الفضل ڈائجسٹ
مکرم رائوعبدالغفار صاحب کی شہادت
روزنامہ ’الفضل ربوہ‘‘ 8ستمبر2012ء میں مکرم راؤ عبدالغفار صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں 6ستمبر 2012ء کو کراچی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے اُس وقت شہید کردیا جب آپ سکول سے گھر واپس جانے کے لئے شام پانچ بجے بس میں سوار ہونے ہی والے تھے۔ آپ چاکیواڑہ میں سکول ٹیچر تھے۔
شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق روہتک (انڈیا) سے تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد گنگاپور (فیصل آباد) آکر آباد ہوگیا۔ یہیں شہید مرحوم کی پیدائش اکتوبر 1970ء میں ہوئی۔ آپ نے 1988ء میں گنگاپور سے میٹرک کیا۔ 1991ء میں F.Sc. اور PTC کیا اور پھر بطور ٹیچر ملازمت کرلی۔ 1995ء سے بسلسلہ ملازمت کراچی میں مقیم تھے۔ دورانِ ملازمت ہی 2010ء میں B.A. اور 2011ء میں B.Ed. کرلیا۔
آپ کے گھرانے میں احمدیت کا آغاز آپ کی والدہ محترمہ عاصمہ بی بی صاحبہ سے ہوا جنہوں نے 1986ء میں احمدیت قبول کی۔ 1988ء میں اُن کے دو بچوں یعنی شہید مرحوم اور اِن کی بہن مکرمہ نسیم اختر صاحبہ نے مباہلہ کے نتیجہ میں ضیاء الحق کی ہلاکت کا نشان دیکھ کر بیعت کرلی۔ 1992ء میں ان کے گھرانے کے دیگر افراد یعنی شہید مرحوم کے والد اور دو بھائی بھی احمدی ہوگئے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 7 ستمبر 2012ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ مکرم راؤ عبدالغفار صاحب ابن مکرم محمد تحسین صاحب کی عمر 42 سال تھی۔ شہید مرحوم نے جنوری 2012ء سے وصیت کی ہوئی تھی۔ گو ابھی وصیت منظور نہیں ہوئی تھی تاہم آپ اپنی وصیت کا چندہ دے رہے تھے۔ زعیم انصاراللہ حلقہ اور خصوصی تحریکات کے سیکرٹری تھے۔ نہایت مخلص، نیک سیرت، انتہائی خوش اخلاق، ملنسار اور دعا گو شخص تھے۔ تبلیغ کا بے حد شوق تھا۔ خلافت سے گہری محبت رکھتے تھے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے ہونے والی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔
1995ء میں آپ کی شادی شازیہ کلثوم صاحبہ بنت مکرم رانا عبدالغفار صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا عزیزم عدیل احمد (عمر 16 سال) جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیرتعلیم ہے۔ دوسرا میٹرک میں چودہ سال کا ہے۔ پھر دس سال کی اور ایک سات سال کی بچی ہے۔ دیگر لواحقین میں ضعیف العمر والدین کے علاوہ دو بھائی اور تین بہنیں شامل ہیں۔
شہید مرحوم کی بہن کہتی ہیں کہ میں نے آٹھ سال قبل خواب میں دیکھا کہ ان کو گولی لگی ہے اور ختم ہو گئے ہیں لیکن جب قریب گئی تو کیا دیکھتی ہیں کہ زندہ ہیں۔ یقیناً یہ شہادت کا درجہ تھا جو اِن کو ملنے والا تھا۔ اسی طرح ایک خواب ان کی بیٹی نے اور ان کی اہلیہ نے بھی دیکھی تھی۔ وہ بھی ان کی شہادت سے تعلق رکھتی ہے۔ اہلیہ نے یہ خواب شہید مرحوم کو سنائی تو انہیں تاکید کی کہ اگر مَیں شہید ہو جاؤں تو تم نے رونا دھونا نہیں۔ اسی طرح ان کے واقف بتاتے ہیں کہ اتوار کو احمدیہ ہال کراچی میں میٹنگ تھی، گھر واپس آتے ہوئے راستے میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو کہہ رہے تھے کہ موت تو سب کو ہی آنی ہے لیکن میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت دے۔
محترم نواب دین صاحب آف تہال
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ10 ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم ظفر احمد ظفر صاحب نے اپنے والد محترم نواب دین صاحب آف تہال (کشمیر) کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم نواب دین ولد عبد النبی صاحب قریباً 1919ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین کی وفات 1924ء میں پھیلنے والی طاعون سے ہوگئی جس کے بعد آپ اپنے مختلف اقرباء کے ہاں قیام پذیر رہے اور پھر ابتدائے جوانی میں اپنے چچا مکرم غلام نبی صاحب کے ہاں رہائش اختیار کر لی۔ اگرچہ محترم نواب دین صاحب کی والدہ کا تعلق احمدی خاندان سے تھا لیکن والد احمدی نہیں تھے اور والدین کی وفات کے بعد آپ کا قیام بھی اپنے غیرازجماعت عزیزوں کے ہاں رہا۔ لیکن جب آپ نے اپنے چچا مکرم غلام نبی کے ہاں رہائش اختیار کی تو اس گھرانہ میں آپ کو احمدی ماحول میسر آگیا کیونکہ آپ کی چچی مکرمہ صاحبزادی صاحبہ مخلص احمدی تھیں۔ چنانچہ محترم نواب دین صاحب نے بھی خلافت ثانیہ میں باقاعدہ بیعت کرلی۔ آپ نے قبولِ احمدیت کے بعد تعلق باللہ اور تقویٰ میں بہت زیادہ ترقی کی۔ ہر وقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتے۔ کھانا کھاتے ہوئے ہر لقمہ جب منہ میں ڈالتے تو بسم اللہ پڑھتے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے 1975ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور ٹیکنیکل کالج میں داخلہ لینے کا ارادہ کیا لیکن جب ایک نماز کے بعد معلّم صاحب نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ کی تحریک کی اور کہا کہ جن خدام نے میٹرک کا امتحان دیا ہے، اُن میں سے کوئی خود اپنے آپ کو یا اُن کے والد صاحب اپنے بچے کو وقف کے لئے پیش کریں تو والد صاحب نے بلاتوقّف بلند آواز سے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو وقف کرتا ہوں۔ پھر آپ نے گھر آکر سب کو سمجھاکر آمادہ کیا اور مجھے جامعہ احمدیہ میں داخل کروادیا۔ لیکن چند دنوں کے بعد ہی مَیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی جدائی کو برداشت نہ کرتے ہوئے واپس گھرچلا گیا۔ تاہم مرحوم کے ارادہ میں کوئی تزلزل نہ آیا اور مجھے سمجھا بجھا کر دوبارہ جامعہ احمدیہ میں لے آئے اور باوجود اپنی بیماری کے تقریباً دس دن تک ربوہ میں قیام کیا۔ پرنسپل صاحب اور اساتذہ سے مل کر کے مجھے سمجھانے کی درخواست کی اور خود بھی پیار سے سمجھاتے رہے ۔ جب مَیں ماحول سے کچھ مانوس ہوگیا تو پھر واپس گھر چلے گئے۔
اگرچہ بچپن میں ہی والدین کی وفات ہوجانے کے نتیجہ میں آپ بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رہے تھے۔ تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکتے تھے لیکن قرآن کریم سے آپ کو خاص لگاؤ تھا۔ اور قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد تھا اُس کو ہمیشہ دہراتے رہتے تھے۔ 1995ء میں آپ اپنے بچوں کے پاس کینیڈا چلے گئے تو پھر اپنی اہلیہ محترمہ کی مدد سے 75 سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ سیکھا اور بعدازاں باقاعدگی سے تلاوت کیا کرتے۔ پانچوں نمازیں بڑے التزام کے ساتھ اور نماز تہجد بھی سوائے اشد مجبوری کے باقاعدہ ادا کرتے تھے۔ آپ کا معمول تھا کہ نماز سے کافی پہلے اور بعد تک مسجد میں نوافل کی ادائیگی اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ آخری عمر میں باوجود کمزوری کے مسجد جاتے اور دوسروں کے کہنے کے باوجود کرسی پربیٹھ کر نماز پڑھنے کی بجائے کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے۔
آپ نے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دی۔ نماز کے قیام پر بہت زور دیتے اور جائزہ لیتے کہ ساری نمازیں سب نے ادا کی ہوئی ہیں۔ ربوہ میں جلسہ سالانہ ہوتا تو بعض اوقات فوج کی ملازمت میں ہونے کی وجہ سے مجبوراً خود نہ جاسکتے لیکن بچوں کو اُن کی والدہ کے ہمراہ ضرور بھجواتے۔ باوجود اَن پڑھ ہونے کے بہت پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ خلافت اور جماعت سے جنون کی حد تک عقیدت تھی۔ خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنتے اور خلیفۂ وقت کے ارشادات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔ آخری بیماری میں کمزوری کی وجہ سے سجدہ نہیں کرسکتے تھے لیکن جب عالمی بیعت کے بعد حضورانور نے سجدۂ شکر ادا کیا تو آپ بھی بے اختیار سجدہ میں چلے گئے لیکن گرگئے۔ بعد میں بچوں نے کہا کہ آپ نے اشارے سے ہی سجدہ کر لینا تھا۔ کہنے لگے جب خلیفہ وقت سجدہ کر رہے تھے تو مجھے پتہ ہی نہیں چلااور مَیں بے اختیار سجدہ میں چلا گیا۔
آپ تمام بچوں اور عزیز واقارب سے ہمیشہ محبت کے ساتھ پیش آتے۔ کبھی کسی سے ذاتی ناراضگی نہ رکھتے اور اگر کوئی عزیز کسی وجہ سے ناراض ہوجاتا تو اس سے معذرت کر کے اسے راضی کرنے کی کوشش کرتے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک بار مَیں اپنے گاؤں تہال گیا تو مسجد میں نماز کے بعد بعض احباب نے وہاں پر متعین مرکزی معلّم صاحب کی کچھ شکایات کیں۔ مکرم والد صاحب بھی وہاں موجود تھے اور آپ نے بھی وہ ساری باتیں سنیں۔ جب ہم گھر واپس آئے تو مجھے کہنے لگے کہ معلم صاحب کے بارہ میں بعض احباب نے جو باتیں کی ہیں ان کا ذکر مرکز جا کر نہیں کرنا۔ وہ بہت نیک انسان ہیں کیونکہ جب مَیں صبح تہجد کے لئے مسجد میں جاتا ہوں تو وہ پہلے ہی سے تہجد کے لئے بیدار ہوئے ہوتے ہیں۔ اور اپنا گھر بار بیوی بچوں کو چھوڑ کر یہاں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ تہالؔ میں متعین ایک معلّم صاحب حافظِ قرآن بھی تھے اور رمضان میں نماز تراویح بھی پڑھاتے تھے۔ اکثر معلّمین کی خدمت کا موقع ہمارے خاندان کو ملا کرتا تھا۔ لیکن ایک بار جب رمضان کے دوران والد صاحب کینیڈا سے آئے ہوئے تھے تو مسجد میں یہ ذکر ہوا کہ معلّم صاحب کو آجکل دودھ نہیں مل رہا۔ اس پر آپ نے گھر آکر میرے بڑے بھائی سے اس بارہ میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ آجکل بھینس کا دودھ کم ہوگیا ہے اس لئے معلّم صاحب کو نہیں بھجوارہے۔ اس پر والد صاحب نے کہا کہ آج سے مَیں دودھ نہیں پیوں گا اور یہ دودھ روزانہ معلّم صاحب کو بھجوادیا جایا کرے۔ چنانچہ اُس سال سارا رمضان باوجود گھر والوں کے اصرار کے آپ نے دودھ نہ پیا لیکن معلّم صاحب کو باقاعدگی کے ساتھ دودھ فراہم کیا جاتا رہا۔
1974ء کے دورِ ابتلاء میں تہالؔ میں بھی مخالفین نے جلسے کئے اور جلوس نکالے۔ احمدی گھروں پر پتھراؤ کیا جاتا ۔ 9جون کو ایک بڑے جلوس نے احمدی گھروں پر باقاعدہ حملہ کردیا۔ احمدی اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے، کئی گھروں کو آگ لگادی گئی بہت سے احمدی زخمی ہوئے۔ آپ اپنے نئے تعمیرکردہ مکان میں اکیلے موجود تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہزاروں آدمی حملہ آور ہیں تو اندر کمرے میں جاکر دروازہ بند کر کے نوافل ادا کرنے شروع کر دئیے ۔ مخالفین دیواریں پھلانگ کر صحن میں کودے اور دروازے توڑ کر کمروں میں داخل ہوگئے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نوافل ادا کرتا رہا اور شرپسند میرے سامنے سے گزرتے ہوئے یہ کہتے جاتے تھے کہ یہاں پر تو کوئی شخص بھی موجود نہیں ۔چنانچہ وہ سارے مکان کی تلاشی لے کر باہر چلے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا۔
انہی ایام میں آپ معمول کے مطابق اپنی زمین کی کاشت اوردیکھ بھال کرنے بھی جاتے تھے۔ آپ کے بھائی بعض اوقات کہتے کہ زمین کو کاشت کرنے کا کیا فائدہ، نہ معلوم یہ لوگ ہمیں یہاں رہنے بھی دیں گے یا نہیں!۔ لیکن آپ بڑے اطمینان سے کہتے کہ ہم یہاں ہی رہیں گے اور ہمیں کوئی یہاں سے نکال نہیں سکتا۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ مجھے یہ اطمینان اور سکون خدا تعالیٰ کی بعض تائیدی شہادات سے نصیب ہوا تھا کیونکہ ایک دفعہ مَیں اپنی زمین میں ہل جوت کر کھڑا ہوگیا، ہل چلانا چھوڑدیا اور بے قراری سے زمین پر بیٹھ کر دعا کرنے لگا تو کشفاً دیکھا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک بڑی فوج ہے جو ہمارے گاؤں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کے بعد وہ کشفی کیفیت جاتی رہی اور مجھے سکون ہوگیا کہ مخالفین کا کوئی منصوبہ ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ چنانچہ آپ ابتلاء کے اُس لمبے دَور میں گاؤں میں ہی موجود رہے اور بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ جماعتی ڈیوٹیز ادا کرتے رہے ۔
آپ جماعت کے چندوں کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے۔ آپ موصی تھے اور آپ نے اپنی جائیداد کا حصۂ وصیت اپنی زندگی میں ہی ادا کردیا تھا۔ آپ کی وفات 7جنوری2011ء کو کینیڈا میں ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی۔ یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں نصب ہے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18 جولائی2012ء میں مکرم عبدالقدوس شہید کے حوالہ سے کہا گیا مکرم ابن کریم صاحب کا کلام شائع ہوا ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
گالیوں اور سختیوں پر شیوۂ صبر و رضا
ہاں یہی باندھا ہوا ہے ہم نے پیمانِ وفا
ہاں یہی ہے شرطِ بیعت ہاں یہی عہدِ وفا
جان پر ہم کھیل کر پہنچائیں گے حق کی صدا
کل جو سیّد زادے نے دکھایا تھا صبرِ عظیم
آج وہ قدوسؔ تُو نے پھر دیا جذبہ جگا
دل بہت مغموم ہیں چہروں پہ غم کی دھول ہے
ہر طرف ہے ہُو کا عالَم ہر طرف آہ و بُکا
پر لبوں پر کوئی شکوہ اور واویلا نہیں
ہم ہوئے راضی اُسی پہ جو خدا کی ہے رضا
یاد رکھے گا زمانہ یہ وفاداری مدام
اے شہیدِ احمدیت ، اے شہیدوں کی وفا