نظر انداز کئے جانے والے پاکستانی عدلیہ کے بعض فیصلے
پاکستان میں جب بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف کوئی کتاب لکھی جاتی ہے یا غیر منصفانہ فیصلہ سنایا جاتا ہے تو اس بات کا ضرور حوالہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف بہت سی عدالتوں نے فیصلے سنائے۔ اور 1974ء کی آئینی ترمیم کے ذریعہ تو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا لیکن اس سے قبل بھی جماعتِ احمدیہ کو بہت سی عدالتوں نے غیر مسلم قرار دیا تھا۔ گویا اس طرح ایک خلافِ عقل اور غیر منصفانہ فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ نہ کسی عدالت کا یہ کام ہے اور نہ کسی پارلیمنٹ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ بوجھ بجھکڑوں کی طرح یہ فیصلہ کرے کہ کسی شخص یا کسی گروہ یا کسی فرقے کا مذہب کیا ہےاور نہ ہی جماعتِ احمدیہ نے کبھی بھی کسی عدالت یا کسی پارلیمنٹ کا یہ اختیار تسلیم کیا ہے۔ البتہ جہاں تک ممکن ہوا حق بات کو عوام تک پہنچانے اور ان پر حجت تمام کرنے کا فرض ضرور ادا کیا ہے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان میں جماعتِ احمدیہ سے متعلقہ مقدّمات و معاملات میں بہت سے غیر منصفانہ فیصلے سنائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود جب اس بارے میں سابقہ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا جاتا ہے تو نامکمل حقائق پیش کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ مکمل حقائق ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ خود ہی اس غیر منصفانہ طرز کی تردید ہو جاتی ہے۔ مثلاً 2018ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف ہونے والے جج شوکت عزیز صدیقی صاحب کے ایک رکنی بنچ نے جماعتِ احمدیہ کے متعلق ایک نہایت مخالفانہ تفصیلی فیصلہ سنایا۔ جیسا کہ دستور تھا اس فیصلہ میں بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف کچھ سابقہ فیصلوں کے حوالے دئے گئے اور کچھ متعلقہ فیصلوں کا ذکر کرنے سے گریز کیا گیا۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا تھا کہ قارئین کے سامنے مکمل حقائق پیش کر کے ایک مرتبہ پھر حجّت تمام کر دی جائے۔ اس فیصلہ میں جج موصوف نے وفاقی شرعی عدالت اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حوالے دینے کے علاوہ برٹش دَور میں ریاست بہاولپور کے ایک فیصلہ اور سیشن کورٹ راولپنڈی کے ایک فیصلے کے حوالے بھی دئے ہیں۔ سب سے پہلے آخری دو مثالوں کے بارے میں کچھ ذکر کیا جائے گا۔
ریاست بہاولپور کا فیصلہ 1935ء میں ڈسٹرکٹ بہاولنگر کے جج محمد اکبر صاحب نے سنایا تھا۔ اور دوسرا فیصلہ 1955ء میں ڈسٹرکٹ جج کیمبل پور راولپنڈی شیخ محمد اکبر صاحب نے سنایا تھا۔ ان فیصلوں کا حوالہ صرف شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں ہی نہیں دیا تھا، بلکہ جب 1974ء میں پوری قومی اسمبلی پر مشتمل سپیشل کمیٹی نے جماعتِ احمدیہ کے بارے میں کارروائی کی تو اس وقت بھی ان فیصلوں کی مثالیں پیش کی گئی تھیں۔ بلکہ جب کئی دہائیوں کے بعد یہ کارروائی شائع ہوئی تو ان فیصلوں کے مکمل متن اس کارروائی میں شائع کئے گئے۔ اور جماعتِ احمدیہ کا موقف جو محضر نامہ کی شکل میں وہاں پر دو روز پڑھا گیا تھا وہ شائع نہیں کیا گیا۔ بہر حال سب سے دلچسپ اور قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ خود پاکستان کی ایک ہائیکورٹ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ پاکستان میں ان فیصلوں کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی۔ اور ایسا کرنا ایک غیر متعلقہ بات ہو گی۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسالہ چٹان کے ایڈیٹر اور جماعتِ احمدیہ کے مشہور مخالف شورش کاشمیری صاحب نے 1969ء میں ہائیکورٹ میں ایک مقدمہ دائر کیا۔ اس مقدمہ کی وجہ یہ تھی کہ حکومتِ مغربی پاکستان نے انہیں نوٹس بھجوایا تھا کہ ان کا رسالہ ایسا مواد شائع کر رہا ہے جس سے مسلمانوں کے فرقوں میں باہمی منافرت پھیل رہی ہے اور اس رسالہ کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا۔ اس وقت یہ رسالہ حسبِ معمول احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے میں مشغول تھا۔ اس مقدمہ میں مغربی پاکستان کی حکومت مدعا علیہ تھی۔ مدعی نے اپنی درخواست میں دیگر امور کے علاوہ یہ موقف بھی پیش کیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں اور اس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے یہ فیصلے ہائیکورٹ کے سامنے رکھے۔ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
We are obliged to consider this aspect of the matter, because the petitioner’s learned counsel in the course of his argument referred to certain parts of Munir enquiry Report … Two judgements one of a subordinate Court in the former Punjab and the other from a District Court in what was once Bahawalpur State wherein it was held that Ahmadis are not a sect of Islam were also placed within record. We wonder how these instances are relevant. The judgements are of subordinate courts and they are not relevant even under section 13 of the Evidence act, 1872. As to the instances of Ahmadis being dubbed as Murtads and done to death, all we need to say is that these are sad instances of religious persecution against which human conscience must revolt, if any decency is left in human affairs. How far these instances are opposed to the true Islamic percepts and injuctions would be manifest from Chapter 2:256 of The Holy Quran which guarantees freedom of conscience in clear mandatory terms which are translated thus: "Let there be no compulsion in religion…”
(PLD1969 Lahore 289)
ترجمہ: ہمیں اس مسئلے کے اس پہلو پر غور کرنا پڑے گا کیونکہ درخواست گزار کے فاضل وکیل نے اپنے دلائل کے دورا ن منیر انکوائری رپورٹ کا حوالہ دیا ہے … ایک جو اُس وقت پنجاب تھا اس کی ماتحت عدالت کا فیصلہ ہے اور دوسرا فیصلہ بہاولپور کی سابقہ ریاست کی ضلعی عدالت کا ہے۔ ان فیصلوں میں جو ریکارڈ میں پیش کئے گئے ہیں یہ کہا گیا تھا کہ احمدی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ہیں۔ ہم اس بات پر حیران ہیں کہ یہ مثالیں اس معاملہ سے متعلقہ کس طرح ہیں؟ یہ ماتحت عدالتوں کے فیصلے ہیں اور قانون شہادت 1872ء کے سیکشن 13 کے مطابق متعلقہ بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک اُن مثالوں کا تعلق ہے جن میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر سزائے موت دی گئی تھی۔ یہ وہ قابلِ افسوس مثالیں ہیں جن کے خلاف انسانی ضمیر کو بغاوت کرنی چاہیے۔ یہ واقعات اسلامی نظریات اور احکامات سے کتنا دور ہیں، اس کا اندازہ قرآنِ کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 256 سے ہوتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:’’دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں۔‘‘
ہائیکورٹ کے اس فیصلے سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ قانون کی رو سے اُن فیصلوں کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی جن کا حوالہ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلے میں دیا ہے۔ اور اس قسم کی مثال بطور ثبوت کے پیش کرنا ایک غیرمتعلقہ دلیل ہے۔ 1968ء کے اسی عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے:
The whole burden of argument of petitioners learned counsel was that Ahmadis are now a sect of Islam and the petitioners right to say so is guaranteed by the constitution. But learned counsel overlooks the fact that Ahmadis as citizens of Pakistan are also guaranteed by the Constitution the same freedom to profess and proclaim that they are within the fold of Islam… .
(PLD1969 Lahore 289)
ترجمہ : درخواست گزار کے وکیل کی بحث کا دارومدار اس پر تھا کہ احمدی اسلام کا فرقہ نہیں ہیں اور آئین کی رو سے درخواست گزار کو ایسا کہنے کا حق پہنچتا ہے۔ لیکن فاضل وکیل اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ پاکستان کے شہریوں کی حیثیث سے احمدیوں کو بھی یہی آزادی حاصل ہے کہ اس بات کا اظہار اور اعلان کریں کہ وہ مسلمانوں میں شامل ہیں۔
مخالفین کی طرف سے بار بار نچلی سطح کی عدالت کے چند فیصلوں کی مثال پیش کی جاتی ہے لیکن بعض اَور اہم فیصلوں کا ذکر ہی غائب کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان فیصلوں کے مطابق احمدیوں کے خلاف چلائی جانے والی شورش کے مطالبات ہی غیر آئینی تھے۔ جب ہم 1984ء سے قبل کئے جانے والے تمام فیصلوں کو سامنے رکھیں تو بالکل مختلف صورتِ حال سامنے آتی ہے۔
جماعتِ احمدیہ کے خلاف قوانین بننے کے بعد جماعتِ احمدیہ کو بہت سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اور مقدمات میں مخالفینِ جماعت کی طرف سے یہ نکتہ بار بار اُٹھایا گیا کہ چونکہ پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، اس لئے وہ اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔ اور مختلف عدالتی فیصلوں میں بھی اس موضوع پر کئی مرتبہ بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم فیصلہ وہ تھا جب کچھ احمدیوں نے شرعی عدالت میں جنرل ضیاء صاحب کی طرف سے جماعتِ احمدیہ کے خلاف جاری کئے جانے والے آرڈیننس کو چیلنج کیا تھا۔ اس عدالت کے عجیب و غریب تفصیلی فیصلہ کا اکثر حصہ ان امور کے متعلق تھا ہی نہیں جنہیں عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا یا جن کے بارے میں ان احمدیوں نے عدالت میں دلائل دئے تھے۔ فیصلہ کے آخر میں ان امور کا کچھ تذکرہ کیا گیا تھا جن کے بارے میں عدالت میں بحث ہوئی تھی اور اس میں ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ چونکہ آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اس لئے انہیں شعائرِ اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جب بھی جماعتِ احمدیہ کے خلاف کچھ لکھا جاتا ہے تو بسا اوقات اس فیصلے کا ضرور ذکر کیا جاتا ہے۔
شرعی عدالت کے جس بینچ کے سامنے یہ فیصلہ پیش ہوا اس کی سربراہی شرعی عدالت کے چیف جسٹس، جسٹس آفتاب حسین صاحب کر رہے تھے۔ یہاں پر ایک دلچسپ پہلو کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 1978ء میں جسٹس آفتاب حسین لاہور ہائیکورٹ میں جج تھے اور اُس وقت بھی ان امور کے بارے میں ایک مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا تھا۔ یہ مقدمہ ڈیرہ غازی خان کی ایک مسجد کے بارے میں تھا۔ اُس وقت بھی جماعت کے مخالفین نے اس قسم کے نکات اُٹھائے تھے کہ چونکہ احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اس لئے اب انہیں شعائر ِ اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور یہ ان شعائر کی بے حرمتی ہے کہ انہیں احمدی استعمال کریں۔ مناسب ہوگا کہ 1978ء میں لاہور ہائیکورٹ میں اور 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ہونے والے ان فیصلوں کا موازنہ کیا جائے۔ کیونکہ 1978ء میں ہونے والا ہائیکورٹ کا فیصلہ جسٹس آفتاب حسین صاحب نے لکھا تھا اور وفاقی شرعی عدالت کے جس بنچ نے فیصلہ سنایا تھا اس کی سربراہی بھی جسٹس آفتاب حسین صاحب کر رہے تھے۔ لازمی طور پر اس بات کی نشاندہی کی جائے گی کہ ان دونوں فیصلوں کے درمیان 1984ء میں جماعت ِاحمدیہ کے خلاف ایکآرڈیننس نافذ کیا گیا تھا۔ اور یہ قانون اُ س وقت موجود نہیں تھا جب 1978ء میں لاہور ہائیکورٹ کے بنچ نے فیصلہ سنایا۔ لیکن اس پہلو کو مد ِنظر رکھنا چاہیے کہ ان دونوں فیصلوں میں اور خاص طور پر 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں میں بنیاد قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہؐ تھیں۔ اور دونوں فیصلوں میں قرآنِ کریم اور احادیث کے حوالوں کے علاوہ مذہبی کتب کے بہت سے حوالے پیش کئے گئے تھے اور انہیں ان تفصیلی فیصلوں میں تحریر کردہ دلائل کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ ان چھ سالوں میں قرآنِ کریم اور احادیث کی تعلیمات تبدیل نہیں ہوسکتی تھیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جسٹس آفتاب 1978ء میں جن نتائج پر پہنچے تھے، 1984ء میں بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں انہیں انہی نتائج پر پہنچنا چاہیے تھا۔ اگر یہ نتائج تبدیل ہوگئے تھے تو ان کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کریں گے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ 1984ء میں جماعتِ احمدیہ کے مخالفین نے یہ موقف پیش کیا کہ احمدیوں کو پاکستان کے قانون میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور قرآن و حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام غیر مسلموں کو شعائرِ اسلامی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اس بارے میں 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت نے قرآنِ کریم کی آیات اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے دے کراپنے فیصلہ میں یہ نتیجہ نکالا:
It is thus obviously concluded from it that Islamic Sharia does not allow a non-Muslim to adopt Shia’ar of Islam, because Shia’ar means the distinguishing features of a commu- nity with which it is known. If an Islamic State inspite of its being in power allows a non-Muslim to adopt the Shia’ar of Islam which effects the distinguishing cha- racteristics of Muslim ummah, it will be the failure of that State in discharge of its duties. To allow a non-Muslim to adopt Islamic Shia’ar in an Islamic State amounts to an illegal behaviour with the Shia’ar of Islam and as such reason for its prohibition becomes stronger. The above mentioned verse 9:28 and the subsequent Practice of the Holy Prophet prove the power of legislation of the Islamic State to prevent non-Muslims from adopting the Shia’ar of Islam. It is for this reason that it is also in the legislative power of the Islamic State to provide punishment for the non-Muslim who does not abstain himself from adopting the Shia’ar of Islam as has been provided in the impugned Ordinance.
ترجمہ: اسلامی شریعت سے یہ واضح نتیجہ نکلتا ہے کہ شریعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ غیر مسلم ’اسلامی شعائر ‘کو اپنائیں۔ کیونکہ ’شعائر ‘اُن منفرد علامات کو کہتے ہیں جن سے ایک گروہ کو شناخت کیا جاتا ہے۔ اگر ایک اسلامی ریاست اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی غیر مسلموں کو ان شعائر کے استعمال سے نہیں روک سکتی جو کہ مسلمانوں کے لئے خاص ہیں تو وہ اپنے فرائض ادا نہیں کر رہی۔ غیر مسلموں کو اسلامی شعائر کے استعمال کی اجازت دینا ان کے ساتھ غیر قانونی سلوک کے مترادف ہے۔ اور اس لئے اس پر پابندی لگانے کی ضرورت اور شدید ہو جاتی ہے۔ اوپر درج کی گئی آیت 9:28 اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس بات کی اہمیت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس بارے میں قانون سازی کی جائے کہ غیر مسلم اسلامی شعائر کو اختیار نہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کرتے ہوئے اسلامی ریاست کو اس بات کا اختیار ہے کہ اُن غیرمسلموں کے لئے سزا مقرر کرے جو کہ اسلامی شعائر کو اختیار کرنے سے باز نہیں آتے۔ جیسا کہ اس نافذ ہونے والے آرڈیننس میں کیا گیا ہے۔
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 1978ء میں کئے جانے والے فیصلے میں اس بارے میں کیا لکھا تھا۔ اس سے پہلے ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ 1978ء کے اس فیصلہ میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے اپنی رائے لکھنے سے قبل بہت سی آیاتِ کریمہ اور احادیث کا حوالہ دے کر نتیجہ نکالا تھا اور معین طور پر سورۃ توبہ کی اس آیت کا حوالہ بھی دیا تھا جس کا حوالہ 1984ء میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں دیا گیا تھا۔ جسٹس آفتاب حسین صاحب نے 1978ء کے فیصلہ میں درج ذیل نتیجہ نکالا تھا:
The learned councel argued that to allow the non-Muslims to offer prayer and to call Azan is an interference with شعائر ِ اسلام . I agree that these are شعائر but I am unable to appreciate that adaption of these شعائر is interference with them. They are good شعائرfor Qadianis since they consider them necessary as a matter of conscience to perform the duty of obedience to Allah.
(PLD 1978 Lahore 113)
ترجمہ: فاضل وکیل نے (یعنی مخالفینِ جماعت کے وکیل نے) یہ دلیل دی ہے کہ غیرمسلموں کو نماز پڑھنے اور اذان دینے کی اجازت دینا شعائر ِاسلامی میں مداخلت ہے۔ میں اس بات سے متفق ہوں کے یہ شعائر ہیں لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان شعائر کو اپنانا ان میں مداخلت کس طرح ہو سکتا ہے۔ چونکہ قادیانی بھی اپنے ضمیرکے مطابق انہیں اللہ کے حکم کی اطاعت کے لئے فرض سمجھتے ہیں، اس لئےیہ قادیانیوں کیلئے بھی اچھے شعائر ہیں۔
اس بناء پر 1978ء میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے مخالفین جماعت کی یہ استدعا نامنظور کردی تھی کہ احمدیوں کو اذان جیسے شعائر کے استعمال کرنے سے روکا جائے۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ انہی آیات ِکریمہ اور احادیث کی بناء پر 1978ء میں جو چیز جائز تھی وہ انہی آیات ِکریمہ اور احادیث کی بناء پر 1984ء میں نا جائز کس طرح ہوگئی؟
1984ء میں جنرل ضیاء صاحب نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف ایک آرڈیننس جاری کیا۔ اس میں دیگر پابندیوں کے علاوہ یہ پابندی بھی لگائی گئی کہ احمدی اپنی عبادت گاہ کے لئے ’مسجد‘ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے اور نماز سے پہلے اذان نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، ایک احمدی وکیل مکرم مجیب الرحمٰن صاحب اور چند اَور احمدیوں نے اس آرڈیننس کو اس بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا کہ یہ پابندیاں قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ اس بارے میں فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس آفتاب حسین صاحب کی سربراہی میں ایک بنچ نے جو فیصلہ سنایا اس میں قرآن و حدیث کے حوالے درج کر کے یہ اعتراف کیا ہے کہ
The Jurists have for this reason taken the view that whoever calls Azan should be treated to be a Muslim. If people give evidence in respect of a Zimmi) protected non-Muslims) that he had called Azan he should be treated as a Muslim.
(Bahrur Raiq, Vol. I, by Ibne Nujaim, page 279, Raddul Mukhtar by Ibne Aabideen, Vol. 1, page 353)
ترجمہ: ان وجوہات کی بناء پرفقہاء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ جو بھی اذان دے اس سے مسلمانوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ اگر لوگ ایک ذمی کے بارے میں یہ گواہی دیں کہ اُس نے اذان دی ہے تو اسے مسلمان سمجھا جائے گا۔
خود وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ جو اذان دے اسے مسلمان سمجھو۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ کیونکہ اذان میں کلمہ شہادت موجود ہے۔ جو اذان دے وہ خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرتا ہے اسے مسلمان سمجھنا چاہیے۔ اس اقرار کے بعد ہر پڑھنے والا یہی توقع کرے گا کہ یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ چونکہ احمدی 1974ء سے پہلے اور بعد میں اذان دیتے تھے۔ اس لئے انہیں مسلمان ہی سمجھنا چاہیے، اور اس سے یہ نتیجہ نکلے گا کہ پاکستان کے آئین میں دوسری آئینی ترمیم بلاجواز اور غیر اسلامی تھی۔ لیکن جنرل ضیاء صاحب کی حکومت نے اور پھر1984ء میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے یہ نتیجہ نکالا کہ احمدیوں کی اذانوں پر ہی پابندی لگادی۔ یعنی نہ احمدی اذان دیں اور نہ انہیں مسلمان سمجھنا پڑے۔ اور اس طرح وفاقی شرعی عدالت نے جنرل ضیاء صاحب کا آرڈیننس برقرار رکھا۔ اور اس بات کو قبول نہیں کیا کہ یہ آرڈیننس اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ کوئی بھی ذی ہوش اس منطق کو درست نہیں قرار دے سکتا۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ جب 1978ء میں ڈیرہ غازی خان کی مسجد کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوا تھا اور اُس وقت بھی جماعت ِاحمدیہ کے مخالفین نے یہ دلائل پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر اذان جیسے شعائر غیر مسلم استعمال کریں (یا وہ استعمال کریں جنہیں انہوں نے بزعم ِخود غیر مسلم قرار دیا ہے۔) تو یہ ان شعائر کی بے حرمتی ہے۔ اس پہلو کے بارے میں 1978ءمیں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا۔
But neither any Qur’anic injuction , nor any tradition , nor any opinion of Imams was cited in proof of the proposition that no non-Muslim can construct his place of worship in any way resembling mosque or call it by the name of Masjid or call Azan in it or perform his prayer in it in the same manner as is ordained for the Muslims. A number of denominations were treated as infidels in the course of history by the then monarch or Caliph. But not a single instance of interference with the prayer or places of worship of such persons was quoted. It is one thing to establish that all these institutions originated with Islam but it is all together a different proposition that Islam made these things so exclusive that no non-Muslim even a believer in the Holy Quran or traditions of the Holy Prophet may utilize them as a means of spiritual advancement.
(PLD 1978 Lahore 113)
ترجمہ :مگر اس بات کی تائید میں نہ کوئی قرآنی حکم، نہ کوئی حدیث اور نہ کسی امام کی رائے پیش کی گئی کہ کوئی غیر مسلم اپنی عبادتگاہ مسجد کی شکل کی نہیں بنا سکتا، یا اس میں اذان نہیں دے سکتا، یا اس میں جس طرح مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ تاریخ میں بہت سے مسالک کو وقت کے بادشاہ یا خلیفہ کی جانب سے کافر قرار دیا گیا لیکن ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں کیا گیا کہ ان کی عبادت یا عبادت گاہ میں مداخلت کی گئی ہو۔ یہ ثابت کرنا اَور بات ہے کہ ان روایات کا آغاز اسلام سے ہوا تھا لیکن یہ نظریہ بالکل مختلف ہے کہ اسلام نے ان کو اس طرح مخصوص کر دیا ہے کہ کوئی غیر مسلم خواہ وہ قرآن اور احادیث پر ایمان لاتا ہو ان کو اپنی روحانی ترقی کے لئے استعمال نہ کر سکے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 1978ء میں جسٹس آفتاب نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآنِ کریم اور احادیث میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں کہ کوئی غیر مسلم اسلامی شعائر کو اپنائے۔ اور 1984ء میں انہی جج صاحب نے یہ فیصلہ دیا کہ اسلامی تعلیم یہی ہے کہ کوئی غیر مسلم اسلامی شعائر کو نہیں استعمال کر سکتا اور اسلامی ریاست کا تو یہ فرض ہے کہ اس بات کو سختی سے روکے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ان چھ سال میں اسلامی تعلیمات تبدیل ہو گئی تھیں؟
پھر 1978ء میں اپنے فیصلے میں جسٹس آفتاب حسین صاحب نے لکھا:
It therefore appears that the word ‘Masjid’ has been used in this verse in the sense of the place for worship of Allah. Whatever may be the ground of revelation as stated by Ibn Kasseer the word ‘Masjid’ according to some opinion seem to pertain to all places of worship (where Allah is worshipped) whether before the advent of Islam or after…
(PLD 1978 Lahore 113)
ترجمہ:چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں ’مسجد ‘ کا لفظ ایسی جگہ کے لئے استعمال ہوا ہے جہاں اللہ کی عبادت کی جاتی ہو۔ اس کی شانِ نزول کچھ بھی ہو جیسا کہ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ بعض کے نزدیک ’مسجد‘ کا لفظ ان تمام عباد ت گاہوں پر چسپاں ہوتا ہے جہاں اللہ کی عبادت ہوتی ہو۔ خواہ ان کا تعلق اسلام سے پہلے کے زمانے سے ہو یا بعد کے زمانے سے ہو۔
اس کے برعکس 1984ء میں جسٹس آفتاب حسین صاحب کی سربراہی میں ہی وفاقی شرعی عدالت کے بنچ نے جو فیصلہ سنایا، اس میں لکھا ہے۔
The question whether places of worship of persons other than those who are followers of the Holy Prophet have been called in the Quran by the name of masjid is besides the point.
Islam has been the divine religion from the very beginning, i.e. starting with Adam. If the word masjid has been used for the places of worship of those who belonged to the Ummah of some other Prophet and followed the then prevailing religion of Islam, it cannot be concluded that the name masjid was the name given to the places of worship of non – Muslims too.
ترجمہ: یہ سوال کہ کیا قرآنِ کریم میں ’مسجد‘ کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے علاوہ کسی اور کی عبادتگاہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے غیر متعلقہ سوال ہے۔ ابتدا سے یعنی حضرت آدم کے زمانے سے ہی اسلام آسمانی مذہب ہے۔ اگر ’مسجد ‘کا لفظ ان لوگوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا گیا تھا جو کہ کسی اور نبی کی امت سے وابستہ تھے اور اُس وقت کے رائج اسلام کی پیروی کر رہے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر مسلموں کی عباد ت گاہ کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ 1978ء میں ایک سوال متعلقہ تھا اور 1984ءمیں وہی سوال غیر متعلقہ ہو گیا۔ اور قرآن و حدیث پر بنیاد رکھتے ہوئے 1978ء میں یہ فیصلہ تھا کہ کسی بھی مذہب سے وابستہ افراد اگر وہ اللہ کی عبادت کر رہے ہوں اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھ سکتے ہیں۔ اور قرآن و حدیث پر ہی بنیاد رکھتے ہوئے 1984ء میں شریعت کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی اَور کی عبادت گاہ ’مسجد‘ نہیں کہلا سکتی۔ یہ تضاد ہی 1984ءکے فیصلہ کو غیر منصفانہ اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔
٭…٭…٭