اسلامی جہاد سے کیا مراد ہے؟ (حصہ دوم۔ آخری)
(حصہ اوّل کے لیے الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۱۰؍ جنوری ۲۰۲۴ء ملاحظہ فرما لیں) فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَجَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا (الفرقان:۵۳) ترجمہ:پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس (قرآن) کے ذریعہ اُن سے ایک بڑا جہاد کر۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’آپ [حضرت مسیح موعود علیہ السلام] فرماتے ہیں۔؎
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اس کے معنے محض اتنے ہی ہیں کہ وہ جہاد جو اس زمانہ میں جائز نہیں وہ حرام ہے۔ یہ معنے نہیں کہ جہاد ہر صورت میں حرام ہے یہ امر کہ جہاں کہیں حرام یا منسوخ کا لفظ بانیٴ سلسلہ احمدیہؑ نے لکھا ہے اس کے معنے حقیقی نسخ یعنی واقعی اور دائمی نسخ کے نہیں ہو سکتے۔ اسی بات سے ثابت ہے کہ آپ اپنے آپ کو امتی کہتے ہیں اور اگر جہاد خدا اور اس کے رسولؐ کا مقرر کیا ہوا ہے تو کسی امتی کو کیا حق ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسولؐ کے کسی حکم کو منسوخ کرے۔
آپؑ نے اپنی کتب میں بار ہا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ قرآن کریم ایک دائمی شریعت ہے جس کا ایک ایک لفظ قابل عمل ہے اور اس کا کوئی حکم قیامت تک نہیں بدل سکتا۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’ میری گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے۔‘‘
…غرض جہاد کا لفظ جس کو عیسائیوں نے ہوّا سمجھ رکھا ہے اصل میں تبلیغ کا ہی ایک نام ہے۔ اور اصل جہاد تلوار کا جہاد نہیں بلکہ اصل جہاد وہ ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ کیا جائے۔ یعنی جس جہاد میں دلائل استعمال کیے جائیں اور آسمانی نشانات و معجزات کے ذریعہ دلوں کو فتح کیا جائے۔ مگر افسوس کہ مسلمان صرف تلوار چلانے کا نام جہاد سمجھتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہیں غلبہ حاصل ہو گیا تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور کفر دنیا میں موجود رہا۔ اگر مسلمان جہاد کی وہ تعریف جانتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے کی ہے کہ جہاد ہر اس فعل کا نام ہے جو نیکی اور تقوی کے قیام کے لئے کیا جائے اور جہاد جس طرح تلوار سے ہوتا ہے اسی طرح اصلاح نفس سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح تبلیغ اسلام سے بھی ہوتا ہے اور اسی طرح مال و دولت کی قربانی سے بھی ہوتا ہے اور ہر قسم کے جہاد کا الگ الگ موقعہ ہے تو آج کا روز بد انہیں نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر مسلمان اس تعریف کو سمجھتے تو اسلام کے ظاہری غلبہ کے موقعہ پر وہ جہاد کے حکم کو ختم نہ سمجھتے بلکہ انہیں خیال رہتا کہ صرف ایک قسم کا جہاد ختم ہوا ہے دوسری اقسام کے جہاد ابھی باقی ہیں اور تبلیغ کا جہاد شروع کر دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ نہ صرف اسلام مشرقی ممالک میں پھیل جاتا بلکہ یورپ بھی آج مسلمان ہوتا اور اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلام کو زوال نہ آتا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کے مواقع بتائے ہیں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ تلوار کا جہاد دائمی طور پر ممنوع ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے مطابق کس جہاد کا موقع ہے اور خود بڑے زور سے اس جہاد کو شروع کردیا اور تمام دنیا میں تبلیغ جاری کر دی۔ اگر تلوار کا جہاد ہی ضروری تھا تو سوال یہ ہے کہ کیا ہر مسلمان نے تلوار اٹھا کر کفار کا مقابلہ کیا؟ اگر نہیں کیا تو احمدی تو خدا تعالیٰ کو یہ جواب دے دیں گے کہ ہمارے نزدیک یہ جہاد بالسیف کا وقت نہیں تھا اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری غلطی اجتہادی تھی لیکن ان کے مخالف مولوی کیا جواب دیں گے۔ کیا وہ یہ کہیں گے کہ اے خدا !جہاد کا تو وقت تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ یہ جہاد کا وقت ہے اور ہم سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے۔ لیکن اے ہمارے خدا! ہم نے جہاد نہیں کیا۔ کیونکہ ہمارے دل ڈرتے تھے اور نہ ہم نے ان لوگوں کو جہاد کے لئے آگے بھجوایا جن کے دل نہیں ڈرتے تھے کیونکہ ہم ڈرتے تھے کہ ایسا کرنے سے بھی کفار ہم کو پکڑ لیں گے۔ اب اس امر کا فیصلہ ہر منصف مزاج انسان خود کر سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں جوابوں میں سے کونسا جواب خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بانیٴ سلسلہ احمد یہ نے جہاد کی اس تعریف سے نہ صرف آئندہ کے لئے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور ان کے لئے ترقی کا ایک عظیم الشان راستہ کھول دیا ہے بلکہ مسلمانوں کو ایک بہت بڑے گناہ سے بھی بچا لیا ہے۔ کیونکہ گو مسلمان یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ زمانہ تلوار کے جہاد کا ہے لیکن اسے فرض سمجھ کر اس پر عمل نہیں کرتے تھے اور اس طرح اس احساس گناہ کی وجہ سے گنہگار بن رہے تھے۔ اب آپ کی تشریح کو جوں جوں مسلمان تسلیم کرتے جائیں گے ان کے دلوں پر سے احساس گناہ کا زنگ اترتا جائے گا اور وہ محسوس کریں گے کہ انہوں نے تلوار کا جہاد نہ کر کے خدا اور اس کے رسول سے غداری نہیں کی اور یہ کہ بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے انہیں تبلیغ کی طرف توجہ دلا کر ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۵۱۶-۵۱۸)
(مرسلہ: فوزیہ شکور ۔جرمنی)