اسماء النبیﷺ فی القرآن (قسط نمبر 2)
6۔رَحِیْمٌ/رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن
قرآن کریم میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کو ایک مرتبہ رحیم (التوبہ 128:) اور ایک مرتبہ رحمة للعالمین (الانبیا 108:) بھی کہا گیا ہے۔
کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہَ الرَّحْمَۃَ (الانعام55:)
محمد مصطفیﷺ کے خدا نے اپنے نفس پر رحمت فرض کرلی۔ جبکہ آپ ﷺ اپنے رب کی تمام صفات کے عکس ہیں اور الٰہی رنگ میں اعلیٰ اور اکمل اور اتمّ طریق سے رنگین بھی، تو لازم آتا ہے کہ آپ ﷺ صفت رحیمیت کا بھی اعلیٰ ترین نمونہ ہوں۔ لہٰذا قرآن کریم نے آپ ﷺ کو رحمة للعالمین فرمایا:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساء 65:)
آپ ﷺ کی دعا سے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جوش مارتی ہے اور ظالموں کو معاف کرتی ہے تو یہ بھی آپﷺ کی صفت رحیمیت کا پرتَو ہے۔ آپ ﷺ کی دعا تو اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ(التوبہ103:)کے تحت مومنوں کے لئے سکینت کا موجب ہوتی تھی۔
ہمارے نبی ﷺ کی زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت کے نظاروں سے بھرپور نظر آتی ہے۔ خطرناک حملوں کے وقت بھی آپؐ کی دعا آپؐ کی فتح اور دشمن کی شکست کا باعث بنتی ہے۔ خطرناک مریضوں کی شفا کا ذریعہ ہوتی ہے۔ صدیوں سے بگڑے ہوؤں کی اصلاح آپؐ فانی فی اللہ کی تاریک راتوں کی دعا سے ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے آپؐ کی دعا لمبی عمر کا باعث بنتی ہے۔ خدمت کرنے والوں کی عمر مال اور اولاد میں بے پناہ برکت کا موجب ہوتی ہے۔ خشک کنوئیں آپ کی دعا سے پانی سے ابلنے لگتے ہیں۔ چند روٹیاں سینکڑوں کو سیر کر دیتی ہیں۔
آپؐ منبرپر ہیں۔ ایک اعرابی بارش نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف کی شکایت کرتا ہے۔ آپ اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں۔ آسمان میں بادل کا نام و نشان نہیں۔ مگر اچانک سلع پہاڑ کے پیچھے سے بادل آتا ہے اور حضور ﷺ ابھی منبر سے نیچے نہیں اترتے کہ موسلادھار بارش شروع ہو جاتی ہے اور ایک ہفتہ تک جاری رہتی ہے۔ اگلے ہفتہ پھر حضور ﷺ منبر پر ہیں اور ایک اعرابی بارش کی شدت سے سخت تکلیف کی شکایت کرتا ہے۔ حضور ﷺ ہاتھ اٹھاتے ہیں اور بارش بند ہو جاتی ہے۔
(ماخوذ از کان خلقہ القرآن)
صحابہ کرام سے عفو اور دلداری کے سلوک کا عظیم الشان واقعہ غزوۂ احد میں نظر آتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ اپنے ایک خطاب قبل از خلافت میں جنگ احد کی بابت فرماتےہیں:
جنگ احد کے دوسرے ہی روز آنحضور ﷺ کا مجاہدین اسلام کو مجتمع کرکے دشمن کے پیچھے دور تک نکل جانا اور تین دن ایک کھلے میدان میں اس کے انتظار میں پڑاؤ کئے رہنا ایک ایسا واقعہ ہے جس پر غور کرنے سے آنحضورﷺ کی بصیرت اور سیرت کے بعض نہایت لطیف اور دل نشین پہلو سامنے آتے ہیں۔
1۔ مسلمانوں سے احساس شکست کو کلیۃً مٹانے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی اقدام ممکن نہ تھا کہ انہیں بلاتوقف از سر نو مقابلہ کے لئے میدان قتال میں لے جایا جائے۔
2۔تازہ دم نوجوانوں اور نئے مجاہدین کے ساتھ چلنے کی اجازت نہ دے کر آنحضور نے قطعی طور پر یہ ثابت کردیا کہ آپؐ ظاہری اسباب پر بھروسہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اس دعویٰ اور یقین میں سچے تھے کہ آپؐ کا اصل توکل اپنے رب پر ہی ہے اور وہ یقینا ًآپؐ کی نصرت پر قادر ہے۔
3۔اس فیصلہ کے ذریعہ آپ نے اپنے ان صحابہ کی دلداری فرمائی جن کے پاؤں میدان احد میں اکھڑ گئے تھے اوران پر مکمل اعتماد کا اظہار فرمایا کہ وہ درحقیقت پیٹھ دکھانے والے نہیں بلکہ اچانک ناگزیر وجوہات سے مجبور ہوگئے تھے۔
جہاں تک میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ انسانی جنگوں کی تاریخ میں ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی کہ کسی جرنیل نے اپنی فوج پر اتنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہو جبکہ وہی فوج صرف چند گھنٹے پہلے اسے تنہا چھوڑ کر میدان سے ایسے فرار اختیار کرچکی ہو کہ چند جاںنثاروں کے سوااس کے پاس کچھ نہ رہا ہو۔
(خطابات طاہر قبل از خلافت صفحہ331,332:)
آپ ﷺ کی رحمت اس وقت کی کمزور مخلوق یعنی عورت پر بھی ہے۔ ملک عرب عورتوں سے بدسلوکی میں سب سے بڑھا ہوا تھا جہاں لڑکی کو زندہ درگور بھی کردیا جاتا تھا۔ مگر آپ ﷺ نے عورت کو اس کے حقوق دیئے۔ قرآنی تعلیم وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرۃ 229:)کہ جس طرح عورتوں پر ذمہ داریاں ہیں اسی طرح ان کے حقوق ہیں۔ آپﷺ اپنی رضاعی ہمشیرہ کے لئے اٹھ کراپنی چادر بچھاتے ہیں،اپنی ازواج کو اپنے ساتھ ساتھ ہر کام میں شریک رکھتے ہیں حتی کہ سفروں اور میدانِ جنگ میں بھی۔ انہیں اس قدر تربیت دیتے ہیں کہ آدھا علم امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سیکھنے کا ارشاد فرماتے ہیں۔
پھر رحیمیت کا ایک پہلو یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر10:) ہے۔ یہ کہ وہ اپنے نفسوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود ان کو تنگی و تنگ دستی ہو۔ ہمارے نبیؐ کے بارہ میں حضرت ابو بصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے پہلے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے میرے لئے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپ کے اہل خانہ کے لئے تھا۔ حضورؐ نے مجھے سیر ہو کر پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت ﷺکے اہل خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گذاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری۔ (مسند احمد بن حنبل)
ایک اور مثال وہ معروف واقعہ ہے جس میں ایک پیالہ دودھ پہلے باری باری اصحاب الصّفہ کو پلاتے ہیں پھر حضرت ابو ہریرہؓکو بار بار تاکید کر کے اتنا پلاتے ہیں کہ وہ کہہ اٹھتے ہیں وَ الَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا اَجِدُ لَہُ مَسْلَکًا۔ کہ اُس کی قسم ہے جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب تو مزید دودھ کے گزرنے کی جگہ نہیں رہی۔ پھر سب صحابہ کے پی لینے کے بعد آپ ﷺ خود نوش فرماتےہیں۔
آپ ﷺ کی رحمت کے حوالہ سے مؤلف ’کان خلقہٗ القرآن‘تحریر کرتے ہیں:
آپ ﷺ کی رحمت صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ عالمین میں سے ہر وجود کے لئے ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کی رحمت و شفقت جانوروں کے لئے بھی ہے جس کی کئی مثالیں کتب سیرة و حدیث میں ملتی ہیں۔ ایک مثال یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی کتب و روایات میں اگرچہ بہت سی دعائیں سکھائی گئی ہیں مگر جہاں تک میرا علم ہے جانوروں کے لئے دعا صرف ہمارے نبی ﷺ کی دعاؤں میں ملتی ہے۔ آپ نے یہ بھی دعا کی اَللّٰھُمَّ اَسْقِ عِبَادَکَ وَ بَہَائِمَکَکہ اے اللہ اپنے بندوں کو بھی پانی عطا فرما اور اپنے بے زبان جانوروں کو بھی۔
(کان خلقہ القرآن حصہ اول صفحہ103:)
رحیمیت کا ایک عظیم پہلو ’شفاعت‘ کے نام سے موسوم ہے۔ قرآن کریم نےنبی کریم ﷺ کو شفیع کے نام سے تو موسوم نہیں فرمایا لیکن آپ ﷺ کے اس اختیار کو بار ہا بیان فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت دو قسم کی ہے۔ ایک وہ سفارش جوروزمرہ امور میں کسی سے کی جاتی ہے اور خداتعالیٰ سے دعا اور سفارش کی قبولیت کی درخواست کی جاتی ہے جسے خداتعالیٰ اپنی منشا کے مطابق تسلیم کرے یا نہ کرے۔ یہ شفاعت بزرگوں کی دعاؤں میں بھی ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
قرآن شریف کی رو سے شفاعت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہوجائے یا کوئی بلا ٹل جائے۔ پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کے حضور زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو۔ یہی حقیقت شفاعت ہے۔ … اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے۔شفع جفت کو کہتے ہیں جو طاق کی ضد ہے۔ پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہوکر اس میں فنا ہوجاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے۔
(نسیم دعوت صفحہ90,91:)
لیکن شفاعت کی وہ صورت جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور کسی امر کے لازماً ہوجانے کی درخواست کی جائے،اس کے مجاز صرف ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ ہاں آپ ﷺ کے ظِلّ کے طور پر اگر اللہ تعالیٰ کسی کو وقتی طور پر یا کسی خاص معاملہ میں اجازت فرمائے تو وہ بھی آپ ﷺ کے اختیار کے تحت ہی ہے۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک طالبعلم عبد الکریم کی صحت کے حوالہ سے دعا پر پہلے مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ کا حکم موصول ہوا اور پھر اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَازُ فرماکراس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کا اختیار دیا گیا۔
رسول کریم ﷺ کی اپنی امت کے لئے شفاعت کی دعا کا بیان حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب ہم عزوزاء مقام کے قریب پہنچےتوآپؐ اپنی سواری سے اترے۔ آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور ایک گھڑی دعا کی۔ پھر آپ سجدہ کرتے ہوئے گرپڑے۔ پھر آپؐ نے فرمایا مَیں نے اپنے ربّ سے مانگا اور مَیں نے اپنی امت کے لئے شفاعت کی تو اس نے مجھے میری امت کا تیسرا حصہ دے دیا اور مَیں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے گر پڑا۔ پھر مَیں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنی امت کے لئے اپنے رب سے مانگا تو اس نے مجھے میری امت کا ایک تہائی دے دیا اور مَیں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گر پڑا۔ پھر مَیں نے اپنا سر اٹھایا اور اپنے رب سے اپنی امت کے لئے مانگا تو اس نے مجھے آخری ایک تہائی بھی دے دیا اور مَیں اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے گر پڑا ۔
(احمد۔ ابو داؤد)
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
غیروں کا غم جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے اور اپنوں کا غم جن کے متعلق فرماتا ہے رؤُوْفٌ رَّحِیْم تھے ۔ کبھی کسی انسان کے متعلق خدا تعالیٰ نے کسی کتاب میں یہ گواہی نہیں دی کہ وہ رؤُوْفٌ رَّحِیْم تھا۔ یہ خدا کی صفات آنحضرت ﷺ کے متعلق فرماتا ہے بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ (التوبة 128)کہ جھوٹا ہے وہ دعویدار جو یہ کہتا ہے کہ میں محمد مصطفیٰ ﷺ سے زیادہ کسی سے پیار کرتا ہوں۔ ماؤں سے بڑھ کر پیار ممکن ہے لیکن محمد مصطفیٰﷺ سے بڑھ کر پیار ممکن نہیں ہے۔ تو اس دل پر کیا گزرتی ہوگی جب صحابہ کو تکلیف پہنچ رہی تھی؟
(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍نومبر1984ء خطبات طاہر جلد نمبر 3 صفحہ 638, 639:)
7۔خاتَم النبیینﷺ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
ختم نبوت کے متعلق میں پھر کہنا چاہتا ہوں کہ خاتَم النبیین کے بڑے معنے یہی ہیں کہ نبوت کے امور کو آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺ پر ختم کیا۔یہ تو موٹے اور ظاہری معنے ہیں۔ دوسرے یہ معنے ہیں کہ کمالات نبوت کا دائرہ آنحضر تﷺ پر ختم ہوگیا ۔ یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہےکہ قرآن نے ناقص باتوں کا کمال کیا۔ اورنبوت ختم ہوگئی اس لئے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کا مصداق اسلام ہوگیا۔
(الحکم جلد3 نمبر1مؤرخہ 10 جنوری1899ء)
قرآن کریم نے نبوت کے فرائض آیت کریمہ ھُوَالَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آَيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعة 3) میں بیان فرمائے کہ1۔تلاوتِ آیات 2۔تزکیہ 3۔تعلیم کتاب اور 4۔تعلیم حکمۃکے لئے نبی تشریف لاتے ہیں۔نزول قرآن کریم ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی زندگی پر اس کا معجزانہ اثراور اس میںدیگر انبیاء کے کمالات کے اجتماع کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آپؐ فوت نہیں ہوئے جب تک اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ کی آواز نہیں سن لی اور اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ أَفْوَاجًا کا نظارہ آپ نے نہیں دیکھ لیا۔ یہ آیت نہ تو ریت میں (ہے)نہ انجیل میں ۔توریت کا تو یہ حال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام راستہ ہی میں فوت ہوگئے اور قوم کو وعدہ کی سرزمین میں داخل نہ کرسکے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کہتے ہیں کہ بہت ہی باتیں کرنے کی تھیں کیا قرآن شریف میں بھی ایسا لکھا ہے؟وہاں تو اَکْمَلْتُ لَکُمْہے۔ رہی ان کی تکمیل۔ صحابہ کی جو تکمیل آنحضرتﷺ نے کی وہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان کی نسبت فرماتا ہے مِنْھُمْ مَّنْ قَضیٰ نَحْبَہٗ۔ الآیۃ۔ اور پھر ان کی نسبت رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ فرمایا۔لیکن انجیل میں مسیح کے حواریوں کی جو تعریف کی گئی ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ جابجا ان کو لالچی اور کم ایمان کہا گیا ہے اور عملی رنگ ان کا یہ ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپیہ لے کر پکڑوادیا اور پھر اس نے سامنے لعنت کی۔ انصاف کرکے کہو کہ یہ کیسی تکمیل ہے۔ اس کے بالمقابل قرآن شریف صحابہ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے اور ان کی ایسی تکمیل ہوئی کہ دوسری کوئی قوم ان کی نظیر نہیں رکھتی۔ پھر ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے جزا بھی بڑی دی یہاں تک کہ اگر باہم کوئی رنجش بھی ہوگئی تو اس کے لئے فرمایا وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلٍّ۔ الآیۃ۔ حضرت عیسیٰ نے بھی حواریوں کو تختوں کا وعدہ دیا تھا مگر وہ ٹوٹ گیا کیونکہ بارہ تختوں کا وعدہ تھا۔ مگر یہودا اسکریوطی کا ٹوٹ گیا جب وہ قائم نہ رہا تو اَوروں کا کیا بھروسہ کریں۔مگر صحابہ کے تخت قائم رہے دنیا میں بھی رہے اور آخرت میں بھی۔
غرض یہ آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْمسلمانوں کے لئے کیسے فخر کی بات ہے۔… اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتاردیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی، وحشیوں سےانسان پھر اس کے بعد عقل مند اور با اخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنادیا۔اور تطہیر نفس ،تکمیل اور تہذیب نفس کے مدارج طے کرادئے۔اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کردیا یہاں تک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔ میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہا کہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتاسکا۔ایسا ہی ایک زمانہ مجھ پر گزرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طور پر اور نہائت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں ۔
(الحکم جلد10 نمبر27 مورخہ31 جولائی1906ء)
اگر قرآن سورۃ الانعام میں حضرت ابراھیم ؑ، حضرت اسحاق ؑ، حضرت یعقوب ؑ،حضرت نوحؑ ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت ایوب ؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت موسیؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت الیسعؑ، حضرت یونسؑ اور حضرت لوط ؑکے ہدایت یافتہ ہونے کا ذکر کرکے آپ ﷺ کو ارشاد فرماتا ہے أُولٰئِكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ (الأنعام 91:) کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی پس آپﷺ ان سب کی ہدایت کی پیروی کریں تو گویا ہمارے نبیﷺ ان تمام کی ہدایات کے جامع ہیں جو ہدایت ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ملی وہ سب ہدایت آپ ﷺ میں جمع ہیں۔ آپ ﷺ ابراہیم کی طرح ابو الانبیاء بھی ہیں(چوں مسیح ناصری شد از دم او بے شمار) ابراہیمؑ ساتویں آسمان پر ہیں اور آپ ﷺ سدرۃ المنتہیٰ پر۔ آپ ﷺ کی والدہ محترمہ کو حضرت اسحاقؑ کی والدہ سے بہتر بشارت دی گئی۔آپﷺ کے اسباط حضرت یعقوب ؑ کے اسباط سے کہیں بہتر تھے۔حضرت نوح ؑ کے طوفان سے بہت زیادہ سخت آپ ﷺ کی مخالفت کا طوفان تھا۔آپ ﷺ کی عبادات اورآپ ﷺ کا جہاد حضرت داود ؑ سے بہت بڑھ کر تھا۔آپؑ کی حکومت اورعلم حضرت سلیمان ؑ سے زیادہ وسیع تھے اور آپ ﷺ کا رعب کا دائرہ حضرت سلیمان ؑ کے رعب کے دائرہ سے بہت زیادہ وسیع تھا۔ آپ ﷺ کو حضرت ایوب ؑ سے زیادہ متنوع شدائد پر صبر کرنا پڑا۔ حسن یوسف ؑسے آپ ﷺ کا حسن درجہا خوبصورت تھا۔ حضرت موسیٰؑ کی شریعت سے آپ ﷺ کی شریعت کئی درجہ زیادہ مکمل تھی۔ آپ ﷺ کے ہارون نے آپ کی غیر حاضری میں آپ کی قوم کو ہدایت سے ہٹنے نہ دیا۔حضرت اسماعیل صادق الوعد تھے مگرم آپ کے وعدے آج تک پورے ہورہے ہیں۔ حضرت الیسع ؑ قوم کو أَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَتَذَرُوْنَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ (الصافات 126:)کہہ کر سمجھاتے رہے مگر قوم نے کم ہی آپ ؑ کی بات مانی مگر آپ ﷺ نے اپنی قوم کو بتوں کی غلامی سے نکال کر چھوڑا۔ حضرت یونسؑ نے اپنی بستی کو مایوس ہوکر چھوڑدیا تھا مگر بستی ایمان لے آئی۔ آپﷺ نے بستی میں جاکر اپنی صداقت،شفقت اور عفو کے ذریعہ منوائی۔حضرت لوطؑ کی قوم ایک خاص قسم کی اخلاقی بے راہ روی میں ملوث تھی غرض آپﷺ ان تمام ہدایت کے جامع تھے جو ان سب انبیاء میں پائی جاتی تھی۔
(کان خلقہ القرآن حصہ دوم صفحہ47،48)
حضرت موسی ؑ کی تعلیم صرف بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے ہے، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی سوا کسی کی طرف نہیں بھیجا گیا۔ وید صرف اونچی جاتی کے لئے ہے۔ شودر اگر سن لے تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ڈالا جائے۔بدھ کی تعلیم کا زمانہ عورت کے بھکشو بننے کی وجہ سے نصف رہ گیا۔دنیا کا کوئی نبی یا رسول ہمیشہ کے لئے، ہر زمانہ کے لئے بھیجے جانے کا اعلان نہیں کرتا۔صرف ہمارے نبیﷺ ہمیشہ کے لئے اور ہر رنگ کے لئے، ہر زبان بولنے والوں کے لئے، ہر نسل سے تعلق رکھنے والے کے لئے نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا اعلان کرتے ہیں کہ مجھ سے پہلے نبی صرف اپنی قوم کے لئے بھیجا جاتا تھا مگر مجھے تمام لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہے۔(کان خلقہ القرآن حصہ دوم صفحہ60)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
بلا شبہ ہمارے نبی ﷺ روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قوتیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بار و بر نہ رہی اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تأخّر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ ﷺ پر ختم ہوگئے۔
( لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ207)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
تمام نبوتیں اور تمام کتابیں جو پہلے گزر چکیںان کی الگ طور پر پیروی کی حاجت نہیں رہی کیونکہ نبوت محمدیہ ان سب پر مشتمل اور حاوی ہے اور بجز اس کے سب راہیں بند ہیں۔تمام سچائیاں جو خدا تک پہنچاتی ہیں اسی کے اندر ہیں۔ نہ اس کے بعد کوئی سچائی آئے گی اور نہ اس سے پہلے کوئی ایسی سچائی تھی جو اس میں موجود نہیں۔ اس لئے اس نبوت پر تمام نبوتوں کا خاتمہ ہے اورہونا چاہئے کیونکہ جس چیز کے لئے ایک آغاز ہے اس کے لئے ایک انجام بھی ہے لیکن نبوت محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اس میں فیض ہے۔
( رسالہ الوصیة روحانی خزائن جلد 20 صفحہ311)
ختم نبوت کا ایک معنی دیگر انبیاء کی تصدیق بھی ہے۔ اسلام عیسائیت کی طرح اپنی معصومیت اور افضلیت ثابت کرنے کے لئے بقیہ تمام انبیاء کو گناہگار نہیں قرار دیتا بلکہ آپﷺ نے اپنے کشوفِ صادقہ اور اپنی زبان مبارک سے بھی رسولوں کی تصدیق فرمائی اور اپنے ماننے والوں کے لئے لازمی قرار دیا اَنْ نُوٴْمِنُ بِاللہِ وَ مَلَائِکَتِہٖ وَ رُسُلِہٖکہ وہ اللہ اور اس کے ملائکہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائیں اور معروف انبیاء کے نام لے کر روحانی آسمان کی بلندیوں میں ان کے مدارج عالیہ بیان فرمائے۔ (کان خلقہ القرآن حصہ اول ص123)
8۔ سِراجًا مُنِیْرًا:
قرآن کریم آپ ﷺ کو سِرَاجًا مُّنِیْرًا (الاحزاب47:) ٹھہراتا ہے اور ایساچراغ قرار دیتا ہے جس سے دوسرے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی مذہب کے پیروکار نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ وہ اپنے مذہب کے رسول اور نبی کے فیض سے اور اس کی محبت اور اتباع سے اللہ تعالیٰ کے مصفّٰی مکالمہ مخاطبہ سے مشرف کیا گیا ہے اور روحانی عالم کے بلند ترین مقامات اس کو عطا کئے گئے ہیں۔ مگر ہمارے نبیﷺ کی وفات کے بعد ہر صدی میں ایسے بزرگ اٹھتے رہے جو یہ دعویٰ کرتے رہے کہ آپﷺ کی اتباع اور محبت اور اطاعت کے نتیجہ میں ان سے خدا بولتا ہے اور آپؐ کی پیروی کے طفیل ان کو روحانی مقامات پر فائز فرماتا ہے۔
(کان خلقہ القرآن صفحہ67)
رسول کریم ﷺ کی بعثت روحانی اندھیروں کے وقت میں ہوئی۔آپ ﷺ کے وجود باجود سے دنیا اندھیروں سے اجالوں کی طرف آئی، تاریک دل روشن ہوئے، صدیوں کے مردے زندہ ہوئے،روحانی غلاظتوں میں پڑے ہوئے سونے کی ڈلیوں کی مانند ہوگئے،وحشی بااخلاق اور پھر با خدا ہوئے، علم و آگہی کا ایک نیا دَور شروع ہوا جسے آج کی ترقی یافتہ دنیا کی بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’سارا قرآن اوّل سے آخر تک یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ رسول اس وقت بھیجا گیا تھا کہ جب تمام قومیں دنیا کی روح میں مرچکی تھیں اور فساد روحانی نے برّوبحر کو ہلاک کردیا تھا تب اس رسول نے آکر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا اور زمین پر توحید کا دریا جاری کردیا۔ اگر کوئی منصف فکر کرے کہ جزیرہ عرب کے لوگ اوّل کیا تھے اور پھر اس رسول کی پیروی کے بعد کیا ہوگئے اور کیسی ان کی وحشیانہ حالت اعلیٰ درجہ کی انسانیت تک پہنچ گئی اور کس صدق و صفا سے انہوں نے اپنے ایمان کو اپنے خونوں کے بہانے سے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے اور اپنے عزیزوں کو چھوڑنے اور اپنے مالوں اور عزتوں اور آراموں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں لگانے سے ثابت کر دکھلایا تو بلاشبہ ان کی ثابت قدمی اور ان کا صدق اپنے پیارے رسول کی راہ میں ان کی جانفشانی ایک اعلیٰ درجہ کی کرامت کے رنگ میں اس کو نظر آئے گی۔ وہ پاک نظر ان کے وجودوں پر کچھ ایسا کام کرگئی کہ وہ اپنے آپ سے کھوئے گئے اور انہوں نے فنا فی اللہ ہو کر صدق اور راست بازی کے وہ کام دکھلائے جس کی نظیر کسی قوم میں ملنا مشکل ہے۔…وہ لوگ سچ مچ موت کے گڑھے سے نکل کر پاک حیات کے بلند مینار پر کھڑے ہوگئے تھے اور ہریک نے ایک تازہ زندگی پالی تھی اور اپنے ایمانوں میں ستاروں کی طرح چمک اٹھے تھے۔ سو درحقیقت ایک ہی کامل انسان دنیا میں آیا جس نے ایسے اتمّ اور اکمل طور پر یہ روحانی قیامت دکھلائی اور ایک زمانہ دراز کے مُردوں اور ہزاروں برسوں کے عظم رمیم کو زندہ کر دکھلایا۔ اس کے آنے سے قبریں کھل گئیں اور بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑ گئی۔ اور اس نے ثابت کر دکھلایا کہ وہی حاشر اور وہی روحانی قیامت ہے جس کے قدموں پر ایک عالم قبروں میں سے نکل آیا اور بشارت وَ رَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(النصر3:)تمام جزیرہ عرب پر اثر انداز ہوگئی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ204تا207)
رسول کریم ﷺ کی دعائیں اور ان کی قبولیت کے اثرات بنی نوع پر اس طرح پڑتے رہے جیسے روشن چراغ نہ صرف اپنی روشنی سے بلکہ دوسرے چراغوں کوبھی روشن کرکے ماحول کی روشنی میں کئی گنا اضافہ کردیتا ہے۔
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المؤمن61:) کہ مجھ سے مانگو مَیں تمہاری دعا قبول کروں گا تو اس ارشاد کی تعمیل میں دعا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعا کی قبولیت کے نظاروں میںسب سے بڑھ کر ہمارے نبی ﷺ کی زندگی نظر آتی ہے۔
آپ ﷺ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پُشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہو ئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اوردنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔ کچھ جانتے ہوکہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ
(برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد6صفحہ 10،11)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: اس جگہ آپؐ کا نام چراغ رکھنے میں ایک اور باریک حکمت یہ ہے کہ ایک چراغ سے ہزاروں لاکھوں چراغ روشن ہوسکتے ہیں اوراس میں کوئی نقص بھی نہیں آتا۔چاند سورج میں یہ بات نہیں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیروی اور اطاعت کرنے سے ہزاروں لاکھوں انسان اس مرتبہ پر پہنچیں گے اور آپؐ کا فیض خاص نہیں بلکہ عام اور جاری ہوگا۔غرض یہ سنت اللہ ہے کہ ظلمت کی انتہا کے وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض صفات کی وجہ سے کسی انسان کو اپنی طرف سے علم اورمعرفت دے کر بھیجتا ہے اور اس کے کلام میں تأثیر اوراس کی توجہ میں جذب رکھ دیتا ہے…۔
(الحکم جلد12 نمبر41 مورخہ14؍جولائی1908ء)
(……………………………جاری ہے)
٭٭٭