کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا
کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالَم آئینہ اَبْصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کَل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا
اُس بہارِ حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے تُرک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا
تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا
کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اِس عُقدۂ دشوار کا
خُو برویوں میں ملاحت ہے ترے اُس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس تری گلزار کا
چشمِ مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سَو سَو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغِ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اَغیار کا
تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں
تا مگر دَرماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا
ایک دم بھی کَل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا
(سرمہ چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۵۲)