ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
حضرت عیسیٰ کی عمر آپ کے دین کے بقا کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر کا نصف بنتی ہے اور سیدنا خیرالرسل کی عمر آپ کی پہلی تین صدیوں کو دیکھتے ہوئے بالکل واضح طور پر عیسیٰ ابن مریم کی عمر کا نصف بنتی ہے۔پھر اس کے بعد ایک ہزار سال تک اسلام کی موت کا زمانہ ہے۔ پھر ان معنی کے رُو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس مسیح موعود کا زمانہ ہے جو شیطانِ مردود کے قتل کرنے کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ کے مشابہ ہے۔
’’ اور فرقہائے اسلام میں سے مخالفین پر یہ ہمارا احسان ہے اور کسی عقل مند کے لئے اس بیان کے بعد شک کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ یہ دل کے اطمینان اور تسلی کا موجب ہے اور اس کے ساتھ وہ اعتراض بھی باطل ہو جاتا ہے جو انبیاء کی عمر والی حدیث پروارد ہوتا ہے کیونکہ بالبداہت حضرت عیسیٰ کی عمر آپ کے دین کے بقاء کے لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر کا نصف بنتی ہے اور سیدنا خیرالرسل کی عمر آپ کی پہلی تین صدیوں کو دیکھتے ہوئے بالکل واضح طور پر عیسیٰ ابن مریم کی عمر کا نصف بنتی ہے۔پھر اس کے بعد ایک ہزار سال تک اسلام کی موت کا زمانہ ہے۔ پھر ان معنی کے رُو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس مسیح موعود کا زمانہ ہے جو شیطان مردود کے قتل کرنے کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ کے مشابہ ہے کیونکہ مسیح موعود کو دین کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد بِلافصل بلکہ تدفین سے بھی پہلے خلیفہ بنایا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کی خبر میں شریک کر دیا ہے۔ یعنی وہ خبر جو قرآن مجید میں مذکور ہے اور اس کو بھی حضرت ابوبکرؓ کی طرح توفیق دی گئی اور مہلک گمراہی کے سیلاب کو روکنے کے لئے ان جیسا عزم دیاگیا۔ اسی کی طرف اللہ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی نے اپنے قوللَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (القدر4:))میں اشارہ فرمایا ہے۔ اَلْفِ شَھْرٍ سے مراد یہاں اَلْفِ سَنَۃٍ (یعنی ایک ہزار سال) ہے۔اور اس جیسے استعارات کتب ِ سابقہ میں بکثرت ہیں۔ اس ہزارسال کے بعد بعث بعد الموت اور مسیح موعود کا زمانہ ہے۔
پس آج ضلالت اور موت کا ہزار سال پورا ہو گیا اور زندہ درگور اسلام کے بعد (اس کی نشا ٔۃ ثانیہ) کا وقت آگیا۔ اور اے منکرو! تم پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی۔ پس تم اللہ پر بدگمانی کرنے والوں میں سے نہ بنو۔ اور اے گننے والو! اللہ تعالیٰ کے دنوں کو گنو۔ اور اللہ کا وعدہ یقینًا سچا ہے۔ پس تمہیں نہ یہ دنیوی زندگی دھوکا دے اور نہ شیطانِ لعین دھوکا دے۔ اے خطاکار مجاہدو! یہ زمانہ بڑی جنگ کا زمانہ ہے اور نزول مسیح اور شیطان کے ایسے سخت غضب کے ساتھ نکلنے کا زمانہ ہے جسے پہلوں نے نہیں دیکھا۔ شیطان نے دیکھ لیا ہے کہ اس کا زمانہ ختم ہو گیا اور اس کو دی گئی مہلت کی میعاد پوری ہو گئی اور یوم بعث آگیا اور اس کو دی گئی مہلت صرف اس بعث کے دن تک تھی۔ یہی تو ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا۔ اور مُرسَلین سچ ہی کہتے تھے۔ اور وہ لوگ جو قرآن مجید کی شہادت آجانے کے بعد بھی اس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں ان کے سینوں میں کبر ہے اور ان کے لئے اس دلیل سے انکار کرنے کا کوئی حق باقی نہیں جو خدائے رحمٰن کی طرف سے آئی ہے۔ ان پر فیصلہ کرنے والے خدا کی حجت پوری ہو گئی۔ وہ حق اور ہدایت نہیں چاہتے اور وہ اپنی عمریں اس دنیا کی نعمتوں پر خوش ہو کر ختم کر رہے ہیں۔ کیا ان کے پاس وہ امر نہیں آیا جو پہلی اُمّتوں کے پاس آیا تھا۔ کیا انہوں نے عظیم الشان نشانات نہیں دیکھے۔ کیا صدی کا سر اور فسادِ اُمّت اور اعدائے ملّت کی طرف سے بڑے بڑے فتنے اور رمضان کے مہینہ میں کسوف و خسوف اور دوسری علامتیں ظاہر نہیں ہو گئیں ۔ اگر تم صالح ہو تو تقویٰ کہاں گیا؟
اے لوگو! تم معلوم کر چکے ہو جو ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ حسابِ جُمل کے لحاظ سے سورۃ عصر کے اعداد اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ سے اس سورۃ کے نزول تک کا وقت چار ہزار سات سوسال کے قریب بنتا ہے ۔ یہ وہ بات ہے جس کا میرے رب نے مجھ پر انکشاف کیا۔ سو میں نے اس انکشاف کے بعد حقیقت کو جان لیا اور اس تاریخ نے بھی اس کے درست ہونے کی شہادت دے دی جس پربغیر اختلاف کے جمہور اہلِ کتاب بھی متفق ہیں اور اس مدت پر ہمارے اس دن تک تیرہ سو سال مزید گزر چکے ہیں۔ اور جب ہم ان دونوں مدتوں کو جمع کریں تو یہ چھ ہزار سال بن جاتے ہیں جیسا کہ سابق محققین کا مذہب ہے۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ میری چھٹے ہزار کے آخر پر پیدائش آدم کی چھٹے دن میں پیدائش سے مشابہ ہے اور کوئی شک نہیں کہ موت کے ہزار (سال) کے آخر پر مبعوث کئے جانے والے کانام رحمٰن خدا کے حضور آدم رکھا گیا ہے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 248تا252۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)