جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء کے دوسرے اجلاس کی کارروائی
دوسرے اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغازمکرم عبداللہ واگس ہاوزر صاحب امیر جماعت جرمنی کی زیر صدارت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ طارق چیمہ صاحب کو سورۃ ابراہیم کی آیات ۲۵تا۲۸کی تلاوت کرنے کی سعادت ملی۔ عزیز گھمن صاحب نے ان آیات کا جرمن ترجمہ اور پھر چودھری بہزاد احمد صاحب نے اردو ترجمہ از تفسیر صغیر پیش کیا۔ بعد ازاں ماہد الیاس صاحب نےحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا منظوم کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جس کا آغاز درج ذیل شعرسے ہوا:
اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحیٰ یہی ہے
پہلی تقرير طارق ہبش صاحب نے کی۔ مقرر نے کہا کہ بچپن میں ہمارے والدین کہا کرتے تھے ہمیں تم لوگوں سے بہت امیدیں ہیں۔ جب تم لوگ بڑے ہوجاؤ گے تو تم لوگوں کو یہاں کی زبان پر عبور ہو گا اور تم اس معاشرے کو سمجھ سکو گے۔ جب تم لوگ بڑے ہوجاؤ گے تو اس معاشرے کو سمجھتے ہوئے یہاں اسلام احمدیت کا پیغام بہتر طور پر پھیلا سکو گے۔ شاید یہاں موجود ماں باپ نے ایک اہم پہلو کو نظر انداز کر دیا۔ اور وہ یہ کہ دہریت کی دنیا کی کشش کتنی شدید ہوتی ہے۔ وہ دہریہ معاشرے جس کا کنڈرگارٹن سےلےکر یونیورسٹی تک سامناہے۔ اس میں بہت بہکاوے اور جھوٹے وعدے ہیں۔ وہ ایک دلکش پیشکش کے لبادے میں چھپ کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو آزادی اور رواداری کی اعلیٰ اقدار کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔
ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات مد نظر رکھنی چاہیے جو آپ نے تکنیکی لحاظ سے ترقی یافتہ انسان کے روحانی زوال کے تعلق میں فرمائی تھی۔ فرمایا کہ جو چیز روحانی لحاظ سے نہایت قابل نفرین ہے اسے حسین طرز معاشرت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آپ اس تناظر میں ان چیزوں کو زہر قرار دیتے ہیں جو تمام دنیا کو تباہ کر چکا ہے۔ فرماتے ہیں کہ خالص اور اعلیٰ سچائی کے ساتھ ہنسی اور ٹھٹھا کیا جا تا ہے۔
مقرر نے اس بات پرکہ انسان کے اس استہزا کی کیا وجہ ہے ؟ کے بارہ میں بتایاکہ ایک طرف تو اسے یہ دعویٰ ہے کہ اُس زمین کے طول و عرض کا مکمل احاطہ کر لیا ہے۔ دوسری طرف اس کا آزادی و رواداری کا تصور اسے اس گمان میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اس نے ایک روشن اخلاق اور آزاد معاشرے کی کنجی پالی ہے۔ مغربی معاشرے کے تشخص کے لیے دو چیزیں مرکزی ہیں یعنی آزادی اور رواداری۔ یہ دونوں اقدار اسلام میں مضبوطی سے قائم ہیں۔
جب ہم اکیسویں صدی میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا آزادی اور رواداری میں حد سے زیادہ تجاوز بھی ممکن ہے ؟ آپ پوری ہوشمندی کے ساتھ ان امور کا مشاہدہ کریں جن کا آپ کے بچوں کو آج کل سامنا ہے۔ ان کو ایک زہر دیا جارہا ہے یہ زہر فلموں۔ ٹی وی – کتابوں اور رسالوں حتیٰ کہ درسی کتابوں اور لیکچر رومز تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک تصور انسانی اور آئیڈیالوجی ہے جس کی جارحانہ رنگ میں حمایت کی جاتی ہے۔ ہر ایک کو مجبور کیا جاتاکہ اس تصور انسانی کو نہ صرف برداشت کرے۔ بلکہ اس کی تصدیق کرے اور اسے درست مانے۔
پھر مقرر نے ا یل جی بی ٹی کے بارے میں کہاکہ امسال تمام جون کا مہینہ اسی موضوع کے گرد گھومتا رہا۔ اسے پرائڈ منتھ Pride monthقرار دیا گیا۔ اس کے لیے ساری دنیا میں مہم چلائی گئی۔ حکومتی عمارتوں پر دھنک والا جھنڈا جو ایل جی بی ٹی کی علامت ہے لہرایا گیا۔ ان کے حقوق کے لیے فعال کارکنان نے دو جسمانی صنفیں اور پچیس جنسی رجحانات کو قبول کرنے کے لیے آواز اٹھائی۔ سکولوں کے نصاب میں تبدیلی کی گئی۔ جرمنی کی قومی فٹبال ٹیم کے قطر میں دھنک والے بازوبند پہنے گئے۔
ایل جی بی ٹی کی آئیڈیالوجی مغرب کے طاقت ور اور پُراثر اداروں کی جانب سے مستقل پھیلائی جارہی ہے۔ اسے بظاہر دھنک یا قوس قزح کے بے ضرر لبادے میں پیش کیا جاتا ہے اور حریت اور معاشرتی پابندیوں سے آزادی کی جدو جہد قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن در حقیقت اس طرح انسان اور معاشرے پر جنسیت مسلط کی جارہی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ بے حیائی ہوگا۔ جو خدا سے دور کرکے دکھوں اور تکالیف میں اضافہ کرنے والی ہوگی۔
اس آئیڈیالوجی کا سب سے زیادہ تشویش ناک حصہ ٹرانس جینڈر تحریک ہے جس کے بارے میں میں ذیل میں قرآن کریم کی روشنی میں گفتگو کروں گا۔ قرآن کریم کے اعجازات میں یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم مستقبل کی سائنسی ترقیات کی پیشگوئی فرماتا ہے۔ اسی طرح قرآن نے کہا کہ شيطان بولا…میں ضرور انہیں حکم دوں گاتو وہ ضرور اللہ کی تخلیق میں تغیر کر دیں گے۔
آنحضور کے صحابہ کے لیے یہ آیت کتنی حیران کن ہوگی۔ کس طرح کوئی سوچ سکتا تھا کہ انسان خدا کی مخلوق جیسے جانور انسان اور نباتات کو تبدیل کر دے گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس آیت کو جینیٹک انجینیئرنگ سے منسوب فرما یا تھا۔
کیا یہ چیز ٹرانس جینڈر تحریک سے کسی طرح مختلف ہے؟ دونوں صورتوں میں خدا کی مخلوق میں تبدیلی کی جاتی ہے یا اسے مسخ کیا جاتا ہے۔ ایسے بچے جو ابھی سن بلوغت تک نہیں پہنچے انہیں ایسی ادویہ دی جاتی ہیں۔ وہ بچے سمجھتے ہیں کہ وہ ایک غلط جسم میں ہیں۔ یہ ہارمونز پر مبنی علاج ہے جس کا مقصد جسم کی قدرتى نشوو نما كوروكنا ؛ اس کے بعد بلوغت آنے پر آپریشن کیے جاتے ہیں مثلاً لڑکیوں کی چھاتیوں کو کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ ایک عورت کو ایک مرد میں تبدیل کیا جا سکے۔
اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ اس کی کوئی نفسیاتی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ بلکہ اس ضمن میں ایسے نفسیاتی علاج پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ بہت سے مغربی ممالک میں ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو جنس کی تبدیلی کے لیے سہولیات کا باعث ہوںگے۔ جرمنی میں ایک قانون خود ارادیت بنایا جارہا ہے جس کے مطابق کوئی بھی سال میں ایک مرتبہ بغیر کسی پیچیده دفتری کارروائی کے اور بغیر کسی طبی ماہر کی رپورٹ کے اپنی جنس تبدیل کروا سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ نوے فیصد بچے جو بلوغت سے پہلے خود کو ایک غلط جسم میں محسوس کرتے ہیں بلوغت کے بعد ان کا یہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے جسم سے کافی حد تک مطمئن رہتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو جنس کی تبدیلی کروانے کے بعد پچھتا رہے ہیں۔
اصولی امر اس ضمن میں یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر آئیڈیالوجی کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے تخلیقی نظام پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن میں کئی مقامات پر فرماتا ہے کہ خدا نے انسان کو جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا۔ یہ آئیڈیالوجی کہتی ہے کہ دو سے زیادہ قسم کی جنس ہو سکتی ہے۔ جیسا اوپر ذکر آیا کہ ٹرانس جینڈر تحریک ایل جی بی ٹی آئیڈیالوجی کا حصہ ہے۔ چونکہ اس کا اثر بڑھتا جارہا ہے اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی بنیاد کیا ہے۔ اور یہ کن مسائل کا باعث بنتی ہے تو یہ ہے کہ معاشرے پر جنسیت مسلط کی جاتی ہے۔ کنڈرگارٹن میں ہی بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ جنس کی کئی قسمیں ہیں۔ ہم اور بالخصوص ہمارے بچے ایک تہذیبی جنگ سے دوچار ہیں جس میں ایک فریق یہ کہتا ہے کہ جنسی خواہشات کی ہر طرح سے تسکین ہی خوشی کا باعث ہے جبکہ دوسرے فریق کو اس بات کا ادراک ہے کہ جنسی جذبہ انسانی زندگی کا صرف ایک پہلوہےجس پر حدود و قیود لگانی ضروری ہیں ورنہ وہ اخلاقی اور جنسی وحشی پن کی طرف لے جائے گا۔
ہمیں بحیثیت مسلمان ہمارے روحانی امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ الله تعالیٰ کی اطباع میں بغیر کسی شرم اور ہچکچاہٹ کے اس بات کا بر ملا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اس طرح کے رجحانات کو اخلاقی ترقی نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس ایسے عوامل کا یہ لازمی نتیجہ ہوگا کہ معاشرے کے اخلاق تباہ ہو جائیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ جنس اور اخلاقیات کا باہم تعلق ہے۔ جیسے فرائڈ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شرم کا خاتمہ وحشی پن کا آغاز ہوتا ہے۔
ساٹھ کی دہائی تک ازدواجی تعلقات سے متعلق مسیحی تعلیم مغربی معاشرے میں قائم تھی اور اس طرح جنسی بے راہ روی کے راستے میں رکاوٹیں تھیں۔ اس کی وجہ واضح تھی۔ جنسی تعلق کا نتیجہ حمل تھا اور خواتین یہ چاہتی تھیں کہ ازدواجی تعلق صرف شادی کے قانونی دائرے میں قائم ہو۔ کیونکہ یہ ان کے مفاد میں تھا کہ اولاد کی پرورش مادی اور نفسیاتی لحاظ سے محفوظ ماحول میں ہو۔ بعض دور اثر سماجی انقلابات اور بالخصوص مانع حمل ادویہ کی ایجاد سے سب تبدیل ہو گیا۔ اچانک یہ ممکن ہو گیا کہ جنسی تعلق کے ساتھ حمل کا خوف لاحق نہ رہا۔ اس طرح اُس تبدیلی کا راستہ ہموار ہو گیا جسے مغرب میں جنسی انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اکثر کا یہی خیال ہے کہ جنسی انقلاب ایک بڑی کامیابی تھی۔ کیوں کہ اس کے ذریعہ انسان مسیحیت کی جسمانی لذات کی دشمن اخلاقیات سے آزاد ہو گیا۔ یہ واضح ہے کہ مسیحیت کی جنسی تعلیم جو مجرد یا غیر شادی شدہ رہنے کو نصب العین قرار دیتی ہے فطرت انسانی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسی تعلیم کو اسلام پسند نہیں کرتا۔ قرآن کریم صاف طور پر فرماتا ہےکہ خدانے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ اس کے برعکس جنسی جذبہ خدا نے انسان کو اس لیے دیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نسل انسانی آگے چل سکے۔ اسلام جنسی جذبہ کو دبانے کے حق میں نہیں بلکہ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے ازدواجی تعلق کے قائم کرنے کو اسلام ایک اچھا عمل قرار دیتا ہے۔ جائز طریق یہ ہے کہ اس تعلق کو اولاد کے حصول کے مقصد سے قائم کیا جائے۔ مگر مذکورہ جنسی انقلاب کے ماننے والے ازدواجی تعلقات کے بارے میں بالکل اس سے برعکس تعلیم دیتے ہیں۔
مقرر نے کہا کہ یہ بات مسلم ہے کہ ایل جی بی ٹی کی تحریک کی نظریاتی بنیادیں رکھنے والے لوگوں نے ایک زمانہ میں ایک پیٹیشن داخل کی تھی جس میں وہ برملا پیڈوفیلیا کو درست قرار دیتے تھے۔ ان میں۔ Foucault, Derrida, Althusser نامی مشہور فلسفی شامل تھے۔ حقوق نسواں کی حامی مسزپیری نے جنسی انقلاب کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام
The case against the sexual revolution
اس میں وہ تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مانع حمل ادویہ کی ایجاد اور مغرب کی حد سے زیادہ جنسیت زدہ معاشروں نے انسان کی خوشحالی اور خاندنی زندگی پر کس قدر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ تمام سائنسی تحقیقات کے مطالعہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ صرف مضبوط ازدواجی رشتہ ان شرائط کو پوری کرتا ہے جو ماں اور بچے کے تعلق اور بچے کی اعلیٰ نشوو نما کے لیے بہترین ہیں۔ تمام ریکارڈ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ بچے جو ماں اور باپ دونوں کے زیر سایہ پلیں ہر لحاظ سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں ان بچوں کے مقابلے میں جو تنہا والد یا والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔
مقرر نے کہا کہ اصولی طور پر سوال یہ ہے کہ مرد و عورت کا تشخص اور مقام کیا ہے۔ اسلام اس بارہ میں واضح ہے کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ نیک مرد اور نیک عورتیں دونوں کو خدا سےاجر ملے گا۔ خدا کی طرف سے نیکی کے اجر کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ آزادی نسواں کے انتہا پسند علمبرداروں کی طرف سے جو یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ عورت کے لیے بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کو ترک کرنا ضروری ہے تبھی وہ آزاد کہلا سکتی ہیں غالباً اس کی یہ وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں خواتین عزت و وقار حاصل نہیں کر سکتیں اگر وہ روایتی فرائض کی انجام دہی کو ترجیح دیں۔
پھر خاندان یا فیملی اچھے معاشرے کی اساس ہوتے ہیں۔ اسلام فیملی کی حفاظت فرماتا ہے۔ اس طرح کہ وہ پردہ یا مخالف صنفوں کے الگ الگ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مغرب کی جنسی آزاد خیالی اس تعلیم کے بالکل منافی ہے۔ جو بات صدیوں سے مسلم تھی وہ ہم جنس پرستی کی تحریک نے چند دہائیوں میں تباہ کر دی۔ مرد و عورت کا ازدواجی رشتہ ایک ایسا تعلق ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔ کیونکہ اس پر نسل انسانی کی بقا منحصر ہے۔
نوجوان ایسے معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جس میں یہ بالکل عام سی بات ہے کہ کوئی اپنے آپ کو ہم جنس پرست یا ٹرانس جینڈر کہے۔ ہر ایک کو واضح ہونا چاہیے کہ اسلام میں ہم جنس پرست شخص کا بحیثیت معاشرتی طبقہ کے کوئی وجود نہیں۔ قدیم عربی میں اس کے لیے کوئی لفظ نہیں۔ مغرب میں بھی ہم جنس پرستی کا لفظ انیسویں صدی کے وسط سے موجود ہے۔ اس زمانہ میں ایک جرمن ڈاکٹر نے ہم جنس کی طرف کشش کو یہ نام دیا تھا۔
اگر یہ مغربی معاشرہ ایسے ہی ہم جنس پرستی کی زور و شور کے ساتھ نمائش اور حمایت کرتا رہاتوپھر ہو سکتا ہے کہ غضب الٰہی پھر سے نازل ہواور معاشرہ سزا کا مستحق ٹھہرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ قوم لوط کے مسکن شہرسدوم کی تباہی کا تعلق لواطت کے گناہ سے تھا۔ اس سے یہ مراد ہے کہ اگر کوئی قوم اس عمل کو جس کا مقصد بقائے انسانی ہے مسخ کر دے اور اسے استعمال کرے تو پھر اس کے لیے اس مقصد کا حصول یعنی بقا انسانی ناممکن بنادیا جاتا ہے۔ پس اس قوم کی تباہی اس کے غلط اعمال کا جو بقائے نسل کے دشمن ہیں منطقی نتیجہ تھا۔ غلط طریق سے۔
ابھی تک میں نے ہم جنس پرستی کی ممانعت کے دینی پہلوؤں پر بات کی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مغرب کی نظر میں ایسی بات کو ہم جنس پرستوں سے نفرت کا مترادف سمجھا جاتا ہے اور یہ بوموفوبیا کہلاتا ہے۔ وضاحت کی غرض سےمندرجہ ذیل امر کا اظہار ضروری ہے۔
حضور اقدس نے فرمایا ہے کہ نفسیاتی اور دوسرے علاج سے ہم جنس پرست لوگ اس میلان کو چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے۔ غرض ہم جنس پرستی کی خواہشات مختلف وجوہات کی بنا پر انسان میں پیدا ہو سکتی ہیں اور خواہشیں جن کو اعتدال میں نہ لایا جائے اور اعلیٰ اخلاقی عادات میں تبدیل نہ کیا جائے تو وہ انسان کی روحانیت اور اخلاقیات تو تباہ کردیتی ہیں۔ یہ بات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی معرکہ آرا تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی میں بیان فرمائی ہے۔
پس اسلام ہم جنس پرستی کی مذمت کیوں کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں ایسی خواہشات جو اپنے خدا کی طرف سے مقرر کردہ مقصد کی بجائے کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوں۔ اور جن کا مطلب عارضی لذات کا حصول ہو ایسی خواہشات انسان کے اخلاق اور روحانیت کو کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ یہ ہم تب سمجھ سکتے ہیں جب ہم حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب اسلام اصول کی فلاسفی کی تعلیمات کو مد نظر رکھیں۔ اس کے مطابق انسانی معاشرہ ایک حیوانی طرز حیات پر مبنی ہو سکتا ہے جس میں وہ صرف نفس امارہ کے پیچھے چلتا ہے۔ مگر وہ ایسی کیفیت سے چھٹکارہ پاکر اعلیٰ اخلاقی اور روحانی مقام بھی حاصل کر سکتاہے۔ نفس امارہ ان جذبوں کا سرچشمہ ہے جو محض بقائے ذات اور بقائے نسل کے کام آئیں۔ مگر یہ جذبے اخلاقی حالتوں میں بدل سکتے ہیں اگر عقل اور تعدیل سے ان کو استعمال کیا جائے۔ اگر انسان ان جذبوں کو کھلا چھوڑ دے تو اس میں لطیف اور اعلیٰ صفات پیدا نہیں ہوتیں۔
حضرت مسیح موعودؑ ایک ایسے دَور میں آئے جب شیطان اپنے پورے زوروں پر ہے۔ وہ اپنی طاقت سے انسانوں کو گمراہ کرتا ہے اور انہیں دھوکا دیتا ہے اور شک پیدا کرتا ہے۔ وہ اسے صرف جسم تک محدود دیتا ہے اور اس سے یہ سرگوشی کرتا ہے کہ اس کی کوئی روح نہیں۔ خدا کی رحمت نے تقاضا کیا کہ اس دور میں جب کہ باطل اپنی کارروائیوں میں عروج پر پہنچ گیا ہے۔ تو حق بھی آسمان سے ایک مستقل بارش کی صورت میں نازل ہوتا رہے۔ اس لیے خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا۔ آپ خدائی نور کے ساتھ جدید دور کے اندھیروں سے روشنی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے اور اس باطل کا سامنا کرتے ہوئے اپنے دست و پا کو شل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
مکرم نورالدین اشرف صاحب مربی سلسلہ نے حضرت مصلح موعودؓ کے کلام
باب رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا
جب تمہارا قادر مطلق خدا ہو جائے گا
سے چند اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔
اگلی تقریر مکرم شمس اقبال صاحب نے ’’میدان عمل میں مبلغین اور داعیان الی اللہ کے ساتھ تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات‘‘ کے موضوع پر کی۔اس تقریر کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل ۱۶؍ستمبر۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع کیا گیا ہے۔