جلسہ سالانہیورپ (رپورٹس)

جماعت احمدیہ برطانیہ کے 52ویں جلسہ سالانہ 2018ء کی مختصر رپورٹ (5)

(حافظ محمد ظفر اللہ عاجزؔ)

مختلف معزز مہمانوں کے ایڈریسز۔ جماعت احمدیہ کی امن پسندی اور خدمت انسانیت کے کاموں پر خراج تحسین۔

گزشتہ ایک سال کے دوران جماعت احمدیہ کی روزافزوں ترقی، نئے ممالک میں نفوذ، نئی جماعتوں کے قیام، مساجد کی تعمیر، قرآن کریم و دیگر اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے کوائف اور ایم ٹی اے ، احمدیہ ریڈیو اور مختلف شعبہ جات و اداروں کی کارکردگی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کے ایمان افروز واقعات پر مشتمل جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز کے بعد دوپہر کے اجلاس میں حضور انور ایدہ اللہ کا رُوح پرور خطاب

مکرم ڈاکٹر زاہد احمد خان صاحب کی ’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاندین سے حسن سلوک‘ کے موضوع پر، مکرم مولانا عطا ء المجیب صاحب راشد کی ’خلافت کے زیر سایہ عالمگیر وحدت کا قیام‘ کے موضوع پر اور مکرم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب کی ’ہستی باری تعالیٰ۔ قبولیت دعا کے آئینہ میں‘ کے موضوع پر نہایت ٹھوس علمی و تربیتی تقاریر

(جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے اور چوتھے اجلاس کی کارروائی کی مختصر رپورٹ)

جلسہ سالانہ کا دوسرا دن ہفتہ 4؍اگست 2018ء (حصہ دوم)

جلسہ سالانہ کا تیسرا اجلاس

جلسہ سالانہ UK کے تیسرے اجلاس سے قبل محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یُوکے کی صدارت میں معزز مہمانوں نے جلسہ سالانہ سے خطابات فرمائے۔ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم منیر الدّین شمس صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ النصر کی تلاوت کرنے کی سعادت پائی۔

بعد ازاںجن معززمہمانوںنےایڈریسز پیش کئے۔ ان کے اسماء اوران کے ایڈریسز کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے:
ان معززین نے جماعت احمدیہ کے ذریعہ متعارف کروائی جانے والی اسلام کی پر امن تعلیمات کو سراہتے ہوئے حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قیامِ امن اور دنیا کے حالات کو بہتر بنانے اور جماعت احمدیہ کے دنیا کے مختلف مذاہب اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے باہم مل کر رہنے کی کوششوں کو سراہا اور جماعت احمدیہ برطانیہ کو جلسہ سالانہ کے انعقادپر مبارکباد پیش کی۔
حسب ذیل معزز مہمانوں نے اس سیشن میں تقاریر کیں۔ کونسلر مائیک پارسن، Councillor Mike Parsons (Guildford Borough Council)، کونسلر میری کرٹِن،Councillor Mary Curtin (Merton Borough Council), مسٹر میکس فائن ڈاےMr. Max FineDay Co-Executive Director Canadian Roots Exchange, کونسلر ڈیرک گارڈنر Councillor Derek Gardner (Mayor of Alton)، مسٹر محمد اصغر Mr. Muhammad Asghar (Member of Welsh Conservative Party)، کونسلر انتھنی ویلیمز Councillor Anthony Williams (Chairman East Hampshire District Council)، ہِز رائل ہائی نیس اپالو سنساکابوامبالیا کاموسواگا His Royal Highness Apollo Sansakabuamblia Kamuswaga (king of Kooki kingdom Uganda،پروفیسر احمد شہید Professor Ahmad Shaheed (UNO Human Rights Council)، ریورنڈ جانی مور Rev. Johnnie Moore (Commissioner on the UN Commission on International Religious Freedom)، سارہ خان صاحبہ Sara Khan (Lead commissioner for UK Government Commission on Counter Terrorism)، ممبر آف برٹش پارلیمنٹ جناب سٹیفن ہیمنڈ Rt. Hon. Stephen Hammond (MP for Wimbledon, member APPG Ahmadiyya Muslim Community)، محترم محمد حاجی کیلا Mr. Mohamed Haji-Kella (Deputy minister of Social Welfare Sierra Leone) جنہوں نے سیرالیون کے صدر ہِز ایکسیلینسی جولیس مادا بائیو کا پیغام پڑھ کر سنایا ۔
اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی جلسہ گاہ میں آمد 4بجکر 6منٹ پر ہوئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال پُر جوش نعروں سے کیا گیا۔اس کے بعد حضور انور نے حاضرین کو ’’السلام علیکم‘‘ کاتحفہ پیش کیا اور فرمایا: تشریف رکھیں۔ بعد ازاں گیمبیا سے تشریف لانے والے منسٹر جناب ابراہیما صِلاح Hon. Ebrahima Sillah (Minister of Information Communication Infrastructure, The Gambia) نے حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت موجودگی میں حاضرینِ جلسہ کے سامنے اظہارِ خیال کیا۔ حضورِ انور نے ازراہِ شفقت انہیں شرفِ مصافحہ بخشا۔ اس کے بعد کینیڈا کے روایتی قبائل میں سے ایک قبیلہ کےسردار چیف لِی کروچائلڈ (Chief Lee Crowchild the elected chief of Tsuut’ina Nationa in Canada)نے حضورِ انور کی خدمت میں ایک ’مقدّس چادر‘(Sacred blanket) حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں پیش کی۔ یہ چادران قبائل کی جانب سے تحفظ، تعلق اور تقدیس کی علامت گردانی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مہمانوں کے خطابات اختتام پذیر ہوئے۔

معزز مہمانوں کے ایڈریسزکے بعد 4بجکر 17منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت صدارت میں اجلاس کے دوسرے حصہ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ کی سعادت مکرم عبدالمومن طاہر صاحب نے پائی۔ آپ نے سورۃ الفتح کی آیات 29تا 30کی تلاوت کی اور ان آیات کا اردو ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پڑھ کر سنایا۔ بعدازاں مکرم ناصر علی عثمان صاحب (آئرلینڈ) نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاکیزہ منظوم کلام ’محمود کی آمین‘ سے بعض منتخب اشعار مترنّم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ اکناف عالم میں براہ راست نشر ہوا اور اس کے متعدد زبانوں میں رواں تراجم بھی نشر ہوئے ۔ اس خطاب میں حضور انور نے گزشتہ سال کے دوران جماعت احمدیہ عالمگیر پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے بعض نمونے اختصار کے ساتھ پیش فرمائے۔ حضور نے جماعت کی مختلف میدانوں میں ترقی، خدمت انسانیت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے متعدد نہایت ایمان افروز واقعات بھی سنائے۔ ذیل میں نہایت اختصار کے ساتھ اس کے بعض کوائف ہدیۂ قارئین ہیں۔ (خطاب کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کی کسی آئندہ اشاعت میں شائع کیا جائے گا۔)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب کے آغاز میں ہی بتایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 212ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ 34 سالوں میں (84ء سے لے کر اب تک) 121 ممالک اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو عطا فرمائے ہیں۔

ز…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ اس سال دو نئے ممالک ایسٹ ٹیمور (East Timor) اور جارجیا (Georgia) میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ ایسٹ ٹیمور (East Timor) انڈونیشیا کا ہمسایہ ملک ہے۔ یہاں چھ افراد پر مشتمل جماعت قائم ہوئی۔

اس طرح جارجیا میں پاکستانی نژاد بعض لوگوں نے احمدیت قبول کی اور یہاں جماعت احمدیہ کا پودا لگا۔
ز…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال پاکستان سے باہر دنیا بھر میں جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 899ہے۔ اور ان جماعتوں کے علاوہ 1773نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ ان میں نائیجر سرفہرست ہے جہاں امسال 224 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں اور اس کے بعد پھر سیرالیون ہے، آئیوری کوسٹ ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو مساجد جماعت نے بنائیں یا تعمیر کیں یا ملیں ان کی مجموعی تعداد 411 ہے جن میں سے 198نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 213بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال ہمارے مشن ہاؤسز میں 180کا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 127ممالک میں ہمارے مشن ہاؤسز کی کل تعداد 2826ہو گئی ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ افریقہ کے ممالک میں جماعتیں مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ حصہ لیتی ہیں۔ اسی طرح دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعتیں اپنی مساجد، سینٹرز اور تبلیغی مراکز کی تعمیر میں بجلی پانی اور دیگر فٹنگ کا کام اور رنگ و روغن وغیرہ وقار عمل کے ذریعہ سے انجام دیتے ہیں۔ چنانچہ 96 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق ساٹھ ہزار تین سو چھتیس وقار عمل کئے گئے جن کے ذریعہ سے ستائیس لاکھ انتیس ہزار سے اوپر یوایس ڈالرز کی بچت ہوئی۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ قرآن کریم کا سویڈش ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹس اور سورتوں کے تعارف کے اضافہ کے ساتھ نظرِ ثانی کر کے شائع کیا گیا ہے۔

٭…اسی طرح وکالت تعمیل و تنفیذ کی طرف سے موصولہ رپورٹ کے مطابق انڈیا میں اس سال قرآن کریم کا انگریزی اور ملیالم ترجمہ ری پرنٹ کروایا گیا ہے ۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے 75 زبانوں میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ طبع ہو چکا ہے۔

٭…اسی طرح اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل کتب انگریزی میں طبع ہوئی ہیں جو بُک سٹال پر موجود ہیں۔ کشتی نوح۔ براہین احمدیہ( حصہ چہارم۔) کشف الغطاء۔ راز حقیقت۔ احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے؟ محمود کی آمین۔ اسی طرح اسلامی اصول کی فلاسفی کا صومالین ترجمہ شائع ہوا ہے۔اس کے علاوہ اور بہت سی کتب ہیں جو شائع کی گئی ہیں اور بک سٹال پر دستیاب ہیں۔

٭…حضورِ انور نے فرمایاکہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کا انگریزی ترجمہ ہو گیا ہے جو اس وقت زیرِ طباعت ہے۔ اسی طرح ’حقیقۃ الوحی‘، ’روئداد جلسۂ دعا‘ اور ملفوظات جلد اوّل کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے۔

٭…فضل عمر فاؤنڈیشن انگریزی ڈیسک کی طرف سے Ahmadiyyat Destiny and Progress ، A Call to Faith، Muhammad the Great Exemplar ، Ten Proofs of the Existence of Godاور Signs of the Living God ترجمہ ہو کے شائع ہوئی ہیں ۔

٭…حضور انور نے رقیم پریس یُوکے اور افریقن ممالک کے احمدیہ پریسوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رقیم پریس یُو کے کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد اس سال چھ لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس ہے۔ الفضل انٹرنیشنل، جماعتی رسائل اور میگزین ،پمفلٹس،لیف لیٹس ،جماعتی رسائل کی سٹیشنری وغیرہ اس کے علاوہ ہے۔

افریقہ کے نوممالک میں جماعت کے پریس کام کر رہے ہیں۔ افریقہ میں ہمارے پریسوں کے ذریعہ چھپنے والی کتب و رسائل کی تعداد تین لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس ہے۔رسائل اس کے علاوہ ہیں نیز اخبارات اور تربیتی لٹریچر کی تعداد اکانوے لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جو کتب جو شائع ہوتی ہیں ان کو مختلف جماعتوں میں، ممالک میں بھجوایا جاتا ہے۔ اس سال لندن سے مختلف 52زبانوں میں تین لاکھ پانچ سو سے زائد تعداد میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد مالیت کی کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بھجوائی گئیں۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ قادیان سے بھی بیرونی ممالک کو کتب بھجوائی جاتی ہیں۔ دوران سال قادیان سے بیرونی ممالک کی لائبریریز اور دیگر ضروریات کے لئے اڑتالیس ہزار سے زائد کتب بھجوائی گئیں۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ مختلف ممالک میں مختلف عناوین پر مشتمل چھ ہزار چار سو باون کتب فولڈرز اور پمفلٹس اٹھاون لاکھ انہتر ہزار پانچ سو بانوے کی تعداد میں مفت تقسیم کئے گئے۔ اس طرح کل ایک کروڑ 42 لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو ترانوے افراد تک پیغام پہنچایا گیا۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ اب تک488 سے زائد ریجنل اور مرکزی لائبریریوں کا مختلف ممالک میں قیام ہو چکا ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ اس سال مختلف ممالک میں بکثرت قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر کی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔موصولہ رپورٹس کے مطابق6967 نمائشوں کے ذریعہ اڑتیس لاکھ پچاسی ہزار367 افراد تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچا۔

اس کے علاوہ پندرہ ہزار پچیس(15025) بُک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعہ 41 لاکھ 93 ہزار 994 افراد تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ لیف لیٹس اور فلائرز کی تقسیم کے منصوبہ کے تحت اس سال دنیا بھر کے 96ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ بتیس لاکھ سے زائد لیف لیٹس تقسیم ہوئے اور اس ذریعہ سےدوکروڑ پینسٹھ لاکھ سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ حضورانور نے بتایا کہ اس حوالہ سے امریکہ اور یورپ کے ممالک میں نمایاں کام ہوا ہے۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ سپین میں لیف لیٹس کی تقسیم بھی ہو رہی ہے۔ یہاںجامعہ یُوکے کے اور جرمنی کے فارغ التحصیل طلباء ان کی تقسیم کرتے ہیں۔ اس سال اللہ کے فضل سے فارغ التحصیل شاہدین کے ذریعہ سے آٹھ لاکھ تین ہزار سات سو بائیس کی تعدادمیں لیف لیٹس تقسیم کئے گئے۔ اور سیوتا(Ceuta) شہر جو مراکش کے بارڈر پر ہے وہاں بھی لیف لیٹس تقسیم کئے گئے۔ اس دوران کئی ایسے لوگ ملے جن کو جماعت کے بارے میں پہلے سے معلومات تھیں اور اللہ کے فضل سےوہاں تبلیغ کے اچھے راستے کھل رہے ہیں۔

٭… میکسیکو، گوئٹے مالا، ایکواڈور، یوراگوئے اور پیراگوئے میں فلائرز کی تقسیم ہوئی اور وہاں کینیڈا کے فارغ التحصیل مربیان کے ذریعہ سے تین لاکھ اڑسٹھ ہزار نو سو دس لیف لیٹس تقسیم ہوئے۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ وکالت تعمیل و تنفیذ ۔ (لندن) کے تحت نظارت نشرو اشاعت قادیان کے زیرِ انتظام تین مقامی زبانوں بنگلہ، اڑیا، اور تامل کے ڈیسکوں کا قیام عمل میں آ چکا ہے اور اب ہمارے لٹریچر کا ترجمہ ان زبانوں میں ہو رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ہندی تراجم کا کام جاری ہے۔ بائیس کتب کے ہندی تراجم مکمل ہو چکے ہیں۔

نور ہسپتال کے قیام پر سو سال پورا ہونے پر وہاں بھی ایک صد سالہ تقریب منعقد ہوئی اس کا بھی علاقے کے لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا۔

فضل عمر پریس قادیان میں نئی مشینیں لگائی گئیں ہیں۔ اللہ کے فضل سے وہاں کافی اچھا کام ہو رہا ہے۔
اسی طرح ’دارالبیعت‘ لدھیانہ اورہوشیار پور والے مکان کی جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے چلّہ کشی فرمائی تھی نیز گیسٹ ہاؤسز کی رینوویشن ہوئی ۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ عربی ڈیسک کے تحت گزشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہو چکے ہیں ان کی تعداد تقریباً 125 ہے۔ دوران سال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب جو روحانی خزائن جلد12، جلد 18، اور جلد 19 میں شامل ہیں یہ اللہ کے فضل سے ترجمہ ہو چکی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتب اور بعض دوسری کتابوں کا ترجمہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی کافی لمبی تفصیل ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عربوں میں قبولِ احمدیت کے کئی دلچسپ اور روح پرور واقعات پڑھ کر سنائے۔

٭… حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بنگلہ ڈیسک، فرنچ ڈیسک، رشین ڈیسک، ٹرکش ڈیسک، چینی ڈیسک اور انڈونیشین ڈیسک کے تحت ہونے والے کاموں کا بھی اختصار کے ساتھ ذکر فرمایا اور بتایا کہ ان ڈیسکس کے تحت کتب کے تراجم، خطبات کے تراجم اور لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کے کام ہو رہے ہیں۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ وقف نَو کی تحریک کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت دنیا بھر میں واقفین نو کی کل تعداد چھاسٹھ ہزار پانچ سو پچیس (66,525) ہے جس میں سے انتالیس ہزار آٹھ سو چودہ (39,814) لڑکےہیں اور چھبیس ہزار سات سو گیارہ (26,711) لڑکیاں ہیں۔پندرہ سال سے زائد عمر کے واقفین نو کی تعداد ستائیس ہزار نو سو ستائیس (27927)ہے جس میں لڑکے اٹھارہ ہزار چار سو نوّے اور لڑکیاں نو ہزار چار سو سینتیس ہیں ۔ ان میں پاکستان اوّل نمبر پر ہے۔ پھر جرمنی۔ پھر یُوکے۔ پھر انڈیا۔پھر کینیڈا۔اللہ کے فضل سے یہ نظام بھی اب کافی آرگنائز ہو گیا ہے۔

٭…حضورِ انور نے شعبہ مخزنِ تصاویر اور اس کے تحت لگائی جانے والی نمائش کا تذکرہ فرمایا۔

٭… نیز www.alislam.org کی رپورٹ بھی حاضرین کے سامنے رکھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ویب سائٹ پر قرآن کریم کے نئے اور جدیدسرچ انجن کا اجراء کیا گیا ہے۔ اس سرچ انجن کے ذریعہ سے عربی اردو انگریزی جرمن فرنچ اور سپینش زبانوں میں سرچ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم کے اڑتالیس تراجم اور تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نیا ایڈیشن ویب سائٹ پر ڈال دیا گیا ہے۔ دوران سال ساٹھ سے زائد اردو اور انگریزی کتب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اور اٹھارہ کتب کا ’آئی بُکس ‘ اور ’کِنڈل‘ پر اجراء کیا گیا ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی ماہنامہ ریویوآف ریلیجنز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کے پرنٹ ایڈیشن ویب سائٹ سوشل میڈیا یوٹیوب اور دیگر نمائشوں کے ذریعہ ایک کثیر تعداد تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔ ان مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعہ نوّے لاکھ سے زائد پوسٹس دیکھی گئیں۔ اس کا اب فرنچ اور جرمن ایڈیشن بھی شائع ہو رہا ہے۔حضورِ انور نے اس کے تحت چلنے والے ’القلم‘ پراجیکٹ کا بھی تذکرہ فرمایا۔

٭…حضورِ انور نے اس سال کے دوران جاری ہونے والے انگریزی ہفت روزہ اخبار ’الحکم‘ کا ذکر فرمایا کہ یہ انگریزی دان طبقہ کے لئے اچھا اخبار ہے جو آن لائن بھی دستیاب ہے۔

٭…حضورِ انور نے احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر کے کام کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ اس میں پرانی باتیں جمع کی جا رہی ہیں اور ریسرچ کی جا رہی ہے۔ اچھا کام ہو رہا ہے۔

٭…حضورِ انور نے پریس اینڈ میڈیا آفس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھی اپنے روابط بڑھا کر اچھا کام کر رہا ہے۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے بھی اللہ کے فضل سے اب سولہ ڈیپارٹمنٹ ہیں اور اس کا کام بڑا وسیع ہو گیا ہے۔ کارکنوںکی تعداد بھی سینکڑوںمیں چلی گئی ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے اُولیٰ،ایم ٹی اےالثانیہ،ایم ٹی اے3 العربیۃ، ایم ٹی اے افریقہ اور ایک اور ایم ٹی اے افریقہ 2 شروع ہو چکا ہے اور ان چینلز پر سترہ مختلف زبانوں میں رواں ترجمے کئے جا رہے ہیں جن میں انگریزی، عربی، فرنچ، جرمن،بنگلہ، سواحیلی، افریقن، انگریزی، انڈونیشین، ٹرکش، بلغارین، بوسنین، ملیالم، تامل،رشین، پشتو، سپینش اور سندھی زبانیں شامل ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس وقت ایم ٹی اے کی نشریات کے ذریعہ تمام دنیا میں کل بارہ سیٹلائٹس پر دیکھی جا سکتی ہیں اور دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں ہے جہاں اس روحانی مائدے کا فیض نہ پہنچ رہا ہو۔ اس سال پانچ سیٹلائٹس معاہدوں کی تجدید کی گئی جبکہ ایک نئے سیٹلائٹ کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش وغیرہ میں ایم ٹی اے کی نشریات ہائی ڈیفی نیشن میں بھی نشر ہو رہی ہیں۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ایم ٹی اے نیوز وغیرہ کے کام میں بھی وسعت پیدا ہوئی۔

٭…حضورِ انور نے ایم ٹی اے افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کا اجرا 2016ء میں ہوا تھا۔ اس پر روزانہ چوبیس گھنٹے مختلف لوکل زبانوں میں نشریات جاری ہے اور اس کی کافی توسیع ہوئی ہے۔ آٹھ ممالک میں ایم ٹی اے افریقہ کی شاخیں باقاعدہ کام کر رہی ہیں ۔ لوکل زبانوں میں سواحیلی، یوروبا، ہاؤسا ، چوئی میں پروگرام تیار کئے جا رہے ہیں۔ دوران سال ان سٹوڈیوز میں 400 سے زائد پروگرام تیار کئے گئے۔ اسی طرح تنزانیہ میں نیا سٹوڈیو تعمیر ہوا۔ گھانا میں پہلے تعمیر ہو چکا ہے۔ جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ایم ٹی اے افریقہ پر قادیان سٹوڈیو سے خصوصی لائیو نشریات چلائی گئی تھیں۔ جلسہ سالانہ یُوکے مشرقی اور مغربی افریقہ میں گیارہ چینلز کے ذریعہ نشر ہو رہا ہے اور اللہ کے فضل سے کافی ان میں کام ہوا ہے۔

برکینا فاسو کے شہر بوبو جلاسو میں بھی ایم ٹی اے کا اجراء ہوا ہے اور وہاں خطبات کو جُولا زبان میں ترجمہ کر کے نشر کیا گیا ہے۔ ایم ٹی اے بوبو جلاسو ڈش کے ساتھ نہیں ہے بلکہ انٹینا کے ساتھ ہے اور سو کلو میٹر کی ریڈئیس میں دیکھا جاتا ہے۔ بارہ گھنٹے اس کی نشریات چلتی ہیں۔ ایم ٹی اے افریقہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ احمدیہ ریڈیو کے ذریعہ سے بھی کافی تعداد میں بیعتیں ہو رہی ہیں۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کی چوبیس گھنٹے نشریات کے علاوہ دیگر ٹی وی پروگرام بھی چل رہے ہیں۔ 69ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینل کے ذریعہ سے اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ اس سال دو ہزار تین سو بائیس (2322) ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ دو ہزار تین سو چھپن (2356) گھنٹے وقت ملا۔

٭…جماعتی ریڈیو سٹیشنوں کے علاوہ دیگر ریڈیو سٹیشنوں کے ذریعہ سے پندرہ ہزار چھ سو چوہتّر سے زائد گھنٹوں کا وقت ملا اور سولہ ہزار نوّے پروگرامزنشر ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو کے ان پروگراموں کے ذریعہ محتاط اندازے کے مطابق انہتّر کروڑ اکتیس لاکھ سے زائد افراد تک پیغام حق پہنچا۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجموعی طور پر چار ہزار سات سو اکاسی (4781) اخبارات نے تین ہزار تین سو چھبیس (3326) جماعتی مضامین، آرٹیکل اور خبریں شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد تقریباً پینتالیس کروڑ سے اوپر بنتی ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مجلس نصرت جہاں اسکیم کے تحت افریقہ کے بارہ ممالک میں چھتیس (36) ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں ۔ ان ہسپتالوں میں ہمارے بیالیس (42) مرکزی ڈاکٹرز اور تیرہ مقامی ڈاکٹر خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بارہ ممالک میں ہمارے چھ سو چوراسی(684) ہائر سیکنڈری سکول، جونیئر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں جن میں ہمارے انیس (19) مرکزی اساتذہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

٭…حضور انور نے فرمایا کہ اس سال ہمارے ہسپتالوں میں کل پانچ لاکھ دس ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں سے بہت سے مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا گیا۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ فری میڈیکل کیمپس اور عطیہ خون کا کام بھی مختلف ممالک میں ہو رہا ہے۔ آنکھوں کے فری آپریشنز بھی ہو رہے ہیں۔کل چودہ ہزار اکانوے (14091)افراد کے فری آپریشن کئے جا چکےہیں۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکس اینڈ انجنیئرز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے ذریعہ سے بھی بعض پراجیکٹس چل رہے ہیں۔ ان میں ’واٹر فار لائف‘ کے ذریعہ ہینڈ پمپ ، نلکے لگائے جا رہے ہیں۔ اور اب تک اڑھائی ہزار کے قریب پمپ لگائے جا چکے ہیں۔ سات کی تعداد میں سولر واٹر پمپ لگوائے گئے ہیں۔ تعمیراتی پراجیکٹس جاری ہیں۔ مالی میں بھی بڑی خوبصورت مسجد ان کی زیرِ نگرانی بن رہی ہے۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بتایا کہ ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے۔ اس سال بیس ممالک میں قدرتی آفات اور خانہ جنگی میں ایک لاکھ اکہتّر ہزار دوسو پچاس متاثرین کی مدد کی گئی۔ نیز یہ سکیم ’واٹر فار لائف‘، ’نالج فار لائف‘میڈیکل کیمپس، یتامیٰ کی کفالت ، قیدیوں سے رابطہ اور ان سے خبر گیری کاکام بالخصوص غریب ممالک میں یہ تنظیم بہت عمدگی سے سرانجام دے رہی ہے۔

٭…نومبایعین سے رابطے کی بحالی کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ نائیجیریا نے اس سال ستائیس ہزار ایک سو ستائیس نومبایعین سے رابطہ بحال کیا۔ مالی نے بائیس ہزار ایک سو انیس، سیرالیون نے دس ہزار، سینیگال ،کیمرون آئیوری کوسٹ وغیرہ نے کچھ کچھ ہزار لوگوں سے رابطہ کیا ۔اللہ کے فضل سے اس لحاظ سے بھی نو مبایعین سے رابطے کے بعد بھی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔

٭…حضورِ انور نے فرمایا کہ نومبایعین کے لئے تربیتی کورسزمنعقد کئے جاتے ہیں۔ دورانِ سال تین ہزار سات سو تیس جماعتوں میں ستاسی ہزار آٹھ سو اٹھاون تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز کا انعقاد کیا گیا۔ ان میں شامل ہونے والے نومبایعین کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار چارسو سولہ ہے۔ اس کے علاوہ دوہزار دو سو چودہ اماموں کو ٹریننگ دی گئی۔

٭…حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس سال چھ لاکھ سینتالیس ہزار سے زائد بیعتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔ 129ممالک سے تقریباً تین سو (300) اقوام احمدیت میں داخل ہوئیں۔ ان میں پہلے نمبر پر نائیجر ہے جہاں ایک لاکھ پچیس ہزار سے اوپر بیعتیں ہوئی ہیں۔

بیعتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے کئی ایک نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔ ان واقعات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات لوگ جماعتِ احمدیہ کے تعارف کے بعد احمدیت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، بعض اوقات احمدیوں کے نیک نمونہ کے ذریعہ اس پاکیزہ جماعت کے طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ سچی خوابوں کے ذریعہ ان کی رہنمائی فرما کر انہیں مسیحِ پاک علیہ السلام کے ذریعہ حقیقی اسلام کی آغوش میں لے آتا ہے۔ نیز یہ کہ نو مبایعین کے ایمان میں پختگی پیدا کرنے کے سامان بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے۔

حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطاب میں بعض مخالفین کے بد انجام کا بھی ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے تحت حفاظتِ الٰہی کے خاص واقعات بھی شاملِ خطاب فرمائے۔نیز جلسہ سالانہ کی برکات پر مشتمل واقعہ جماعتِ احمدیہ عالمگیر کے سامنے رکھا۔ اور اپنے خطاب کے آخر پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نشانات پہ نشانات دکھا رہا ہے ۔یہ نشانات اور جماعت کی ترقی ان کو نظر نہیں آ رہے جو عقل کے اندھےہیں۔

حضور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح معنوں میں اپنے ایمان میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، یقین پیدا کرے اور ہم اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے والے ہوں۔آخر پر حضور انور نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ کر خطاب کو ختم کیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کے ساتھ یہ اجلاس شام 6بجکر 15منٹ پر اپنے اختتام کو پہنچا۔

… … … … … … … … …

جلسہ سالانہ کا تیسرا دن اتوار05؍اگست 2018ء

… … … … … … … … …

دن کا آغاز حسبِ دستور صبح 3؍ بجے نمازِ تہجد سے ہوا۔ بعد ازاں حضرت امیر المومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چار بجکر 30منٹ پر جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نمازِ فجر پڑھائی۔ بعدازاں حضور انور اپنی رہائشگاہ تشریف لے گئے۔

جلسہ سالانہ کا چوتھا اجلاس

جلسہ سالانہ کا چوتھا اجلاس 10بجے صبح شروع ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکر م بابا ایف تراولے (Baba F Trawally)صاحب امیر جماعت احمدیہ دی گیمبیا نے کی۔ مکرم محمود احمد وارڈی صاحب مبلغ سلسلہ( انڈونیشین ڈیسک یُوکے) نے تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔اس موقع پرسورۃالنور کی آیات55تا57 تلاوت کی گئی تھیں۔ مکرم محمد خالد چغتائی صاحب آف یوکے نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاکیزہ منظوم کلام سےبعض منتخب اشعار ترنّم کے ساتھ پڑھے۔

… … … … … … … … …

اس اجلاس کی پہلی تقریرانگریزی زبان میں مکرم ڈاکٹر زاہد خان صاحب صدر قضاء بورڈ یُوکے کی تھی۔
جس کا موضوع The Kind Treatment of the Promised Messiah towards His Opponents یعنی ’ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معاندین سے حسنِ سلوک ‘ تھا۔
اس تقریر کا اردو میں خلاصہ تیار کردہ محترم راجہ اظہار احمد (مبلغ سلسلہ) ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
مقرر موصوف نے تقریر کے آغاز میں سورۃ المائدۃ کی آیت 8 اور سورۃ یٰس کی آیت 31 کی تلاوت کی۔ان میں سے پہلی کا ترجمہ یہ ہے۔اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کى خاطر مضبوطى سے نگرانى کرتے ہوئے انصاف کى تائىد مىں گواہ بن جاؤ اور کسى قوم کى دشمنى تمہىں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو انصاف کرو ىہ تقوى کے سب سے زىادہ قرىب ہے اور اللہ سے ڈرو ىقىناً اللہ اس سے ہمىشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو ۔

اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :وائے حسرت بندوں پر! ان کے پاس کوئى رسول نہىں آتا مگر وہ اس سے ٹھٹھا کرنے لگتے ہىں ۔

مقرر موصوف نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات تمام ہی پیغمبران خدا کی زندگی کا جزو رہی ہے۔ آنحضورﷺ کو مکہ والے صادق اور امین کہتےتھے لیکن جوں ہی آنحضورﷺ نے دعویٰ فرمایا تو انہی لوگوںنے آپﷺ کو استہزاء اور سخت مخالفت کا نشانہ بنایا۔ حضرت مسیح موعود ؑ بھی اپنے دعوی سے قبل اسلام کے دفاع کے ایک پہلوان مشہور تھے لیکن جب خدائی حکم کے تحت آپؑ نے دعویٰ فرمایا تو آپ کو بھی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔لیکن آپؑ نے اپنے مخالفین کے لیے ہمیشہ صبر و تحمل ، ہمدردی اور شفقت کانمونہ ہی دکھلایا۔

مقرر موصوف نے کہا شفقت اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کو حضور علیہ السلام نے اتنی اہمیت دی گئی کہ دس میں سے دو شرائط بیعت میں ان کا ذکر فرمایا ۔ چوتھی شرط میں یہ درج ہے کہ :

’’کہ عام خلق اللہ کوعمومًا اور مسلمانوں کو خصوصًا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زباؔ ن سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‘‘

اس سے ہر ایک بخوبی جان سکتا ہے کہ ان شرائط میں سارا زور بغیر لحاظ رنگ و نسل اور عقیدہ کے تمام انسانوں کےساتھ ہمدردی پر دیا گیا ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں :

میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔

(روحانی خزائن جلد 17 اربعین نمبر 1)

یہ محض زبانی دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ ہم آپؑ کی زندگی میں بار بار ایسے واقعات بکثرت پاتے ہیں جو اس بات کو شک و شبہ سے بالکل صاف کر دیتے ہیں کہ واقعتاً محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں اور یہ کہ آپؑ کا دل بغیر کسی ذاتی یا نفسانی خواہش کے ہمدردی خلق کے لیے پگھلا جاتاہے۔

مقرر موصوف نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے بہت سے نشان ظاہر فرمائے ۔ بڑے نشانات میں سے کسوف وخسوف اور طاعون کا نشان بھی ہیں ۔آپؑ نے لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور اس لازمی الوقوع طاعون کے عذاب سے بچنے کے لیے بے شمار مرتبہ اعلانات فرمائے اور لوگوں کو بتایا کہ خدا کی طرف آؤ تاکہ تم بچ سکو۔آپؑ کو لوگوں کی تکلیف کا خوف دامنگیر رہتا تھا ۔

حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے لیے وہ بیت الدعا کے بالائی کمرہ میں رہائش پذیر رہے اور آپ حضرت مسیح موعودؑ کی اندھیری راتوں کی متضرعانہ دعاؤں کے چشم دید گواہ ہیں ۔ باقی تمام لوگ سو رہے ہوتے تھے اور آپؑ دعا میں اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ گڑگڑا رہےہوتے تھے کہ گویا کوئی عورت درد زہ سے چلا رہی ہو۔ جب مولوی صاحب نے غور سے سنا تو وہ حیران رہ گئے کہ حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کے دربار میں درد دل سے التجا کر رہے تھے کہ لوگ اس طاعون کے عذاب سے بچ جائیں ۔

یہ واقعہ آپؑ کی شفقت علی خلق اللہ کی بہترین مثال ہے ۔اور یہ ان لوگوں کے لیے تھا جو آپ کے اشد ترین مخالف تھے ۔یہ تمام باتیں آپؑ کےاور خدا کے درمیان ہو رہی تھیں۔ کوئی تیسرا آپ کا حال معلوم کرنے والانہ تھا۔ باوجود یہ جاننے کے کہ مخالفین اگر اس عذاب سے بچ گئے تو اور خوشیاں منائیں گے پھر بھی آپؑ ان کے بچاؤ اور حفاظت کے لیے گڑگڑاتے رہے۔اور یہ محض اتفاق تھا اور آپؑ کو بالکل علم نہ تھا کہ آپ کے ایک صحابی یہ تمام گڑگڑانا اور خشوع وخضوع والی دعائیں کان لگا کر سن رہے ہیں ۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانی ؒ صفحہ428,429)

حضرت مسیح موعود ؑ ہمیشہ ہی زبانی گالیوں ،گستاخانہ حملوں ،ذات پر بیہودہ اعتراضات اور قتل کے منصوبوں کا سامنا کرتے رہے ۔اخبار میں گالیوں سے بھری خبروں کو چھاپا جاتا ۔ نہایت فحش اور گالیوں سے بھرے ہوئے بیرنگ خطوط بھیجے جاتے جو آپ کو لیکر کھولنے اور پڑھنے پڑتے ۔آپؑ ان گالیاں دینے والوں اور بدزبانی کرنے والوں کےلیے دعا کرتے اور خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے ۔ کبھی بھی بیزاری ، شکایت یا تحقیر کا کوئی لفظ زبان پرنہ لاتے ۔ جواب میں آپ ہمیشہ صبر اور برداشت کا مظاہرہ فرماتے ۔

مولوی محمد حسین بٹالوی،سعد اللہ لدھیانوی اور جعفر زٹلّی مخالفین میں سے چند نام ہیں جنہوں نے آپؑ کی مخالفت میں تمام حدوں کو عبور کر دیا تھا ۔

مولوی محمد حسین بٹالوی جو کہ اہلحدیث کا ایک لیڈر تھا نے 1883 ءمیں آپؑ کو دین اسلا م کا ایک فاتح جرنیل قرار دیا ۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپؑ نے مسیحیت اور مہدویت کا دعوی فرمایا تو یہی مولوی آپ کا سب سے شدید مخالف بن گیا۔اور اپنی تمام زندگی آپؑ کی مخالفت کے مشن میں گزار دی ۔ اس نے گالیوں سے بھرے ہوئے مضامین شائع کئے۔ یہ سب اس نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں لکھا ۔اسی نے آپؑ کے خلاف فتاوی کفر جمع کئے اور آپؑ کی تذلیل اور تباہی کے لیے جھوٹے اور من گھڑت ثبوت پیش کرتا رہا۔
1897ءمیں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نےجو کہ عیسائی مشنری تھا آپؑ کے خلاف مقدمہ اقدام قتل دائر کروایا اور آپؑ کو ایک فسادی اور خطرناک انسان قرار دیا۔ یہی مولوی محمد حسین بٹالوی اس عیسائی مشنری کی جھوٹی بات کی تائید کے لیے بطور گواہ پیش ہوا ۔یہ ایک نہایت نازک مرحلہ تھا جس میں اگر ناانصافی سے کام لیا جاتا تو آپؑ کو عمر قید یا سزائے موت بھی ہو سکتی تھی۔حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے چاہا کہ وہ گواہ کی ذات کو عیب دار ثابت کر کے گواہی کو کمزور ثابت کر دیں اس لیے مولوی صاحب نے آپؑ سے اجازت چاہی کہ وہ مولوی محمد حسین کے حسب نسب کے بارہ میں سوال کرے جس کے بارہ میں کہا جاتا تھا کہ اس کی ماں ایک طوائف تھی ۔مگر حضرت مسیح موعودؑ نے سختی سے اپنے وکیل کو منع فرما دیا کہ ان کو کسی قسم کی ایسی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے جس سے مولوی محمد حسین کی سبکی ہو ۔ نہ صرف یہ بلکہ آپؑ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر وکیل صاحب کے منہ پر رکھ دیا کہ کہیں وہ اس موضوع پر سوال نہ شروع کر دے اور فرمایا میں اس کو شرمندہ کرنا نہیں چاہتا۔

وہ شخص جس نے آپ کی تکذیب اور مخالفت کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس کے ساتھ آپ کی شفقت اور حسن سلوک کا یہ عالم تھا۔

آپؑ کے وکیل مولوی فضل دین صاحب جو کہ ایک غیر احمدی تھے نے بعد میں کئی مرتبہ اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب بہت بلند اخلاق کے حامل تھے ۔یہاں پر ایک شخص آپ کی زندگی اور عزت پر حملے کر رہا ہے اور جب اس کی گواہی کو کمزور ثابت کرنے کے لیے اس کے کردار کے متعلق چند سوالات کرنا چاہے تو آپؑ نے فرما دیا کہ میں اس قسم کے سوالات کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ53,55)

حضرت مسیح موعودؑ ان تمام الزامات سے باعزت طور پر بری ہوئے اور اپنے خلاف تمام گواہان کو معاف فرما دیا ۔ کپتان ڈگلس جو کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا نے آپؑ کو یہاں تک کہا کہ اگر آپؑ چاہیں تو ان گواہان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں ۔آپؑ نے جواب میں فرمایا کہ میری ایسی کوئی خواہش نہیں۔اور سب کو معاف فرما دیا اور کہا کہ میرا مقدمہ آسمانی عدالت میں ہے ۔

یہ کیس 1897ءکا ہے ۔ لیکن باوجود حضرت مسیح موعود ؑ کی اس معافی کے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کو دی گئی اس کی مخالفت ختم نہ ہوئی ۔ کئی سال بعد مولوی بٹالوی پر مشکل حالات آ گئے ۔ اس کی پریس بند ہو گئی۔ اس کا رسالہ اشاعت السنہ چھپنا بند ہو گیا لیکن اس نے آپؑ کے خلاف لکھنا بند نہ کیا ۔ لیکن کوئی اس کی تحریرات کو چھاپنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کو اس حالت کا علم ہوا تو آپؑ کو اس پر رحم اور ترس آ گیا ۔ کئی سالوں کی مخالفت کے باوجود معاف فرماتے ہوئے آپؑ نے اس کو پیغام بھجوایا کہ قادیان آ جاؤ اور یہاں رہو۔اور یہ بھی ساتھ فرمایا کہ ہم تمہارے مضامین بھی شائع کروا دیں گے ۔

اپنے شدید ترین مخالف کے ساتھ اس طرح کے سلوک کی مثال نہیں ملتی ۔لیکن اس قسم کی صفات صرف خدا تعالیٰ کے چنیدہ بندوں میں ہی پائی جاتی ہیں ۔

نہال سنگھ نامی ایک آدمی جس نے اپنی جوانی فوج میں گزاری قادیان کا رہائشی تھا ۔ وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر احمدیوں کو تکالیف پہنچاتا اور غلیظ گالیاں دیتا ۔ یہ اس کی روز مرہ کی عادت تھی۔ اسی کے دائر کردہ ایک سنگین مقدمہ میں حضرت مسیح موعودؑاور چند اور احمدی عدالت میں پیش ہوئے۔ عین اس مقدمہ کے دوران ہی اس کے بھانجے سنتا سنگھ کی بیوی شدید بیمار ہو گئی اور اس کو علاج کے لیے مشک کی ضرورت پیش آئی۔ مُشک اس وقت بھی اور آج بھی ایک بہت ہی مہنگی چیز ہے۔ ایسی حالت میں وہ حضرت مسیح موعودؑ کے گھر ُمشک مانگنے آیا ۔ آپؑ نے اس کوبغیر کسی تاخیرکے گھر سے پانچ چھ گرام مشک لا کر دے دی ۔

(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ306)

ایک طرف تو اس نے آپؑ کی مخالفت میں آپؑ پر مقدمہ دائر کیا اور جب ضرورت پیش آئی تو حضور ؑ نے بغیر سوال کے ضرورت پوری فرما دی ۔

بہت سی مشکلات جو آپؑ کے خلاف کھڑی کی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپؑ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کے گھر کے رستہ میں آٹھ فٹ کی ایک دیوار کھڑی کر دی جس سے گویا آپؑ ایک محدود جگہ پر قید ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کا اندازہ آپؑ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ اس دیوار سے مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے ۔مجھے پانی کے لیے ایک نیا کنواں کھودنا پڑا جس کے خرچے سے چھاپہ خانہ بھی بہت متاثر ہوا۔دوستوں اور ملاقات کے لیے آنے والوں کو بہت مشکلات پیش آئیں۔ ان میں سے چند ایک زخمی بھی ہوئے ۔ کمزور اور بزرگ لوگوں کے لیے ناممکن ہو گیا کہ وہ میرے ساتھ فجر اور عشاء کی نماز ادا کریں ۔مہمان یہاں پر دین سیکھنے آتے ہیں ۔ لیکن جب ان کو اس دیوار کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں تو مجھے سخت دکھ اورافسوس ہوتا ہے جس کے بیان کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ۔

اس مسئلہ کے حل کے لیے مقدمہ چلایا گیا اور اٹھارہ ماہ کی طویل جدوجہد کے بعدو ہ دیوار گرا دی گئی۔ جج نے چچازاد بھائیوں پر جرمانہ کر دیاجس کے ادا نہ کرنے پر پولیس مرزا نظام دین کی املاک ضبط کرنے قادیان پہنچ گئی۔اس حالت میں اس نے حضرت مسیح موعودؑ سے درخواست کی کہ میرے پاس حرجانے کے پیسے نہیں ہیں۔ جب آپؑ کو اس حالت کا علم ہوا تو آپؑ نے پولیس والوں کو کہا کہ جرمانہ کی درخواست میرے علم میں لائے بغیر کی گئی ہے اور ان کو تسلی دلائی کہ آپؑ کو جرمانہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔

(حیات طیبہ از حضرت مرزا نشیر احمد ایم اے صفحہ60)

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں کہ عشا ءکی نماز کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو بذریعہ کشف یا الہام اطلاع دی کہ یہ ایک بہت بڑا بوجھ تھا جس کے نتیجہ میں مخالف رشتہ دار بہت تکلیف اور سخت حالات میں مبتلا تھے۔ آپؑ نے فرمایا کہ میں رات کو سو نہیں سکوں گا ۔ اس لیے جلد از جلد کسی کو بھیج دیا جائے اور ان کو یہ بتا دیا جائے کہ ہم نے آپ کو تمام جرمانہ معاف کر دیا ہے ۔

(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ81)

یہ حضرت مسیح موعود ؑ کی فطرت تھی کہ باوجود کئی ماہ تک ان رشتہ داروں کی طرف سے مصائب اور مشکلات کے جب آپ کو ان کی حالت کو علم ہوا تو آپ ایک رات بھی انتظار نہ کر پائے اور فوراً کسی کو بھیج کر ان کو اس اذیّت سے نجات دلوائی ۔

یہی مرزا نظام دین تھا جو آپؑ کے گھر کے باہر کسی آوارہ کو کھڑا کروا کر آپ کو گالیاں دلوایا کرتا تھا۔رسول بی بی جو حامد علی صاحب کی زوجہ ہیں نے بیان کیا کہ کئی مرتبہ تو یہ گالیاں نہ صرف دن بلکہ رات کو بھی جاری رہا کرتی تھیں ۔ جب اس پر حضور کا رد عمل پوچھا گیا تو بتاتی ہیں کہ آپؑ فرماتے تھے کہ کچھ اس کے کھانے کے لیے بھجوا دو یہ ساری رات سے چلّا چلّا کر تھک گیا ہو گا اور اب تک تو اس کی حلق بھی خشک ہو گئی ہو گی ۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی فرماتے ہیں کہ مرزا امام دین صاحب کھلے عام آپؑ کی جماعت اور آپ کے خاندان کا مخالف تھا ۔لیکن حضور اس سے قطع نظر اس سے شفقت کا سلوک فرماتے اور اس کی پیسوں وغیرہ کی ضرورت بھی پوری فرما دیا کرتے تھے ۔ حالانکہ یہ آپ سے لگاتار مخالفت رکھتا تھا۔ یہی مرزا امام دین صاحب ایک گھوڑا بیچنا چاہتے تھے اور انہیں جموں میں اس کی اچھی قیمت ملنے کی امید تھی اور وہاں پر حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب موجود تھے جن کی مدد ان کو چاہیے تھی ۔ باوجود شدید مخالف ہونے کے حضور ؑ نے ان کو حکیم صاحب کے نام رقعہ لکھ دیا کہ میرے اس مخالف کے لیے کوئی اچھا گاہک ڈھونڈ دیں ۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ307,309)

حضرت مسیح موعودؑ کو مخالفین کی طرف سے جسمانی اذیتیں بھی دی گئیں ۔

1892ء میں جب آپ دعوی کے بعد لاہور تشریف لے گئے تو آپ میاں چراغ دین کے مکان کے قریب مسجد میں نماز ادا کرتے تھے ۔ایک دن واپسی پر آپ کو راستہ میں پیغمبرا سنگھ ملا۔ اس کا دعوی تھا کہ یہ مہدی ہے ۔اور اس نے آپ پر پیچھے سے حملہ کیا ۔حضور نے اس کو پکڑ لیا۔ یہ مسلسل گالیاں نکالتا جا رہا تھا۔حضور ؑ کو اس کے حملہ کا کوئی ڈر نہ تھا لیکن یہ ضرور خدشہ تھا کہ آپؑ کے ساتھ اصحاب اس پر حملہ نہ کر دیں ۔آپؑ نے سختی سے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ اس کو جانے دو اور اس کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرو یہ تو مجنون ہے ۔حضور جاتے وقت مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتے کہ کہیں کوئی اس حملہ کرنے والے کو نقصان نہ پہنچائے۔

( سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ442,443)

حضور ؑ کے اصحاب اس حملہ کرنے والے پر سخت غصہ تھے اور بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن آپؑ اپنے اوپر حملہ کرنے والوں کے بارہ میں ہمیشہ سے رحم اور شفقت کا سلوک فرماتے رہے ۔ بہت مرتبہ آپؑ کو لمبی لمبی دیر تک گالیاں بھی سننی پڑیں ۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضور ؑ نے فرمایا کہ مجھے اپنے نفس پر اتنا قابو ہے اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو اتنی طاقت دی ہے کہ اگر کوئی میرے سامنے بیٹھ جائے اور مجھے ایک برس تک گالیاں دیتا رہے تو آخر کار وہ خود ہی شرمندہ ہو جائے گا اور اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ مجھے مشتعل نہیں کر سکا ۔اور واقعتاً بہت سے مواقع پر ایسا ہی ہوا۔

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک برہمو لیڈر آپؑ سے ملنے آیا ۔اس دوران ایک منہ پھٹ آپ کو گالیاں دینا شروع ہو گیا ۔آپؑ اپنے چہرہ پر ہاتھ رکھ کر خاموشی سے بیٹھے رہے جبکہ وہ آدمی مسلسل گالیاں دیتا رہا حتیٰ کہ اس برہمو لیڈرنے چاہا کہ وہ اس بدزبان کو روک دے لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جو یہ کہنا چاہتا ہے کہنے دو ۔ وہ بد زبان شخص کافی دیر تک گالیاں دیتا رہا اور آخر تھک کر وہاں سے چلا گیا ۔ یہ دیکھ کر برہمو لیڈر بہت متاثر ہوا اور اس نے اقرار کیا کہ یہ آپؑ کا ایک بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے کہ باوجود اس کو خاموش کروانے کی طاقت رکھنے کے یا اس کی زبان نکلوا دینے کے یا اس شخص کو ہی اٹھوا دینے کے آپؑ نے کامل ضبط نفس اور صبر کا مظاہرہ کیا۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ443,444)

اسی طرح ایک اور موقع پر لاہور میں پیر گولڑہ شریف کا ایک مرید آیا اور کچھ پوچھنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اس نے نہایت غلیظ گالیاں دینا شروع کر دیں ۔جب وہ سانس لینے کے لیے رکا تو آپ نے فرما یا کچھ اور۔ وہ پھر گالیاں دینا شروع ہو گیا ۔آپؑ خاموشی سے اس کے سامنے بیٹھے رہے ۔ کافی دیر بعد وہ تھک گیا اور خاموش ہو گیا تو آپؑ نے دوبارہ فرمایا بھائی صاحب کچھ اَور بھی کہہ لیں۔اس پر وہ زار وقطار روتا ہوا آپؑ کے قدموں میں گر پڑا اور معافی چاہی کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ میں آپؑ کے مرتبہ کو نہ پہچان سکا۔

یہ حضور ؑ کا ضبط نفس ہی تھا کہ باوجود مشکلات کہ آپؑ ضبط نفس پر قائم رہتے اور یہ صفت خدا نے ہی آپ کو عطا کی تھی ۔

صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ شیخ غلام احمد صاحب بیان کرتی ہیں کہ دہلی میں ایک مرتبہ حضور کے مکان کے باہر ایک مخالف کھڑا ہو جاتا اور لگاتار گالیاں دیتا رہتا ۔ اس پر حضور حضرت امّاں جان سے فرماتے کہ اس کے لیے شربت کا گلاس تیار کر کے بھجوا دو۔ اب تک گالیاں دے دے کر اس کا گلا خشک ہو چکا ہو گا۔
(سیرت المہدی جلد2 روایت1383)

1903ء میں منارة المسیح کی تعمیر کے وقت سب ہندو سکھ اور مسلمانوں نے حکام کے پاس جا کر شکایتیں کیں۔جب گورنمٹ کے کارندے قادیان آ ئےتو آپ نے فرمایا کہ یہ شکایتیں میرے مخالفین نے کی ہیں اور بڈھا مَل کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس سے پوچھیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کوئی ایسا موقع جو مجھے نقصان پہنچانے کا اسے ملا ہو اور اس نے چھوڑا ہو۔ اور اس سے یہ بھی پوچھیں کوئی ایسا موقع اس کو فائدہ پہنچانے کا ملا ہو اور میں نے چھوڑا ہو۔حافظ روشن علی صاحب فرماتے ہیں کہ اس پر بڈھا مَل اتنا شرمندہ ہوا کہ اس نے شرم سے آنکھیں جھکا لیں ۔اور حکومتی حکام نے فیصلہ حضور کے حق میں دیا اور تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔

ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان اور اردگرد کے لوگ ہمیشہ حضور کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے تھے۔حضور ان کو برداشت بھی کرتے اور ان مخالفین کو ہمیشہ شفقت اور رحم سے جواب دیتے۔

اسی طرح کی ایک مثال لالہ شرمپت کی ہے ۔جو کہ بیمار ہو گیا۔ اسے خدشہ ہوا کہ وہ اندھا ہو جائے گا ۔ آپؑ اس کی تیمار داری کرنے خود اس اشد ترین مخالف کے گھر گئےاور اس نے آپؑ کو کہا حضرت جی آپ میرے لیے دعا کریں ۔آپؑ نے نہ صرف اس کے لیے دعا کی بلکہ ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب کو ان کا طبیب بھی مقرر فرمایا اور ملاوا مَل کی مکمل صحتیابی تک آپ اس کی تیمار داری کے لیے تشریف لاتے رہے۔

ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ان واقعات کو معمولی جانیں لیکن ان واقعات سے آپؑ کے اعلیٰ اخلاق اور مخالفین کے ساتھ حسن سلوک کا سبق ملتا ہے ۔ان واقعات میں ہمارے لیے اور بھی بہت سے سبق ہیں۔اور آئندہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی آپؑ کی تحریرات میں یہ ہدایت موجود ہے جس میں آپؑ ہم میں سے ہر ایک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ضرور ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ۔ سو اِن صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور ناکامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو۔

(کشتی نوح)

یاد رکھو مومن متقی کے دل میں شر نہیں ہوتا۔ جس قدر انسان متقی ہوتا جاتاہے اسی قدر وہ کسی کی نسبت سزا اور ایذا کو پسند نہیں کرتا ۔مسلمان کبھی کینہ ور نہیں ہوسکتا۔ ہم خود دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے کوئی دکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچایا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کی ہزاروں خطائیں بخشنے کو اب بھی تیار ہیں۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو ۔

(حضرت مسیح موعودؑ کی دو اہم تقریریں صفحہ26)

یہ کوئی عجیب بات نہیں بلکہ آج ہمیں ایک امام عطا ہے ایک خلیفہ جو اپنی زندگی میں ان صفات کا مظہر ہے جن میں صبر برداشت اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا پایا جاتا ہے ۔ ہم نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ ایک ایسا خلیفہ ہے جو ہمیں بار بار تنبیہ کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کریں اور جو عہد بیعت ہم نے لیا ہے اس کو پورا کریں جو ایک بار پھر ہم آج شام دہرانے والے ہیں ۔

اللہ ہمیں حضرت مسیح موعود ؑ کی سیرت طیبہ کے ان واقعات سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والے ہوں ۔آمین ‘

………………………

مقرر موصوف کی تقریر 10؍ بجکر 50؍ منٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔ بعد ازاں مکرم صدر صاحب اجلاس نے مولانا عطاء المجیب صاحب راشد(نائب امیر یو کے و امام مسجد فضل ۔ لندن کو ’’خلافت کے زیرِ سایہ عالمگیر وحدت کا قیام‘‘ کے عنوان پر اردو زبان میں تقریر کرنے کی دعوت دی۔

مولانا صاحب نے خلافتِ احمدیہ کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ کی بعثت تمام دنیا میں بسنے والے انسانوں کی طرف ہوئی تھی اسی طرح خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ بھی تمام دنیا کی وحدت اور نجات کا حقیقی ذریعہ ہے۔ مقرر موصوف نے خلفائے سلسلہ کی خدماتِ انسانیہ اور تمام دنیا کے لوگوں کو بلا تفریق رنگ و نسل و مذہب وحدت کی لڑی میں پرونے کی کاوشوں کا تذکرہ بھی فرمایا۔ آپ نے کہا کہ دنیا میں بسنے والے انسان احمدیت کی آغوش میں آکر خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ حقیقی وحدت کی لڑی میں پروئے جا رہے ہیں۔

(اس تقریر کا مکمّل متن انشاء اللہ آئندہ کسی شمارہ میں شائع کیا جائے گا۔)

مقرّر موصوف کی تقریر کا اختتام 11؍ بجکر 24؍ منٹ پر ہوا۔ بعد ازاں مکرم طاہر خالد صاحب مبلّغ سلسلہ یوکے نے اردونظم پڑھی۔ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ منظوم کلام ’درسِ توحید‘ میں سے بعض منتخب اشعار پڑھے۔

… … … … … …

اس کے بعد مکرم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ ربوہ نے اردو زبان میں ’ہستی باری تعالیٰ۔ قبولیتِ دعا کے آئینہ میں‘ کے عنوان پر تقریر کی۔

مولانا صاحب نے اپنی تقریر میں پُر اثر حوالہ جات اور قبولیتِ دعا کے اثر انگیز واقعات کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کو حاضرینِ جلسہ کے سامنے پیش کیا۔

(مولانا صاحب کی تقریر کا مکمل متن انشا ء اللہ آئندہ کسی شمارہ میں شائع کیا جائے گا۔)

مقرّر موصوف کی تقریر 12 بجکر 5؍ منٹ پر اختتام پذیر ہوئی۔

٭…٭…٭

منتخب اشعار از کلام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

(درج ذیل اشعار جلسہ سالانہ یُوکے 2018ء کے موقع پر دوسرے روز حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زیر صدارت منعقدہ بعد دوپہر کے اجلاس میں پڑھے گئے)

حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی

ہمسر نہیں ہے اُس کا کو ئی نہ کوئی ثانی

باقی وہی ہمیشہ غیر اُس کے سب ہیں فانی

غیروں سے دِل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی

سب غیر ہیں وہی ہے اِک دل کا یار جانی

دِل میں مرے یہی ہے سُبْحٰنَ مَنْ یَّرانی

سب کا وہی سہارا رحمت ہے آشکارا

ہم کو وہی پیارا دِلبر وہی ہمارا

اُس بِن نہیں گزارا غیر اُس کے جھوٹ سارا

یہ روز کر مبارک سُبْحٰنَ مَنْ یَّرانی

تیرا یہ سب کرم ہے تُو رحمتِ اَتم ہے

کیونکر ہو حمد تیری ، کب طاقتِ قلم ہے

تیرا ہوں مَیں ہمیشہ جب تک کہ دَم میں دَم ہے

یہ روز کر مبارک سُبْحٰنَ مَنْ یَّرانی

……………………

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button