خطاب حضور انور

قادیان دار الامان میں جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 31دسمبر2017ء بروز اتوار امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاطاہر ہال بیت الفتوح لندن سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ براہ راست اختتامی خطاب

یہ انتہائی ظالمانہ اور جاہلانہ اعتراض اور الزام ہے جو جماعت احمدیہ پر لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔

جماعت احمدیہ اپنی ابتدا سے آج تک اعلان کر رہی ہے کہ یہ نام نہاد علماء جھوٹ کہتے ہیںا ور اس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

آج یہ جلسہ بھی جو دنیا میں دیکھا جا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہی ثبوت ہے ورنہ ہمارے وسائل اگر دیکھیں تو یہ ناممکن ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں اسلام کا حقیقی پیغام ہم پہنچاسکیں۔ پس یہ تبلیغ کے کام خدا تعالیٰ خود کر رہا ہے اور یہ بھی تبلیغ کا ہی حصہ ہے کہ ہم ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے، سوشل میڈیا کے ذریعہ سے، ختم نبوت کی حقیقت کو بھی دنیا کو بتائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس فرض کے لئے مقرر کیا ہے اور یہی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اسلام کی تبلیغ دنیا میں کرنی ہے اور یہی حکم

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس زمانے میں اشاعت اسلام کے جو ذرائع اللہ تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں وہ مسیح موعود کے زمانے سے ہی وابستہ تھے۔

پس اب ہم سب کا یہ فرض ہے کہ تبلیغ کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ختم نبوت کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ وا لسلام کے ارشادات کے حوالہ سے عقیدۂ ختم نبوت کی پُر معارف تشریح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے دین کو دوبارہ دنیا میں اس کی اصل حالت میں قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے بھیجا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اس وعدے کے ساتھ بھیجا ہے کہ وہ غلبہ بھی عطا فرمائے گا اسے دنیاوی حکومتوں کی لگائی ہوئی قدغنیں اور علماء کے مظالم اور بیہودہ گوئیاں کس طرح پھلنے پھولنے سے روک سکتی ہیں ۔ ہم ہی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تعلیم کے مطابق اور ان کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے آج دنیا کے 210 ممالک میں خاتم النبیین کے جھنڈے کو لہرا دیا ہے۔

یہ ہمارا ایمان ہے اور ہم اس ایمان پر قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق ہیں اور وہی مسیح موعود اور خاتم الخلفاء ہیں جن کے آنے کی خبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور اسے اپنا سلام پہنچانے کا ارشاد فرمایا تھا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے اسلوب اسی مسیح موعود اور مہدی معہود سے سیکھے ہیں جن کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد علماء ہمیں کافر کہتے اور دائرہ اسلام سے باہر نکالتے ہیں۔ آج مخالفین احمدیت کی ان باتوں کی وجہ سے اور دشمنوں کی دشمنیوں کی وجہ سے ہر احمدی پر پہلے سے بڑھ کر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی اور عملی حالت میں ایک ایسی تبدیلی لائے جو خدا تعالیٰ کو ہم سے نزدیک تر کر دے۔

جلسہ سالانہ قادیان 2017ء میں 44 ممالک کے بیس ہزار اڑتالیس افراد شامل ہوئے۔

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔


مخالفین احمدیت آجکل اور ہمیشہ سے اپنے زُعم میں ایک الزام لگا رہے ہیں اور یہ ایک ایسا بڑا الزام ہے جو ان کے خیال میں جماعت احمدیہ مسلمہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے۔ آجکل میں نے اس لئے کہا کہ ہمیشہ سے یہ الزام ہے لیکن آجکل بہت شدت اور زور سے لگایا جا رہا ہے اور وہ ہے نعوذ باللہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ختم نبوت سے انکار۔ اگر وہ اپنے الزام میں سچے ہیں تو یقیناً جو وہ کہتے ہیں صحیح ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس کا جماعت احمدیہ مسلمہ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیںا ور یہی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ پس یہ انتہائی ظالمانہ اور جاہلانہ اعتراض اور الزام ہے جو جماعت احمدیہ پر لگایا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں۔ ایک طرف تو ہم اپنے آپ کو مسلمان کہیں اور دوسری طرف بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ کے مطابق ختم نبوت کے عقیدے کو نہ مان کر کافر بن جائیں۔

جماعت احمدیہ اپنی ابتدا سے آج تک اعلان کر رہی ہے کہ یہ نام نہاد علماء جھوٹ کہتے ہیںا ور اس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن عامّۃ المسلمین کو انہوں نے اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ عمومی طور پر وہ یہ سوچنے سمجھنے اور سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے کہ احمدی کیا کہتے ہیں؟ لیکن جو اس پر غور کرتے ہیں، ہماری باتیں سنتے ہیں، قرآن اور حدیث کو سمجھتے ہیں، وہ اس بات کے قائل ہو جاتے ہیں کہ حقیقت میں احمدی مسلمان ہی حقیقی مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو مسیح موعود اور مہدی معہود مان کر ہی حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مقام کی شناخت ہو سکتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کے نام نہاد علماء اپنے ذاتی مفادات کے حاصل کرنے اور اپنی جہالت کو چھپانے کے لئے اب ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ جس طرح بھی ہو ان علاقوں کے مسلمانوں کو احمدیوں کے قریب بھی نہ آنے دیا جائے۔ اسی طرح ان کی کوششیں دوسرے مسلمان ممالک میں بھی ہیں کہ یہاں احمدیت کو بدنام کیا جائے اور یہی اب ان کا حال ہے کہ بہت سارے وفود انہوں نے افریقہ میں بھیجنے شروع کر دئیے ہیں۔ وہاں سے بھی یہ خبریں آتی ہیں اور ان کو لالچ دئیے جاتے ہیں کہ تم احمدیت چھوڑ دو ہم تمہیں مسجدیں بنا کر دیں گے۔ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ لیکن وہ مسلمان جن کو اسلام کا کچھ پتا بھی نہیں تھا انہوں نے احمدیت کے ذریعہ سے حقیقی اسلام سیکھا۔ نماز سیکھی۔ قرآن سیکھا۔ وہی ان کو جواب دے رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نو مبایعین بڑے مضبوط ہیں کہ اتنا عرصہ تم لوگوں کو ہوش نہیں آئی۔ آج جب جماعت احمدیہ نے آ کر ہمیں قرآن پڑھایا، ہمیں نماز سکھائی، ہمیں مسجد بنا کر دی، ہمارے بچوں کی تربیت کی، ان کو قرآن پڑھایا اور نماز سکھائی اور دین کا علم دیا اب تمہیں خیال آیا ہے۔ پس ہمارے پاس سے چلے جاؤ۔ کبھی بھی ہم تمہاری بات ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن بہرحال یہ اپنی کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انسانی کوششیں اور منصوبے خدا تعالیٰ کے منصوبوں کے آگے نہیں ٹھہر سکتے۔ یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اس نے مسیح موعود کے ماننے والوں کو اکثریت میں بدلنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ پس اس لحاظ سے تو ہم احمدیوں کو ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ یہ احمدیت کی ترقی کو کسی طرح بھی نہیں روک سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو الہاماً فرمایا تھا کہ’ مَیں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا‘(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 342) اور ہر روز ہم یہ نظارہ کرتے ہیں کہ باوجود مخالفین احمدیت کے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے، باوجود اسلام کے بنیادی عقیدے کے بارے میں احمدیوں کے بارے میں یہ مشہور کرنے کے کہ یہ اس کو مانتے نہیں سینکڑوں ہزاروں لوگ احمدیت میں روزانہ شامل ہوتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں سے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ ’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘(الحکم جلد 2 نمبر 5,6 مورخہ 27 مارچ و 6 اپریل 1898ء صفحہ 13) اور بعض لوگوں کا ہمیں علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کہاں رہتے ہیں لیکن وہ کوشش کر کے ہم سے رابطہ کرتے ہیں کہ کس طرح انہیں احمدیت کا علم ہوا اور اب وہ جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ موجودہ دور کی ترقی نے اس تبلیغ کے خود ہی سامان پیدا کر دئیے ہیں۔ پھر مخالفین کی اپنی حرکتیں، ان کی اپنی تقریریں، ان کی اپنی غلط باتیں جو سوشل میڈیا کے ذریعہ سے آجکل پھیلا رہے ہیں اور اپنے ماحول میں احمدیوں کے متعلق بیہودہ گوئی کرتے ہیں ان کی یہی باتیں کئی نیک فطرتوں کو ہماری طرف متوجہ کرتی ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں جنہیں انسانی منصوبے روک نہیں سکتے۔

آج یہ جلسہ بھی جو دنیا میں دیکھا جا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا ہی ثبوت ہے ورنہ ہمارے وسائل اگر دیکھیں تو یہ ناممکن ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں اسلام کا حقیقی پیغام ہم پہنچا سکیں۔ پس یہ تبلیغ کے کام خداتعالیٰ خود کررہا ہے اور یہ بھی تبلیغ کا ہی حصہ ہے کہ ہم ٹیلی ویژن کے ذریعہ سے، سوشل میڈیا کے ذریعہ سے، ختم نبوت کی حقیقت کو بھی دنیا کو بتائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس فرض کے لئے مقرر کیا ہے اور یہی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اسلام کی تبلیغ دنیا میں کرنی ہے اور یہی حکم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس زمانے میں اشاعت اسلام کے جو ذرائع اللہ تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں وہ مسیح موعود کے زمانے سے ہی وابستہ تھے۔

پس اب ہم سب کا یہ فرض ہے کہ تبلیغ کریں اور دنیا کو بتائیں کہ ختم نبوت کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ اسلام کی حقیقی تعلیم کیا ہے؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ کیا ہے؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے اور آپ کے بلند مقام و مرتبہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی آج مَیں کچھ بیان کروں گا۔ بہت سے غیر از جماعت مسلمان بھی ایسے ہیں جو ہمارے پروگرام دیکھتے ہیں اور سنتے ہیں ان کے لئے بھی یہ باتیں رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہیں ۔

آپؑ نے یہ فرمایا کہ میرا تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر کامل ایمان ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین ٹھہرا دیا وہا ں آپ کی شریعت کو بھی کامل کر دیا اور اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کا اعلان بھی فرما دیا۔ اکمال دین بھی ہوچکا ہے اور اتمام نعمت بھی اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اب اسلام ہی پسندیدہ دین ہے اور اب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرنا بدعات ہیں۔

آپ اپنے مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب بتاؤ کہ یہ خود تراشیدہ وظائف ہیں جو تم نے اختیار کر لئے ہیں اور درود ہیں اور چند کافیوں کو جیسے بُلّھے شاہ کی کافیاں ہیں ان کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ انہی کو دین سمجھ لیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو بھلا دیا گیا ہے۔ ان کی نمازوں میں لذت نہیں رہی اور نمازوں میں لذت حاصل ہونے کی بجائے اپنے بنائے ہوئے اذکار پر ان کو وجد طاری ہو جاتا ہے اور اپنی پگڑیاں اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ ناچ گانے شروع ہو جاتے ہیں۔ گانے تو نہیں، ناچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ دھمال ڈال رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسی حرکتیں ہوتی تھیں؟ اور یہ باتیں جو آپ نے فرمائی ہیں یہ کوئی صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی باتیں نہیں ہیں بلکہ آجکل بھی اسی طرح کی مجلسیں مسلمانوں میں ہوتی ہیں۔ بھنگڑا ڈال رہے ہوتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا پر ان کی یہ حرکتیں عام دیکھی جا سکتی ہیں۔ان لوگوں نے عجیب عجیب حلیے بنائے ہوتے ہیں۔ بہرحال آپ فرماتے ہیں کہ تم مجھ پر تو یہ الزام لگاتے ہو کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور ختم نبوت کی مہر کو توڑ دیا گویا کہ میں کوئی مستقل نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں۔آپ نے فرمایا کہ میرا دعویٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ کر آپ کی شریعت پر عمل کرنا اور کروانا ہے مگر تم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے کہ جھوٹی نبوت تو تم لوگوں نے خود بنائی ہوئی ہے جبکہ خلافِ رسول اور خلاف قرآن تو تم یہ نئے نئے اوراد اور ذکر نکال رہے ہو۔ اگر انصاف ہے تو بتاؤ کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ کر رہے ہیں یا کم کر رہے ہیں یا تم لوگ؟ آپ فرماتے ہیں کیا اَرّہ کا ذکر میں نے بتایا ہے یا تمہاری اختراع ہے؟ اور اسی طرح صرف اللہ ہُو کی محفلیں ہیں اور نماز میں اور دعاؤں کی طرف کچھ توجہ نہیں ہے۔ اَور پتا نہیں کیا کیا کچھ اور رسمیں نکالی ہوئی ہیں۔ کیا بدعات پیدا کی ہوئی ہیں۔ پیروں فقیروں کی قبروں پر سجدے کرتے ہیں۔ دین اسلام میں یہ سب بدعات ان لوگوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے داخل کی ہوئی ہیں۔ پس آپ فرماتے ہیں کہ یہ الزام مجھے نہ دو اپنی حالتوں کو دیکھو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 88 تا90۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’یقیناً یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کرے۔ جب تک ان مُحدثات سے الگ نہیں ہوتا( یعنی جو نئی نئی بدعات پیدا کر لی ہیں اپنے دین میں) اور اپنے قول اور فعل سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خاتم النبیین نہیں مانتا کچھ نہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ سعدی نے کیا اچھا کہا ہے کہ

بزہد و ورع کوش و صدق و صفا

ولیکن میفزائے بر مصطفیٰ

(یعنی زہد اور تقویٰ اور صدق و صفا کے لئے ضرور کوشش کر مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریق سے تجاوز نہ کر۔) آپ نے فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور نبوت کو دوبارہ قائم کرنا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ ہمارا مدّعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوّتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جو اِن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں۔ ان ساری گدّیوں کو دیکھ لو ‘‘(یعنی پیروں فقیروں کی گدیاں جو ہیں)’’ اور عملی طور پر مشاہدہ کر لو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ؟‘‘

پھر ایک جگہ اس مضمون کو جاری رکھتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ

’’یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خداتعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو‘‘۔ غیر احمدیوں نے عجیب عجیب قسم کی بدعتیں بنائی ہوئی ہیں۔’’ بغدادی نماز، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں۔ کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتا لگتا ہے؟ اور ایسا ہی یَا شیخ عبدالقادر جیلانی شَیْئًا لِلہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی کا وجود بھی نہ تھا۔ پھر یہ کس نے بتایا تھا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں’’ شرم کرو! کیا شریعتِ اسلام کی پابندی اور التزام اسی کا نام ہے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’اب خود ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو مان کر اور ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہو کہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبیین کی مہر کو توڑا ہے۔ اصل اور سچی بات یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعات کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبوت پر ایمان لا کر آپ کے طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا امام بنا کر چلتے تو پھر میرے آنے ہی کی کیا ضرورت ہوتی‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ تمہاری ان بدعتوں اور نئی نبوتوں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیرت کو تحریک دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو اِن جھوٹی نبوّتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابود کرے۔ پس اسی کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں’’ گدی نشینوں کو سجدہ کرنا یا ان کے مکانات کا طواف کرنا یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں۔‘‘

پھر آپ اپنی بعثت کے مقصد اور جماعت کے قیام کے مقصد کو بیان فرماتے ہوئے اور ختم نبوت کی حقیقت کیا ہے اس کی وضاحت فرماتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ

’’ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت اور عزّت کو دوبارہ قائم کریں۔ ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے اگر اس جیسے ہزاروں اَور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبت کی خصوصیت کیا رہی۔ تو پھر اگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا ہیں جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقاہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں‘‘۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہیں دوسری طرف خانقاہوں اور مزاروں پر صرف دعا کے لئے نہیں جاتے بلکہ پرستش کرتے ہیں، پوجا کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ مدینہ طیبہ تو جاتے ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے جاتے ہیں۔ حج اور عمرہ کے لئے بھی جاتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں’’ مگر اجمیر اور دوسری خانقاہوں پر ننگے سر اور ننگے پاؤں جاتے ہیں‘‘۔ ان کو بھی وہی مقام دیا ہوا ہے۔’’ پاکپتن کی کھڑکی میں سے گزر جانا ہی نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں‘‘۔ یہ بھی انہوں نے بدعات پیدا کی ہوئی ہیں کہ وہاں بزرگ کی کھڑکی میں سے گزر جاؤ، دروازے میں سے گزر جاؤ تو نجات مل جائے گی۔ فرمایا کہ’’ کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے کسی نے کوئی اَور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عُرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انہوں نے کیا بنا رکھا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ اگر خدا تعالیٰ کو اسلام کی غیرت نہ ہوتی اور اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ (آل عمران20:)۔ خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا( کہ) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر10:) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدۂ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپ کی نبوت کو نئے سر سے زندہ کر کے دکھا دے۔ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامور اور مہدی بنا کر بھیجا۔‘‘

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے دین کو دوبارہ دنیا میں اس کی اصل حالت میں قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے بھیجا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اس وعدے کے ساتھ بھیجا ہے کہ وہ غلبہ بھی عطا فرمائے گا اسے دنیاوی حکومتوں کی لگائی ہوئی قدغنیں اور علماء کے مظالم اور بیہودہ گوئیاں کس طرح پھلنے پھولنے سے روک سکتی ہیں ۔

ہم ہی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تعلیم کے مطابق اور ان کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے آج دنیا کے 210 ممالک میں خاتم النبیین کے جھنڈے کو لہرا دیا ہے۔

اور اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ سلسلہ کا قیام کس غرض سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں

’’آج دو قسم کے شرک پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے اسلام کو نابود کرنے کے لئے بے حد سعی کی اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا تو قریب تھا کہ خد اتعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مٹ جاتا۔ مگر چونکہ اس نے وعدہ کیا ہوا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر10:) یہ وعدۂ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقع ہو تو وہ خبر لے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’چوکیدار کا کام ہے کہ وہ نقب دینے والوں کو پوچھتے ہیں اور دوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے ہیں۔ اسی طرح پر آج چونکہ فِتَن جمع ہو گئے تھے‘‘ بہت سارے فتنے اکٹھے ہو گئے تھے’’ اور اسلام کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو تیار ہوگئے تھے اس لئے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاجِ نبوت قائم کرے۔ یہ مواد اسلام کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخر اب پھوٹ نکلے۔ جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کر نکلتا ہے۔ اسی طرح پر اسلام کی مخالفت کے بچہ کا خروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پورے جوش اور قوت میں ہے۔‘‘ یہی ہم آجکل دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ دنیا دار لوگ بھی اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے مقاصد جغرافیائی طاقت حاصل کرنا ہے، سیاسی طاقت حاصل کرنا ہے، لیکن اسلام کو بدنام کر کے وہ طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسلامی ممالک کی دولت کو حاصل کرنے کے لئے بھی یعنی کہ گویا مذہبی لحاظ سے بھی اور دنیاوی لحاظ سے بھی ہر طرح سے آجکل اسلام کو، مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ پورے جوش اور قوت سے آجکل یہ مخالفت ہو چکی ہے۔ آپ نے فرمایا ’’اس لئے اس کو تباہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حربہ نازل کیا اور اس مکروہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھادُور کرنے کے لئے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے‘‘۔ اندرونی طور پر بھی مسلمانوں میں قبروں کی پوجا کر کے ایک شرک پیدا ہو چکا ہے بیرونی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو ماننے سے لوگ انکاری ہو چکے ہیں اور شرک ویسے بھی بڑھ رہا ہے دنیاداری کے شرک میں مبتلا ہو چکے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ اس ہر طرح کے شرک کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ قائم کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور مَیں بڑے دعوے اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بیشک یہ خدا کی طرف سے ہے۔ اُس نے اپنے ہاتھ سے اِس کو قائم کیا ہے جیسا کہ اُس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اِس سلسلہ کے لئے اُس نے ظاہر کی ہیں دکھا دیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 90 تا 93۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھرآپ نے اس بات کی مزید وضاحت فرمائی اور یہ فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک شریعت لانے والے اور ایک جو صاحب شریعت کے کام کو جاری رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا( تعالیٰ) کی طرف سے مامور ہو کر آنے والے لوگوں کے دو طبقے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صاحبِ شریعت ہوتے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام اور ایک وہ جو اِحیائے شریعت کے لئے آتے ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔ اسی طرح پر ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل شریعت لے کر آئے جو نبوّت کے خاتَم تھے اس لئے زمانہ کی استعدادوں اور قابلیتوں نے ختم نبوّت کر دیا تھا۔ پس حضور علیہ السلام کے بعد ہم کسی دوسری شریعت کے آنے کے قائل ہرگز نہیں۔ ہاں جیسے ہمارے پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے اسی طرح آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے سلسلہ کا خاتَم جو خاتَم الخلفاء یعنی مسیح موعود ہے ضروری تھا کہ مسیح علیہ السلام کی طرح آتا۔ پس مَیں وہی خاتم الخلفاء اور مسیح موعود ہوں۔ جیسے مسیح کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ شریعتِ مُوسوی کے احیاء کے لئے آئے تھے۔ مَیں کوئی جدید شریعت لے کر نہیں آیا اور میرا دل ہرگز نہیں مان سکتا کہ قرآن شریف کے بعد اب کوئی اَور شریعت آسکتی ہے کیونکہ وہ کامل شریعت اور خاتم الکتب ہے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے شریعتِ محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا ہے۔ میرے الہامات جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ہوتے ہیں اور جو ہمیشہ لاکھوں انسانوں میں شائع کئے جاتے ہیں اور چھاپے جاتے ہیں اور ضائع نہیں کئے جاتے وہ ضائع نہ ہوں گے اور وہ قائم رہیں گے‘‘۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 272۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپ نے پرزور الفاظ میں یہ بھی فرمایا کہ میں نے جو کچھ پایا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی فیض ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کہ تمام محامد اور مناقب اور تمام صفاتِ جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں۔ میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت دنیا میں قائم ہو۔ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں یہ بھی درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف راجع ہیں‘‘۔ یعنی اسی طرف منسوب ہو رہی ہیں۔ آپؐ کی ہی مرہون منت ہیں۔ آپؐ کے فیض سے ہی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں ’’اس لئے کہ مَیں آپؐ کا ہی غلام ہوں اور آپؐ ہی کے مشکوٰۃ نبوت سے نور حاصل کرنے والا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ مَیں مستقل طور پر بِلا استفاضۂ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مامور ہوں اور خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہوں تو وہ مردود اور مخذول ہے۔ خدا تعالیٰ کی ابدی مہر لگ چکی ہے اس بات پر کہ کوئی شخص وُصول الی اللہ کے دروازہ سے آ نہیں سکتا بجز اِتّباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ 287۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو ملنے کے لئے ایک ہی دروازہ ہے اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔

پس یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی شریعت نہیں لے کر آئے اور نہ اب کوئی نئی شریعت آ سکتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ و ارفع مقام کا ہی یہ تقاضا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وجہ سے اور آپ کی غلامی میں آنے کی وجہ سے آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو نبی کے مقام سے نوازا۔ کسی اور نبی کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا کہ اسے شرعی نبی کی غلامی کی وجہ سے، کسی نبی کی غلامی کی وجہ سے مامور ہونے کا درجہ ملا ہو۔ پس یہ ہمارا ایمان ہے اور ہم اس ایمان پر قائم ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہیں اور وہی مسیح موعود اور خاتم الخلفاء ہیں جن کے آنے کی خبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور اسے اپنا سلام پہنچانے کا ارشاد فرمایا تھا۔

(المعجم الأوسط جلد 3 صفحہ 383 تا 384 حدیث 4898 باب العین من اسمہ عیسیٰ مطبوعہ دار الفکر عمان اردن 1999ء)

جو احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام اس سے اوپر سمجھتا ہے وہ یقیناً مسلمان نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا دوسرے مسلمان علماء اور حکومتیں اس بات کو لے کر کہ ہم ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے بیشک ہم پر ہر قسم کے فتوے لگائیں اور احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانے اور قتل کرنے کے لئے عامّۃ المسلمین کو ابھاریں لیکن ہمارے ایمان کو انشاء اللہ تعالیٰ کبھی متزلزل نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے وہ پایا جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے تھے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے اسلوب اسی مسیح موعود اور مہدی معہود سے سیکھے ہیں جن کی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد علماء ہمیں کافر کہتے اور دائرہ اسلام سے باہر نکالتے ہیں۔

آج مخالفین احمدیت کی ان باتوں کی وجہ سے اور دشمنوں کی دشمنیوں کی وجہ سے ہر احمدی پر پہلے سے بڑھ کر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی اور عملی حالت میں ایک ایسی تبدیلی لائے جو خدا تعالیٰ کو ہم سے نزدیک تر کر دے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں اگر عرش کے خدا سے ہمارا پختہ تعلق ہے۔(ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15) پس ہمیں عرش کے خدا سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یقیناً وہ دن آنے والے ہیں جب تمام مخالفتیں ہوا ہو جائیں گی۔ جب مخالفین اوندھے منہ گرائے جائیں گے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہوئے خدا تعالیٰ کے تمام وعدے پورے ہوں گے۔ لیکن اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری ایمانی اور عملی حالتوں کے کیا معیار دیکھنا چاہتے ہیں اس بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

’’اے میرے دوستو جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلا کا وقت تم پر ہے۔ اسی سنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے ستائے جاؤ گے۔ اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی۔ اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے۔ اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو۔ کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے اوپر دو لعنتیں جمع کر لو۔ ایک خَلقت کی اور دوسری خدا کی بھی‘‘۔

آپ نے فرمایا’’ یقیناً یاد رکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدا تعالیٰ کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں۔ اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو۔ اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے‘‘۔ پس تقویٰ پیدا کرنا ضروری ہے اور تقویٰ میں بڑھنا ہم پہ ضروری ہے۔ اور تقویٰ یہی ہے کہ ہر نیکی میں ہم آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

آپ فرماتے ہیں’’ سو اے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا مُتّقی بن جاؤ۔ بغیر عمل کے سب باتیں ہیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اوّل اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو۔ اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ‘‘۔ دلوں میں نرمی پیدا کرو’’ کہ ہر یک خیر اور شر کا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’ اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی مَلِکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا مَلِکہ کو ردّی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدا تعالیٰ سے قوت اور ہمت مانگو کہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اور پاک جذبات اور پاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قُویٰ کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں‘‘۔ یعنی عملی طور پر بھی اس کا اظہار ہونا چاہئے’’تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود رہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو اور یاد رکھو کہ قرآن کریم میں پانچ سو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عُضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبۂ فہم اور مرتبۂ فطرت اور مرتبۂ سلوک اور مرتبۂ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے‘‘۔ پس عقل کے مطابق بھی، فطرت کے مطابق بھی اور جو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اس کے مطابق بھی، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ایک دعوت اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور اس کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جہاں علم حاصل کرنا ہے، جہاں ایمان کی ترقی کرنی ہے وہاں عملی طور پر بھی اس کا اظہار کرنا ہے۔ آپ فرماتے ہیں’’ سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہو گا۔ اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جُؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا۔پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو۔‘‘ دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی شرطیں اپنی عبادت میں نہ لگاؤ کہ اس طرح یہ عبادت نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر تم دنیاوی شرطیں لگاؤ گے تو’’ ایسے خیال کے لئے گڑھا درپیش ہے۔بلکہ تم اس لئے اُس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوبِ حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 546 تا 548)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر روز ہمارا ہر قدم نیکیوں میں بڑھنے والا قدم ہو۔ پاکستان کے احمدیوں کو بھی خاص طور پر دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور دعاؤں اور اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان کو زیادہ سے زیادہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں سب سے زیادہ سختیاں احمدیوں پر روا رکھی جا رہی ہیں اور ہر روز ایک نیا قانون ان کے لئے پاس کیا جا رہا ہے، بنایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ دشمن کا ہر منصوبہ ناکام و نامراد ہو۔

جلسے کے بعد تمام شاملین جو اس وقت قادیان میں موجود ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خیر و عافیت سے اپنے اپنے گھروں میں لے کر جائے اور جلسے کے دنوں کی برکات کو ہمیشہ اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے ہوں۔

اس کے بعد ہم دعا کریں گے۔ لیکن دعا سے پہلے مَیں وہاں کی حاضری کی رپورٹ بھی دے دوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت قادیان کے جلسہ میں بھی چوالیس(44) ممالک کی نمائندگی ہے اور بیس ہزار اڑتالیس کی حاضری ہے۔ جو گزشتہ سال سے تقریباً چھ ہزار زیادہ ہے۔ اور یہاں کی جو حاضری ہے وہ بھی پانچ ہزار تین سو ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین کا حافظ و ناصر ہو۔

اب دعا کر لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button