تاثرات نیز وسیع پیمانے پر جلسہ سالانہ کی کوریج

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍اگست2023ء بمطابق 28؍وفا1402ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، مورڈن، لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ جمعےسے اتوار تک جماعت احمدیہ یوکے کا جلسہ سالانہ کامیابی سے منعقد ہوا،

اختتام پہ پہنچا اور باوجود موسم کی وقتاً فوقتا ًخرابی کے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر ہر لحاظ سے ہر انتظام عموماً بغیر کسی بڑی پریشانی کے چلتا رہا اور پھر

اس سال حاضری بھی گذشتہ سال کی نسبت بہت زیادہ تھی۔

اس پر ہم جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمارے جلسےکو برکتوں سے بے انتہا بھرا اور اسے ہر ایک نے محسوس کیا چاہے وہ احمدی مہمان تھے یا غیر از جماعت مہمان تھے جو مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ہم تو کمزور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے ہی ہمارے کام ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جماعت پر اس طرح ہوتی ہے جس کا شمار ہی ممکن نہیں۔ہم تو اللہ تعالیٰ کی اس بات کا ہمیشہ اور ہر وقت مشاہدہ کرتے ہیں کہ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا۔ اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (النحل:19) کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو اسے احاطے میں نہ لا سکو گے یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والااور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس

اللہ تعالیٰ تو ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے اتنا زیادہ اور ایسے ایسے ذرائع اور طریقے سے ہمیں نوازتا ہے کہ ہم کبھی بھی اس کی شکر گزاری کا حق ادا نہیں کر سکتے

لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرتے چلے جاؤ اور جب تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اَور بھی نوازتا چلا جائے گا۔ پس

شکر گزاری ہمارا کام ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کے آگے جھکتے چلے جانا ہمارا کام ہے اور جب تک ہم اپنا یہ فرض ادا کرتے چلے جائیں گے، ہر کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور فضل سمجھتے ہوئے کام کرتے رہیں گے ہمارے قدم ان شاء اللہ تعالیٰ آگے بڑھتے رہیں گے۔

پس اس جلسے کی کامیابی کی سب سے پہلی شکر گزاری تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے اور جو انتظامی لحاظ سے کمزوریاں رہ گئی ہیں اس کے لیے بھی اس سے بخشش طلب کرنی چاہیے۔ اسی طرح شاملین کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں موقع دیا اور ہم جلسے میں شامل ہو کر اپنی روحانی اور علمی پیاس بجھاتے رہے۔ عمومی طور پر سب کام آسان ہوئے باوجود اس خوف کے کہ کووڈ کی بیماری ابھی پورے طور پر ختم نہیں ہوئی، عمومی طور پر اتنے بڑے مجمع کے باوجود اللہ تعالیٰ نے حفاظت میں رکھا۔ اللہ تعالیٰ بعد میں بھی سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ بعض لوگوں کو جلسہ کے بعد فوری طور پہ بھی نہیں بلکہ جلسے کے دو تین دن گزرنے کے بعد اس بیماری کا حملہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و سلامتی سے نوازے۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو میرے علم میں آئے ہیں اور اب جو اس وبا سے بیمار ہو رہے ہیں وہ میرے خیال میں تو جلسےکا اثر نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ بعض جگہ کیسز بڑھ رہے ہیں لیکن اب یہ اسی طرح ہے جس طرح دوسری بیماریاں بڑھتی اور کم ہوتی رہتی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہر مریض کو شفا عطا فرمائے۔

اب

میں کارکنوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں۔

اس دفعہ عموماً سب نے بہت اعلیٰ رنگ میں اپنے فرائض ادا کیے اور غیر معمولی طور پر مسکراتے ہوئے جیسا کہ مَیں نے شروع میں ان کو کہا تھا تلقین کی تھی اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔

اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔

ہر شعبےکے کارکن کی اپنے شعبےکے کام کو سرانجام دینے میں اس دفعہ خاص طور پر مہارت نظر آ رہی تھی، لجنہ کی طرف بھی، مردوں کی طرف بھی۔ ہر سال لجنہ کی طرف سے کھانا کھلانے اور کھانے کی دستیابی کے بارے میں شکایات ہوتی تھیں لیکن اس دفعہ یہ شکایت نہ ہونے کے برابر ہے اور جو کھانے کی مارکی اور دوسرے ضروری انتظامات کے لیے اس دفعہ جگہ بدل کر ایک حصےمیں ہی لجنہ کو تمام سہولیات مہیا کی گئی تھیں اس کو بھی عمومی طور پر خواتین نے پسند کیا ہے۔ اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ دُور کرنے کی کوشش ہو گی۔

اسی طرح ٹریفک کا شعبہ ہے۔ کھانا پکانے کا شعبہ ہے۔ روٹی پلانٹ ہے۔ سیکیورٹی ہے۔ صفائی کا کام ہے۔ پھر

سب سے بڑھ کر ایم ٹی اے کہ اس نے اس دفعہ دنیا میں نئے انداز میں جلسےکو دنیا سے جوڑا ہے۔

بہرحال تمام شعبوں میں جن کے میں نے نام لیے یا نہیں لیے مردوں اور عورتوں نے بہت محنت سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔ پس

ان سب کا میں شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔

آئے ہوئے غیر مہمانوں نے بھی سب کارکنوں کی محنت اور خوش اخلاقی کو دیکھ کر غیر معمولی حیرت کا اظہار کیا اور یہ ایک خاموش اور عملی نمونہ ایسا تھا جو تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے جو ہمارے کارکنوں نے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے۔

شعبہ جلسہ سالانہ کو صرف میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ پانی جلسہ ختم ہوتے ہی فوراً بند کر دیتے ہیں اور غسل خانوں میں پانی مہیا نہیں ہوتا وہ کم از کم ان کو بارہ گھنٹے تک جاری رکھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر انتظام بہتر تھے۔

غیر جو باہر سے مختلف ممالک سے آئے ہوئے تھے ان میںغیر مسلم بھی تھے ان کے احساسات کیا تھے۔ جلسےکے انتظام اور جلسےکو دیکھ کر کس طرح وہ متاثر ہوئے۔ اس کے

چند تبصرے

پیش کر دیتا ہوں، سارے تو ممکن نہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جیالو ژاں (Djialo Jean) برکینا فاسو کے بہت معروف آئی سپیشلسٹ ہیں، میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور آرمی میں حاضر سروس کرنل ہیں۔ ہمارے آئی انسٹیٹیوٹ میں بھی آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار شرکت کی توفیق پائی۔ کہتے ہیں میں نے پہلی دفعہ جلسےمیں شرکت کی۔ سب سے پہلے

جس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ہزاروں افراد ایک مشترکہ مقصد کے لیے ایک مقام پر جمع ہیں، ایک مذہبی لیڈر کے گرد جمع ہیں۔ سب کے سب متحد ہیں، سب کا مطمح نظر ایک ہے۔

پھر غیر معمولی انتظامات کر لینا اور مختلف النوع لوگوں کا ایک مقام پر اکٹھے ہونا حیران کن ہے۔ میں نے ان لوگوں میں گھل مل کر دیکھا پتہ کرنے کے لیے کہ واقعی حقیقت بھی ہے کہ صرف بناوٹ ہے لیکن

مجھے کسی ایک فرد کے چہرے پر بھی بیزاری نظر نہیں آئی۔

مختلف علاقوں، قوموں اور ملکوں کے متفرق شعبوں سے منسلک الگ الگ معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک مقصد کے لیے ایک مقام پر ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جانا غیر معمولی واقعہ ہے۔ پس احمدی شاملین جلسہ اس طرح غیروں میں عملی تبلیغ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں تقاریر کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ یہ تقاریر ہمیں تعلیم دینے، ایک مقصد اور ایک سمت مہیا کرنے میں بہت مدد دینے والی تھیں۔ خلیفۂ وقت کی تقاریر بھی میں نے سنیں۔ قرآنی آیات کی روشنی میںآپ نے تعلیمات بیان کیں اور کہتے ہیں مجھے احساس ہے کس قدر اب دنیا کو ضرورت ہے خدا تعالیٰ کے پیغام کوسمجھنے کی اور اس پیغام کو سمجھنے کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو مدد بھی کرے۔ اس لیے

جماعت احمدیہ میں جو خلافت کا نظام ہے وہ ایک ایسا نظام ہے جس سے دنیا سبق حاصل کر سکتی ہے۔

کہتے ہیں ایک اور بات جو میں نے دیکھی وہ

احمدیوں کا خدا تعالیٰ اور اپنے امام کے ساتھ غیر معمولی وفا کا تعلق ہے۔

سب اکٹھے ہیں، سب ایک دوسرے کے ساتھ ایک وجود کی طرح ہیں اور اپنے امام پر زیادہ اعتماد کرنے والے ہیں کہ وہ ہم کو راہِ راست دکھانے والا ہے۔ کہتے ہیں اب یہ جلسہ دیکھ کے میرا تو اراد ہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو ہر سال جلسےمیں شامل ہوں گا کیونکہ یہاں تین دنوں میں خداتعالیٰ سے تعلق اور انسانیت کے متعلق باتیں ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ میں بھی یہ باتیں سیکھوں۔

پھر

امریکہ سے ایک معروف سینئر لاء پروفیسر

ہیں ڈاکٹر بریٹ شارفس (Brett Scharffs) انہوں نے جلسےمیں شرکت کی۔ کہتے ہیں یہاں آ کر اتنا بڑا مجمع دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔ اور لوگوں کے درمیان تعاون کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے دنیا بھر میں بہت سی ایسی تقریبات کا خود بھی انتظام بھی کیا ہے جہاں رجسٹریشن کی کارروائی بھی ہوتی ہے لیکن جلسہ سالانہ پر جس منظم طریق پر رجسٹریشن کے معاملات کو چند منٹ میں طے کیا جا رہا تھا ایک حیران کن منظر تھا۔ میں ابھی یہاں آ کر دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ چند منٹ لگے اور ہر چیز تیار ہو کر مجھے دے دی گئی۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں، مہمانوں کی رجسٹریشن اور دیگر ضروری کارروائی پہلے سے ہو جاتی ہے تا کہ مہمان کو کم از کم انتظار کرنا پڑے۔ رجسٹریشن کے کارکنان نے بھی ماشاء اللہ خوب حق ادا کیا۔ کہتے ہیں مہمان نوازی بہت اچھی تھی۔ اتنی ٹریفک ہونے کے باوجود والنٹیئرز جس طرح یک جہتی سے تعاون کرتے ہوئے کام کر رہے تھے ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ غرض کہ جہاں جہاں بھی جس کارکن سے بھی واسطہ پڑا ہر ایک کی انہوں نے تعریف کی ہے۔

بیلیز (Belize)کے ایک شہر کے میئر

آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے پُر امن لوگ نہیں دیکھے جواتنے پیار کرنے والے اور پُرامن ہوں۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ کچھ لوگ اسلام کو دہشت گردی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ میں نے جو روحانی ماحول یہاں دیکھا ہے اور لوگوں کا آپس میں معیار اور محبت اور حسن سلوک وہ یقیناً قابل تعریف ہے۔ کہتے ہیں میں تو خواہش رکھتا ہوں اگلے سال پھر جلسےپہ آؤں اور ایک میئر کی حیثیت سے نہ آؤں بلکہ ایک والنٹیئر کی حیثیت سے آؤں، اتنا مجھے انسپائر (inspire)کیا ہے والنٹیئرز نے، کام کرنے والوں نے ۔ اور کہتے ہیں میں بھی ایسی شاندار جلسےکی انتظامیہ کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ ایسا عظیم جلسہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ پھر کہتے ہیں

یقیناً اس دنیا کا مستقبل احمدیت ہے۔

پس یہ حقیقی اسلام ہے جو جماعت پیش کرتی ہے جس سے غیر متاثر ہوتے ہیں۔

گھانا

کے ایک دوست ہیں مائیکل وِلسن۔ ایک ادارہ ہے کونسل برائے سائنسی و صنعتی تحقیق جو کہ ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت ہے اس کے چیف ٹیکنالوجسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کو مختلف ممالک میں کانفرنسز میں شامل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ جلسےمیں شامل ہوئے۔ جلسےسے قبل بات چیت کے دوران انہوں نے انتظامات کو دیکھ کر کہا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، اب تک جو میں نے دیکھا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ جمعہ کے روز جلسہ گاہ پہنچے تو بار بار یہ کہتے رہے کہ

یہاں پر تمام رضاکاران کی commitmentنے مجھے حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ واقعی یہ خدائی جماعت ہے اور یہ تمام کام بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ممکن نہیں ہو سکتا۔

یہاں پر بہت ہی ڈسپلن اور پیارا ماحول ہے۔ سب رضاکار پڑھے لکھے ہیں۔ بعض ان میں سے کنسلٹنٹ بھی ہیں لیکن جلسےپر کارپنٹری اور صفائی کا کام کر رہے تھے۔ اگر ان رضا کاروں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف نہ ہو تو کبھی ایسا معیاری کام نہ ہو سکے۔ پس

خوش قسمت ہیں وہ سب کارکنان جو اس طرح خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔

پھر عالمی بیعت سے بڑے متاثر ہوئے۔ کہتے ہیں میں جلسےسے پہلے نہیں جانتا تھا کہ احمدیت کیا ہے لیکن اب میں جان گیا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ اب میں ہر سال آؤں گا۔ اور پھر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گھانا جماعت کو توجہ دلانی چاہیے کہ گھانا میں جماعت کومزید تعارف کروانا چاہیے، ابھی بھی بہت کمی ہے۔

پھر

ہیٹی (Haiti)

سے مسٹر یوایل ٹیورین (Joel Turenne) جو وزارت مذہبی امور ہیٹی کے نمائندے تھے جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں میں پہلی دفعہ جلسےمیں شریک ہوا۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت ہی متاثر کن اور پُرمسرت رہا۔ انتظامات بہت ہی اچھے ہیں۔ باوجود چالیس ہزار سے زائد افراد کے اجتماع کے کسی بھی قسم کی بدنظمی نظر نہیں آئی۔ ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ مل رہا تھا۔ ہر ایک اس کوشش میں نظر آ رہا تھا کہ مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ ہر شخص ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھ رہا تھا۔ یہ بات میں نے اَور کسی مذہب یا دنیوی اجتماع میں نہیں دیکھی اور یہی جلسےکا ایک مقصد ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن۔ روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)

کہتے ہیں کہ

باوجود مختلف کلچر، رنگ و نسل کے ہر شخص ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مل رہا تھا جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔

ایک ہی قسم کا کھانا روزانہ مختلف اقوام کے لوگ ایسے کھا رہے تھے جیسے یہ کھانا ان سب کا مرغوب کھانا ہے۔ کہتے ہیں (تجسس تھا ان کو) کہ میں نے افریقہ سے آئے ہوئے ایک مہمان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں کوئی اعتراض یا تحفظات تم لوگوں کے نہیں ہیں تو اس افریقن نے بتایا کہ یہاں جلسےمیں ہم صرف اللہ کی رضا کی خاطر اور خلیفہ وقت کو دیکھنے سننے اور ملاقات کے لیے آتے ہیں اس لیے باقی سب دنیاوی چیزیں ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کہتے ہیں اس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا۔ پھر جماعت کی انہوں نے تعریف کی ہے کہ جماعت باوجود مخالفت کے دنیا میں امن پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ احمدیوں کے درمیان کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہے۔ سب برابر تھے میں نے پہلی دفعہ یہ دیکھا۔ تمام طبقات عمر کے افراد رضاکارانہ طور پر مختلف خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ٹریفک کنٹرول ہے۔ پارکنگ ہے۔ کیٹرنگ ہے۔ واٹر سپلائی ہے۔نظم و ضبط ہے۔ ہر ایک اپنے خدمت کے جذبےسے سرشار تھا۔ کہتے ہیں میں نے تو احمدیوں میں بیشمار خوبیاں دیکھی ہیں جو آج تک مجھے کہیں اَور نظر نہیں آئیں۔

کہتے ہیں میں نے بہت سے مذہبی سکالرز کی تقاریر سنی ہیں اور دیکھا ہے اور ہر کوئی اپنے ہی بارے میں کہتا ہے کہ میری بات سنو لیکن

خلیفة المسیح نے تو اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سنائیں اور کہا ان کو سنو اور ان کی پیروی کرو۔

کہتے ہیں یہ بات میرے لیے بڑی حیران کن تھی۔ تینوں دن یہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کے تقاریر سنتے رہے بلکہ بہت سارے احمدیوں سے زیادہ توجہ سے سنیں اور توجہ اس لیے کہ مختلف تقریروں کے نوٹس لیتے رہے ہیں۔ اپنی ڈائری بنائی تھی، پورے نوٹس لیتے رہے اس پہ اور جہاں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی وہ ساتھ والے سے پوچھتے رہتے تھے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کہتے ہیں کہ بے شک میں احمدی نہیں ہوں لیکن اس جلسےمیں شرکت کے بعد اب میں جماعت احمدیہ کا بھی وکیل ہوں اور میں جہاں بھی مسلمانوں کا ذکر ہو گا بتاؤں گا کہ اصل اور باعمل مسلمان احمدی ہی ہیں اور میں آپ کا دفاع کروں گا۔

اسی طرح لقمان حکیم سیف الدین صاحب ہیں

سابق وزیر مذہب انڈونیشیا

کے۔ کہتے ہیں جلسےمیں شامل ہو کر بہت فخر محسوس ہوا اور آپ کا نعرہ ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ جو ہے اس کو میں نے لندن ایئر پورٹ سے دیکھنا شروع کیا اور جلسہ گاہ تک اور جلسےکے دنوں میں یہی کچھ دیکھتا رہا۔ ہر جگہ اعلیٰ مہمان نوازی کا مظاہرہ دیکھا۔ بھائی چارے کا بہت مضبوط رشتہ دیکھا۔ ہر طرف ایک دوسرے سے ملنے ،مسکراہٹیں بکھیرنے،مبارکبادیں دینے دعائیں بانٹنے کا نظارہ میں دیکھتا رہا۔

گیمبیا

سے جلسےمیں شامل ہوئے وہاں کے منسٹر آف انفارمیشن لامین ایس آئی جامے صاحب کہتے ہیں میں جلسہ سالانہ 2023ء کے تمام انتظامات سے بہت متاثر ہوا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن وہ رضا کار تھے جو بے لوث ہو کر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے تھے اور نظم و ضبط کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ اتنا بڑا اجتماع اور کوئی ایک بھی واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا جہاں دھکم پیل ہو رہی ہو یا کوئی لڑائی جھگڑا ہو رہا ہو اور سارے انتظامات احسن طریقے سے کیے گئے۔ ان میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا تھا۔ کہتے ہیں ایک اَور بات جو میں نے مشاہدہ کی وہ احباب جماعت کا اپنے امام سے محبت کا تعلق ہے جس کی اَور کہیں نظیر نہیں ملتی۔ کہتے ہیں میں اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ

آج روئے زمین پر حقیقی بھائی چارے کی جیتی جاگتی تصویر جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہے جہاں سب مسکراتے چہرے کے ساتھ بغیر رنگ و نسل کی تمیز کے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے مل رہے ہیں جیسے صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

پھر جماعت احمدیہ کی گیمبیا میں جو خدمات ہیں ان کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ ہم بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

پھر گیمبیا سے ایبریما جی سنکارے (Ebrima G. Sankarreh) حکومت کے ترجمان ہیں۔ صدر مملکت کے مشیر برائے ڈایاسپرا (diaspora)ہیں ۔کہتے ہیں جلسہ کا جو سارا انتظام تھا اس کی کامیابی کی منہ بولتی تصویر تھا۔ تمام شاملین کا نظم و ضبط، باہمی اخوت اور محبت کا جذبہ قابل دید تھا۔ تمام خطابات اور تقاریر معرفت سے پُر تھے۔ مقررین نے باہمی محبت اور پرامن معاشرہ قائم کرنے کی تلقین کی۔ اور پھر کہتے ہیں خلیفہ وقت نے جو افتتاحی اور اختتامی خطاب میں معاشرے کے کم تر اور غریب لوگوں سے حسنِ سلوک کرنے کی ہدایات دیں اس سے بھی میں بڑا متاثر ہوا۔ کہتے ہیں ذاتی طور پر مجھے معاشرے کے مختلف طبقات کے بوڑھے اور نوجوان لوگوں سے مل کر اس بات کی امید تازہ ہوئی ہے (یہ پرسنل، ذاتی طور پر ملتے بھی رہے ہیں لوگوں سے ) کہ آجکل کی مشکلات کے باوجود دنیا کا مستقبل روشن ہے اور ایسے لوگ ملے ہیں جو دنیا کو تمام بنی نوع انسان کے لیے پرامن جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ کہتے ہیں مجھے یہ نظام دیکھ کر بھی حیرت ہوئی کہ کس طرح جماعت مختلف ممالک سے آئے ہوئے چالیس ہزار سے زائد مہمانوںکی مہمان نوازی کر رہی ہے۔ حرف آخر یہ کہ

نوجوان طبقے کا جوش و ولولہ اور رضاکارانہ خدمت کا جذبہ سب سے زیادہ متاثر کن تھا۔

ان کےنظم و ضبط، اتھارٹی کی عزت اور بے لوث خدمت نے میرے ذہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں اور دنیا کا مستقبل روشن ہے کیونکہ ایسے نوجوان دنیا کو بہترین جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پس ہمارے نوجوانوں کا جو اثر ہے یہ بھی ان غیروں پہ پڑتا ہے جو ایک خاموش تبلیغ ہے۔

لوئس کارلوس دا سلوا (Luiz Carlos da Silva) اخباری نمائندہ تھے، پیٹروپولس برازیل سے آئے تھے۔ کہتے ہیں سب کچھ بہت پسند آیا۔ ایک سو اٹھارہ ملکوں کے لوگوں کا ایک جگہ بھائی چارے کے ماحول میں اکٹھا رہنا کسی دوسرے کے بس کی بات نہیں۔ لوگوں کا آپس میں عزت، اخلاق اور خوش دلی اور ہمدردی سے ملنا مجھے تو بہت اچھا لگا۔ پھر انہوں نے جلسےکے پروگراموں کی تعریف کی ہے۔ پھر مہمانوں کے لیےٹرانسپورٹ کے انتظامات کا بھی انہوں نے کہا ہے بڑا اچھا انتظام تھا۔ کہتے ہیں غیر معمولی بات تھی۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک بات میں کہنا چاہوں گا اتنے بڑے جلسہ میں جن ہزاروں لوگوں کو کام کرتے دیکھا ان میں کسی بھی قسم کی بناوٹ نہیں تھی۔ پھر والنٹیئرز کہ کس طرح بے لوث ہو کر خدمت کر رہے تھے بلکہ سب کو ایک جوش اور جذبےسے کام کرتے دیکھا۔

پھر

سپین

کے وفد میں ایک شامل تھے جوپیشے کے لحاظ سے تاریخ دان ہیں، وہ آرکیوسٹ (Archivist)بھی ہیں اور قرطبہ کی الاندلس لائبریری میں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کی دعوت پر میں آیا ہوں بڑا شکرگزار ہوں۔ میں نے آپ سے اسلام اور اسلامی کلچر کے متعلق بہت کچھ سیکھا ہے اورآپ لوگوں نے بڑی مہمان نوازی سے رکھا ،بہت عزت دی۔ میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ مختلف مذاہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ جمع ہوتے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ یقیناً یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر ہی یہاں جمع تھے۔ کہتے ہیں جماعت احمدیہ آج کے دور میں واقعةً عزم و ہمت اور جدوجہد کا ایک اعلیٰ نمونہ قائم کیے ہوئے ہے اور اس نمونےکو میں روزانہ اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے سامنے رکھوں گا۔ میرے لیے بھی یہ سبق ہے۔

اٹلی

کے ایک صحافی آئے ہوئے تھے مارکورسپنٹی (Marco Respinti) ۔ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے جلسےکے بارے میں پہلے بھی سنا اور پڑھا تھا مگر اس میں شرکت بالکل ایک الگ قسم کا تجربہ ہے۔ میں رضاکاران کے کام کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اَور چیز جو دیکھنے میں آئی وہ بہترین قسم کا نظم و ضبط تھا جو اتنی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت مشکل کام ہے۔ کہتے ہیں اتنے بڑے پیمانے پر نظم و ضبط اور اس صفائی کا انتظام کوئی معمولی بات نہیں مگر

سب سے زیادہ اہم چیز جو مَیں نے جلسہ سالانہ میں دیکھی وہ نماز تھی۔

ہر شخص کے لیے نماز ایک خاص حیثیت کی حامل تھی ۔کہتے ہیں حالانکہ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح احمدی نماز پڑھتے ہیں یہ ہر انسان کا سب سے پہلا فرض ہے۔ مجھے وہاں ہزاروں لوگوں کی لگن اور سنجیدگی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں صحافی ہونے کے ناطے میں بہت سارے لوگوں کو ملا۔ نئے لوگوں کو، پرانے لوگوں کو ،کئی واقف بھی مجھے مل گئے اور پھر مجھے جماعت احمدیہ کی تاریخ کے بارے میں بھی بہت کچھ پتہ لگا۔

سینیگال

کے کولڈا ریجن کے گورنر سیرانداؤ صاحب بھی شامل ہوئے۔ کہتے ہیں میں جلسہ میں پہلی دفعہ شامل ہوا

پوری دیانتداری سے یہ ایک بات کہہ رہا ہوں کہ جو نظم و ضبط میں نے جلسے پردیکھا ہے وہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ احمدیوں کا خلیفة المسیح سے ایسا پیار ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

میں نے بطور گورنر بہت سفر کیا ہے لیکن ایسے پیار کی نظیر کبھی نہیں دیکھی۔ کہتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباس پڑھے وہ بھی میرے دل میں گھر کر گئے ہیں۔ میرے دل پر ان کا بڑا اثر ہوا ہے۔ کہتے ہیں

اس جلسے میں جو خاص بات میں نے دیکھی ہے وہ قربانی کا جذبہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسےکے مقاصد میں سے ایک یہ بھی مقصد بتایا تھا کہ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرو۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)جو انہوں نے دیکھا۔ کہتے ہیں ہر شخص دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دیتا ہے۔ کہتے ہیں میں نے زمانہ طالبعلمی میں خلافت کے بارے میں سنا تھا لیکن حقیقی اور سچی خلافت کا مشاہدہ صرف جماعت احمدیہ میں ہی کیا ہے۔ تمام امت مسلمہ اگر جماعت احمدیہ کی پیروی کرے تو یقیناً مسلمان کامیاب ہو جائیں گے۔

کولمبیا

کے ایک مہمان تھے، روزو ویلنشیا (Rozo Valencia) صاحب کہتے ہیں میں یہاں کا پُرامن ماحول، بھائی چارہ، محبت، خلیفہ وقت کے پُرمعارف خطابات اور افراد جماعت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ جلسہ سالانہ میں جو کچھ میں نے دیکھا اس سے مجھے امید اور حوصلہ ملتا ہے کہ ہمیںیقین کرنا چاہیے کہ مشکل وقت کے باوجود حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ خلیفہ کے پیغام میری روح تک پہنچتے ہیں کیونکہ امن ایک انتہا بلکہ بہتر زندگی کا ذریعہ بھی ہے۔ پھر رضا کاروں کی انہوں نے بڑی تعریف کی ہے۔ حیرت انگیز انتظام تھا۔ مہمان نوازی حیرت انگیز طور پہ کی۔ کہتے ہیں مسکراہٹ ہر جگہ مجھے نظر آئی۔ کہتے ہیں جلسہ سالانہ کی رضاکارانہ خدمات دنیا کے لیے ایک نمونہ اور متلاشیان خدا کے لیے محبت کا سبق ہے۔

پھر

ارجنٹائن کے یوکے میں مقرر سفیر

خاویئر فگرووا (Javier Figueroa) نے جلسےکے پہلے دن شرکت کی۔ جلسےکے انتظام اور ماحول سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بعد میں ارجنٹائن اور آس پاس کے لیٹن امریکن (Latin American)ممالک کے وفود جنہوں نے جلسےمیں شرکت کی تھی ان سب کو باقاعدہ ایک تقریب کے لیے اپنے سفارت خانے میں دعوت دی تا کہ دوسرے ممالک کے سفراء اور ان کے اپنے سفارت خانے میں متعین ڈپلومیٹس کو بھی جلسےکے انعقاد سے متعارف کرایا جائے۔ یہ جماعت کی تعلیمات اور بالخصوص عملی کردار سے بہت متاثر ہوئے اور خود ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ بھرپور معاونت کے لیے تیار ہیں اور بالخصوص سیاسی طبقہ اور ڈپلومیٹس کو بھی جماعت کا تعارف کروانے کی کوشش کریں گے۔

چلی (Chile)

سے تین افراد آئے ہوئے تھے، یہ ایک عیسائی تنظیم کے لوگ ہیں۔ ان میں سے ڈاکٹر نیستر سوتو (Nestor Soto) عیسائی پریسٹ ہیں، تھیالوجین (Theologian)بھی ہیں۔ ایک عیسائی تنظیم کے چلی میں بانی ہیں۔ کہتے ہیں

جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ جماعت کا اتحاد اور باہمی محبت ہے۔

کہنے لگے میں چالیس سال سے دنیا بھر میں مختلف عیسائی تقریبات میں شرکت کر رہا ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے جلسےجیسی اس قدر وسیع تقریب اور وہ بھی جو صرف رضا کارانہ کارکنان پر مشتمل ہو میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ بڑے اثر و رسوخ والے آدمی ہیں۔ امریکہ کے پریذیڈنٹ اور امریکہ کی حکومت کے ساتھ بھی ان کے رابطے ہیں اور وہاں بھی یہ دنیا کے مذہبی لوگوں کو اکٹھا کرکے مذہبی میٹنگز منعقد کرواتے ہیں۔ کہنے لگے کہ

ان کے خیال میں ہماری جماعت کے جلسہ کی کامیابی کا راز ہماری یکجہتی ہے جو کہ خلیفہ وقت کے وجود کے ذریعہ سے قائم ہے۔

(اور خلافت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے )۔موصوف نے کہا کہ ان کی رائے میں یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ جماعت کے قیام کو ایک سو تیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور ابھی تک ہم میں بڑے باہمی تفرقے اور فرقہ بازیاں وقوع میں نہیں آئیں۔ کہنے لگے کہ ہمارے اوینجلیکل (Evangelical) عیسائی تنظیموں اور اسی طرح دیگر اسلامی تنظیموں میںسب سے بڑی کمزوری ہی لیڈرشپ کے حصول کے لیے باہمی جھگڑے اور اختلافات ہیں۔ کہنے لگے اس کے برعکس آپ کے جلسےکے انتظام اور تقریبات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جماعت ایک جسم کی طرح ہے۔ خلیفہ وقت اس جسم کا سر اور دماغ ہے اور باقی جماعت ایک جسم کے اعضاء کے مترادف ہیں جو دماغ کے سگنل اور اشارے کے تحت حرکت کر رہے ہیں۔ پس خلافت کی اس اہمیت کا اندازہ یہ غیر بھی لگاتے ہیں۔

سپین

سے ایک زیر تبلیغ دوست ایلوئے پیریز (Eloy Perez) صاحب کہتے ہیں: اس جلسےمیں میرے ساتھ بادشاہ سے بہتر سلوک کیا گیا۔ بہت خیال رکھا گیا۔ ہر وقت گھر کا ماحول محسوس کیا۔ جماعت احمدیہ کے رضا کاروں کا چالیس ہزار سے زیادہ لوگوں کی خدمت کرنا ایک معجزہ ہے۔ تصویری نمائشوں میں شرکت کے دوران میں نے احمدی کمیونٹی کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ یہ متحرک اور زندہ تاریخ کا ایک حصہ تھا۔ تقریب کے دوران میں نے بھائی چارے کے ماحول کو محسوس کیا۔ کہتے ہیں آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ سے جڑا ہوں حالانکہ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن اللہ مختلف مذاہب میں مشترک ہے۔ بلا شبہ اللہ آپ کے ساتھ اور تمام احمدیوں کے ساتھ جلسےکے دوران نظر آیا اور اتوار کو احمدی برادری کو اپنے ایمان کی تجدید کرتے ہوئے دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔ ان میں سے اکثر جذبات اور خوشی سے رو رہے تھے۔ مجھے وہ تقریریں پسند ہیں جو کی گئی تھیں جہاں میں اپنے ساتھ وہی مخصوص پیغامات لے کر گیا تھا جیسے ہمدردی کے بغیر مذہب مذہب نہیں ہے۔جو مسلمان بنی نوع انسان پر رحم نہیں کرتا وہ مسلمان یا اللہ کا پیروکار نہیں ہے۔ مسجد میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ (پھر مجھے لکھا ہے انہوں نے کہ) آپ سے ذاتی طور پر ملنا ہے اور پھر انہوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میری ٹی شرٹ پر دستخط بھی کر دیں پھر دستخط کروا کے لے گئے۔

کینیڈا

سے Kyle Seeback ایک ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ کہتے ہیں جلسہ میں آنا میرے لیے ایک شاندار بات تھی جہاں اپنے مذہب کے ساتھ وفاداری اور والنٹیئرازم کا سبق ملتا ہے۔ پھر جو جماعت احمدیہ پر ظلم ہو رہے ہیں اس کے بارے میں کہا کہ سب دنیا کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور احمدی برادری کی مدد کرنی چاہیے، احمدی وکلا ءکی مدد کرنی چاہیے۔ احمدیہ مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے اس بارے میں ہمیں آواز اٹھانی چاہیے۔ اس کے بعد ایک ڈائری لے کےآئے تھے کہ باتوں کے نوٹس لوں گا لیکن کہتے ہیں باتیں سننے میں ہی میں اتنا محو ہو گیا کہ مجھے نوٹس لینے یاد نہیں رہے۔

کینیڈا

سے انڈجنس قوم کی وائس چیف Aly Bear خاتون ہیں ،کہتی ہیں یہ میرے لیے بہت خوش کن بات تھی کہ میں اس سال اپنے کئی اَور انڈجنس راہنماؤں کے ساتھ جلسےپر آئی۔ میرے لیے عالمی بیعت کی تقریب بہت جذباتی موقع تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی تقریب نہیں دیکھی جو ہر انسان کو ایک دوسرے کے قریب کر دیتی ہے۔ سب لوگ جذباتی تھے اور میں بھی جذبات سے رو رہی تھی۔

عالمی بیعت کا طریق ہماری عبادت سے ملتا جلتا ہے لیکن میں نے اپنی عبادت میں کبھی ایسی روحانیت نہیں محسوس کی تھی جیسے میں نے عالمی بیعت کے دوران کی تھی۔

میں اپنے ساتھ محبت اور امن کا پیغام لے کر واپس جا رہی ہوں اور کہتی ہیں اپنی قوم کو آپ کا پیغام ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘پہنچاؤں گی اور یہاں آنا میرے لیے بڑی قابل عزت اور قابل فخر بات ہے۔

ہنڈورس (Honduras)

سے ایک خاتون ٹی وی اینکر کہتی ہیں کہ میں نے خلیفہ وقت کے خطابات کو غور سے سنا، جلسےمیں شامل ہوا، مقررین کی تقریریں سنیں۔ میں اپنے آپ کو بڑی خوش قسمت سمجھتی ہوںکہ ایسا عظیم موقع مجھے ملا۔ بہت سارے لوگوں سے ملنے کا مجھے موقع ملا اور ان میں بے لوث خدمات کا جذبہ دیکھا ،عاجزی دیکھی۔ ایسا منظم انتظام دیکھا کہ میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھا۔ جو میرا لجنہ کا خطاب تھا اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہنڈورس میں ہم سب کو ضرور ت ہے۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں کہا کہ میں الگ سے ایک ویڈیو بھی اس بارے میں بناؤں گی تاکہ لوگوں کو آسانی سے باتیں سمجھ بھی آ جائیں۔

ترکی

سے پرنٹنگ پریس کے کچھ مالکان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہماری مختلف کتب اور لٹریچر شائع کیا ہے ۔قرآن کریم بھی بڑا خوبصورت وہاں سے شائع ہواہے، آپ نے بک سٹال پہ دیکھا ہی ہوگا۔ یہ پریس والے مالکان آئے ہوئے تھے۔ ان کے ڈائریکٹر کہتے ہیں: اتنے بڑے اجتماع کو جس خوش اسلوبی سے اتنے خراب موسم کے ہوتے ہوئے آپ لوگوں نے بغیر کسی میجر پرابلم کے آرگنائز کیا وہ میرے لیے بہت حیران کن ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں ایک چیز جو میں نے عجیب دیکھی (یہ بھی غیروں پر اثر ڈالتی ہے تبلیغ کا اثرہے) کہتے ہیں اتنے بڑے اجتماع میں میں نے کسی کو سگریٹ پیتے نہیں دیکھا اور ڈیوٹی پر مامور کارکنان کی جس طرح فرمانبرداری اور منظم طریق پر لوگ حکم مان رہے تھے یہ بھی ایک عجیب نظارہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کا ،کارکنان کا، لڑکوں کا ،نوجوانوں کا حکم لوگ مان رہے تھے۔

ایک اَور ڈائریکٹر ہیں دوسری کمپنی کے۔ کہتے ہیں کہ مجھے جماعت کی اتنی وسعت کا اندازہ نہیں تھا۔ کہتے ہیں نمائش کے دوران جب انہوں نے شہداء کی گیلری دیکھی تو shockہوئے کہ اس زمانے میں بھی اتنی بربریت اسلام کے نام پر اور وہ بھی ایک مسلمان ملک میں ہو رہی ہے۔ دونوں باپ بیٹا آئے ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہم بوجہ انتہائی اہم بزنس میٹنگ کے جو جلسہ سالانہ کے دوران ہونی تھی تو ہمارا آنے کا پروگرام نہیں تھا لیکن کسی وجہ سے میٹنگ کینسل ہو گئی اور ہمارا جلسے پر آنے کا پروگرام بن گیا اور یہ ہمارا ایسا بڑا اچھا پروگرام ہوا کیونکہ یہ ناقابل فراموش تجربہ ہے۔

لٹویا(Latvia)

سے جلسےپر آئی ایک سوشل ورکر صاحبہ لکھتی ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی لیکن جلسے کے دوران مجھے اسلام احمدیت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملا۔ میں واپس جا کر قرآن شریف کا مطالعہ کروں گی اور اسلام کے بارے میں اپنے علم کو وسیع کرنے کی کوشش کروں گی۔ جلسہ سالانہ کا ماحول بڑا پرسکون اور پاکیزہ تھا۔ ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ تمام کارکنوں نے ہمارا بھرپور خیال رکھا۔ کہتی ہیں جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی اور حسن سلوک کے بارے میں تاثرات سے میرا دل بھرا ہوا ہے مگر زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔

ٹی وی پہ بیٹھے ہوئے جو لوگ دنیا میں سن رہے تھے ان کے بھی تاثرات بعضوں کے آئے ہیں۔

کانگو برازاویل

سے ہمارے مبلغ نے لکھا ہے کہ ایک عیسائی دوست مسٹر کرائسٹ کو جلسہ میں مدعو کیا گیا۔ اختتامی خطاب سننے کے بعد کہنے لگے کہ اگر دنیا کی ہر گورنمنٹ اس تعلیم پر عمل کرے تو دنیا سے غربت اگر ختم نہ بھی ہو تو کم از کم کوئی شخص رات کو بھوکا نہیں سوئے گا۔ کہتے ہیں جس طرح خلفائے اسلام کو اپنی رعایا کا خیال تھا اگر ہمارے لیڈر اس طرح اپنی رعایا کا خیال کرنے لگ جائیں تو ہماری دنیا جنت بن جائے۔ کہتے ہیں یہ تقریر سن کےمیرے دل کو بڑا سکون ملا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس طرح ہمارے خلیفہ نے اسلام کی تعلیم پیش کی ہے دل کو سکون مل گیا۔ پھر کہنے لگے مَیں نے ہمارا خلیفہ کے الفاظ اس لیے استعمال کیے ہیں کیونکہ آج سے میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور یہ میرے بھی خلیفہ ہیں۔

لٹویا

سے جلسہ میں شامل ہونے والی ایک سوشل ورکر خاتون Egija Uzane صاحبہ کہتی ہیں جب سے ہم یہاں آئے ہیں بڑے خوبصورت اور پُرامن ماحول میں رہ رہے ہیں۔ ہر چہرہ مسکراتا ہوا نظر آتا ہے۔ عجیب قسم کا پُرسکون ماحول ہے۔ مجھے تو یہ فکر ہو رہی ہے کہ جب واپس اپنے ماحول میں جاؤں گی تو وہی پرانی حالت لوٹ آئے گی جہاں ٹینشن کا ماحول ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گھور رہے ہوتے ہیں۔

آئس لینڈ

سے ایک فیملی فیڈریشن فار ورلڈ پیس کے مشنری پول ہرمن (Paul Herman) کہتے ہیں میراجلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا تجربہ شروع سے لے کر آخر تک بہت عمدہ تھا۔ تمام افراد جماعت جن سے میری ملاقات ہوئی نرم دل، شائستہ، دوسروں کا خیال رکھنے والے ،خدمت کے لیے ہر دم تیار تھے۔ رہائش کا بہت عمدہ انتظام تھا اور یہ سب کچھ تین یادگار دنوں کا اہم حصہ تھا اور اتنی بڑی تعداد کی حاضری کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظام بہت اعلیٰ تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ میرے نزدیک کارکنان اس قدر تجربہ کار تھے کہ جتنا بھی ان پر پریشر پڑتا انہوں نے گھبرانا نہیں تھا۔ پھر کہتے ہیں شاملین جلسہ کا تعاون بھی عمدہ انتظام کا حصہ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ افراد جماعت کے اعلیٰ اخلاق کا عکس ہے جو انہوں نے اتنی اچھی تیاری کی ہے۔ یہ سارا کچھ ہے اور اس کے علاوہ یہ لوگ اپنی تعلیم پر بھی عمل کر رہے ہیں۔پس یہ اثر جو ہے مہمانوں اور میزبانوں کا جو دوسروں پر بڑا پڑتا ہے۔ تقاریر کے ترجمہ کے بارے میں کہا کہ بعض دفعہ مجھے ترجمہ سمجھنے میں دقت پیش آتی تھی لیکن بہر حال جو سمجھ سکتا تھا میں نے اسے بہت enjoyکیا۔

ہالینڈ

کے ایک وکیل ہیں انہوں نے بھی اسی طرح اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

پھر پیئر عمانوایل (Pierre Emmanuel)

ہیٹی

کے جوڈیشری پولیس کے نمائندہ ہیں۔ کہتے ہیں احمدیہ مسلم جماعت انٹرنیشنل کے جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کر کے ان مہمانوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایک عیسائی کے طور پر اس جلسےمیں شامل ہو کر مجھے نہ صرف اسلام بلکہ مذہب کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مختلف عقائد،ثقافت، زبان اور منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ جن کے رسم و رواج بھی مختلف تھے کس طرح ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ یہ عجیب نظارہ تھا، یقینا ًقابل تحسین اور تقلید ہے۔

کہتے ہیں میں نے جلسہ میں شمولیت کے بعد بہت سوچا کہ اگر احمدیوں کے دلوں میں جو وفا داری اور اپنے مذہب کے احکام و فرائض کا احترام ہے کیا ان کے دلوں میں منافقت تو نہیں؟ تجسس پیدا ہوا تو میرے دل نے کہا کہ احمدیوں کے درمیان بھائیوں جیسی ہم آہنگی لفظ منافقت کو گویا ان کی لغت سے ختم کر دیتی ہے۔ پس یہ تاثرات جو ہیں ہر احمدی کے لیے اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والے بھی ہونے چاہئیں۔ کہتے ہیں میں جب اپنے ملک واپس جاؤں گا تو محبت، امن، ایک دوسرے کا احساس، ایمان، اطاعت اور صلہ رحمی کا پیغام لے کر جاوٴں گا جو مجھے ان تین ناقابل فراموش دنوں میں ملا ہے۔

پھر ایک نومبائع ہیں

آسٹریلیا

سے بلال قودن صاحب ۔کہتے ہیں ہمیشہ یہ احساس میرے ساتھ رہے گا۔ حیرت انگیز دن تھے اور نظم و ضبط کا مظاہرہ اور محبت اور بھائی چارہ میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ کہتے ہیں عالمی بیعت میں بھی شامل ہونا میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ اسی سے میری روحانیت میں اضافہ ہوا اور ایک تسلی ملی۔

مایوٹ آئی لینڈ

سے یونس صاحب شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں جلسہ میں پہلی دفعہ داخل ہوا تو میر ے دل پہ ایسا زور پڑا جیسے کسی خاص طاقت کا میرے پر نزول ہوا ہے۔ جلسے کا نظارہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ کہتے ہیں جلسےکے بارہ میں سنا تو ہوا تھا ؛شامل ہو کر تو بالکل ایک اَور ہی نظارہ تھا۔

پھر

جلسےکا انتظام سن کر بیعتیں بھی ہوئیں۔

گنی بساؤ میں ایک شخص نے جلسےکا انتظام دیکھ کر بیعت کی۔ تنزانیہ سے امیر صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں بھی ایم ٹی اے پر شامل ہوئے اور بیعت کی۔ موسیٰ صاحب کی شادی 1970ء میں غیر از جماعت خاتون سے ہوئی تھی اور ان کی کوشش تھی ،دعا بھی کر رہے تھے کہ اہلیہ اسلام احمدیت قبول کر لے لیکن خاتون نہیں مان رہی تھی۔ اس سال جلسہ کے دوران وہ فیملی ایم ٹی اے پر جلسہ دیکھ رہی تھی ۔ان کی اہلیہ بھی ساتھ دیکھنے شامل ہوئیں، عالمی بیعت میں بھی شامل ہوئیں۔ عالمی بیعت کے بعد انہوں نے کہا کہ اس جلسہ نے مجھ پر ایک خاص قسم کا اثر کیا ہے اور خلیفةالمسیح کے خطابات نے میرے اندر ایک عجیب سی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ میں نے عالمی بیعت سے پہلے سے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب میں احمدیت میں شامل ہو جاؤں گی چنانچہ اس طرح جلسےکی برکات سے ان کی اہلیہ بھی احمدیت میں شامل ہو گئیں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو جلسےکے بعد موصول ہوئے اور اب بھی موصول ہوتے رہیں گے۔ جلسےکی کارروائی سن کے جنہوں نے بیعت کی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا بیشمار تبصرے ہیں اور اظہار خیال آئے ہیں۔ بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ اس جلسےکے ایسے نتائج ہوں جو احمدیوں کی زندگیوں کو بھی ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والے ہوں۔ ان کے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں

اور غیروں پر بھی ایسے اثرات ہوں جو صر ف وقتی نہ ہوں بلکہ مستقل ان کی آنکھیں کھولنے والے ہوں اور وہ اسلام کی تعلیم کو ہی اپنی اور دنیا کی نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ہوں۔

میڈیا کے ذریعےسے بھی جلسےکی کارروائی دیکھی اور سنی گئی

جس سے اس مرتبہ بھی کافی وسیع طور پر تعارف ہوا۔ افریقہ کے براعظم میں چوبیس چینلز نے تقاریر دکھائیں۔ میری تقاریر خاص طور پر ساری دکھائیں۔ کئی ملک اس میں شامل ہیں اور چالیس ملین سے زائد افراد تک لوگوں نے اس کو سنا۔ صحافیوں اور میڈیا سینٹر تیار کیا گیا تھا ۔ان میں تیئس میڈیا ڈائریکٹرز اور صحافی شامل ہوئے اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس تیار کرتے رہے۔ اس طرح

کُل 72 نیوز رپورٹس تیار کی گئیں جو تقریباً پچاس ملین لوگوں تک پہنچیں۔

اکتالیس ویب سائٹس سے خبریں نشر ہوئیں اور ان ویب سائٹس کو پڑھنے والوں کی تعداد بھی انیس ملین بتائی جاتی ہے۔ جلسہ کے متعلق اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین کی تعداد پندرہ ہے۔ ان کوپڑھنے والوں کی تعداد بھی پانچ ملین بتائی جاتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینل کے حوالہ سے چودہ خبریں نشر ہوئیں۔ انہیں دیکھنے والوں کی تعداد بھی بیس ملین بتائی جاتی ہے۔ ریڈیو سٹیشنز پر سینتیس (37) خبریں نشر ہوئیں۔ گذشتہ سال تینتیس(33) تھی اس سال سینتیس (37) ہوئی اور آٹھ ملین سننے والوں کی تعداد ہے اور اپنے خیالات کا اظہار بھی لوگوں نے کیا اور بیس لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔

بیشمار ٹی وی چینلز ہیں۔ اس میں بی بی سی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یوکے کے بہت سارے دوسرے نیوز کے چینلز شامل ہیں۔ دنیا کے اَور بہت سے دوسرے ملکوں کے چینلز شامل ہیں۔

بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسےکی خبریں پہنچی ہیں، جماعت کا تعارف ہوا ، اسلام کا تعارف ہوا اور ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس جلسےکو بابرکت فرمایا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عاجز اور شکرگزار بندہ بنتے ہوئے ہمیشہ اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے اور ہمیشہ ہم جماعت سے ایک خاص اور پختہ تعلق رکھنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button