متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍ستمبر۲۰۲۳ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رسول اللہﷺ کے غزوۂ بدرسے واپس تشریف لانے اور قرآنی پیشگوئی غُلِبَتِ الرُّوۡمُ۔ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ (سورة الروم)کے تحت ایران و روم میں ہونے والی جنگوں کی تفصیل بیان فرمائی اور قرآنی صداقتوں کو پیش فرمایا۔یہ خطبہ جمعہ، الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ خطبہ میں مذکور مقامات کا مختصر جغرافیائی تعارف پیش خدمت ہے۔

الصفراء

میدان بدر میں تین روز قیام کے بعد رسول اللہﷺ واپس مدینہ منورہ کی طرف عاز م سفر ہوئے اور الصفراء وادی کے درّے پر قیام فرمایا۔ یہ مقام میدان بدر سے مدینہ کی طرف ۶۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً ۱۰۰؍ کلومیٹر ہے۔موجودہ زمانے میں مدینہ سے بدر جانے والی پختہ شاہراہ اِسی وادی سے گزرتی ہے۔یہاں پانی کے متعدد چشمے ہیں۔حکومت نے ایک چھوٹا ڈیم بھی بنایا ہوا ہے تاکہ پانی روک کر استعمال کیا جا سکے۔ یہ مقام یَنبُع اور مدینہ کے درمیان ہے۔ پانی کی فراوانی سےیہاں بہت کھیتی باڑی ہوتی ہے اور باغات ہیں۔الصفراء میں جہینہ، الانصار،فہر اور نہد قبائل آباد تھے۔ بعض روایات کے مطابق اس مقام پر رسول اللہﷺ نے نضر بن حارث کو قتل کی سزا دی۔اس وادی کا ایک نام وادی یلیل بھی ہے۔

عِرق الظبیة

رسول اللہ ﷺ نے بدر سے واپسی پرایک پڑاؤ عِرق الظبیة مقام پر ڈالا۔یہ مقام بئر الروحاء کے قریب ہے۔ بدر سے تقریباً ۷۶؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔مدینہ سے اس کا فاصلہ ۸۴؍ کلو میٹر ہے۔ اس مقام پر ایک مسجد بھی ہے جسے مسجد عِرق الظبیة کہتے ہیں۔ روایات کے مطابق یہاں رسول اللہﷺ نے نماز فجر بھی ادا فرمائی اور غزوۂ بدر کے متعلق اصحاب سے مشورہ فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق بدر سے واپسی پر اِسی مقام پر رسول اللہﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کی سزا دی۔

فارسی اور رومی سلطنت

عہد نبوی ﷺ میں عرب کے ہمسائے میں دو بڑی عالمی طاقتیں باہم بر سر پیکار تھیں۔جن میں سے ایک فارسی /ساسانی سلطنت تھی اور دوسری رومی/بازنطینی سلطنت تھی۔فارسی سلطنت نے ۶۱۴ءسے۶۱۶ء تک متعدد رومی علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ۶۲۲ء میں رومی بادشاہ نے دوبارہ جنگ کرتے ہوئے۶۲۸ء تک اپنے مقبوضہ علاقے واپس لے لیے۔ پس جنگ بدر کی فتح کے ساتھ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ کی پیشگوئی بھی پوری ہوئی۔اس واقعہ میں درج ذیل مقامات کا ذکر ہواہے۔

دجلہ اور فرات

یہ عراق کے دو دریا ہیں۔فرات مشرقی ترکی سے شروع ہو کر شام سے ہوتا ہوا عراق میں داخل ہوتا ہے۔دجلہ ترکی سے شروع ہو کر عراقی علاقے کردستان سےنکل کر عراق میں بہتا ہے۔ ان دریاؤں کےذرخیز میدانی علاقے کو Mesopotamiaبھی کہتے ہیں۔ یہ دریا، فارسی اور رومی سلطنتوں کی سرحد کی نشان دہی کرتے تھے۔

عراق

عراق مشرق وسطیٰ کا عرب ملک ہے۔بغداد دارالحکومت ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ فارسی حکومت میں تھا۔

شام

شام مشرق وسطی کا اہم عرب ملک ہے۔ دمشق دارالحکومت ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ رومی حکومت کےتحت تھا۔

فلسطین

فلسطین مشرق وسطیٰ کا عرب ملک ہے جس میں یہودیوں،عیسائیوں اور مسلمانوں کا مذہبی مقام بیت المقدس موجود ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ رومی حکومت میں شامل تھا۔

مصر

شمال مشرقی افریقہ کا ملک ہے۔یہاں عربی زبان بولی جاتی ہے۔دارالحکومت قاہر ہ ہے۔ اس کے شمال میں بحر روم اور مشرق میں بحر احمر،فلسطین اور سعودی عرب ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ رومی حکومت میں شامل تھا۔

اسکندریہ

اسکندریہ مصر کا اہم اور دوسرا بڑا شہر ہے۔یہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کی بنیاد سکندر اعظم نے رکھی۔اس لیے اسے اسکندریہ کہا جاتا ہے۔ یہ رومی حکومت کا ایک اہم شہر تصور کیا جاتا تھا۔فارسی سلطنت اس علاقے تک پھیلی۔بعدازاں رومی حکومت نے دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا۔

دریائے نیل

دریائے نیل دنیا کا طویل ترین دریا ہے جو شمالی افریقہ اور مصر میں بہتا ہے۔ یہ ایتھوپیا، یوگنڈا اور روانڈا سے شروع ہو کر شمال کی طرف سفر کرتا ہوا بحر روم میں گرتا ہے۔ مصر کے تمام شہر اور زیادہ تر آبادی اسی کے اردگرد آباد ہے۔

ایشیائے کوچک/اناطولیہ

موجودہ ترکی کا زیادہ تر جزیرہ نما حصہ (بحر اسود سے لے کر خلیج اسکندرون تک ) کو ایشائے کوچک(Asia Minor) اور لاطینی زبان میں اناطولیہ کہا جاتا تھا۔یہ رومی سلطنت کے اہم حصوں میں سے ایک تھا

آذر بائیجان

آذربائیجان یوریشیا کے جنوبی قفقاز کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں ایران،شمال میں روس اور مغرب میں آرمینیا ہے۔ رسول اللہﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ رومی حکومت میں شامل تھا۔

آرمینیا

آرمینیا یوریشیا میں قفقازکے خطے میں واقع ایک ملک ہے۔اس کے مغرب میں ترکی اورمشرق میں آذربائیجان ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ علاقہ رومی حکومت میں شامل تھا۔

آبنائے باسفورس

باسفورس ایک سمندری گزر گاہ ہے جوترکی کے یورپی حصے کو ایشیائی حصے(اناطولیہ) سے الگ کر کے یورپ اورایشیا کے درمیان سرحد قائم کرتی ہے۔ اس کو آبنائے استنبول بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے استعمال ہونے والی دنیا کی سب سے تنگ آبنائےہے جوبحر اسودکو بحر مارموراسے ملاتی ہے۔ اس کی لمبائی ۳۰؍ کلو میٹرہے۔

قسطنطنیہ

قسطنطنیہ(Constantinople) ترکی کا اہم شہر ہے۔ موجودہ زمانے میں اسے استنبول کہتےہیں۔ یہ رومی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ ایک زمانے تک یہ دنیا کا امیر ترین اور اہم ترین شہر رہا ہے۔فارسی سلطنت کی فتوحات اس شہر کی فصیلوں تک پہنچ گئیں۔بعد ازاں رومی حکومت نے اپنا علاقہ واپس لے لیا۔

بحر مارمورا

یہ ایک چھوٹا سا سمندر ہے جو ایک طرف سے آبنائے باسفورس کے ذریعہ بحر اسود اور دوسری طرف سے بحر ایجین سے ملتاہے۔اس کے ایک طرف ترکی کا ایشیائی حصہ ہے اور دوسری طرف یورپی حصہ ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button