متفرق مضامین

پانی کےقطرے کا سفر

میں زمین پر کہاں، کیسے اور کب آیا؟ یہ جاننے میں آپ انسانوں کو بہت وقت لگا۔ابتدائی انسان زیر زمین میری موجودگی سے بھی لا علم تھے۔ان کا خیال تھا کہ جب سمندری طوفانوں کے دوران زبردست تیز ہوائیں چلتی ہیں تو زیر زمین خفیہ راستوں سے سمندر سے ہوتا ہوا میں ان تک پہنچتا ہوں اور یہ خیال کئی صدیوں تک آپ انسانوں میں راسخ رہا۔ انیسویں صدی عیسوی تک عظیم فلسفی ارسطو کا نظریہ مقبول ہوا جس کے مطابق پہاڑوں پر منجمد برف میں تکثیف کا عمل زیر زمین آبی جھیلیں بنانے کا سبب بنتا ہے۔ وقت گزرتا رہا اور حضرت انسان میری تخلیق کا باعث بننے والے اسباب کے متعلق مختلف نظریات قائم کرتا رہا۔ عصر حاضر کے انسان کا ماننا ہے کہ میرا سفر ۴.۶ ارب سال قبل تب شروع ہوا جب ہمارے نظام شمسی کا جنم ہو رہا تھا۔ گیس اور دھول کے وسیع بادل فضامیں معلق تھے۔ان بادلوں میں آکسیجن اور ہائیڈروجن کے ایٹم میں پھیلاؤ تیزی سے جاری تھا۔آکسیجن اور ہائیڈروجن کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ یہ کائنات میں پائے جانے والے وافر عناصر میں سے ہیں۔ کئی ملین سال کے دوران انتہائی ردعمل کے حامل ان دونوں عناصر کا تعامل ہوا۔ ایک ایٹم آکسیجن اور دو ایٹم ہائیڈروجن کے اختلاط سے میری شکل واضح ہوئی اور میں (پانی کے) ایک مالیکیول کی شکل میں سامنے آیا اور تب سے آج تک میرا لا متناہی اور زندگی بخش سفر مسلسل جاری ہے۔

دھول کے وسیع بادلوں میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بننے والے پانی کے قطرے آہستہ آہستہ برف کے کرسٹل میں ڈھلنا شروع ہوئے۔دھول کی مانند برف کے یہ بادل وقت کے ساتھ مزید گھنے ہوتے گئے اور ان میں میرا وجود بھٹکتا رہا۔کشش ثقل ان بادلوں پر زور آزمائی کرتی رہی اور میرا وجود بھی بادلوں کی اطاعت میں خلامیں چاروں طرف کسی دیوانے کی مانند محو رقص تھا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان میں میرے جیسے ایک ایک قطرے کو ملا کر اتنا پانی تھا کہ زمین پر موجود اس وقت تمام سمندروں اور دریاؤں کو تین ملین بار بھرا جا سکتا تھا۔ نظام شمسی کی تکوین جاری تھی، جن بادلوں میں میں بھٹک رہا تھا وہ بادل نوجوان ستاروں کے گرد گھومنے لگے۔ان میں گیسز تھیں، دھول تھی، کئی طرح کا مواد تھا اور میں تھا۔ کشش ثقل کے باعث یہ مواد بادلوں کے وسط میں جمع ہو رہا تھا جس کے نتیجے میں دباؤ اور درجہ حرارت بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ دباؤ اور درجہ حرارت جب اپنی انتہاکو پہنچا تو عظیم الشان دھماکے ہوئے جو کہ میرے لیے ایک بری خبر تھی۔ نئے ستاروں کے پیدا ہونے کے دوران ان کا ماحول نہایت گرم اور جارحانہ تھا جس کے نتیجے میں میں کسی بھی نئے پیدا ہونے والے ستارے کے پاس نہیں رہ سکتا تھا۔ ۳.۹ بلین سال قبل جب ہمارے نظام شمسی کے دو بڑے سیارے زحل اور مشتری دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے اور قریب آنے کے بعد ردعمل کے طور پرانہوں نے ایک دوسرے کو دھکیلا تو پورا نظام شمسی اس دھکم پیل کے نتیجے میں متاثر ہوا۔ نیپچون اور یورینیس نے اپنے اپنے مدار بدل لیے اور شہوب ثاقبہ کی برسات ہونے لگی۔ جن جن سیاروں پر یہ برسات ہوئی ان میں آپ کی زمین بھی شامل تھی۔ ان شہوب ثاقبہ کے معائنہ سے پتا چلا کہ ان میں بہت سارے منرل کے ساتھ میرے مالیکیول بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ اتنے زیادہ نہیں تھے کہ زمین پر میری اتنی بڑی مقدار میں موجودگی کی دلیل ہوتے۔تو پھر میں اتنی زیادہ مقدار میں زمین پر کیسے آیا ؟ ۲۰۰۴ء میں ہونے والی ایک تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ باقی کی مقدار کاپر بیلٹ سے آئی جس میں Cometتھے اور ان میں میرے ساتھ گیسز کا مجموعہ تھا لیکن یہ برف کی صورت میں تھا۔ یہ اس دوران ہوا جب مشتری اور زحل ایک دوسرے کے قریب آئے تھے۔ اس دوران یہ Cometبھی زمین کی طرف آئے اور اپنا اثاثہ یعنی مجھے زمین کو سونپ دیا۔ اس وقت زمین بہت گرم تھی اور درجہ حرارت کا اندازہ دو ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک تھا۔ پھر بارشوں کے ایک طویل سلسلے کے نتیجے میں زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اور میں جو زندگی کے آغاز کا سبب تھا وافر مقدار میں زمین پر پھیل گیا اور زمین کے ستر فیصد رقبہ کا احاطہ کر لیا۔ یوں زمین پر میرے اس سفر کا آغاز ہوا جو دم تحریر تسلسل سے جاری و ساری ہے۔

میں اس زمین پر زندگی پنپنے کا سزا وار ہوں جسے خالق نے اپنے پاک کلام میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ(الانبیاء : ۳۰) اور ہم نے پانی سے ہر جاندار کو پیدا کیا۔زمین پر ہر جاندار کی بقاکی ضمانت ایسے نظام سے وابستہ کر دی جو ہر پہلو سے مکمل تھا۔ اس نظام کے تحت سورج کی تپتی شعاعوں سے میں بخارات میں تبدیل ہوا اور ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا فضامیں معلق ہو گیا۔ ٹھنڈی فضا کی بدولت میں نے بوندوں اور برف کی شکل اختیار کر لی اور قطرہ قطرہ گالا گالا اس مجموعہ کا نام آپ انسانوں نے بادل رکھ دیا۔ اور خدا وندکریم نے زندگی بخش پیغام لیے سفر پر نکلنے والے ان بادلوں کی منزلیں طے کرنے والی ٹھنڈی ہوائیں چہار سو چلا دیں۔ اس ساری کارروائی کی منظر نگاری سورہ نور آیت ۴۴؍ میں رب کائنات نے کچھ اس طرح کی:کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے پھر اُسے اکٹھا کر دیتا ہے پھر اسے تہہ بہ تہہ بنا دیتا ہے پھر تُو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ سے بارش نکلنے لگتی ہے۔ اور وہ بلندیوں سے یعنی ان پہاڑوں سے جو اُن میں واقع ہیں اَولے اتارتا ہے اور پھر جس پر چاہتا ہے اس پر انہیں برساتا ہے اور جس سے چاہے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔

میرا یہ سفر جاری ہے اور جب تک خدا چاہے گا یوں ہی جاری و ساری رہے گا اور میرے وجود سے زندگی پنپتی رہے گی۔

(م۔ظفر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button