آخری زمانہ میں خلافت احمدیہ حَقّہ اسلامیہ کا قیام
یہ اس سلسلہ کا وہ آخری ہزار سال ہے جس میں خدا تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق آپ کے روحانی فرزند اور غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاتم الخلفاء کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آنحضورﷺ کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ یہ آخری ہزار سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم ہونے والی خلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ کا دور ہے۔ اس لیے اگر کسی وقت دنیا کی اصلاح کے لیے کسی مصلح کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے متبعین میں سے کسی ایسے شخص کو دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑا کرے گا جو وقت کا خلیفہ ہو گا لیکن خلیفہ سے بڑھ کر مصلح کا مقام بھی اسے عطا ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس مقام پر فائز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپؓ اس موعود خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر صرف خلافت کا سوال نہیں بلکہ ایسی خلافت کا سوال ہے جو موعود خلافت ہے۔ الہام اور وحی سے قائم ہونے والی خلافت کا سوال ہے۔ایک خلافت تو یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں سے خلیفہ منتخب کراتا ہے اور پھر اسے قبول کر لیتا ہے مگر یہ ویسی خلافت نہیں۔ یعنی میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیابلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ خلیفہ اوّل کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں بلکہ موعود خلیفہ ہوں۔ میں مأمور نہیں مگر میری آواز خداتعالیٰ کی آواز ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے اور یہ موقع ایسا نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ اسے رائیگاں جانے دے اور پھر خداتعالیٰ کے حضور سُرخرو ہو جائے۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفے بھی روز روز نہیں آتے۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء، خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ 18)
(بنیادی مسائل کے جوابات ۴۳
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۸؍نومبر ۲۰۲۲ء)