الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

(مرتبہ محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کا تاریخی انٹرویو

مجلس خدام الاحمدیہ یو کے کو صدسالہ خلافت جوبلی 2008ء کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک تاریخی انٹرویو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو قریباً تین گھنٹہ دورانیہ پر مشتمل تھا۔ انٹرویو پینل مکرم صاحبزادہ مرزا فخر احمد صاحب، مکرم طارق احمد بی ٹی صاحب ، مکرم ٹامی کالون صاحب اور مکرم ندیم الرحمٰن صاحب پر مشتمل تھا۔ یہ انٹرویو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 اور 10مئی 2012ء میں شامل اشاعت ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ نے اپنے بچپن کے حوالہ سے بتایا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی وفات کے وقت مَیں پندرہ سال کا تھا۔ چھوٹی عمر میںبھی ایک عزت اور احترام ہوتا تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ میرے نانا تھے کبھی ہم جرأت نہیں کرتے تھے کہ اُن کے سامنے بات کریں یا آرام سے چلے جائیں۔ خلافت کا احترام بہت تھا۔ ایک واقعہ جس نے میرے دل میں خلافت کا مزید احترام پیدا کردیا یوں ہے کہ میرے دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے سب سے چھوٹے بھائی تھے، وہ ایک دن مجھے ساتھ لے گئے۔مَیں نو سال کا تھا یا شائد اس سے بھی چھوٹا۔ قصرِ خلافت میں خود وہ نیچے کھڑے ہوگئے اور مجھے اوپر بھیجا کہ جائواور بتائو کہ مَیں ملنے آیا ہوں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اُن دنوں بیمار تھے اور اوپر کمرے میں آرام کیا کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ چھوٹا بھائی ہے تو گھر میں گھس گئے،پہلے کہا کہ جاکر اطلاع کرو۔ اس وقت حضرت چھوٹی آپا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ساتھ ڈیوٹی پر تھیں۔ مَیں نے بتایا کہ دادا ملنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے بلا لائو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لیٹے ہوئے تھے تو وہاں چھوٹی آپا نے اُن کے سرہانے کرسی رکھ دی کہ آئیں گے توبیٹھ کر باتیں کرلیں گے۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ السلام علیکم کرکے بجائے کرسی پر بیٹھنے کے اُن کی چارپائی کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے اور پھر بڑے ادب سے احترام سے باتیں ہوئیں۔ اور پھر وہ کھڑے ہوئے اور سلام کر کے اس طرح احترام سے نکلے ہیں ایک طرف سے ہو کے کہ اس وقت مجھے مزید خیال ہوا کہ یہ ہے خلافت کا احترام جو عملی شکل میرے دادا نے مجھے دکھائی۔ جس جس طرح عمر بڑھتی گئی تو پھر ہمیں احترام کی وجہ سے اَور زیادہ جھجک پیدا ہوتی گئی۔ خوف ڈر نہیں تھا بلکہ جھجک احترام کی وجہ سے ہوتی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ میرے نانا تھے اور نانا ہونے کی بےتکلّفی کی وجہ سے مذاق بھی کرلیا کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہم میں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم بھی اسی طرح آگے سے جواب دے دیں۔

٭ مَیں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اور سب سے چھوٹے بھائی بہن جو ہوتے ہیں ان کو ہر کوئی جو بڑا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ میرا یہ کام کردو اور میرا یہ کام کردو ۔ لیکن ہم بہن بھائیوں میں تعلق بھی بڑا تھا خاص طور پر سب سے بڑی بہن اور میرے سے Immediate بڑے بھائی جو ہیں ان سے میرا خاص تعلق تھا۔ اور باقی بہن بھائیوں کا بھی احترام اور ادب وغیرہ بڑا تھا۔ کبھی تُوتکار نہیں کی، کبھی بھی سامنے اونچی آواز میں نہیں بولے۔ تربیت ہماری یہ تھی کہ بچپن سے ہی اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے ساتھ منسلک تھے اور میرے بڑے بھائی زعیم محلہ تھے، اور مَیں اس لحاظ سے اُن کی اَور بھی عزت کرتا تھا۔

٭ بچپن میں تو میری کوئی Hobbies نہیں تھیں مگر باقاعدہ گیم ہم ضرور کیا کرتے تھے۔ دوسرے ہمارے والد صاحب کو شکار کا بڑا شوق تھا۔ ہر ہفتہ میں چھٹی کے دن وہ شکار پر جاتے تھے اور ہمیں بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ شروع کے زمانہ میں ربوہ کے ساتھ کا علاقہ جنگل کی طرح تھا۔ اتنا آباد نہیں ہوا تھا۔ ہم پیدل ہی جاتے تھے اور ربوہ سے باہر نکلتے ہی شکار شروع ہوجاتا تھا۔ فاختہ، خرگوش، تیتر اور اس کے علاوہ کبوتر بھی مل جایا کرتے تھے۔ اس لئے بچپن سے ہی اس کا شوق تھا۔ ہمارے پاس ائیر گن ہوتی تھی۔ ہم دونوں بھائی خود بھی نکل جاتے تھے۔ جلسے کے بعد وہاں پرالی آیا کرتی تھی، اس میں فاختائیں اور چڑیاں وغیرہ بہت آتی تھیں۔ بہرحال اس لحاظ سے یہ (شکار) بھی ایک ہابی رہی اور بڑے ہوکر جب بھی وقت ملتا تھا یا سیزن آتاتھا تو ہفتہ میں ایک دفعہ ضرور شکار کے لئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ شام کو ہم باقاعدہ گیم بھی کرتے تھے۔ کرکٹ یا بیڈمنٹن وغیرہ باہر جاکر کھیلتے رہے ہیں۔ مَیں کھیل میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ مگر کسی بھی کھیل میں زیادہ اچھا نہیں تھا۔ کھیلوں سے دیوانگی والا لگائو اور شوق نہیں تھا۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ کرکٹ میچ ہورہا ہو تو صبح سے شام تک اسے دیکھنے کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ میرے ساتھ ایسا نہیں تھا لیکن مجھے کرکٹ پسند ہے۔

ابّا کے ساتھ جاجاکر بچپن سے ہی شکار کا شوق ہوگیا تھا۔ بلکہ بعض دفعہ ہمیںاتنا چلاتے تھے کہ ہم لوگ تھک جاتے تھے۔ جس دن خرگوش کا شکار ہوتا تو اس دن مشکل پڑجاتی تھی کیونکہ اٹھا کر لانا بڑا مشکل ہوتا تھا۔

٭ بچپن میں ایسے روحانی تجارب بہت ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی ہستی کے زندہ ثبوت کے طور پر متأثر کیا ۔ ایک واقعہ اس وقت کا ہے جب میں پندرہ سال کا تھا۔ میٹرک کے امتحان میں میرا Mathsکا پیپر بہت خراب ہوا تھا اور بظاہر کوئی امید نہیں تھی کہ میں کامیاب ہوسکوں گا۔ چنانچہ اس کا ایک ہی حل تھا کہ خدا کے آگے جھکا جائے۔ اس لئے رزلٹ آنے تک تین ماہ کا جو وقت تھا اس میں مَیں نے بہت دعائیں کیں۔ یہ میرے لئے ایک قسم کا زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ آخر کار جب رزلٹ آیا تو مَیں امتحان میں پاس تھا۔مجھے اس بات پر خوشی کے ساتھ ساتھ سخت تعجب تھا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا کیونکہ ریاضی کے پرچہ میں دس فیصد سے زیادہ نمبروں کی توقع نہیں کررہا تھا، اس میں مجھے ـ”C” گریڈ ملا۔ پھر کچھ دیر بعد پتہ لگا کہ چونکہ اس سال ریاضی کا سخت اور مشکل پرچہ ڈالا گیا تھا اس لئے بعض طلباء کے آواز اٹھانے پر سیکنڈری بورڈ نے Grace Marks دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان دعائوں کا فیض خود مجھے بھی پہنچا اور میرے علاوہ اس کا فائدہ دیگر طلباء کو بھی ہوا۔

٭ میری پرورش اور تربیت میں خاندان مسیح موعودؑ کے دیگر افراد کی نسبت میری اپنی فیملی کا کردار اور اثر زیادہ ہے۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت دینی اور نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کرنے والا ماحول تھا۔ اس لئے گھر کا کوئی فرد اسلام کی بنیادی تعلیم سے اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ابّا مجھے نمازِ فجر کے لئے اٹھایا کرتے تھے اور اگر مَیں گہری نیند میں ہوتا تو وہ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مارا کرتے تھے۔ فجر کے بعد وہ مجھے اور میرے بھائی کو ورزش کرنے کو کہتے تھے اور خود بھی ورزش کیا کرتے تھے اور ہم انہیں Follow کیا کرتے تھے۔ تو بچپن کی ابتدائی عمر سے ہی Disciplined اور قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی تھی۔ ہمارے گھر میں سولہ سترہ سال کی عمر تک یہ خاص طور پر ہدایت تھی کہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلنا۔ باوجود اس کے کہ ہمارے ارد گرد اپنے لوگ ہی ہمسائے تھے اور گھروں کے بیچ میں دروازے کھلا کرتے تھے۔ لیکن ہدایت تھی کہ عشاء کے بعد فوراًگھر آنا ہے۔ ایک دفعہ جب میرے بھائی F.Sc. میں پڑھتے تھے، اس وقت کالج میں یونین الیکشن ہورہے تھے تو وہ دوپہر کو گھرنہیں آئے۔ ہمارے والد صاحب یہی سمجھے کہ کوئی پریکٹیکل ہے۔ لیکن جب مغرب کا وقت گزر گیا تو انہوں نے کالج فون کیا تو پتہ لگا کہ بھائی کالج کی الیکشن Campaign میں شامل تھے۔ چنانچہ جب واپس آئے تو ابّا نے کہا کہ یہ غلط طریقہ ہے، جو کرنا ہے مغرب سے پہلے پہلے کرناچاہیے۔

٭ صحابہؓ میں حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کے پاس بھی مَیں گیا ہوں۔ جو بھی آتا تھا تو دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کیا کرتے تھے۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری بھی ابّا کے پاس اکثر آیا کرتے تھے۔ اُن کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرتا تھا، میں سات آٹھ سال کا تھا جب اُن کی وفات ہوئی۔ پھر مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ کا آنا جانا بھی کافی تھا۔ وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے فارم پر سندھ میں رہے ہیں۔ ایک دفعہ حضورؓ سندھ دورہ پر گئے۔ شاید کپاس کی فصل تھی۔ دیکھ رہے تھے کہ ایکڑکی کتنی Yield نکل آئے گی۔ اِنہوں نے کہا کہ اتنی نکل آئے گی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور عبدالرحیم درد صاحب آپس میں انگریزی میں باتیں کرنے لگے (کہ مولوی صاحب کو شاید سمجھ نہ آئے) کہ یہ ایسے ہی کہتے ہیں، اتنی نہیں نکل سکتی۔ مولوی صاحب تو سمجھتے تھے، وہ کہنے لگے میاں صاحب! اتنی نکل آئے گی کیونکہ مَیں نے اس فارم کے ہر کونے میں دو دو نفل پڑھے ہوئے ہیں۔ تو پرانے بزرگوں کی ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کا دعائوں پر اتنا یقین تھا اور دعائوں سے بہت کام لیتے تھے۔

٭ زمانۂ طالبعلمی میں مَیںاپنے تمام ساتھیوں میں سے کمزور ترین طالبعلم تھا۔ دسویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے مزید تعلیم کے لئے میڈیکل سائنس کے مضامین منتخب کئے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میں ایک کمزور طالب علم ہوں میری ہمّت بلند تھی۔ البتہ مَیں ان مضامین میں چل نہ سکا۔ لہٰذادو سال بعد میں نے آرٹس کے مضامین رکھ لئے۔ اِس کے باوجود بھی مَیں بورڈ کا امتحان پہلی کوشش میں پاس نہیں کرسکا اور ایک مضمون میں مجھے دوبارہ بیٹھنا پڑا۔ گریجوایشن کے وقت بھی دوسری کوشش میں ہی کامیاب ہوسکا۔ اس کے بعد مَیں ایگریکلچر یونیورسٹی میں چلاگیا کیونکہ بچپن سے ہی اس کے ساتھ میری دلچسپی تھی۔ مَیں اپنے ابّا کے ساتھ زرعی فارم پر جایا کرتا تھا۔ گو کہ زرعی یونیورسٹی میں میری تعلیمی کارکردگی بہت اچھی نہ تھی پھر بھی مَیں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوگیا۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے میری دعائیں اور مستقبل کے لئے میرے اچھے ارادے ہی تھے۔ کیونکہ جب مَیں نے زندگی وقف کرنے کا ارادہ کیا تو مَیں نے اللہ کے حضوردعا کی کہ اے اللہ! مَیں ایسا اسی صورت میںکروں گا اگر M.Sc. کے فائنل امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن آئے۔ یہ رزلٹ اسی دعا کا نتیجہ تھا۔

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب فوت ہوئے تو اس وقت مَیں پندرہ سال کا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ میرے ماموں تھے۔ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد میرے ساتھ اُن کی محبت اور شفقت پہلے سے کئی گُنا بڑھ گئی تھی۔

جب مَیں یونیورسٹی میں تھا تو حضورؒ نے مجھے فرمایا کہ میں وہاں سے اُن کے لئے خالص شہد لے کر آؤں۔ یونیورسٹی میں ایک ڈیپارٹمنٹ کا نام Apiculture Department تھا جس میں شہد کی مکھیاں پالنے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میں وہاں سے ان کے لئے خالص شہد لے کر آتا تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے کچھ پیسے دیئے۔ مَیں نے کہا کہ ابھی رہنے دیںجب مَیں شہد لے آئوں گا تو تب پیسے لے لوں گا۔ انہوں نے کہا نہیں تم یہ پیسے لے لو کیونکہ میرا طریق ہے کہ جب میں کسی کو کہہ کر کوئی چیز منگواتا ہوں تو اس کی ادائیگی پہلے کرتا ہوں۔ اتفاقاً اُس مرتبہ مجھے شہد نہ مل سکا۔ یونیورسٹی کے ایک احمدی پروفیسر سے مَیں نے ذکر کیا کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے لئے شہد چاہئے۔ تو انہوں نے ایسا شہد لاکر دیا جس کے اندر چھتہ بھی موجود تھا۔ انہوں نے مجھ سے اس شہد کی قیمت نہیں لی تھی چنانچہ میں نے وہ شہد لاکر دیا اور 20 روپے جو حضورؒ نے مجھے شہد کے لئے دیئے تھے واپس دینے چاہے تو حضورؒ نے فرمایا کہ میں دی ہوئی رقم واپس نہیں لیا کرتا۔ یہ پیسے تمہارے ہیں خواہ شہد دینے والے نے تم سے رقم لی ہو یا نہ لی ہو۔

٭ جب میں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ کیا تو تحریک جدیدنے فیصلہ کیا کہ اُنہیں اس مضمون کے Qualified کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے خیال میں نہ ہی وہ مجھے دفتری کام سونپ سکتے تھے اور نہ ہی انہیں افریقن ممالک میں ہمارے سکولوں کے لئے اس مضمون کے کسی ٹیچر کی ضرورت تھی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ ’’تمہیں اس کی ضرورت نہیں مگر مجھے اس کی ضرورت ہے‘‘۔ پھر آپؒ نے مجھے نصرت جہاں سکیم کے تحت غاناجانے کا ارشاد فرمایا۔ روانگی کے وقت جب مَیں ملنے گیا تو حضورؒ نے مجھے گلے لگایا۔ کسی خلیفہ سے گلے ملنے کا یہ میرے لئے پہلا موقعہ تھا۔ اس موقع پر حضورؒ نے ایک نہایت اہم بات جو مجھ سے فرمائی وہ یہ تھی کہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم غاناایک واقف زندگی کے طور پر جارہے ہو اور یہ بھی یاد رکھنا کہ تم حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہو اس لئے لوگوں کی نظریں تم پر ہوں گی۔ لہٰذا ہمیشہ اپنے اللہ کو یاد رکھنا۔ کوئی ایسا کام نہ کرنا جو اسلام کی تعلیم اور احمدیت کی روایات کے خلاف ہو۔

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے میرا بچپن سے ہی بہت قریبی تعلق تھا۔ 1972ء میں اتفاقاً مری میں ہمارا اکٹھا چند دن کا پروگرام بن گیا۔ وہاں مَیں آپ کے ساتھ مل کر ہائیکنگ اور کوہ پیمائی کرتا رہا ۔ ہم نے سارا وقت بہت بے تکلفی کے ماحول میں گزارا۔ جب آپ خلیفہ بنے تو مَیں اُس وقت غانامیں تھا اور آپ کے خلیفہ بننے کے بعد آپ سے میری پہلی ملاقات یہاں لندن میں 1985ء میں ہوئی جبکہ مَیں غانا سے ربوہ جاتے ہوئے لندن میں دو دن کے لئے ٹھہرا تھا ۔ گوکہ خلیفہ بننے سے پہلے مَیں آپ سے بہت بے تکلّف تھا لیکن اب آپ کی شخصیت مکمل طور پر بدل چکی تھی اور اس کے واسطہ سے میرے انداز میں بھی ایک تبدیلی پیدا ہوچکی تھی۔ چنانچہ مختلف امورپر گفتگو بھی ہوئی مگر اب وہ پہلے والی بات نہ تھی۔ بعد میں حضورؒ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ تم غاناواپس جانے کی بجائے ربوہ میں ہی رہو اور آپؒ نے ربوہ میں ہی میری تقرری فرمادی۔

پھر حضورؒ نے اپنے کچھ نجی کاموں کی ذمہ داریاں بھی مجھے سونپ دیں۔ میں حضورؒ کی سندھ، پنجاب اور دیگر جگہوں پر موجود زرعی زمینوں کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔ پھر حضورؒ نے مجھ پر اس قدر اعتماد کیا کہ یہ سارے کام میرے سپرد کردئیے۔ جب کبھی مَیں کوئی مشورہ عرض کرتا تو حضور فوراً قبول فرمالیتے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی معاملہ میں کسی اَور نے مجھ سے مختلف رائے دی ہو اور حضورؒ نے میری تجویز کو منظور نہ فرمایا ہو۔

اس کے علاوہ حضورؒ نے جماعتی معاملات میں بھی مجھ پر بہت اعتماد کیا ۔ آپ نے مجھے ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا جو پاکستان میں سب سے بڑا جماعتی عہدہ ہے۔ مَیں ناتجربہ کار تھااور کم عمر بھی تھا۔ اُس وقت حالانکہ مجھ سے زیادہ تجربہ کار لوگ بھی موجود تھے جومجھ سے کہیں زیادہ قابلیت رکھنے والے، روحانی لحاظ سے بلند مرتبت والے، ذہنی صلاحیتوں میں بھی بڑھ کر تھے اور بھی بہت سے Factors تھے مگر پتہ نہیں کیوں مجھے اس عہدہ پر مقرر فرمایا؟ شاید یہ تمام خدائی منشاء تھا یا حضورؒ کا مجھ پر اعتماد اور آپ کی دعائیں تھی۔ پاکستان میں انتظامی امور کے چلانے میں کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر مَیں ان مشکلات پر قابو پانے میں بآسانی کامیاب ہوگیا۔

٭ اطفال الاحمدیہ میں 9یا10سال کی عمر میں مجھے اپنے گروپ کا سائق مقرر کردیاگیا۔ پھر محلّہ میں خدام الاحمدیہ کے مختلف شعبوں کا منتظم اور پھر زعیم بنا۔ اس کے بعدمہتمم مقامی ربوہ کی مجلس عاملہ میں ناظم عمومی مقرر ہوا۔پھر جب مَیں فیصل آباد ایگریکلچر یونیورسٹی چلا گیا تو یونیورسٹی کے حلقہ کا زعیم منتخب ہوا۔ یہ حلقہ پہلے نچلی ترین سطح پر تھا لیکن اس کے بعد اس حلقہ نے بہت جلد ترقی کی۔ اس کی ایک وجہ وہ تجربہ بھی تھا جو مجھے بچپن سے ہی مجلس کے کاموں کا ربوہ میں حاصل ہوا تھا۔

پھر جب مَیں تعلیم مکمل کر کے فیصل آباد سے ربوہ واپس آیا تو مجھے خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم صحت ِ جسمانی مقرر کردیا گیا۔ اس کے بعد واقف زندگی کے طور پر غانا میں میری تقرری ہوگئی۔ 1985 ء میں غانا سے واپس آیا تو چند ماہ کے لئے مہتمم تجنید، پھر مہتمم صحت ِجسمانی اور پھر مہتمم مجالسِ بیرو ن مقرر ہوا اور پہلی مجلس جس کا مَیں نے دورہ کیا یُوکے کی مجلس تھی۔ یہ 1988ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت صفی صاحب قائد خدام الاحمدیہ یُوکے ہوا کرتے تھے۔ یہاں محمود ہال میں مَیں نے خدام الاحمدیہ کی میٹنگ کی تھی۔ اسی سال حضورؒ کے نمائندہ کے طور پر جرمنی میں ہونے والے خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے افتتاح کے لئے بھی بھجوایا گیا تھا۔ پھر 1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سسٹم میں تبدیلی فرمائی اور ہر ملک کو اپنا صدر خدام الاحمدیہ مقرر کرنے کی ہدایت فرمائی۔

٭ 1971ء میں گریجویشن مکمل کرکے مَیں نے پاکستان آرمی کے لئے اپلائی کیا۔ اگرچہ اُس وقت بھی میری خواہش وقف زندگی ہی کی تھی لیکن چونکہ میرے گریڈ اتنے زیادہ اچھے نہ تھے اس لئے میں نے یہ سوچا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ چونکہ تم کچھ اَور نہیں کرسکتے تھے اس لئے تم نے زندگی وقف کردی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان آرمی جوائن کرلوں۔ لیکن آخری ٹیسٹ میں جو کوہاٹ میں ہوا تھا مجھے Reject کردیا گیا۔ وہاں ایک Practical task کے دوران ہمارے گروپ کے لئے مقرر میجر نے مجھ سے کہا کہ جب تم کسی گروپ لیڈر کے تحت کام کر رہے تھے تو اپنا کام کرنے کے ساتھ ساتھ گروپ لیڈر کو مسلسل مشورے دے رہے تھے اور جب تم گروپ لیڈر بنائے گئے تو اُس وقت بھی تم اپنے ماتحت ساتھیوں کو احکامات دے رہے تھے اس لئے میرا خیال ہے کہ تم آرمی کی بجائے کوئی ایسا جاب تلاش کرلو جہاں تم دوسروں کو احکامات دے سکو۔

پس ابتدا سے ہی جب آپ ’اطفال الاحمدیہ‘ یا ’خدام الاحمدیہ‘ میں کام کررہے ہوتے ہیںتو آپ مسائل کا سامنا کرنا اور انہیں حل کرنا سیکھتے ہیں۔ دوسروں کی راہنمائی کرتے ہیں اور اچھی تجاویز دینا سیکھتے ہیں۔

٭ مجھے جو اسیرراہ مولیٰ بننے کا موقع ملا تو اصل معاملہ ہمارے شہر ربوہ کے نام کی تبدیلی کا تھا۔ چونکہ ربوہ کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے اس لئے مولویوں کے مطالبہ پر پنجاب اسمبلی میں ربوہ کا نام پہلے صدیق آباد تجویز کیا گیا مگر بعد میں انہیں خیال آیا کہ اس نام میں بھی اسلامی رنگ پایا جاتا ہے۔آخرکاروہ چناب نگر کے نام پر متفق ہوئے۔ پنجاب ا سمبلی نے یہ قراردادپاس کی تو ربوہ کی Main شاہراہ پر لگے سائن بورڈوں پر (جن پر ربوہ لکھا ہوا تھا ) کسی سرکاری اہلکار نے سفیدی پھیر دی۔ کسی شخص نے اس سفیدی کو دھو دیا۔ اور یہ معاملہ احمدیوں اور غیراحمدیوں کے درمیان خاصی کشیدگی کا باعث بن گیا تھا۔ پھر ربوہ کے بس سٹینڈ کے سامنے لکھی ہوئی قرآنی آیت یا عربی زبان میں چند الفاظ پر کسی نے Paint کردیا تو ایک شرارتی مولوی نے یہ آواز اٹھائی کہ مرزا مسرور احمد اور صدر عمومی کرنل ایاز احمد خانصاحب اور دو دیگر افراد نے یہ کام کیا ہے۔ چنانچہ ہمارے خلاف ربوہ کے پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کرادیا گیا۔ مخالفین اس کیس میں دفعہ 295-C کے تحت کارروائی کرنا چاہتے تھے جس کے تحت حتمی سزا موت یعنی پھانسی ہو سکتی ہے۔ اس پر صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اجازت سے اس F.I.R کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ مَیں عدالت کے سامنے پیش ہوا تو عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ کیس واپس سیشن کورٹ بھیج دیا جائے جہاں یا تو ضمانت منظور کی جائے گی یا کیس کی سماعت ہو گی۔ چنانچہ پہلے یہ کیس جھنگ کی سیشن کورٹ میں اور پھر چنیوٹ منتقل کردیا گیا جہاں ہماری چار یا پانچ دفعہ پیشی ہوئی۔ ہمارے حق میں بہت سی شہادتوں اور دلائل کے باوجود جج نے ہمیں مجرم قرار دے کر جیل بھجوانے کا فیصلہ دیدیا۔ عموماً عدالت میں پولیس نہیں ہوتی مگر چونکہ پہلے سے یہ امر طے شدہ تھا اس لئے فیصلے سے پہلے ہی پولیس نے ہمیں گھیرا ہوا تھا۔ ہمیں پتہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ ہمارے دو ساتھی ماسٹر محمد حسین صاحب اور ایک لڑکا اکبر بھی ملزم قرار دئیے گئے تھے۔ چنانچہ پولیس انسپکٹر نے آگے بڑھ کر ان دونوں کو ہتھکڑیاں لگادیں۔ مَیں نے یہ دیکھا تو اپنے ہاتھ بھی آگے کردئیے کہ پھر مجھے بھی ہتھکڑی لگائو۔ وہ انسپکٹر بہت گھبرایا ہوااور شرمندہ تھا۔ کہنے لگا نہیں نہیں ہمیں صرف ان دونوں کو ہتھکڑی لگانے کو کہا گیا ہے آپ کو نہیں۔ہم آپ کو صرف ان دونوں کے ساتھ پولیس سٹیشن لے جائیں گے۔ چنانچہ وہ ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے۔ یہ جمعہ کا دن تھا مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھانے والے امام صاحب نے ہمارے خلاف ہونے والے کیس کا ذکر کردیا اور یہ بھی کہ ہمیں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔چنانچہ جمعہ کے بعد قریباً سارا ربوہ پولیس سٹیشن کے باہر جمع ہو گیا۔ ہر طرف مرد، عورتیں اور بچے کھڑے نظر آتے تھے۔ ہمیں ایک رات ربوہ کے پولیس سٹیشن میں رکھ کر اگلے دن جھنگ لے جایا گیا۔

جھنگ جیل کی بیرکس کے اندر بہت سے جرائم پیشہ افراد تھے۔ کئی قتل میں ملوث تھے۔ کالعدم دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھنے والے بھی تھے۔ ہم اپنے حلیوں اور چہروں سے اُن سے مشابہت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے ہم انہیں بہت معززدکھائی دیئے۔ پہلے انہوں نے خیال کیا کہ شاید حکومت یا انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے ہمیں اُن سے تفتیش کرنے یا معلومات حاصل کرنے کیلئے بھیجا ہے اس وجہ سے وہ کافی گھبرا گئے۔لیکن بعد میں جب اُن کو معلوم ہوا کہ ہم احمدی ہیں اور ہمارے خلاف کیس کی تفصیلات کا انہیںعلم ہوا تو ان میں سے بعض نے ہمارے ساتھ ہمدردانہ رویّہ اختیار کیا اور جو دہشتگرد تنظیم سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ ان چار احمدیوں کے خلاف کیا کیا جائے۔

جیل کی جس بیرک میں ہمیں بھیجا گیا تھا وہ غالباً صرف چالیس افراد کے لئے تھی لیکن اس میں 200 کے قریب افراد تھے لہٰذا وہاں بیٹھنے کے لئے بھی جگہ تلاش کرنا مشکل تھا۔ ایک شخص نے ہمیں اپنی دری دی کہ آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ہم کچھ دیر وہاں بیٹھے اور دوپہر کا کھانا وہیں کھایا۔ شام کو ہمیں احساس ہوگیا کہ رات یہیں گزارنی پڑے گی۔وہاں سونا ویسے ہی محال تھا۔ چنانچہ ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور صدر عمومی کرنل ایاز محمود خان صاحب نے کہا کہ مجھے جیلر سے بات کرنے دیں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتے کیونکہ ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ لوگ منصوبہ بندی کرچکے ہیں کہ رات کو ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔ پاکستا نی جیلوں میں اگرچہ اسلحہ وغیرہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن ہمیں وہاں جاکر معلوم ہوا کہ جیل کے اندر کس طرح چمچ کے دستے کو رگڑ کر تیز دھار والے چاقو کی شکل دیدی جاتی ہے۔

سپرنٹنڈنٹ جیل بات کو سمجھ گیا اور شام چھ بجے کے قریب انہوں نے یہ انتظام کیا کہ دوسرے لوگوں کو وہاں سے نکال کرکسی اَور جگہ منتقل کردیا۔ اس بات پر دوسرے لوگ ہم سے بہت ناراض ہوئے۔ وہ سب اَن پڑھ اور جرائم پیشہ لوگ تھے۔ ہم نے چندگھنٹے اُن میں گزارے تو ان میں سے بعض نے بتایا تھا کہ اس نے تین قتل کئے ہوئے ہیں اور بعض نے اپنی بہن کا قتل کیا تھا اور بعض ڈکیتی اور دیگر جرائم میں ملوث تھے۔ بہرحال یہ چند گھنٹے ایک عجیب تجربہ تھا۔ ہم نے اخبارات میں ایک دفعہ یہ خبر پڑھی تھی کہ جیل کے اندر دو گروپوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں دو پارٹیوں کے کئی افراد قتل کردئیے گئے ۔ اُس وقت یہ سمجھنا مشکل تھا کہ جیل کے اندر ایسا کرنا کس طرح ممکن ہے مگر وہاں جانے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے۔

ہم نے ایک رات وہاں گزاری۔ اگلے دن انہوں نے ہمیں پانی اور صاف ستھری ٹائلٹ کی سہولت فراہم کردی۔ ہم نے قریباً دس دن وہاں گزارے۔ جماعت کے لوگوں کو اس بارہ میں تشویش اور فکرمندی تھی۔ سات آٹھ دنوں کے بعد میں نے جان لیا کہ یہ کیس لمبا چلے گا۔ 295-C ایسی دفعہ تھی کہ اگر اس کی ضمانت کروا بھی لی جاتی تو کوئی اَور دفعہ لگاکر کیس بنا دیا جاتا۔ مخالفین کو پورا یقین تھا کہ اِس شخص کو یونہی نہیں جانے دیا جائے گا۔ چنانچہ سات آٹھ دنوں کے بعد میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو لکھ دیا کہ میرا خیال ہے کہ اس کیس کو کچھ وقت لگے گا اس لئے مناسب ہے کہ کسی اَور کو ناظر اعلیٰ مقرر کردیا جائے تاکہ وہ انجمن کے معاملات کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلاتا رہے۔ حضورؒ نے جواب بھجوایا کہ ناظر اعلیٰ آپ ہی رہیں گے ۔ جیل کے افسران نے ہمارے ساتھ فراخدلانہ سلوک روا رکھا اور مجھے اس بات کی اجازت دے دی کہ مَیں چیک وغیرہ سائن کرسکوں۔ دیگر ذمہ داریاں قائم مقام ناظر اعلیٰ جن کو مَیں نے مقرر کیا تھا ادا کرتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی طرف سے یہ جواب ملنے کے بعد کہ ’’ناظراعلیٰ آپ ہی رہیں گے‘‘ مَیں سمجھ گیا تھاکہ اللہ کے فضل سے اب یہ کیس لمبا نہیں چلے گا۔ جیل میںبعض ساتھیوں نے کچھ خوابیں بھی دیکھی تھیں جن کی مَیں نے یہ تعبیر کی کہ ہم جلد قید سے رہا کر دئیے جائیں گے۔

گیارہ دن کے بعد ہم میں سے دو کو رہا کردیا گیا۔ باقی دو کو بھی اگلے دن چھوڑ دیا گیا۔

کیس تیار کرنے والے مجسٹریٹ نے اس کیس کو اس طرح تیار کیا کہ اس میں جرم کی شدّت کو خوب اچھی طرح بیان کیا گیا تھا۔ اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ وہ مجسٹریٹ میرا دوست تھا یا کم از کم میرا دوست ہونے کا اظہار کرتا تھا۔ مَیں اُسے اچھی طرح جانتا تھا۔ اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ کیس کی سنگینی اس حد تک پہنچ جائے گی۔ چنانچہ جب اس نے ہمیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا تو اس نے ایک اور رپورٹ تیار کی کہ اسے کچھ اَور شواہد اور اشارے ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ مجرم نہیں ہیں۔ لیکن حکّام مخالفین سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے مخالفین کو پتہ نہیں لگنے دیا کہ وہ اس کیس کو ختم کرنے جارہے ہیں اور انہوں نے ایسا کر دیا۔ مخالف یہی سمجھتا رہا کہ ہمارے خلاف کیس چل رہا ہے۔

(آئندہ شمارہ میں جاری ہے)


…ژ…ژ…ژ…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button