متفرق مضامین

سوشل میڈیا اور بچے: اپنی نسلوں کو سوشل میڈیا کی برائیوں سے بچائیں

(ارشد محمود خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل گلاسگو)

اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ کے زمانہ میں نشرواشاعت خوب ہوگی(وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَت۔ التکویر:۱۱)۔ لہٰذا یہ وعدہ دین اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ نشرواشاعت اور چھاپہ خانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی نے بھی بے بہا ترقی کی ہے جس سے تبلیغ کا کام اور علوم وفنون سیکھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔

سمارٹ فون، ایک نئی دُنیا میں داخلے کا دروازہ

دور ِحاضر کی انقلابی ایجاد سمارٹ فون کو کہا جاسکتا ہے جس سے فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں اورمعلومات کا ایک جہان بھی آپ کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوتا ہے۔ اس فون کی مدد سے آپ ایک کامیاب صحافی، لکھاری، شاعر، سائنسدان اور فلم ڈائریکٹر وغیرہ بھی منٹوں میں بن جاتے ہیں، جہاں اظہار رائے کی آزادی بھی بے بہا ہے چاہے موضوع کوئی بھی ہو۔ یہی فون جب بچوں کے ہاتھوں میں جاتا ہے تو والدین کا اصل امتحان تب شروع ہوتا ہے اور اگر والدین کی دُعاؤں اور تربیت میں کمی رہ جائے تو نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’پھر آج کل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کردو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کونسا بزنس کررہے ہیں ؟ آپ کوئی ایسا کام کررہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہے۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے پھر غلط باتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ فون سے لوگ رابطے کرتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیں گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں اس لئے فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے اس میں بچوں کو ہوش نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ جرمنی۔ ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۱ء) (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍مارچ ۲۰۱۲ء)

سوشل میڈیا۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

سوشل میڈیا اطلاعات کا تیز ترین ذریعہ ہے جس کی بدولت دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب ہم جہاں بھی ہوں، جو بھی معلومات درکار ہوں، اِک پل میں ہمیں موصول ہو جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔جب یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا اب مشکل ہے تو ایسے میں لازم ہے کہ والدین کو پوری طرح اس بات کی آگاہی ہونی چاہیے کہ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں اور اس پر موجود معلومات اور مواد کی حقیقت اور سچائی کو کس طرح جانچا جاسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ جو بات اہم ترین ہےوہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کی تربیت کرتے وقت ان کو غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ، جائز اور ناجائز کے درمیان فرق کے ساتھ مثبت اور منفی رویوں کی پہچان بھی سکھانا ہوگی۔

سوشل میڈیا دو دھاری تلوار ہے یعنی اس کے فوائد بہت ہیں تونقصانات بھی بہت۔ فوائد کی بات کریں تو دورِ حاضرمیں سوشل میڈیا سیکھنے کا آسان ترین، سستا ترین اور سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ ہر شعبے کی معلومات ہمارے ایک کلِک کے فاصلے پر دستیاب ہیں۔ تاہم اِس کا حد سے زیادہ یا بے مقصد استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ جسم و ذہن پر بھی خطرناک اثرات ڈالتا ہے۔ اِس ضمن میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی ذہنی تربیت کریں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے بچیں۔اسمارٹ فون کی لت کی وجہ سے بچے پرتشدد بھی ہو رہے ہیں اور ان کی نیند کا وقت بھی خراب ہو رہا ہے۔ کئی معاملات میں تو بچے والدین سے چھپ کر بھی سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہوتےہیں۔

انگلینڈ کی ڈی مونٹ فورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ۱۰ سال کی عمر میں سوشل میڈیا پر بچوں کی سرگرمیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ وہ روزانہ تقریباً پانچ گھنٹے سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ اس میں دو گھنٹے رات میں اور تین گھنٹے دن میں گزارے جاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر متحرک رہنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بچے مشہور لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے فیس بک اور انسٹا اکاؤنٹس کو فالو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے دوست کیا کر رہے ہیں اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے جڑنا چاہتے ہیں۔ اسمارٹ فون گیمنگ کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات دیکھے جا رہے ہیں جہاں بچے گیمنگ کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ گھنٹوں فون پر گزار رہے ہیں۔ گھر والوں کی غیر موجودگی میں یہ زیادہ ہو رہا ہے۔ تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق دس سال تک کے بچوں پر کی گئی ہے۔ جن کے پاس ذاتی فون تھا وہ بچے یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور ان کے دوست اور دیگر جاننے والے کیا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کی لت بچوں کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق بچے اکثر اپنے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کی نیوز فیڈ چیک کرتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہر ۱۰ سے ۱۵ منٹ میں ایک عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بار بار سوشل اکاؤنٹس دیکھنے کی یہ عادت دماغی صحت کو خراب کرنے لگتی ہے۔ بہت سے معاملات میں گم ہونے کے خوف کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی دنیا کو حقیقی زندگی کی طرح دیکھنا شروع کریں۔

بچوں میں مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارمز

اگرچہ بچوں اور نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے ممکنہ منفی اثرات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے، لیکن یہ جاننا چاہیے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم خود فطری طور پر نقصان دہ نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا کی دُنیا میں لاکھوں ڈالر مشہور شخصیات کو دے کر اپنی پراڈکٹس کی تشہیر کی جاتی ہے اور چونکہ استعمال کرنے والے نوجوان اور بچے ہوتے ہیں لہذا فیشن کو اندھا دُھند فالو کرنے والے بھی آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔

حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے نوجوانوں اور بچوں سے کئی ملاقاتوں میں سوشل میڈیا کی طاقت کاصحیح استعمال اس طرح کرنے کا کہا کہ تبلیغ کے میدان میں اس سے مدد لی جائے۔ دُنیا کو اس پلیٹ فارم سے اسلام کی پُرامن تعلیم کو عملی طور پر دکھایا جائے۔ لہٰذا بہت سی جماعتیں اس کا باقاعدہ استعمال کرتی ہیں اور بہت سے احمدی بھی اس کے ذریعہ اسلام احمدیت کی خوبصورت تعلیم کو دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے معاندینِ احمدیت کے منہ بھی بند ہوجاتے ہیں اور یورپ اور امریکہ کے پریس اور میڈیا میں اس کا خوب چرچا ہوتا ہے۔

یہاں کچھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ذکر کرتا ہوں جن کا ذمہ داری سے استعمال نہ کرنے پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے:

فیس بک

بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ وقت کی حد مقرر کرکے اور آف لائن سرگرمیوں میں مشغول ہوکر فیس بک کو سیکھنے کے لیے استعمال کریں۔ اپنے بچوں کو درج ذیل اکاؤنٹس کے بارے میں بتائیں اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر استعمال کریں، یقیناً آپ بھی بہت کچھ نیا سیکھیں گے:

•Al-Islam official page:

@alislaminternational

•National Geographic Kids:

@natgeokids

•Khan Academy:

@khanacademy

•NASA: @NASA

•TED-Ed: @TEDed

انسٹاگرام

انسٹاگرام کی تشکیل شدہ نوعیت (فوائد ونقصانات )پر تبادلہ خیال کریں اور انہیں مثبت اکاؤنٹس کو فالو کرنے اور پلیٹ فارم سے باہر مشاغل میں شمولیت کی ترغیب دیں۔ بچوں کو بتائیں کے مشہور اداکار، ماڈل، کھلاڑی اور دوسرے فیشن برانڈز کو فالو کرنے اور دیکھنے سے آپ اپنی سوچ میں جو تبدیلیاں لائیں گے اُس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ بچوں نے اگر لازمی انسٹا گرام استعمال کرنا ہی ہے تو درج ذیل اکاؤنٹ فائدہ مند ہیں:

•Al-Islam official page:

@alislaminternational

•Nat Geo Kids: @natgeokids

•Highlights for Children:

@highlightsforchildren

•Code.org: @codeorg

•Science Friday: @scifri

سنیپ چیٹ

یہ ایک ایسا نامناسب پلیٹ فارم ہے کہ ہر بچہ اور نوجوان اس کے ذریعے لغویات اور دوسروں کی ذاتی زندگی میں ایسے شامل ہوتا ہے کہ پردے کی کوئی حد نہیں رہتی۔ فیشن یہ ہے کہ بچے اور نوجوان سو کر اُٹھیں تو اپنی فوٹو شیئر کریں، ناشتے کی فوٹو، باہر کا موسم، گھر کے حالات، بہن بھائیوں کی فوٹو سے لےکر کیا کھایا، جم میں کیا ہوا اور انتہائی ذاتی نوعیت کی سرگرمیوں کو فوٹو زکی شکل میں یہاں شیئر کیا جاتا ہے اور پھر انتظار کیا جاتا ہے کہ کتنے لوگوں نے ہماری فوٹو دیکھیں اور کتنے لائکس ملے۔اس طرح کی فوٹو کو لائیک دینے والے بھی اسی طرح کے فارغ بچے اور نوجوان ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے ایسے فوٹو فلٹر اور دوسری مصنوعی چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا گویا ایک فریب زدہ ماحول کو پنپنے کا موقع دیا جاتا ہے جس میں مشہور شخصیات بھی اسی طرح کی حرکتیں کرتی نظر آتی ہیں۔

اگر والدین اس پلیٹ فارم کو استعمال کرنا ہی چاہتے ہیں تو درج ذیل اکاؤنٹ بچوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتے ہیں:

•DoSomething.org:

@dosomething

•Smithsonian‘s National Zoo:

@smithsonianzoo

•Duolingo: @duolingo

•UNICEF: @unicef

TikTok

دنیا میں ایک ارب سے زیادہ لوگ اس مشہور ترین پلیٹ فارم کو روزانہ کئی کئی گھنٹے تک استعمال کرتے ہیں اور اس طرح دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سوشل میڈیاپلیٹ فارم ہے۔ اس میں ہر موضوع پر مختصر ویڈیو مل جاتی ہیں لہٰذا ہمیں بچوں کو سمجھانا ہوگا کہ اس کا استعمال بہت احتیاط سے کیا جائے ورنہ نتائج تباہ کُن ہوسکتے ہیں۔ میرے خیال میں تو بہت سے لوگ بے بہا وقت اس میں گزارتے ہیں اور اکثر اس کا مقصد محض تفریح وغیرہ ہوتا ہے۔ ٹک ٹاک پر بھی آپ کے بچوں کو دین و دُنیا سیکھنے کے لیے کافی کچھ مل جائے گا جیسے:

•Al-Islam: @www.alislam.org

•ScienceMax: @sciencemax

•Bill Nye: @billnye

•StoryBots: @storybots

•The Brain Scoop:

@thebrainscoop

Twitter

بچوں کو الفاظ کی طاقت اور ان کے آن لائن فوائد اور نقصانات کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سکھائیں۔ بچے اس مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم سے بہت معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ کچھ مفید اکاؤنٹ اس طرح ہیں:

•Al-Islam official page:

@alislam

•Al-Fazl international:

@alfazlintl

•National Geographic Education:

@NatGeoEducation

•NASA Education: @NASAedu

•BBC Learning: @bbclearning

•Smithsonian Institution:

@smithsonian

نوٹ: یوٹیوب پر الفضل انٹرنیشنل کے چینل کو فالو کریں خصوصاً ’’بچوں کا الفضل‘‘جس میں اردو سیکھنے کے ساتھ ساتھ بچے دلچسپ دینی معلومات حاصل کرتے ہیں۔

جسمانی صحت پر تباہ کُن اثرات

سوشل میڈیا کے علاوہ بچوں میں فون پر گیمز کھیلنے کی لت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ گذشتہ مہینوں میں ملک میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں ایک بچے نے گیم کھیلنے سے انکار پر خاندان کے کسی فرد کو قتل کر دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیمز کی لت کی وجہ سے بھی بچوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ کئی بار بچے باہر کی دنیا کو کھیل کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ گیم کھیلنے کی وجہ سے بچوں میں نیند کی خرابی بھی ہو رہی ہے۔ بچوں میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی لت نے ان کی جسمانی سرگرمیاں کم کردی ہیں۔سکول سے آنے کے بعد کچھ بچوں کا زیادہ وقت فون پر گزرتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی کی وجہ سے ان میں موٹاپے کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کمر درد اور تھکاوٹ کا مسئلہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔

چھ سے بارہ سال کے بچوں کے لیے رات دن ایسی گیمز ایجاد ہورہی ہیں جن میں تشدد، قتل و غارت اور جنسی بے راہ روی جیسی سرگرمیاں بآسانی بچوں تک پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ سے بچے ضدی، تشدد پسند اور تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ساتھ ہی مسلسل بیٹھ کر گیمز کھیلنے یا انٹرنیٹ کے غیرضروری استعمال سے جسمانی ورزش اور کھیل کم ہو کے رہ گیا ہے جو کہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے بہت نقصان دہ ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہورہی ہے۔

بچوں میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی لت کو کیسے کم کیا جائے

ان تمام چیزوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی لت کو کیسے کم کیا جائے۔ الیکٹرانک گندگی کے اس دور میں سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح اپنے بچوں کو ہر ممکنہ حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں چونکہ اتنے زیادہ ایکسپوژر میں مکمل اجتناب تو مشکل ہی نظر آتا ہےمگر ابھی سے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مستقبل میں ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ

٭…والدین کو چاہیے کہ وہ دن بھر بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔

٭…بچے کو پڑھائی کے علاوہ کسی اور کام کے لیے فون یا لیپ ٹاپ نہ دیں۔

٭…فون کے استعمال کا شیڈول بنائیں۔ اگر آپ کے بچے کو فون کے ساتھ کوئی کام نہیں ہے تو اسے اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔

٭…اپنے بچے کو باہر کھیلنے کی عادت ڈالیں۔ انہیں ہر شام ان کے کسی کھیل کے میدان یا پارک میں لے جائیں۔ جسمانی سرگرمیاں بڑھیں گی تو فون کا استعمال بھی کم ہو جائے گا۔

٭…اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ بچہ گھر میں سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے تو اسے حکمت سے روکیں اور اس کے نقصانات کے بارے میں راہنمائی کرتے رہیں۔

٭…بچے جب بھی موبائل یا ٹیبلٹ میں انٹرنیٹ استعمال کریں تو آپ ان کی وقتاََ فوقتاََ نگرانی کریں کوشش کریں کہ بچے کم سے کم ویڈیو گیمز اور زیادہ سے زیادہ فزیکل گیمز میں حصہ لیں۔

٭…بچوں کے کمرے میں ٹی وی یا کمپیوٹر رکھنے سے گریز کریں۔ کمپیوٹر، ٹی وی، ٹیبلٹ اور ایسی تمام تر سہولیات کا استعمال صرف ایسی جگہ تک محدود کریں جہاں آپ مسلسل نظر رکھ سکیں۔

٭…چونکہ زیادہ روک ٹوک سے بچے باغی ہوجاتے ہیں لہٰذا انہیں پیار سے سمجھائیں اور ان کو خود سے بہت قریب رکھیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والا کوئی بھی مسئلہ محض آپ کے ڈر اور خوف کی وجہ سے چھپاکر خود کسی مشکل میں نہ پڑ جائیں۔

٭…ایک والدین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک رول ماڈل بنیں اورسوشل میڈیا کے اپنے ضرورت سے زیادہ استعمال کو محدود کرکے بچوں کے سامنے صحت مند ڈیجیٹل عادات کا مظاہرہ کریں۔ آف لائن بامعنی سرگرمیوں میں مشغول ہوں اور خاندان کے اندر آمنے سامنے بات چیت کو ترجیح دیں۔

٭…حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے خطابات پر مشتمل اردو اور انگریزی کی مختصر کتاب ’’سوشل میڈیا‘‘ہمارے لیے مشعل راہ ہے چنانچہ فیملی ٹائم میں اس میں سے چند اوراق بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں۔

٭…حضورِ انور ایدہ اللہ کی ہدایت پر جماعت نے بہت خرچ اور محنت کرکے سوشل میڈیا کے تقریباً ہر پلیٹ فارم کے لیے مختصر ویڈیوز، پوسٹر، کوئز، گیمز اور دینی مواد کو ڈیزائن کیا ہے۔اس میں یورپ اور امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالات اور الجھنوں کو اسلام کی تعلیم کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہٰذا جماعت کے سب اکاؤنٹس کو فالو کریں اور اپنے بچوں کے ساتھ اس پر بات کریں۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کی ہر برائی خوبصورت ترین طریقے سے ہمارے بچوں کے سامنے پیش کی جارہی ہے ان کے ذہن معصوم ہیں،لہٰذایہ ماں باپ اور تمام بالغ افراد کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کو بھی ان آفات سے بچانے کے لیے موثر اقدامات کریں کیونکہ یہ معاشرتی مسئلہ ہے یہی بچے، یہی نوجوان ہمارا اور قوم کا مستقبل ہیں اس لیے ہمیں انہیں مثبت سرگرمیوں سے روشناس کرانے اور ہر طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کی ممکنہ کوشش کرنی ہے۔ کام واقعی مشکل ہے اور بہت سارا وقت بھی درکار ہے مگر اپنے کل کو محفوظ کرنے کے لیے آج کا کچھ حصہ تو قربان کر سکتے ہیں۔ نتائج ان شاء اللہ پر امید ہوں گے۔

لغو باتوں (جن میں انٹرنیٹ بھی شامل ہیں ) سے اعراض کرنے کے بارے میں حضورانور ایدہ اللہ نے کئی مواقع پر نصائح فرمائی ہیں:’’پھر لغو باتیں ہیں۔ ان لغو باتوں کے لئے مَیں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں۔ وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے، لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کےلئے جو ٹی وی اور انٹر نیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ جوہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آ سکتیں اور بےحیائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسے معاملات آ جاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی ۱۷؍ستمبر ۲۰۱۱ء) (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ نومبر ۲۰۱۲ء)

بچوں کو سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

اپنے بچوں کو آن لائن گذاری جانے والی زندگی سے دور رکھنا ایک ایسی جدوجہد ہے جس سے اس مشکل میں مبتلا بہت سے والدین واقف ہوں گے۔ہمارے نوجوان متعدد گھنٹے انسٹاگرام پر لائیکس حاصل کرنے میں صرف کردیتے ہیں اور بعض اوقات انہیں سائبر ہراسگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنا وقت گیمز کھیلنے، یوٹیوب انفلوئنسرزکی ویڈیوز دیکھنے یا واٹس ایپ پر پائے جانے والے دوستوں کے مختلف گروپس پر بات چیت کر کے گزارتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پائے جانے والے مواد کی چھانٹی کرنے والے سافٹ ویئر برسوں سے موجود ہیں مگر والدین اکثر اوقات ٹیکنالوجی سے گھبراتے ہیں جس کے باعث وہ سافٹ ویئر کا ٹھیک سے استعمال نہیں کر پاتے۔اکثر اوقات بچوں کو اپنے اکاؤنٹس کے پاس ورڈز بھی والدین کے حوالے کرنا پڑتے ہیں جو گھر میں لڑائی کا سبب بنتا ہے۔مگر اب مارکیٹ میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے والدین کو ڈیجیٹل کنٹرول دینے کا وعدہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث والدین بآسانی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھ پائیں گے۔ سرکل کے علاوہ ڈِزنی، کوالا سیف اور آئکڈز ان سسٹمز کے نام ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ گھر میں موجود تمام ڈیجیٹل پراڈکٹس کو سمارٹ فون ایپ پر چند کلکس کے ذریعے سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔

اگر آپ چند مخصوص ویب سائٹس کو لے کر پریشان ہیں تو آپ گھر کے براڈ بینڈ کنیکشن پر سیف سرچ لگا سکتے ہیں جو مفت ہے اور شاید کافی بھی۔ اس کے علاوہ آپ گوگل سیف سرچ یا یوٹیوب پر ریسٹریکٹڈ موڈ لگا سکتے ہیں۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ آپ نئی طرز کے تیز رفتار راؤٹر خرید لیں جو نہ صرف تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کریں گے بلکہ ان میں پہلے سے ہی والدین کے لیے وہ طریقہ کار واضح ہے جس سے وہ انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والی سیوی سائبر کڈزکے بانی بین ہیلپرٹ کہتے ہیں جب بچے ایک مخصوص عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو یا تو ان کے دوست احباب انہیں طریقے بتا دیتے ہیں یا وہ خود ان پابندیوں سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ چاہے جس مرضی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیں مگر آپ کے بچے پھر بھی اس مواد کو دیکھ لیں گے جس سے آپ انہیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کے خیال میں بچوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔بہت سے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے بحث، تعلیم اور مذاکرات اُتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ اس مسئلے کے لیے کوئی تکنیکی حل نکالنا۔ (بی بی سی اردو سائٹ۔ تاریخ اشاعت ۱۲؍مئی ۲۰۱۹ء)

اس کے علاوہ کچھ جدید اور مفت ٹولز بھی آن لائن دستیاب ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان میں بعض کا مختصر تعارف ذیل میں پیش ہے:

•Google Family Link: This app allows you to set screen time limits, view app usage, and remotely manage your child‘s Android device. You can also approve or block app downloads and manage content filters.

•Apple Screen Time: Built-in to iOS devices, it provides features for managing and monitoring your child‘s device usage. You can set time limits, block certain apps or websites, and receive activity reports.

•Bark: It monitors text messages, social media platforms, and other online activities for signs of cyberbullying, explicit content, and other potential risks. It offers a limited free plan, as well as a premium subscription.

•Qustodio: Allows you to set screen time limits, block inappropriate content, and monitor social media activities. It provides detailed reports on your child‘s online behaviour and supports multiple devices.

•Norton Family: Offers features such as web filtering, time management, and location tracking. It allows you to monitor and block inappropriate websites and apps and set time limits.

•Mobicip: Provides content filtering, app monitoring, and time restrictions. It also offers browsing history reports and the ability to block specific websites or categories.

خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو اس بیماری سے بچائے اور ایک سچا خادم دین اور خلیفۂ وقت کا مددگاربنائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button