مکرمہ ڈاکٹر نصرت جہاں مالک صاحبہ
آج عاجزہ جس پیاری ہستی کے بارے میں قلم اٹھانے کی جسارت کر رہی ہے انہیں مَیں کہتی تو باجی نصرت ہی تھی مگر وہ کسی طرح میرے لئے میری پیاری والدہ سے کم درجہ نہیں رکھتی تھیں۔
ایمانداری اور اپنے ادارے کی پاسداری کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ایک د فعہ ایک گورنمنٹ ٹیچر کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میری میٹرنٹی Leave میں بچے کی پیدائش کا وقت اُس کی اصل پیدائش سے دو دن پہلے کا لکھ دیں۔ اُن کی ڈاکٹر نے ڈاکٹر صاحبہ مرحومہ کو بتایا تو آپ نے سختی سے ایسا کرنے سے منع کردیا اور بے انتہا بُرا سمجھا کہ میرے مقدّس ادارے میں آکر کوئی ہم سے اس طرح کا مطالبہ کرے۔
ہر سال مسجد مبارک ربوہ میں اعتکاف بیٹھنے والوں کے لئے فکر سے خورونوش کا انتظام فرماتیں۔ محلّے کے یتامیٰ اور بیوگان کے گھروں میں جانا اُن کا معمول تھا۔ ہر سال عید پر بالخصوص جاکر اُن کی ڈھارس بندھاتیں اور مالی امداد بھی کرتیں۔ بہت سے لوگوں کو ہر سال عید پر باقاعدگی سے جوڑے دینے کا خصوصی طورپر انتظام فرماتیں۔ وہ لوگ بھی یقیناً اسی انتظار میں رہتے کہ ہمیں ڈاکٹر نصرت عید کا جوڑا بھجوائیں گی اور ہم عید پر پہنیں گے۔
مجھے یاد ہے جب نئی نئی ربوہ کے فضل عمر ہسپتال میں وقف عارضی پر آئیں تو 1985ء کا پورا سال اور ہفتے کے سات دن انہوں نے اپنے آپ کو گائنی کے لئے وقف کردیا۔ اُن دنوں اُن کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ ایک دن شدید گرمی کی دوپہر اڑہائی بجے ہمارے دروازے پر دستک دی۔ مَیں گئی تو باجی نصرت کھڑی تھیں کہ مَیں تمہاری آپا کا حال پوچھنے آئی ہوں۔ اُن دنوں میری بہن امید سے تھیں۔ ہماری ساری فیملی ورطۂ حیرت میں ڈوب گئی کہ اپنے مریضوں کا اتنا خیال رکھتی ہیں کہ گرمی کی شدّت کی پرواہ کئے بغیر آگئیں۔
ایک دفعہ مجھے اُن کے گھر ایک ہفتہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے کہنے لگیں کہ میرے گھر تمہارے رہنے کا تبھی فائدہ ہوگا کہ اِن دنوں تم قصیدہ یاد کرلو۔ سبحان اللہ۔ مَیں نے بھی بڑے شوق سے روزانہ دس شعر یاد کئے اور ہر رات کھانے کے ٹیبل پر پہلے وہ مجھے سناتیں ا ور پھر مجھ سے سنتی تھیں۔ جب مکمل ہوگیا تو بے انتہا خوش ہوئیں۔
لوگوں کو اِن کے دستِ شفا پر بہت اعتقاد تھا۔ اگر وہ اظہار کرتے تو صرف یہی جواب دیتیں کہ فضل عمر ہسپتال کے ساتھ بہت برکتیں، خلفاء کی دعائیں اور خدا کے خاص فضل ہیں کہ مَیں نے یہاں معجزے ہوتے دیکھے ہیں۔ کبھی بھی اپنی برتری کا ایک لفظ بھی مَیں نے ان کی زبان سے نہیں سنا۔
ایک دفعہ فزیوتھراپی کا کچھ سامان لینا تھا۔ مکرم ایڈمنسٹریٹر صاحب نے ڈاکٹر صاحبہ کو میرے ساتھ بھیجا۔ میرا اُن کے ساتھ یہ پہلا سفر تھا۔ انہوں نے جماعت کا پیسہ انتہائی فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی مہارت اور کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کیا کہ عام انسان اس کو دیکھے تو دنگ رہ جائے۔
بڑوں کا احترام کرنے کا سلیقہ اُن کو خوب آتا تھا۔ اُن کے احترام و محبت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ امّی بیمار ہوئیں۔ چیک اَپ کروانے کے لئے مَیں اُن کو ہسپتال لے کر گئی۔ شام کا وقت تھا۔ باجی نصرت گھر جانے کے لئے ہسپتال کے برآمدے سے باہر نکل رہی تھیں۔ امی کو دیکھ کر رُک گئیں۔ گرمیوں کے دن تھے اور گرمی بہت تھی۔ امی جان کو اپنے کمرے میں بٹھاکر فریج سے سادہ ٹھنڈا پانی پلایا۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تو امی نے پوچھا: نصرت! اُس دن پانی میں کون سی دوائی ملاکردی تھی۔ گھبرا کر پوچھا کیوں خالہ جان کیا ہوا؟ امی نے کہا کہ مجھے اُس دوائی سے بہت سہارا ملا۔ باجی نصرت ہنس پڑیںا ور کہنے لگیں، کہ مَیں نے تو آپ کو صرف پانی دیا تھا۔ یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اتنے پیار سے ہر ایک سے ملتی تھیں کہ آپ کی محبت کسی دوائی سے کم درجہ نہیں رکھتی تھی کہ مریض کو محبت دی اور مریض ٹھیک ہوگیا۔
پیارے حضور ایدہ اللہ کی بابرکت امامت میں رمضان المبارک کے بابرکت ایام سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ لذّتیں لُوٹتے ہوئے مَیں نے اُن کو بارہا دیکھا۔ چہرہ نیچے جھکائے، آنکھوں میں آنسوؤں کی لڑیاں پروئے، چہرہ عبادت کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا انتہائی سوز و گداز سے سرخ ہو رہا ہے۔ عجیب طرح کی اداسی اُن کے چہرے پر نظر آتی تھی جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں یا اُن کو کوئی ڈھونڈ رہا تھا۔ وہ واقعتاً ڈھونڈھ رہی تھیں اُس پیارے وجود کو جس کی آغوش میں انہوں نے ابدی نیند سونا تھا۔
انگلینڈ کو بہت پسند کرتی تھیں۔ خدا نے یہاں کی جماعت سے امسال رمضان المبارک کے دوران مراسم زیادہ مضبوط کردیئے۔اکثر عورتوں کو مَیں نے کہتے سنا کہ ہمارا تو اُن سے تعلق رمضان کے دوران بنا۔ پانچوں نمازوں پر آتی تھیں۔ انتہائی شفیق تھیں۔ ہمیں وہ پیار دے گئیں جو ہمارے لئے قیمتی یادیں چھوڑ گیا۔
اپنی پیاری بیٹی کو انہوں نے ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ کبھی ناشکری نہ کرنا، ہمیشہ خدا کے اُن فضلوں پر نظر رکھو جو تمہارے شامل حال ہیں۔ یہ اُن کی عظیم الشان تربیت کا نتیجہ تھا کہ عزیزہ ندرت نے کہا کہ ’’بیماری کے دوران اللہ پر توکّل نہ مَیں نے چھوڑا ہے اور نہ ہی میری امّی نے‘‘۔
خلافت سے عقیدت، محبت اور احترام سے متعلق لندن میں قیام کے دوران ایک واقعہ کا ذکر کرتی ہوں کہ ایک خاتون نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر نصرت صاحبہ حضور کا کوئی کام کرنے کے لئے یہاں گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہیں۔ مَیں بڑی خوشی خوشی باجی کے پاس گئی اور اس کا اظہار کیا۔ باجی نے فوراً اس بات کی تردید کی اور کہا کہ میرا ذاتی کام ہے اور مجھے بڑی تاکید کی کہ اُن کو سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ فوراً اس بات کو اُن کے سامنے clear کرو، مَیں نہیں چاہتی کہ خلیفۂ وقت سے منسوب کوئی بات آگے پہنچے جو انہوں نے نہ کہی ہو۔ یہ خلافت سے پیار کا ایک خوبصورت انداز تھا۔
پردہ کی اس قدر پابند اور حیا سے لبریز تھیں کہ ایک دن مسجد فضل سے باہر آرہی تھیں۔ سڑک پر کافی رش تھا۔ پورے نقاب میں تھیں۔ پھر بھی واپس لَوٹ گئیں۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ رش کم ہوجائے۔ مَیں نے کہا یہاں تو اسی طرح رش ہوتا ہے، سب گزر جاتے ہیں تو کہنے لگیں حیا آتی ہے، انہوں نے اس رش میں سے گزر کر جانے کی بجائے مزید انتظار کرنے کو ترجیح دی۔ یہ بات میرے دل پر نقش ہوگئی ۔ ہم سب کے لئے بہترین نمونہ تھیں۔
خدا کرے کہ ہم میں سے بہت سی نصرتیں پیدا ہوں۔ وہ دینی غیرت کا مجسمہ تھیں۔ دینی غیرت کے تمام تقاضے پورے کئے اور اپنی پوری زندگی کو اس نہج پر لے آئیں کہ ہر کوئی کہہ اٹھا: ’’واہ نصرت واہ