آج بھی ہیں کچھ لوگ جہاں میں عزم و یقیں کا مظہر
پھیلے ہوئے تھے شہرِ جنوں میں حرص وہوس کے جال
انسانوں کے دیس میں تھا جب انسانوں کا کال
ہوتی تھیں ہر روز وہاں پر نفرت کی تدبیریں
اہلِ خرد نے اوڑھ رکھی تھی جہل کی میلی شال
بھول چکے تھے ان پر تھے جو مولیٰ کے انعام
یاد نہیں تھا ان کو اپنا ماضی اور نہ حال
ان کی فطرت کا خاصّہ تھا دھوکہ اور فریب
بُنتے رہتے تھے وہ ہوس کے الٹے سیدھے جال
ایسے میں کچھ لوگ تھے واں پر سچائی کا پیکر
پیار محبت ، صدق و وفا اور فکر سے مالا مال
کرتے تھے وہ اپنے خدا کی حمد و ثنا کی باتیں
رہتے تھے وہ اس کی چاہت میں دن رات نہال
سہتے تھے سب ظلم و ستم وہ اپنے رب کی خاطر
چشمِ فلک نے دیکھے تھے کب ایسے لوگ کمال
کیسے کیسے ظلم سہے پر حق سے منہ نہ موڑا
صبر و رضا سے سہتے رہے وہ سارے حزن و ملال
راہِ وفا میں ان کے سارے جذبے تھے انمول
دستِ دعا ہتھیار تھے ان کے سچائی تھی ڈھال
ان کے آگے کچھ بھی نہیں تھے دنیا کے آزار
ہر شے سے مضبوط تھا ان کا صبر و استقلال
جھکتے تھے ہر حال میں بس وہ اپنے خدا کے آگے
اس کے آگے ہی رکھتے تھے اپنا حال احوال
آخر اک دن رنگ لے آئیں ان کی دعائیں ساری
وقت نے دیکھا ظالم ہو گئے بے بس اور بدحال
حکمِ خدا سے خاک میں مل گئے دشمن کے منصوبے
دیکھتے دیکھتے الٹی ہو گئی دشمن کی ہر چال
بننے لگا تب سارا عالم خوشیوں کا گہوارہ
دور ہو ئے یو ں خوف کے سائے ہوگئے سب خوشحال
ملتا ہے پھر اہلِ وفا کو صبر کا میٹھا پھل
کرتا ہے وہ اپنے دلاروں کو یوں مالا مال
آج بھی پھر تاریخ چلی ہے ماضی کو دہرانے
آج بھی پھر سے زندہ ہوئی ہیں تابندہ امثال
آج بھی ہیں کچھ لوگ جہاں میں عزم و یقیں کا مظہر
کر نہیں سکتا کوئی بھی ان کے جذبوں کو پامال