خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۹؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت اسلام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’بلا شبہ ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ اس کارواں کے امیر تھے جس نے اللہ کی خاطر بلند چوٹیاں سر کیں اور انہوں نے متمدن اور بادیہ نشینوں کو حق کی دعوت دی یہاں تک کہ ان کی یہ دعوت دُور دراز ممالک تک پھیل گئی۔ اور ان دونوں کی خلافت میں بکثرت ثمرات اسلام ودیعت کئے گئے اور کئی طرح کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ کامل خوشبو سے معطر کی گئی۔اور اسلام حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانہ میں مختلف اقسام کے (فتنوں کی) آگ سے الم رسیدہ تھا اور قریب تھا کہ کھلی کھلی غارت گریاں اس کی جماعت پر حملہ آور ہوں اور اس کے لُوٹ لینے پر فتح کے نعرے لگائیں۔ پس عین اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صدق کی وجہ سے رب جلیل اسلام کی مدد کو آ پہنچا اور گہرے کنویں سے اس کا متاعِ عزیز نکالا۔ چنانچہ اسلام بدحالی کے انتہائی مقام سے بہتر حالت کی طرف لَوٹ آیا۔پس انصاف ہم پر یہ لازم ٹھہراتا ہے کہ ہم اس مددگار کا شکریہ ادا کریں ا ور دشمنوں کی پرواہ نہ کریں۔ پس تُو اس شخص سے بے رخی نہ کر جس نے تیرے سید و مولیٰ ﷺ کی مدد کی اور تیرے دین و دَر کی حفاظت کی اور اللہ کی خاطر تیری بہتری چاہی اور تجھ سے بدلہ نہ چاہا۔ تو پھر بڑے تعجب کا مقام ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کی بزرگی سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اور یہ حقیقت ہے کہ آپؓ کے اوصاف حمیدہ آفتاب کی طرح درخشندہ ہیں اور بلا شبہ ہر مومن آپ کے لگائے ہوئے درخت کے پھل کھاتا اور آپ کے پڑھائے ہوئے علوم سے فیض یاب ہو رہا ہے۔آپ نے ہمارے دین کے لئے فرقان اور ہماری دنیا کے لئے امن و امان عطا فرمایا۔ اور جس نے اس سے انکار کیا تو اُس نے جھوٹ بولا اور ہلاکت اور شیطان سے جا ملا۔‘‘فرماتے ہیں’’اور جن لوگوں پر آپ کا مقام و مرتبہ مشتبہ رہا، ایسے لوگ عمداً خطا کار ہیں اور انہوں نے کثیر پانی کو قلیل جانا۔ پس وہ غصے سے اٹھے اور ایسے شخص کی تحقیر کی جو اول درجہ کا مکرم و محترم تھا۔‘‘
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں: ’’ابن خلدون کہتے ہیں کہ ’’جب آنحضور ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی اور آپؐ پر غشی طاری ہو گئی تو آپؐ کی ازواج اور دیگر اہل بیت، عباس اور علی آنحضرتؐ کے پاس جمع ہو گئے۔ پھر نماز کا وقت ہوا تو آپؐ نے فرمایا: ابوبکر سے کہہ دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ابن خلدون کہتے ہیں کہ’’پھر رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کرنے کے بعد فرمایا: ابوبکر کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے سب دروازے بند کر دو !کیونکہ میں تمام صحابہ میں احسان میں کسی کو بھی ابوبکر سے زیادہ افضل نہیں جانتا۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ابن خلدون نے ذکر کیا ہے کہ’’حضرت ابوبکرؓ آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپؐ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور آپؐ کو بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اللہ نے جو موت آپؐ کے لیے مقدر کی تھی اس کا مزہ آپؐ نے چکھ لیا۔ لیکن اب اس کے بعد کبھی آپؐ پر موت نہیں آئے گی۔‘‘فرماتے ہیں کہ’’اللہ کے لطیف احسانات میں سے جو اس نے آپؓ پر فرمائے اور رسول اللہ ﷺ سے کمال قرب کی جو خصوصیت آپؓ کو حاصل تھی، جیساکہ ابن خلدون نے بیان کیا ہے وہ یہ تھی کہ ابوبکرؓ اسی چارپائی پر اٹھائے گئے جس پر رسول اللہ ﷺ کو اٹھایا گیا تھا۔ اور آپؓ کی قبر کو بھی نبی کریم ﷺ کی قبر کی طرح ہموار بنایا گیا۔اور(صحابہ نے) آپؓ کی لحد کو نبی کریمؐ کی لحد کے بالکل قریب بنایا اور آپؓ کے سر کو رسول اللہ ﷺ کے دونوں کندھوں کے متوازی رکھا۔ آپؓ نے جو آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھا کہ( اے اللہ!)مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما۔
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کی اشاعت اسلام اوردین کی خاطرمشکلات برداشت کرنے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ابوبکر ایک نادرِ روزگار، باخدا انسان تھے۔ جنہوں نے اندھیروں کے بعد اسلام کے چہرے کو تابانی بخشی اور آپ کی پوری کوشش یہی رہی کہ جس نے اسلام کو ترک کیا آپ نے اس سے مقابلہ کیا۔ اور جس نے حق سے انکار کیا آپ نے اس سے جنگ کی۔ اور جو اسلام کے گھر میں داخل ہو گیا تو اس سے نرمی اور شفقت کا سلوک کیا۔ آپ نے اشاعتِ اسلام کے لیے سختیاں برداشت کیں۔ آپ نے مخلوق کو نایاب موتی عطا کئے۔ اور اپنے عزمِ مبارک سے بادیہ نشینوں کو معاشرت سکھائی۔ اور ان شتر بے مہاروں کو کھانے پینے، نشست و برخاست کے آداب اور نیکی کے راستوں کی تلاش اور جنگوں میں بہادری اور جوش کے ادب سکھائے اور آپ نے ہر طرف مایوسی دیکھ کر بھی کسی سے جنگ کے بارے میں نہیں پوچھا بلکہ آپ ہر مد مقابل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہر بزدل اور بیمار شخص کی طرح آپ کو خیالات نے بہکایا نہیں۔ ہر فساد اور مصیبت کے موقع پر ثابت ہو گیا کہ آپ کوہِ رَضْویٰ(یہ مدینہ کا ایک پہاڑ ہے) سے زیادہ راسخ اور مضبوط ہیں۔ آپ نے ہر اس شخص کو جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہلاک کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی خاطر تمام تعلقات کو پرے پھینک دیا۔آپؓ کی تمام خوشی اعلائے کلمۂ اسلام اور خیر الانام ﷺ کی اتباع میں تھی۔۔۔آپ نے اسلام کو ایک ناتواں اور بیکس اور نحیف ونزار ماؤف شخص کی طرح پایا تو آپ ماہروں کی طرح اس کی رونق اور شادابی کو دوبارہ واپس لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لٹے ہوئے شخص کی طرح اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے متناسب قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابیٔ جمال اور اپنے صاف پانی کی مٹھاس کی طرف لوٹ آیا اور یہ سب کچھ اس بندۂ امین کے اخلاص کی وجہ سے ہوا۔آپ نے نفس کو مٹی میں ملایا اور حالت کو بدلا اور رحمان خدا کی خوشنودی کے سوا کسی صلہ کے طالب نہ ہوئے اور اسی حالت میں شب و روز آپ پر آئے۔ آپ بوسیدہ ہڈیوں میں جان ڈالنے والے، آفتوں کو دور کرنے والے اور صحرا کے میٹھے پھل والے درختوں کو بچانے والے تھے۔ خالص نصرتِ الٰہی آپ کے حصہ میں آئی اور یہ اللہ کے فضل اور رحم کی وجہ سے تھا۔ اور اب ہم خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے کسی قدر شواہد کا ذکر کرتے ہیں تا کہ تجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ کیونکر آپ نے تند و تیز آندھیوں والے فتنوں اور جھلسانے والے شعلوں کے مصائب کو ختم کیا اور کس طرح آپ نے جنگ میں بڑے بڑے ماہر نیزہ بازوں اور شمشیرزنوں کو ہلاک کر دیا۔ اس طرح آپ کی باطنی کیفیت آپ کے کارناموں سے ظاہر ہو گئی اور آپ کے اعمال نے آپ کے اوصافِ حمیدہ کی حقیقت پر گواہی دی۔
سوال نمبر۴:حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کانمونہ اپنانےکےحوالہ سے جماعت کوکیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکرصدیقؓ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔ آنحضرت ﷺ کے اس زمانہ پر غور کرو کہ جب دشمن قریش ہر طرف سے شرارت پر تلے ہوئے تھے اور انہوں نے آپؐ کے قتل کا منصوبہ کیا۔ وہ زمانہ بڑا ابتلا کا زمانہ تھا۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو حقِ رفاقت ادا کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی۔ یہ طاقت اور قوت بجز صدقِ ایمان کے ہر گز نہیں آسکتی۔ آج جس قدر تم لوگ بیٹھے ہوئے ہو۔ اپنی اپنی جگہ سوچو کہ اگر اس قسم کا کوئی ابتلا ہم پر آجائے تو کتنے ہیں جو ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ مثلاً گورنمنٹ کی طرف سے ہی یہ تفتیش شروع ہو جائے کہ کس کس شخص نے اس شخص کی بیعت کی ہے تو کتنے ہوں گے جو دلیری کے ساتھ یہ کہہ دیں کہ ہم مبائعین میں داخل ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ بات سن کر بعض لوگوں کے ہاتھ پاؤں سُن ہو جائیں گے اور ان کو فوراً اپنی جائدادوں اور رشتہ داروں کا خیال آجائے گاکہ ان کو چھوڑنا پڑے گا۔‘‘آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مشکلات ہی کے وقت ساتھ دینا ہمیشہ کامل الایمان لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ اس لئے جب تک انسان عملی طور پر ایمان کو اپنے اندر داخل نہ کرے محض قول سے کچھ نہیں بنتا اور بہانہ سازی اس وقت تک دور ہی نہیں ہوتی۔عملی طور پر جب مصیبت کا وقت ہو تو اس وقت ثابت قدم نکلنے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔حضرت مسیح ناصریؑ کے حواری اس آخری گھڑی میں جو ان کی مصیبت کی گھڑی تھی انہیں تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے اور بعض نے تو منہ کے سامنے ہی آپ پر لعنت کر دی۔‘‘پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’غرض حضرت ابوبکر صدیقؓ کا صدق اس مصیبت کے وقت ظاہر ہوا جب آنحضرتﷺ کا محاصرہ کیا گیا۔ گو بعض کفا ر کی رائے اخراج کی بھی تھی مگر اصل مقصد اور کثرت رائے آپؐ کے قتل پر تھی۔ ایسی حالت میں حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صدق اور وفا کا وہ نمونہ دکھلایا جو ابدا لآباد تک کے لئے نمونہ رہے گا۔
سوال نمبر۵:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضورﷺکےغارثورمیں پناہ لینےاورتائید الٰہی کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں ’’…غرض حضرت ابوبکرؓنے آپؐ کا پورا ساتھ دیا اور ایک غار میں جس کوغارِ ثور کہتے ہیں آپؐ جا چھپے۔ شریر کفار جو آپؐ کی ایذارسانی کے لئے منصوبے کر چکے تھے تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی کہ اب تو یہ بالکل سر پر ہی آپہنچے ہیں اور اگر کسی نے ذرا بھی نیچے نگاہ کی تو وہ دیکھ لے گا اور ہم پکڑے جائیں گے۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا(التوبہ:۴۰) کچھ غم نہ کھاؤ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے…‘‘اس وقت دونو ابتلا میں ہیں کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یا تو اسلام کی بنیاد پڑنے والی ہے یا خاتمہ ہو جانے والاہے۔دشمن غار پر موجود ہیں اور مختلف قسم کی رائے زنیاں ہو رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ا س غار کی تلاشی کرو کیونکہ نشانِ پا یہاں تک ہی آکر ختم ہو جا تا ہے…لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہاں انسان کا گذر اور دخل کیسے ہوگا؟ مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے۔ کبوترنے انڈے دیئے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں کی آوازیں اندر پہنچ رہی ہیں اور آپ بڑی صفائی سے ان کو سن رہے ہیں۔ایسی حالت میں دشمن آئے ہیں کہ وہ خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور دیوانے کی طرح بڑھتے آئے ہیں لیکن آپؐ کے کمال شجاعت کو دیکھو کہ دشمن سر پر ہے اور آپؐ اپنے رفیقِ صادق صدیقؓ کو فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔یہ الفاظ بڑی صفائی کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے زبان ہی سے فرمایا کیونکہ یہ آواز کو چاہتے ہیں۔ اشارہ سے کام نہیں چلتا۔ باہر دشمن مشورہ کر رہے ہیں اور اندر غار میں خادم و مخدوم بھی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس امر کی پرواہ نہیں کی گئی کہ دشمن آواز سن لیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ پر کمال ایمان اور معرفت کا ثبوت ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا بھروسہ ہے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خلافت کےآغازکےلیےحضرت ابوبکرؓ کومقدم رکھنے کی کیاحکمت بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم یہ پوچھو کہ اللہ نے سلسلۂ خلافت کے آغاز کے لئے آپؓ کو کیوں مقدم فرمایا اور اس میں ربِّ رؤوف کی کیا حکمت تھی؟ تو جاننا چاہئے کہ اللہ نے یہ دیکھا کہ حضرت صدیق اکبرؓ وارضیٰ ایک غیر مسلم قوم میں سے بکمال قلب سلیم رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں اور ایسے وقت میں ایمان لائے جب نبی اللہ ﷺ یک و تنہا تھے اور فساد بہت شدید تھا۔ پس حضرت صدیق اکبرؓ نے اس ایمان لانے کے بعد طرح طرح کی ذلت اور رسوائی دیکھی اور قوم، خاندان، قبیلے، دوستوں اور بھائی بندوں کی لعن طعن دیکھی، رحمان خدا کی راہ میں آپ کو تکلیفیں دی گئیں اور آپ کو اسی طرح وطن سے نکال دیا گیا جس طرح جن و انس کے نبیﷺ کو نکالا گیا تھا۔ آپ نے دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں اور اپنے پیارے دوستوں کی طرف سے لعنت ملامت مشاہدہ کی۔ آپ نے بارگاہِ ربّ العزت میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا۔ آپ معزز اور ناز و نعم میں پلنے کے باوجود معمولی لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ راہِ خدا میں (وطن سے) نکالے گئے۔ آپ اللہ کی راہ میں ستائے گئے۔ آپ نے راہِ خدا میں اپنے اموال سے جہاد کیا اور دولت و ثروت کے رکھنے کے بعد آپ فقیروں اور مسکینوں کی طرح ہو گئے۔ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ پر گزرے ہوئے ایام کی آپ کو جزا عطا فرمائے اور جو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا اس سے بہتر بدلہ دے اور اللہ کی رضا مندی چاہنے کے لئے جن مصائب سے آپ دوچار ہوئے ان کا صلہ آپ پر ظاہر فرمائے اور اللہ محسنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ لہٰذا آپ کے ربّ نے آپ کو خلیفہ بنا دیا اور آپ کے لئے آپ کے ذکر کو بلند کیا اور آپ کی دلجوئی فرمائی اور اپنے فضل و رحم سے عزت بخشی اور آپ کو امیر المومنین بنا دیا۔‘‘