مٹی فشاں (Mud Volcano)
آج کی دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جس نے آتش فشاں پہاڑوں کے بارے میں نہ سنا ہو لیکن گرم مٹی اگلتے مَڈوالکینو(Mud Volcano) یعنی مٹی فشاں پہاڑ کے بارے میں شاذونادر ہی سنا ہو گا لیکن آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ سیاحت کی دنیا میں اپنی منفرد اہمیت رکھنے والے مَڈ والکینو کیا ہیں ؟
ماہرین کے مطابق کسی مٹی فشاں کا وجود میں آنا ایک جیو تھرمل عمل ہے، جو ارضیاتی پلیٹوں کے آپس میں ملنے کے مقام پر زیر زمین گیسوں مثلاً میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن وغیرہ کے دباؤ کے تحت، مٹی، پانی اور چٹانوں کے کیمیائی عمل سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب ان مقامات پر درجۂ حرارت اور گیسوں کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے، تو یہ مرکبات گرم گارے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جو نکاسی کے لیے آتشیں لاوے کی طرح باہر نکلتا ہے۔ گارے(mud) میں نظر آنے والے بڑے بڑے بلبلے دراصل گیسوں کے اخراج کی علامت ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر عموماً میتھین گیس کے ہوتے ہیں۔ مسلسل اخراج سے بعض مَڈ والکینو کے دہانے ایک ’کون‘ یا مخروطی نوکیلی چوٹی کی صورت اختیار کر جاتے ہیں، جو بہت دیدہ زیب منظر کی صورت دکھائی دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں چند مقامات پر ہی مٹی اگلتے آتشی پہاڑ واقع ہیں اسی لیے انہیں نایاب تصور کیا جاتا ہے لیکن خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس قدرت کا یہ نایاب تحفہ موجود ہے۔ زمینی سائنس کےعجائبات سے مزین یہ علاقہ بلوچستان کی وادی ہنگول، لسبیلہ، آواران اور گوادر پرمشتمل ۱۶۵۰؍ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔جہاں قدرت کے سب نظارے سمندر، صحرا، پہاڑ، جنگلی حیات کا مسکن اور مٹی فشاں بیک وقت موجود ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا میں چند ایک مقامات ہیں جہاں تواتر سے مٹی اگلتے آتش فشاں پہاڑ واقع ہیں اورحسن اتفاق ہے کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں نہ صرف مٹی فشاں پہاڑ واقع ہیں بلکہ سب سے بڑے مٹی فشاں پہاڑ کا اعزاز بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے پاس ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں یوں تو کئی چھوٹے چھوٹے مٹی فشاں نظر آتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق ان کی تعداد بیس کے قریب ہے۔ جبکہ وادی ہنگول میں واقع چندرگپت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ صدیوں سے دنیا کے سب سے بلند اور وسیع ترین مٹی کے آتش فشاں پہاڑ یہاں پر موجود ہیں جسےدنیا کا بلند ترین مَڈوالکینوکہا جاتا ہے۔ یہ مٹی فشاں صدیوں سے ہندو مت کے لیے انتہائی مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی اونچائی ۳۰۰؍ فٹ بتائی جاتی ہے۔ اس کے دہانے کی چوڑائی یا قطر ۴۹؍ فٹ ہے۔ اس کا گڑھا گارے کی جھیل سے بھرا ہوا ہے، جو ریاضی کے ہندسے 8کی شکل کا ہے۔ ماہرین کے مطابق کسی دور میں یہاں دو جڑواں مَڈوالکینو رہے ہوں گے، جو اب آپس میں ضم ہو چکے ہیں۔پہلی دفعہ سنہ ۲۰۲۰ء میں چندر گپت کو دیکھا گیا۔ یہ پہاڑ ہنگول نیشنل پارک میں ہنگلاج وادی کے قریب واقع ہے اور اُس وقت اِس پہاڑ تک پہنچنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہاں تک صرف فور وہیل ڈرائیو گاڑی کے ذریعے پہنچنا ہی ممکن تھا، مگر مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد یہ سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔
یہ مقام ہندوؤں کی قدیم اور مقدس عبادت گاہ کی حیثیت سے شہرت رکھتاہے کیونکہ یہاں قائم ہندوؤں کا قدیم نانی مندر قریب ہی واقع ہے اسی لیے اس جگہ کو چندر گپت کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔ چندر گپت موریہ زمانہ قدیم میں ہندوستان میں موریہ سلطنت کا بانی تھا۔ مقامی افراد کے مطابق ہندو یاتری چندرگپت پر چڑھائی کے بعد ابلتی ہوئی گارا نما مٹی اپنے جسم پر ملتے ہیں تا کہ انہیں ان کے عقیدے کے مطابق مختلف بیماریوں سے شفا اور روحانی طاقت حاصل ہو سکے۔
کراچی سے تقریباً دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک میں واقع چندر گپت موریہ پہاڑوں تک پہنچنے میں دس سے بارہ گھنٹے لگتے ہیں۔ مکران کوسٹل ہائی سے متصل ایک سیدھی اور ناہموار سڑک مڈ والکینو کے نزدیک تک لے کر جاتی ہے جبکہ باقی راستہ پیدل ہی طے کرنا پڑتا ہے اور اگر مٹی کا طوفان آیا ہوا ہو تو بذریعہ سڑک جانے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ بلوچستان میں واقع اس گوہر نایاب کے دو سلسلے ہیں ایک ’’چندر گپت‘‘ جبکہ دوسرا ’’جبل غورب‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سلسلے میں سات پہاڑ ہیں جبکہ باقی ۱۳؍ مٹی کے آتش فشاں پہاڑ گوادر اور کَچھ میں واقع ہیں۔
مزید دریافت پر کچھ مزید مَڈوالکینو دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد تقریباً ۱۵۵؍ بتائی جاتی ہے۔دنیا بھر میں چندرگپت کو دنیا کا بلند ترین مٹی فشاں سمجھا جاتا ہے، مگر چندرگپت سے پانچ گنا اونچا مٹی فشاں ’ماؤنٹ مہدی‘ ہے اس کی اونچائی ۱۴۰۰؍ فٹ ہے۔لیکن کچھ عرصہ پہلے ان دونوں سے بھی کافی وسیع اور بلند ترین ایک مٹی فشاں دریافت ہوا جس کی اونچائی ۷۰۰۰؍ فٹ ہے جو کہ بلوچستان میں قلعہ سیف اللہ کے پاس واقع ہے۔
(’الف فضل‘)
(بحوالہ DW.com،دنیا نیوز، ایکسپریس نیوز)