اسماء النبیﷺ فی القرآن : قسط نمبر 5
17۔نَذِیْرٌ ﷺ:
قرآن کریم میں بارہا آنحضرتﷺ کو نذیر کے نام سے یاد فرمایا گیا۔ سب سے پہلے سورة البقرہ میں آپﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (البقرۃ120:) ترجمہ : ىقىناً ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشىر اور نذىر کے طور پر بھىجا ہے اور تجھ سے جہنّم والوں کے بارہ مىں نہىں پوچھا جائے گا۔ یعنی آپ ﷺ کا فرضِ منصبی صرف پیغام بخوبی پہنچادینا ہے۔ پیغامِ الٰہی ماننے والوں کو خوشخبری دیں اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے ڈرائیں۔ دین میں کوئی جبر نہیں اس لئے آپﷺ کسی پر نگران اور وکیل نہیں نہ ہی کسی فرد کے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے اس عظیم الشان پیغام کو کوئی مانے یا نہ مانے، تکفیر کرنے والوں اور اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کے متعلق آپﷺ سے جواب طلب نہیں کیا جائیگا۔
قرآن کریم میں کئی مقامات پر آپﷺ کی بعثت اور نزول قرآن کا مقصد ہی پیغام پہنچانا بتایا گیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: وَأُوحِيَ إِلَيَّ هٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْ بَلَغَ (الانعام 20:) ترجمہ: اور مىرى طرف ىہ قرآن وحى کىا گىا ہے تا کہ مىں اس کے ذرىعہ سے تمہىں ڈراؤں اور ہر اُس شخص کو بھى جس تک ىہ پہنچے۔ ایک اور جگہ فرمایا: تَنْزِيلَ الْعَزِيزِالرَّحِيمِ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ (يٰس 6:-7) ترجمہ: بار بار رحم کرنے والے کى تنزِىل (ہے)۔ تاکہ تُو اىک اىسى قوم کو ڈرائے جن کے آباءواجداد نہىں ڈرائے گئے پس وہ غافل پڑے ہىں۔ بعض مقامات پر حصر کے ساتھ بیان فرمایا کہ آپﷺ کی آمد کا مقصد صرف اِبلاغ ہے۔ فرمایا: اِنَّمَا أَنْتَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيلٌ (هود 13:) ترجمہ: تُو محض اىک ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چىز پر نگران ہے۔
صحیح بخاری میں درج ہے کہ جب آیت کریمہ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء 215:) نازل ہوئی تو آپﷺ کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قبیلہ قریش کی ایک ایک شاخ کو بلایا اور کہا کہ مَیں تم لوگوں کو آنے والے شدید عذاب سے ڈراتا ہوں۔ اس پر ابو لھب نے آپﷺ کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے۔
(مفہوم حدیث از صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ)
اس کے بعد آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جگہ جگہ تشریف لے جاکر اللہ تعالیٰ کی پاک ہستی سے تعلق قائم کرنے کی دعوت دیتے اور تکذیب کی صور ت میں عذاب الٰہی سے خوف دلاتے۔ کبھی صحن کعبہ میں، کبھی سرداران قریش کے پاس، کبھی حج کے ایام میں، کبھی عرب کے میلوں میں، کبھی قبائل کے پاس جا جاکر منادی دیتے اور پھر سفر طائف کا حال تو ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ کو دعوت الی اللہ کی اس قدر تڑپ تھی کہ ہجرت مدینہ کے دوران سخت خوف کے ایام میں بھی راستہ میں ملنے والوں کو دعوت الی اللہ کی روایات ملتی ہیں۔ مدینہ پہنچ کر بھی اردگرد کے قبائل کو انذار و تبشیر فرماتے رہے۔ صحابہ ؓ پر مشتمل وفود قبائل کو بھی بھیجے جاتے تھے اور قبائل کے وفود خود بھی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے۔ واقعہ رجیع میں شہید ہونے والے صحابہؓ بھی دعوت الی اللہ کے لئے ہی تشریف لے جارہے تھے۔
آپﷺ نذیر تھے لیکن قوم کے انکار اور سخت تکالیف دینے پر عذاب الٰہی کے مانگنے میں جلدی نہ کی۔ سفر طائف میں اہل طائف کے برے سلوک سے موزے بھی خون مبارک سے بھر گئے، شدید تکلیف کی حالت میں ایک باغ میں پناہ لی۔ فرشتے حاضر ہوئے اور پیشکش کی کہ آپؐ چاہیں تو اس بستی کو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالا جائے۔ لیکن رحمة للعالمین کی رحمت تکلیف پر غالب آئی اور ان کے ایمان کی دعا کی۔ صرف یہیں پر بس نہیں ہوا۔ فتح مکہ کے بعد اسی بستی طائف کا محاصرہ کیا۔ بیس دن سے زائد محاصرہ کرکے جب اہل طائف اس قدر تنگ آگئے کہ کسی بھی وقت ہتھیار ڈال سکتے تھے، محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چل دیئے۔
ضورﷺ کی زندگی میں شاید یہ واحد موقع ہے جہاں آپﷺ نے خود ہی میدان جنگ سے فتح کے بغیر واپسی کی ہو۔ لیکن اس طریق کار سے ایسی فتح نصیب ہوئی کہ اہل طائف خود چل کر آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ دنیا کا کوئی اور فاتح ہوتا تو ایسی بستی پر پہنچ کر اپنے پرانے زخموں کو یاد کرتا اور ان لوگوں کو عبرتناک سزا دیتا۔ لیکن آپﷺ کے رحمت بھرے انذار کا یہ پہلو کائنات نے نہ کبھی دیکھا تھا نہ دیکھے گی۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ روشن کی، جب اس کے اردگرد کا حصہ روشن ہوگیا تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں آگ سے نکالتا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرے جاتے ہو۔
(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب الانتھاء عن المعاصی)
آپﷺ کے انذار کی وجہ سے قوموں کی اصلاح اور تباہی سے بچنے کا منظر قرآن کریم اس طرح بیان فرماتا ہے: وَكُنْتُمْ عَلىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا (آل عمران 104:) ترجمہ: اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر (کھڑے) تھے تو اس نے تمہىں اس سے بچا لىا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ کے ذریعہ ہی بنی نوع انسان کو تباہی سے بچایا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل وہ اہل دنیا جو فسق و فجور اور ہر قسم کی برائی سے بھرے ہوئے تھے ، آپﷺ کے انذار اور پھر قوت قدسیہ کے زیر اثر ایسے ہوگئے کہ ان کی تعریف اصحابی کالنجوم ( میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں) کے الفاظ میں کی گئی۔
18۔رَؤٗفٌ ﷺ:
اللہ تعالیٰ نے قرآ ن کریم میں 11 مرتبہ اس صفت کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے 10 مرتبہ اپنی ذات کے لئے اور ایک مرتبہ سورة التوبہ میں یہ صفاتی نام اپنے سب سے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے لئے استعمال فرمایا۔ رؤوف کے معنی نہایت مہربان کے کئے جاتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی شفقت اور مہربانیاں زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتی ہیں۔ رسالت کے فرائض کی ادائیگی میں اس قدر مہربان ہیں کہ باری تعالیٰ باخع نفسک (اپنی جان کو ہلاک کرلینے والا) کہہ اٹھتا ہے۔ قرآن کریم آپﷺ کی مومنوں سے محبت و رأفت کے متعلق فرماتا ہے:
النَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ (الأحزاب 7:)
مؤلف کان خلقہ القرآن لکھتے ہیں:’’ اگر قرآن کہتا ہے کہ النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم کہ نبی مومنوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ شفیق ہے یا زیادہ قریب ہے، زیادہ حقدار ہے تو عملی زندگی میں جہاں ہمیں یہ نظرآتا ہے کہ آپؐ کے صحابہؓ اپنی جانوں کے مقابلہ میں آپؐ پر جان و مال و تن بڑھ بڑھ کے نثار کرتے تھے وہاں آپؐ کی شفقت اور محبت اور رہنمائی اور مشورہ ان کے لئے ان کی اپنی زندگی میں زیادہ مفید اور بابرکت ثابت ہوتی۔ ایک بیوہ کو شادی کے متعدد پیغامات آتے ہیں۔ آپؐ ان سب کو ردّ کرتے ہوئے اس خاتون کے لئے ایک اور رشتہ کا مشورہ دیتے ہیں اور خاتون اس کو ناپسند کرتے ہوئے بھی آپؐ کا ارشاد قبول کر لیتی ہے اور پھر ساری عمر قابلِ رشک زندگی گزارتی ہے۔ ایک شخص کو تجارتی برکت کے لئے دعا دیتے ہیں اور وہ محاورةً خاک بھی لیتا ہے تو اس میں بھرپور نفع کماتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی کو لباس تحفہ دیتے ہوئے ابلی اخلقی کی دعا دیتے ہیں تو اس کو لمبی صحت مند عمر ملتی ہے۔ ایک بارہ تیرہ سال کے لڑکے کو خدمت کے طور پر پانی کی چھاگل بھر کر رکھنے پر گلے لگا کر دعا دیتے ہیں اللھم علمہ الکتاب تو 14 سو سال میں امت محمدیہ میں تفسیر کے موضوع پر لکھے جانے والی ہر کتاب میں ان کے علم تفسیر کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ایک موذی دشمن کے خلاف ایک نوجوان کو کمانڈر بنا کر بھیجتے ہیں۔ وہ عرض کرتا ہے حضور میں گھوڑے پر ٹک نہیں سکتا گھوڑے سے گر جاتا ہوں آپؐ اس کے سینہ پر اپنا دستِ مبارک مارتے ہیں اور نوجوان بیان کرتے ہیں کہ مَیں پھر کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔ ایک نوجوان نے نئی نئی شادی کی ہے وہ غزہ سے واپس گھر جانے کی کوشش میں ہیں مگر ان کا اونٹ چلنے کا نام نہیں لیتا۔ آپ ایک سوٹی کی نوک اس اونٹ کو لگاتے ہیں اور وہ اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ سوار روکتا ہے اور اونٹ رکتا نہیں ۔ ایک خاتون اپنے ہاتھ سے بُن کر ازار پیش کرتی ہیں۔ آپؐ ضرورت مند ہیں اس کو پہن کرتشریف لاتے ہیں کہ مانگنے والا آپؐ سے وہ مانگ بیٹھتا ہے۔ آپ کبھی سائل کو ردّ نہیں کرتے، اندر تشریف لے جاتے ہیں اور طے کر کے وہ لباس اس شخص کو بھجوا دیتے ہیں۔ مدینہ میں وبا پھیلتی ہے آپﷺ دارًا و دارًا و بیتًا و بیتًا گھر گھر اور کمرہ کمرہ میں تشریف لے جا کر بیماروں کی عیادت فرماتے ہیں۔ گلے کی تکلیف کی وجہ سے عرب کے لوگ بچوں کا جو علاج کرتے ہیں اس سے بچے کو تکلیف ہوتی ہے۔ آپؐ منع فرماتے ہیں کہ بچوں کو تکلیف کیوں دیتے ہوقسط سے علاج کرو۔ عرب کے لوگ گرم گرم لوہے سے داغ لگا کر علاج کیا کرتے تھے آپ کی شفیق و رحمدل طبیعت نے اپنے متبعین کو اس سے منع فرما دیا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا حضورؐ میں آپ سے بہت سے ارشادات سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ فرمایا اپنی چادر پھیلاؤ ۔میں نے چادر پھیلائی تو آپؐ نے جیسے دونوں ہاتھ بھر کر کوئی انڈیلتا ہے اس طرح میری چادر میں انڈیلا اور فرمایا اب چادر سمیٹ لو۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں اس کے بعد میں کچھ نہیں بھولا۔ اس قسم کی شفقتوں سے آپ کی زندگی بھری پڑی ہے۔‘‘
( کان خلقہ القرآن حصہ اول صفحہ: 36-37)
آیت قرآنی فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (آل عمران160:) ترجمہ: پس اللہ کى خاص رحمت کى وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گىا اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تىرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے پس ان سے دَرگزر کر اور ان کے لئے بخشش کى دعا کر اور (ہر) اہم معاملہ مىں ان سے مشورہ کر…
اس آیت میں آپ ﷺ کی شفقت اور رحمت کو خدا کا فضل بیان فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ خدا کی رحمت ہے کہ تُو ان پر نرم ہوا اور اگر تُو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 592 حاشیہ درحاشیہ نمبر 3)
ایک غلام صحابی جن کا نام زاہر تھا، شکل و صورت بھی معمولی تھی گاؤں سے سامان لاتے تھے۔ حضور ﷺ کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے، بازار میں فروخت بھی کرتے تھے۔ حضور ﷺان سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ ایک دفعہ حضورﷺ نے انہیں دیکھا کہ وہ بازار میں اپنا سودا بیچ رہے ہیں۔ آپؐ نے پیچھے سے جاکر بانہیں ان کی گردن میں ڈال دیں۔ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ کہنے لگے اے شخص! مجھے چھوڑ دو۔ پھر جوانہوں نے مڑ کر دیکھا تو انہیں پتہ چلا کہ حضورؐ ہیں تو وہ خوشی سے اپنی پُشت حضور کے جسم مبارک سے رگڑنے لگے۔ حضورﷺ فرمانے لگے میرا یہ غلام کون خریدے گا؟ وہ بولا اے اللہ کے رسول! پھر تو آپؐ مجھے بہت ہی بے کار سودا پائیں گے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا لیکن اللہ کے نزدیک تو تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو۔ تمہاری بڑی قدرو قیمت ہے۔
(مسند احمد جلد3ص161)
آپﷺ کی رأفت اور رحمت کے مورَد صرف انسان ہی نہیں تھے۔ آپﷺ تو رحمة للعالمین تھے۔ جانوروں کے لئے بھی دعا کرتے نظر آتے ہیں اللَّهُمَّ اسْقِ عِبَادَكَ، وَبَهَائِمَكَ، وَانْشُرْ رَحْمَتَكَ، وَأَحْيِ بَلَدَكَ الْمَيِّتَ کہ اے اللہ اپنے بندوں کو بھی پانی عطا فرما اور اپنے بے زبان جانوروں کو بھی۔ اپنی رحمت کو پھیلا دے اور اپنی مردہ زمین کو زندہ کردے۔
(ابو داود ابواب صلوٰة الاستسقاء باب رفع الیدین فی الاستسقاء)
آپﷺ کو اپنی امت کے کمزوروں کا اس قدر خیال تھا کہ وقت وفات بھی ان کے متعلق نصیحت فرمائی۔
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت علیؓ اور حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت اور آخری پیغام جبکہ آپؐ جان کنی کے عالم میں تھے اور سانس اکھڑ رہا تھا۔ یہ تھا کہ ” اَلصَّلوٰةُ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘‘ یعنی نماز اور غلام کے حقوق کا خیال رکھنا۔
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الوصایا ،باب ھل أَوصٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بہترین خلاصہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے تجویز فرمایا۔ ہزاروں ہزار درود سلام ہوں اس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجس نے خود بھی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی امت کو بھی اس کی نصیحت فرمائی۔ اللھم صلّ علی محمد وعلیٰ آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ فروری 2005ءخطبات مسرور جلد 3 صفحہ 105)
امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْیعنی اے کافرو یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پاجاؤ پھر فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوْا مُؤْمِنِينَ یعنے کیا تو اس غم سے ہلاک ہو جائے گا۔ کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ تو ان کے غم میں ہلاک ہونے کے قریب ہے ۔‘‘
(نور القرآن نمبر 2، روحانی خزائن جلد 9صفحہ433:)
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مئی 2015ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر پڑھ کر سناتے ہیں جس میں آپ ؑسید الکونین حضرت محمد مصطفیﷺ کے احسانات کا تذکرہ فرمارہے ہیں:
’’اس نے ہمارے لئے ایک ایسا رسولؐ بھیجا جو کریم ہے۔ تمام امور خیر میں صاحب کمال ہے۔ کمالات کے تمام انواع میں، ہر رنگ میں سبقت لے جانے والا ہے۔ تمام رسولوں اور نبیوں کا خاتم ہے۔ ام القریٰ میں آنے والا موعود نبی جو سچ مچ محمدﷺ ہے کیونکہ اس کے فیضیابوں کی زبانیں ہر وقت اس کی ستائش سے تر رہتی ہیں۔ اور وہ اس رو سے بھی کامل ستائش کا مستحق ہے کہ اس نے امت کی خاطر انتہائی مشقت و محنت اپنے اوپر لی اور دین کی عمارت کو بلند کیا اور اس لئے بھی کہ وہ ہمارے لئے ایک روشن اور تاباں کتاب لایا اور اس لئے بھی کہ اسے اپنے خداوند رب العالمین کے پیغاموں کے پہنچانے میں ہمارے لئے طرح طرح کی ایذاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر اس لئے بھی کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں ناتمام اور ناقص رہا تھا اسے آپﷺ نے کامل کیا اور ہمیں افراط اور تفریط سے اور دیگر عیوب و نقائص سے پاک شریعت عطا کی اور اخلاق کو کمال تک پہنچایا اور جو جو کچھ ناقص تھا اسے کامل کیااور تمام اقوام عالَم کو اپنا ممنون احسان کیا اور چوٹی کے فصیح و بلیغ بیانوں اور نہایت روشن وحی کے ذریعہ سے رشد کی راہیں بتائیں اور مخلوق کو گمراہی سے بچایا اور اپنے نمونے کے ذریعہ سے کنارہ کش بنایا اور بہائم و اَنعام کو گویا کردیا (یعنی ایسے لوگ جو جانوروں کی طرح رہنے والے تھے، ان پڑھ جاہل تھے، اجڈ تھے ان کو بھی زبانیں دیں اور ان کی زبانوں کو شائستہ کردیا۔ ان کے اخلاق کو بلند کیا) اور ان میں ہدایت کی روح پھونک دی اور تمام مرسلین کے وارث بنادیا اور انہیں ایسا پاک و صاف کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا میں فنا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے لئے انہوں نے پانی کی طرح اپنے خون بہا دیئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اپنےآپ کو بکلی اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔
پھر دوسری طرف آپؐ نے اچھوتے اور مخفی در مخفی لطائف و معارف اور نادر نکات کی تعلیم دے کر ہمارے جیسے آپ کے دسترخوان کے پس خوردہ کھانے والوں کو حقیقی فضیلت کے مقام پر پہنچا دیا۔ (اخلاق میں بھی اعلیٰ کردیا، علم و معرفت میں بھی اعلیٰ کردیا) اور آپؐ کی راہنمائی کے طفیل حق تعالیٰ تک پہنچنے کی راہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (روحانیت میں بھی اوپر لے گئے) اور آپؐ کے اصحاب فلک بریں پر جاپہنچے بعد اس کےکہ وہ زمین میں دھنس چکے تھے۔ پس اے اللہ! روز جزا تک اور ابدالآبد تک آپ ﷺ پر درود اور سلام بھیج۔ نیز آپ ﷺ کی آل پاک طاہرین طیّبین پر اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ پر جو آپ ﷺ کے ناصر بھی بنے اور منصور بھی جو اللہ تعالیٰ کی چیدہ اور برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنی عزتوں اور اپنی آبروؤوں اور اپنے اموال اور اولاد پر اللہ تعالیٰ کو مقدم کیا۔ رضی اللہ عنھم اجمعین۔
(البلاغ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ433-434۔ ترجمہ عربی عبارت از کتاب محامد خاتم النبیین سرور انبیاء حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم مسمی بہ دریتیم۔ بحوالہ خطبات مسرور جلد 13 صفحہ308-309)
……………………(جاری ہے)