ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ کینیڈا۔ اکتوبر،نومبر۲۰۱۶ء کے چند واقعات۔ حصہ اوّل)
۳؍اکتوبر ۲۰۱۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کینیڈا کے ایک نہایت تاریخی اور بابرکت چھ ہفتے پر محیط دورے پر روانہ ہوئے جہاں آپ جلسہ سالانہ کینیڈا میں رونق افروز ہوئے، کئی تاریخی خطابات فرمائے، کینیڈین سیاسی راہنماؤں اور سرکردہ شخصیات سے ملاقاتیں فرمائیں، درجنوں میڈیا انٹرویوز دیے اور ہزاروں احمدی مسلمانوں کو شرفِ ملاقات عطا فرمایا۔
احمدیوں کے جذبات
صبح میری ملاقات بعض ایسے احمدی احباب سے ہوئی جن کو حضورِانور سے ملاقات کی سعادت ملی تھی۔مجھےان کے جذباتی تجربات کو سننے کا موقع ملا۔ میری ملاقات حفیظ احمد صاحب ( عمر ۷۰؍سال) سے ہوئی، جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان پاکستان سے ہے۔حضورِانور سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے حفیظ صاحب نے بتایا کہ میری عمر ۷۰؍سال ہے اور آج زندگی میں پہلی مرتبہ میری خلیفۂ وقت سے ملاقات ہوئی ہے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے عمر بھر اس سعادت کے لیے انتظار کیا ہے۔ حضورِانور کے قرب میں گزرے وہ چند لمحات میری زندگی کے سب سے قیمتی لمحات تھے اور جب میں نے حضورِانور کا ہاتھ پکڑا تو ایسا لگا جیسے ساری دنیا رک گئی ہو۔ میں آپ کے بابرکت ہاتھ سے اپنا ہاتھ واپس نہیں نکالنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے یہ خیال تھا کہ پتانہیں دوبارہ یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ اگر آپ میری زندگی کی جملہ برکات کو یکجاکر کے دیکھیں تو بھی وہ سب آج کے دن نصیب ہونے والی برکات کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہیں۔
بعد ازاں مجھے بہت حیرت ہوئی جب موصوف نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میرے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے انہوںنے بتایا کہ جب ملاقات کا وقت پورا ہو گیا تو مجھے اپنے محبوب امام کا ہاتھ چھوڑنا پڑا اور اب میں نے آپ کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے کیونکہ آپ ان کے قریب رہتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے اور ان سے برکات حاصل کرتے ہیں۔
میں خاموش رہا اور نہیں جانتا تھا کہ میں کیا کہوں۔اس بزرگ شخص سے عمر میں بہت چھوٹا ہونے کے باوجود ان کا میرے ہاتھ کو تھامنے کی خواہش کرنا نہایت جذباتی کر دینے والا امرتھا۔ ایسے مواقع پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہر احمدی اور خلیفہ وقت کے درمیان کیسا مضبوط رشتہ ہے۔
پھر میری ملاقات ایک نوجوان لڑکے عزیزم مدثر ملک (عمر ۱۵؍سال) سے ہوئی جس کو اپنے والدین کے ہمراہ حضورِانور سے شرف ملاقات ملا تھا۔ عزیزم مدثر نے بتایا کہ میرا حضورِانور سے ملنا ایک لازوال تجربہ تھا۔ میں نے آپ کے ذریعہ احمدیت کی سچائی کو محسوس کیا کیونکہ جب میں نے حضورِانور کی پاکیزگی کو دیکھا تو مجھے یقین ہوا کہ یہ وجود کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ لمحات میری زندگی بدل دینے والے ہیںاور اب میں ہمیشہ کوشش کروں گا کہ نظام خلافت کا کامل مطیع اور فرمانبردار بن کر رہوں۔
ایک پُر شفقت لمحہ
حضورِانور کا گزر چند خدام کے پاس سے ہوا تو آپ نے ایک خادم کو ایک طوطا پکڑے ہوئے دیکھا۔جونہی آپ نے اس طرف دیکھا تو آپ کی توجہ اس طوطے کی طرف مبذول ہوئی اور آپ نے نہایت شفقت اور پیار سے اس طوطے کو سہلایا۔
فوراً ہی مجھے ۲۰۱۳ءمیں آسٹریلیا میں ہونے والا واقعہ یاد آگیا جب میں نے حضورِانور کو نہایت شفقت سے ایک پارک کی سیر کے دوران کئی پرندوں کو کھلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
ایک خادم کی گاڑی کو متبرک فرمانا
لنگر خانہ کے معائنہ کے بعد حضورِانور ایک مختلف گاڑی میں تشریف فرما ہوئے اور مسجد تک کے تھوڑے سے فاصلے کو اس میں طے کیا۔ یہ گاڑی جس میں آپ تشریف فرما تھے یہ بیٹری کی مدد سے چلنے والی ٹیسلا کمپنی کی گاڑی تھی جو ایک کینیڈین خادم کی تھی جس نے حضور انورسے درخواست کی تھی کہ دورے کے دوران حضوراس کی گاڑی کومتبرک فرمائیں۔
اس قدر مصروفیات کے باوجود حضورِانور نے اس خادم کی درخواست کو فراموش نہیں فرمایا اور اس موقع پر اس کی خواہش کو پورا کر دیا۔ حضورِانور نہ صرف اس گاڑی میں تشریف فرما ہوئے بلکہ آپ نے اس امر میں دلچسپی کا اظہار بھی فرمایا کہ ٹیسلا کی گاڑیاں مکمل طور پر برقی ہیں نیز حضورِانور نے اس گاڑی اور اس کے مختلف استعمال کی بابت استفسا ر بھی فرمایا۔
احمدیوں کے جذبات
جلسہ کے اختتام پر بجائے کچھ وقت آرام فرمانے کے حضورِانور نے شام کواحمدی فیملیز سے ملاقاتیں فرمائیں۔
میں نے حضورِانور سے زندگی کی پہلی ملاقات کرنے والی شبرہ شجر صاحبہ سے گفتگو کی جو حال ہی میں پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوئی ہیں۔شبرہ صاحبہ نے مجھے بتایا کہ میرے پاکستان سے کینیڈا منتقل ہونے کی صرف ایک ہی بڑی وجہ تھی اور وہ یہ کہ مجھے حضورِانور سے ملاقات کی سعادت مل سکے اور الحمدللہ صرف چار ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری دلی خواہش کو پورا کر دیا ہے۔ جب میں نے حضورِانور کو دیکھا تو میں جذبات سے مغلوب ہو گئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے مجھے ساری دنیا کی نعمتیں مل گئی ہوں ۔
میری ملاقات ایک لیٹوین نو مبائعہ احمدی اولگا مبشر صاحبہ سے ہوئی جنہوں نے دس سال قبل بیعت کی تھی اور بیعت کرنے کے بعد ابھی ابھی حضورِانور سے دوسری مرتبہ ملاقات کی تھی۔اپنی ملاقات کے بارے میں موصوفہ نے بتایا کہ میں نے دس سال قبل احمدیت قبول کی تھی۔تب سے مجھےاس بات کا علم ہے کہ ہم احمدی کس قدر خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس خلافت ہے کیونکہ حضورِانور ہماری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی فرماتے ہیں ۔ میں آپ سے ہر روز سیکھتی ہوں اور آپ کے ارد گرد نور کا ایک ہالہ ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہے۔ آپ آسمان میں چمکتے ہوئے ایک ستارے کی مانند ہیں جس کی اگر ہم اقتدا کریں تو ہم کبھی نہیں بھٹکیں گے۔
استقلال اور اخلاص کی ایک مثال
اس شام میری ملاقات ڈاکٹر میمون بخاری صاحب (عمر ۴۸؍ سال )سے ہوئی جو امریکہ میں مقیم ہیں۔ مجھے واقعۃً حیرت ہوئی جب میں نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اور حضورِانور کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے ان کی تگ و دو دیکھی۔
ڈاکٹر بخاری صاحب نے بتایا کہ آج کے روز اب تک امریکہ سے یہاں (کینیڈا) کا میرا یہ تیسرا چکر ہے۔ میں صبح تین بجے اٹھا اور کینیڈا کا بارڈر پار کرکے نماز فجر ادا کرنے کے لیے یہاں پیس ولیج پہنچا۔ یہ سفر تقریباً اڑھائی گھنٹے کا ہے لیکن اگر بارڈر پر رَش ہو یا غیر معمولی تاخیر ہو تو اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔نماز فجر ادا کرنے کے بعد میں نے فوراً ہسپتال واپسی کی جہاں میں امریکہ میں کام کرتا ہوں کیونکہ صبح مجھے مریضوں کا معائنہ کرنا تھا۔ جونہی یہ معائنہ ختم ہوا تو میں گاڑی میں بیٹھا اور حضورِانور کے اختتامی خطاب کو سننے کے لیے یہاں آگیا۔
ڈاکٹر بخاری صاحب نے مزید بتایا کہ جب جلسہ کی کارروائی مکمل ہوئی تو میں واپس امریکہ چلا گیا اور شام تک مریضوں کا معائنہ مکمل کیا اور اب میں سہ بارہ پیس ولیج آیا ہوں تاکہ حضورِانور کی اقتدا میں نمازِ مغرب و عشاء ادا کر سکوں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد میں واپس گھر(امریکہ) جاؤں گا اور صبح فجر پر یہاں واپس آؤں گا۔ یوں چوبیس گھنٹے میں امریکہ سے کینیڈا کے چار چکر پورے ہو جائیں گے ۔
ڈاکٹر صاحب نے گفتگو مکمل کی ہی تھی تو میں نے ان سے پوچھا کہ ان کا اس قدر غیر معمولی جذبےکا باعث کیا امر ہے؟ جواب یں انہوں نے بتایا کہ میرے اس جوش و خروش کی وجہ حضورِانور کی اقتدا میں نماز پڑھنا ہے۔جب ہم حضورِانور کو اپنے پاس سے گزرتا دیکھتے ہیں تو یہ ہماری ساری تھکن دور کر دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ کئی میل پیدل چلتے تھے اور بہت دشوار گزار اور طویل سفر کی مشکلات برداشت کرتے تھے تاکہ آپ سے ملاقات کا شرف پا سکیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گاڑیاں عطا فرمائی ہیں اور بہت سی سہولتیں ہیں۔ پھر بھی اگر ہم ان کو بروئے کار نہ لائیں تو ہم واقعۃًبد قسمت ہوں گے۔ میرا ایمان ہے کہ گاڑیاں اور دیگر جدید ذرائع آمدورفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہیں تاکہ احباب جماعت جسمانی طور پر خلیفۃ المسیح کے قریب ہو سکیں۔
ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ میرے لیے کام سے رخصت لینا نا ممکن تھا اس لیے اگر میں یہ اضافی کوشش نہ کرتا تو میرے بچوں کو ایسا لگتا کہ میں نے اپنے کاموں اور دنیاوی امور کو دین پر ترجیح دی ہوئی ہے۔ میں اپنے تئیں ان کے لیے ایک بُری مثال پیش کرنے کے باعث قصور وار سمجھتا۔جبکہ حقیقت میں مَیں چاہتا ہوں کہ انہیں یہ سمجھ آجائے کہ قرب خلافت کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ میرے دادا جان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے انہیں دوسرے جہان میں یہ جان کر خوشی ہو کہ ان کا احمدیت پر ایمان ان کی نسلوں میں بھی جاری ہے۔
حضورِانور کے دورے کے اثرات کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ حضورِانور دنیا میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میں امریکہ میں جماعت کے لیے امور خارجیہ کے شعبے میںخدمت کرتا رہا ہوں یوں میں نے قریب سے دیکھا ہے کہ امریکہ کی بعض سرکردہ شخصیات پر حضورِانور کے دورے کاکس قدر مثبت اثرہوتا ہے۔ واضح تھا کہ ان پر خلافت کا کیسا ساحرانہ اثر تھا ۔ان تجربات نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ خلافت کے پاکیزہ اثرات صرف احمدیوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں تک بھی ممتد ہیں۔
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)