دنیا میں ہی جنّتی بن جائیں (خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۵؍نومبر۱۹۲۶ء )
نومبر ۱۹۲۶ءمیں دیے گئے اس خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن کریم کی روشنی میں اسی دنیا میں جنّت حاصل کرنے والے مومنین کی علامات بیان فرماتے ہوئے اس امر کو واضح فرمایا کہ اس دنیا میں جنت حاصل کرنے سے کیا مراد ہے۔ علم و معرفت سے پُر یہ مختصر خطبہ جمعہ قارئین کے استفادے کے لیے شائع کیا جاتا ہے۔ (ادارہ)
تشہد، تعوذاورسورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’ آج بعض ضروری کاموں کی وجہ سے اس قدر دیر ہو گئی ہے کہ خطبہ کے لئے بہت اختصار کی ضرورت ہے۔ اس لئے میں نہایت اختصار کے ساتھ آپ لوگوں کی توجہ اس امر کی طر ف پھیرنا چاہتا ہوں کہ
سورہ فاتحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندرونی حالات و کیفیات کو مدّنظر رکھتے ہوئے چار قسم کے انسان پائے جاتے ہیں۔
ایک تو وہ لوگ ہیں جن کی حالت ایسے اطمینان کے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کا تغیر اور کسی قسم کا بگاڑ نہیں پیدا ہو سکتا۔ ان کے قلوب اس حد تک صاف ہو جاتے ہیں، ان کی روحانیت کا آئینہ ایسا مصفّٰی ہو جاتا ہے اور ان کے افکار اتنے پاکیزہ ہو جاتے ہیں کہ کسی قسم کی میل کا نشان ان میں باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے اسی دنیا میں ایسے مقام کو پالیا ہوتا ہے کہ اس میں نہ ان پر بڑھاپا آتا ہے نہ ان پر موت وارد ہو سکتی ہے۔ وہ اس دنیا میں ہی اس مقام کو حاصل کر لیتے ہیں جس میں انسان ننگا اور بھوکا اور پیاسا نہیں رہتا۔ غرض مختصر الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جنت کا مقام حاصل کر لیا۔
قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کی خشیت رکھتے ہیں ان کے لئے دو جنتیں ہوتی ہیں(الرحمٰن:۴۷)۔ایک جنت تو اس دنیا میں پاتے ہیں اور ایک اگلے جہان میں۔
اور جنت وہ مقام ہے جس میں نہ سردی ہے نہ گرمی۔ جس میں انسان نہ ننگا ہوتا ہے نہ بھوکا اور نہ پیاسا ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی اس دنیا میں ہی اس مقام کو پا لیتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہو گیا ورنہ اگر ظاہری ترجمہ لیں تو دنیا میں کوئی انسان نہیں نظر آتا جو دنیا میں ان چیزوں سے متاثر نہ ہو۔ یہاں تک کہ رسول بھی ان چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں آتاہے کوئی نبی ایسا نہیں گذراجو فوت نہ ہوا ہو سب فوت ہوتے چلے آئے ہیں۔ اسی طرح تمام انبیاء کھاتے پیتے سوتے رہے ہیں۔ وہ کپڑوں کے بھی محتاج تھے۔ کھانے پینے کے بھی محتاج تھے اور سردی گرمی سے بھی متاثر ہوتے تھے۔ بڑھاپا بھی ان پر آیا۔ پس اس دنیا میں جنت کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ کسی کو ظاہری کپڑوں کی ضرورت پیش نہ آئے اور کھانے پینے کا محتاج نہ ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ مذہب روحانیت کے متعلق گفتگو کرتا ہے اور باقی امور جو طبعی اور تمدنِ دنیا کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُن پر مذہب کا کام نہیں کہ روشنی ڈالے۔ ہاں جتنے حصہ پر روحانیت و اخلاق کا اثر ہوتا ہے اتنے حصہ پر بے شک وہ روشنی ڈالتا ہے۔
پس مومن جنت کا وارث نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ روحانی موت سے باہر نہ ہوجائے اور روحانی موت ارتداد کا نام ہے۔ جو شخص ارتداد سے بالا ہوجائے وہ جنت میں ہے۔ دنیا کا قانون بدل جائے تو بدل جائے لیکن اس مومن کے ایمان میں کسی قسم کا تغیر نہیں واقع ہو تا۔ ایسا شخص اسی دنیا میں جنت میں ہے۔
اسی طرح وہ مومن بھی جنت میں ہے جس پر بڑھاپے کا اثر نہ ہو۔ روحانی طور پر بڑھاپے کے کیا معنے ہیں؟ اس کے یہ معنے ہیں کہ اس میں جو پہلے خدا تعالیٰ کی راہ میں ہمت اور اخلاص کا جوش ہو اُس میں کمی واقعہ ہو جائے۔ لیکن جنت تو وہ مقام ہے کہ جہاں کبھی زوال نہیں آسکتا۔ اسی طرح
مومن بھی وہی جنت میں سمجھا جائے گا جس پر بڑھاپے کا زمانہ نہ آئے۔ یعنی اس کی ہمت اور اخلاص میں روز بروز ترقی ہو۔
اسی طرح جنتی کبھی ننگے نہ ہوں گے۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ
ان کے تقویٰ کا جامہ چاق نہیں ہوتا۔ ان کی محبتِ الٰہی میں کمی نہیں آتی۔ اگرخدا کی محبت جو حقیقی تقویٰ ہے اس میں فرق آجائے۔ جو محبت پہلے ہو، نہ رہے تو وہ شخص جنتی نہیں کہلائے گا۔
پھر جنتی کبھی بھوکے اور پیاسے نہیں ہوں گے۔ اس کے بھی یہی معنے ہوں گے کہ کھانے سے مراد شریعت کے ظاہری علوم ہیں اور پانی سے مراد شریعت کے باطنی علوم ہیں۔ ظاہری علوم کا تو کھانا عقل کی تسلی کے لئے دیا جاتا ہے اور دل کی تسلی اور محبت کی ترقی کے لئے باطنی علوم کا پانی پلایا جاتا ہے۔
جس انسان کو یہ مقام حاصل ہو اُس پر ایسے علوم کھلتے ہیں کہ جن سے ایک طرف عقل تسلی پائے اور دوسری طرف محبت تروتازہ اور شاداب ہو۔ ایسا شخص جنتی کہلائے گا۔
یعنی وہ کبھی بھوکا اور پیاسا نہیں رہے گا۔ یہ منعم علیہ کا مقام ہے اور اس انعام کے پانے والے یا نبوت کے مقام پر ہوتے ہیں یا صد یقیّت کے مقام پر یا شہادت کے مقام پر ہوتے ہیں۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ رتبہ صالحیت کا ہے۔
اس کے مقابل دوسری حالت انسان کی یہ ہوتی ہے کہ مغضوب علیہ میں داخل ہوجائے یعنی ایسے افعال کرے جن سے خدا کا غضب اُس پر نازل ہو۔ بہت سے لوگ منعم علیہ ہو کر پھر ایسی ٹھوکر کھاتے ہیں کہ وہ مغضوب علیہ بن جاتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا جو منعم علیہ سے بدل کر مغضوب علیہ بن جاتے ہیں وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں، مثلاً کبھی وہ اس کے دشمنوں کو مدد دیتے ہیں کبھی اس کی نافرمانی کر بیٹھتے ہیں۔
مغضو ب علیہ وہ شخص ہے جو دشمن کو مدد دے اور ضالّ وہ ہے جو نادان دوست ہو۔ دوستی کا صحیح مفہوم نہ ادا کرے۔ مثلاً ایک فریق تو وہ ہے کہ جو دشمن کے ہاتھ میں اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہتھیار دیتا ہے اور ایک فریق ہے جو نادانی سے دشمنی کرتا ہے وہ عمداً دشمنی نہیں کرتا۔ مگر وہ ایسے ایسے کام کر بیٹھتا ہے جن کے نتیجہ میں دشمنی ہوتی ہے۔ گویا مغضوب علیہ تو وہ ہے جو ظاہر اور حقیقت دونوں کو مٹاتا ہے۔ اور ضالّ صرف حقیقت کو مٹاتا ہے۔ یہ تین گروہ ہیں جو اس سورہ میں بیان کئے گئے ہیں۔ اور ایک چوتھا گروہ ہے جو سالک ہے یعنی ابھی رستہ پر چل رہا ہے۔ اس کے متعلق ابھی فیصلہ نہیں کہ کن لوگوں میں شامل ہوگا وہ جس طرف جارہے گا اس میں شامل سمجھا جائے گا۔ اور ایسا شخص خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔
اس لئے ہر ایک مومن کا یہ فرض ہے کہ کوشش کرکے منعم علیہ میں داخل ہوجائے۔ یعنی ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کی عقل کو ثبات حاصل ہو۔ زمانہ کی رَو اور جذبات کی رَو اس کے ایمان میں تزلزل نہ پیدا کر سکے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ایسا ایمان اپنے اندر پیدا کریں جو منعم علیہ والا ایمان ہے جس میں کسی قسم کا تزلزل نہ واقع ہو۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ایمانوں کو پہاڑوں کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط کرے اور ایسی تائید و نصرت ان کے شاملِ حال ہو کہ جس کی وجہ سے ان کو ایسا ایمان حاصل ہو جو ہر قسم کے تنزّل سے محفوظ رہے۔ ‘‘
(الفضل ۱۶؍نومبر ۱۹۲۶ء)