احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
علم اور کتب خانہ سے محبت
(گذشتہ سے پیوستہ) حضرت اقدس کی سوانح میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کو مطالعہ میں ازحدشغف تھا اوراسی قدر آپ کے والد ماجد آپ کے متعلق فکرمند رہاکرتے تھے۔باپ کی اس محبت اور بیٹے کے شوق مطالعہ کامنظر دیکھیے…ایک چشمدید راوی کا بیان ہے کہ مرزاصاحبؑ [حضرت اقدس ] کے اردگرد کتابوں کاڈھیر لگا رہتا تھا۔ اور ایک اَورچشمدید راوی نے بیان کیا کہ آپؑ کے والدماجد جب آپ کے کثرت مطالعہ کو دیکھتے تو اس راوی کو یہ کہتے ہوئے فرماتے کہ’’سنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے؟…اور…کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔‘‘ (حیات احمد جلداوّل صفحہ۴۳۶)
ایک پنڈت صاحب نے بتایا کہ مرزا صاحب کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ’’غلام احمد تم کو پتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے۔ اور بیٹھتے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب مَیں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۷۵۹)
حضرت اقدسؑ ایک جگہ خودبیان فرماتے ہیں :’’اوران دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۸۱، حاشیہ)اوردوسری طرف آپ کے والدمحترم اپنے بیٹے کی اس زندگی پرمطمئن اورخوش بھی تھے بلکہ رشک بھی کرتے تھے۔چنانچہ حضور علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :’’ اُن دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والدصاحب اوربھائی صاحب طرح طرح کے ہموم وغموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت دیکھ کررشک کھاتے اورفرمایاکرتے تھے کہ یہ بڑاہی خوش نصیب آدمی ہے۔اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا۔‘‘( ملفوظات جلداول صفحہ ۳۲۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
ایک اورمعززہندوجاٹ جوکہ آپ سے عمرمیں کوئی بیس برس بڑاتھااورحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے ہاں ان کاآناجاناتھاوہ بیان کرتےہیں کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’یہ میرابیٹا ملّا ہی رہے گا… ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسرکرے گا۔ہےتویہ نیک،صالح مگراب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کاہے۔پھر آب دیدہ ہوکر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمدکاہےوہ ہماراکہاں ہے۔یہ شخص زمینی نہیں آسمانی، یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔‘‘(تذکرة المہدی حصہ دوم صفحہ۳۰۲)
آپؒ کو قتل کرنے کا منصوبہ اور الٰہی حفاظت
آپؒ ایک ریاست کے سربراہ تو تھے ہی۔مخالفین آپ کی جان کے دشمن تھے۔آپ کے والد بزرگوارکو بھی زہر دے کرمارا گیا تھااوراب ان کی جان کے درپے تھے۔ اور ایک وسیع جائیدادکے مالک ہونے کی وجہ سے اپنوں کی آنکھوں میں بھی کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔وہ بھی تاک میں رہتے کہ آپ کوختم کرکے جائیدادپر اکیلے قابض ہو جائیں۔لیکن ’’جیکو رکھے سائیاں مارسکے نہ کوئے‘‘۔بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ثابت ہوتا رہا اور ہربار وہ قادرخدا اپنے اس بندے کو بچاتارہا۔سکھوں نے تو ایک دفعہ آپ کو پکڑکر قیدکرلیا اور قتل کرنے کی تیاری کی تھی کہ الٰہی نصرت نے معجزانہ طورپر بچا لیا۔
چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ نے سیرت المہدی کی ایک روایت میں یہ تفصیل کچھ اس طرح سے بیان فرمائی ہے:’’بیان کیا مجھ سے ہماری پھوپھی صاحبہ یعنی مرزا امام الدین کی ہمشیرہ نے جو ہماری تائی کی چھوٹی بہن ہیں اور مرزا احمدبیگ ہوشیار پوری کی بیوہ ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے والد اور تایا کو سکھوں نے بسرا واں کے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور قتل کا ارادہ رکھتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ غالباً سکھوں کے آخری عہد کی بات ہے جبکہ راجہ رنجیت سنگھ کے بعد ملک میں پھر بدامنی پھیل گئی تھی۔ اس وقت سنا ہے کہ ہمارے دادا اور ان کے بھائی مرزا غلام محی الدین صاحب کو سکھوں نے قلعہ میں بند کر دیا تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جب مرزا غلام حیدر ان کے چھوٹے بھائی کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے لاہور سے کمک لا کر ان کو چھڑایا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے بسراواں قادیان سے قریباً اڑھائی میل مشرق کی طرف ایک گاؤں ہے۔ اس زمانہ میں وہاں ایک خام قلعہ ہوتا تھا جو اب مسمار ہو چکا ہے مگر اس کے آثار باقی ہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر۶۷)
خاکسار عرض کرتاہے کہ اس قلعہ کے آثارخاکسارنے ۲۰۱۲ء میں خودبھی جاکے دیکھے ہیں۔وہاں کے عمررسیدہ لوگوں سے معلوم کیاہے جنہوں نے اس ویران قلعہ کی چھتیں اورگرتی ہوئی دیواریں دیکھی تھیں۔قلعہ کافی اونچی جگہ پرواقع تھا۔
آپؒ کے قتل کرنے کی سازش کا ایک واقعہ سیرت المہدیؑ اور Life of Ahmada.s اور حیات احمدؑ میں بیان ہواہے۔مؤلف ’’حیات احمدؑ ‘‘یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس خاندان کے ساتھ کچھ یہ خصوصیت چلی آتی ہے کہ بنی عمام (چچازادوں) کی طرف سے ہمیشہ ان کو تکالیف پہنچتی رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے قتل کا منصوبہ مرزا امام الدین صاحب آپ کے برادر زادہ نے کیا۔یہ شخص مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے خاندان کا آخری وقت تک دشمن رہا اور نہایت تلخی کے ساتھ وہ اپنے منصوبوں میں ناکام رہا۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے قتل کا منصوبہ اس نے کیااور سوچیت سنگھ نامی ایک شخص ساکن بھینی کو اس غرض کے لئے اپنے ساتھ ملا کر مامور کیاکہ وہ موقعہ پاکر قتل کر دے۔سوچیت سنگھ کا اپنا بیان حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی حفاظت کے متعلق اعجازی رنگ رکھتا ہے۔ مرزا صاحب اس وقت جس بالا خانے میں رہتے تھے وہاں اس دیوار پر سے چڑھ کر جا سکتے تھے۔جہاں آجکل نواب محمد علی خان صاحب نے مکانا ت بنوائے ہوئے ہیں یہاں ایک کچا دیوان خانہ تھا۔اور ایک عرصہ تک حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعودؑ کے زمانہ میں یہاں لنگرخانہ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے۔میں متعدد مرتبہ اس کچی دیوار پر سے اوپر چڑھا۔میں نے جب دیکھا تو مجھے وہاں دو آدمی ان کے محافظ نظر آئے۔اور اس خوف سے میں نہیں جاسکا۔اور بالآخر میں نے اس ارادہ بد سے توبہ کی۔
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس فی الواقعہ کوئی محافظ نہ تھے۔مگر یہ تصرف ربانی تھاکہ سوچیت سنگھ کو ہمیشہ وہاں دو پہرہ دار نظر آتے تھے۔اور اس حفاظت وصیانت الٰہی نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو اس ناپاک منصوبہ سے بچا لیا۔‘‘ ( حیات احمدؑ جلداول صفحہ۶۲)
ایک دیندار اور خداپرست انسان
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے جتنے سوانح ہمارے سامنے بیان ہوئے ہیں ان پریکجائی نگاہ ڈالی جائے توآپ کے متعلق ایک بات جو سب سے نمایاں طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپؒ ایک ایسے بزرگ انسان تھےجو باوجود دنیاکے دھندوں میں مصروف رہنے کے اپنے خداکے ساتھ ایک ایسا تعلق رکھے ہوئے ضرورتھے کہ دنیاوی دھندوں کی دھول تو اس پر پڑتی رہی لیکن وہ دل اپنے خداکی یاد سے غافل نہیں رہا۔اس بزرگ انسان کی سوانح پڑھتے ہوئے ذرا اس کے قریب ہوں تو اس کے دل سے نکلنے والی یہ صدا ہم سن سکتے ہیں کہ [بقول غالب]
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
ان کے پاک دل کا ایک گوشہ اپنے خالق اورمالک کی ذات کے ساتھ وابستہ ضرور تھا۔اور یہ وابستگی آپ کی زندگی میں ایک چنگاری کی طرح رہی جس کی حرارت کبھی قریب رہنے والے اور دیکھنے والے محسوس کرتے اور اہل دل مشاہدہ کرتے رہے۔لیکن یہی چنگاری ان کی زندگی کے آخری وقت میں بھڑک کر شعلہ سا بن کر سامنے آتی ہے۔
حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدؑیہ اپنے والد بزرگوار کی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیوی کدورتوں سے پاک ہے۔ اگرچہ حضرت مرزا صاحب کے چنددیہات ملکیت باقی تھے اورسرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام بھی سالانہ مقرر تھا اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی۔ مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ ہیچ تھا۔ اسی وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے۔ اور بارہا کہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لیے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا تو شاید آج قطب وقت یا غوث وقت ہوتا اور اکثر یہ شعر پڑھاکرتے تھے
عمر بگذشت و نماند ست جز ایّامےچند
بہ کہ در یاد کسے صبح کنم شامے چند
[ترجمہ ازمصنف:میری ساری عمر گزرگئی اور اب تو سوائے چند دنوں کے کچھ نہیں رہا۔اب تو بہتر ہے کہ یہ چند صبحیں اور شامیں میں کسی یعنی اپنے محبوب خداکی یاد میں گزاردوں]
اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ وہ ایک اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے تھے اور وہ یہ ہے
از درِ تو اے کسِ ہر بیکسے
نیست امیدم کہ روم نا امید
[ترجمہ از مصنف :اے ہر بے سہاروں کے سہارے ! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔]
اور کبھی درد دل سے اپنا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
بآب دیدۂ عشاق وخاکپائے کسے
مرا دلےست کہ درخوں تپد بجائے کسے‘‘
[ترجمہ از مصنف:کوئی تو عاشقوں کی آنکھوں کا پانی اور کوئی ان کی خاکِ پا ہوتاہے۔لیکن میری دلی تمنا ہے کہ کسی اور کی بجائے میں خون میں تڑپوں ](کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۸۸-۱۸۹، حاشیہ)
آخری عمر کایہی تاسف توتھا جو ساری عمرکی کوتاہیوں کا مداواکرگیا اوراس کریم اور شکور خدااور غفور اور رحیم خدا نے، اس کی شان کریمی نے اس عرق انفعال کے موتیوں کو چن لیا اور اپنی درگاہ میں قبول کیا۔اور ایسا خوبصورت انجام کیا، ایسا خاتمہ بالخیر کیا کہ ریاضتیں اورعبادتیں اس پر نثار!
یہاں میں آپ کی ایک رؤیا کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتاجس میں انہوں نے دونوں جہانوں کے شہنشاہ رحمۃ لعالمین حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ ہرچند کہ اس کی تعبیر جو بھی سمجھی جائے لیکن اس ہستی کا خواب میں نظر آجانا ہی ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ اوربخشش و مغفرت کے لیے کافی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس رؤیا کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔ یہ دیکھ کر میں چشم پُرآب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے…‘‘
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۱۸۹-۱۹۰، حاشیہ)
آپ کی ایک اور رؤیا کا ذکر حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں :’’ایک دفعہ ہمارے والد صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ آسمان سے تاج اترااور انہوں نے فرمایا یہ تاج غلام قادر کے سر پر رکھ دو (آپ کے بڑے بھائی ) مگر اس کی تعبیر اصل میں ہمارے حق میں تھی جیسا کہ اکثر دفعہ ہوجاتاہے کہ ایک عزیز کے لئے خواب دیکھو اور وہ دوسرے کے لئے پوری ہوجاتی ہے۔اور دیکھو کہ غلام قادر تووہی ہوتاہے جو قادر کاغلام اپنے آپ کو ثابت بھی کردے اور انہیں دنوں میں مجھ کو بھی ایسی ہی خوابیں آتی تھیں۔پس میں دل میں سمجھتا تھا کہ یہ تعبیر الٹی کرتے ہیں۔اصل میں اس سے مَیں مراد ہوں۔سید عبدالقادر جیلانی نے بھی لکھا ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتاہے کہ اس کا نام عبدالقادر رکھا جاتاہے جیسا کہ میرانام بھی خداتعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے عبدالقادر رکھا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۹ صفحہ ۲۰۲)
آپ کی بزرگی اور آپ کاخداکے ساتھ جوایک تعلق تھا اس کو غیر بھی محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ یہاں ایک غیرجانبدارہندوکی شہادت درج کرنی بھی مناسب ہے۔یہ ایک تاریخی خط ہے جو بہت کم سلسلہ کے لٹریچر میں سامنے آیاہے۔مئی ۲۰۰۸ء میں سیرت المہدی حصہ پنجم کے ساتھ یہ شائع ہواہے۔جسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے ۱۹۴۵ء میں تاریخ احمدیت کے لیے محفوظ فرمایاتھا۔
لالہ بھیم سین صاحب ایک ہندووکیل تھے اورحضرت اقدسؑ کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔اورجوآخری وقت تک قائم رہے۔لالہ بھیم سین کے بیٹے بیرسٹرلالہ کنورسین جو کہ پرنسپل لاء کالج لاہورتھے اور بعد میں ریاست ہائے کشمیرجودھ پورالوروغیرہ کے چیف جسٹس وجوڈیشل منسٹر کے عہدوں پر فائز رہے۔وہ اپنے ایک انگریزی خط میں لکھتے ہیں۔
ترجمہ:’’ میرے والد صاحب آپ کے ساتھ خط وکتابت کرتے رہتے تھے اورمجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کے بعض خطوط بھی دیکھے تھے۔میرے والد صاحب ان واقعات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جن کا ذکر اس کتاب میں کیاگیاہے۔ایک بات کو جومیرے والد کی وکالت(مختارکاری) کے امتحان میں کامیابی سے تعلق رکھتی ہے میں یہاں دوبارہ بیان کرناچاہوں گا۔مرزا صاحب نے میرے والدکو لکھاتھا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق کریں۔مرزاصاحب اسے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کرناچاہتے تھے۔میرے والد مجھے بتاتے تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کردی تھی۔ لیکن میرے والدنے ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی رائے میں مرزاصاحب سے زیادہ ان کے یعنی مرزاصاحب کے معزز والد صاحب صحیح پیش خبریاں کرنے والے تھے کیونکہ مرزاصاحب کے والد صاحب نے مرزا صاحب کی پیدائش پر اورابھی جب آپ بچہ ہی تھے یہ پیشگوئی کی تھی کہ نومولود (یعنی مرزاصاحب) ایک ولی ہوں گے۔انہوں نے کہاتھا’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے۔‘‘(بحوالہ سیرت المہدی جلد دوم تتمہ حصہ پنجم صفحہ۳۴۱-۳۴۴)
رائے کنورسین صاحب کا خط بنام علی محمدصاحب مرقومہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۴ء کنورکنج،لکشمی ایونیو۔ڈیرہ دون
ہرچند کہ لالہ بھیم سین کے ان ریمارکس سے تو کسی بھی طرح اتفاق نہیں کیاجاسکتا جس میں انہوں نے حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو حضرت اقدسؑ سے زیادہ صحیح پیش خبری کرنے والابتایاہے۔یہ ان کی ایک اپنی سوچ تھی جو کہ کسی بھی اعتبارسے درست نہ تھی۔البتہ اس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ حضرت اقدسؑ کی پیدائش کے بعد جبکہ ابھی آپ بچہ ہی تھے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب نے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے گھر میں ولی پیداہواہے‘‘اور یہ پیشگوئی بتاتی ہے کہ یہ بات کرنے والا آخر اپنےخداسے کوئی تعلق تو رکھتاتھا۔اور وہ تعلق واقعی تھا جیسا کہ اس باب کی آخری سطورسے عیاں ہوگا۔