الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
…………………………
حضرت مسیح موعودؑ کی خدام سے شفقت
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ28ستمبر 2012ء میں مکرم فخرالحق شمس صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے خدام سے غیرمعمولی محبت و شفقت کی تصویرکشی کی گئی ہے۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو اپنے مرید بہت پیارے تھے۔ 1905ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی زلزلہ کی پیشگوئیوں کی بِنا پر اور آپؑ ہی کے منشاء اور ایماء سے ہم سب لوگ باغ میں چلے گئے۔ باغ کا انتظام حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ہاتھ میں تھا۔ میر صاحب نے چند چھوٹے چھوٹے پودے لگوائے تھے جنہیں لوگوں کے اِدھر اُدھر پھرنے سے کسی قدر نقصان پہنچنے کا احتمال تھا اور میر صاحب اس سے خفا ہوتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ اور مولوی عبدالکریم صاحبؓ چند دیگر دوستوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ میر صاحب آگئے اور فرمانے لگے ہم نے بڑی مشکل اور بڑی احتیاط کے ساتھ یہ پودے لگائے تھے جو لوگوں کی بے احتیاطی سے خراب ہوجائیں گے۔ مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا: آپ کو اپنے درخت پیارے ہیں اور مرزا کو اپنے مرید پیارے ہیں۔
٭حضرت شیخ تیمور صاحبؓ بیان کرتے ہیں: اپنی اولاد کے ساتھ حضورؑ نے وہ سلوک کیا جو کسی کو ہم نے کرتے نہیں دیکھا۔ آپؑ کبھی کسی خوشی پر جھڑکتے نہیں تھے اور کس قدر ضروری دماغی کام میں مصروف ہوں تب بھی بچوں کی حاجتوں کو پورا کر دیتے تھے۔ آپ چھوٹے بچوں کو مارنا بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور بعض دفعہ وہ آپ کی دماغی عرق ریزی کے نتائج کو تلف بھی کر دیتے تھے مگر آپ کے ماتھے پر بل بھی نہیں آتا تھا۔ دروازہ بند کرکے اندر لکھ رہے ہوں تو جتنی بار بچہ دروازہ کھٹکھٹائے اتنی بار کھولتے اور پھر جب وہ رخصت ہوجاتا تو بند کرلیتے اور پھر آتا تو پھر کھول دیتے اور ایک دفعہ بھی اس کو نہ کہتے کہ تُو بار بار کیوں تکلیف دیتا ہے۔
٭حضرت شیخ صاحبؓ مزید بیان فرماتے ہیں: دوستوں کے ساتھ آپؑ کا تعلق بہت ہمدردانہ تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی بیماری میں ہم نے دیکھا ہے کہ آپ نے جان مال وقت کسی چیز کی پرواہ نہیں کی اور اس قدر اضطراب سے دعائیں مانگیں کہ شاید کسی نے کم مانگی ہوں گی۔ آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہمارا دوست شراب پی کر کہیں نالی میں گرا ہوا بھی مل جائے تو ہم اس کو اٹھالیں اور گھر لا کر اس کو رکھیں۔
٭حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی فرماتے ہیں: آپؑ کے مزاج میں وہ تواضع اور انکسار اور ہضم نفس ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ زمین پر آپؑ بیٹھے ہوں اور لوگ فرش پر یا نیچے بیٹھے ہوں، آپؑ کا قلب مبارک ان باتوں کو محسوس بھی نہیں کرتا۔ چار برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپؑ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے، جون کامہینہ تھا اور اندر مکان نیا نیا بنا تھا۔ وہاں چار پائی بچھی ہوئی تھی، مَیں دوپہر کے وقت اُس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔ مَیں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ مَیں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا: آپ کیوں اٹھے ہیں؟ مَیں نے عرض کیا :آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں، مَیں اوپر کیسے سویا رہوں!۔ مسکرا کر فرمایا: مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا، لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔
٭برصغیر کے نامور ادیب جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اپنے خادموں پر جو بے انتہا شفقت تھی اس سلسلہ میں ایک دفعہ ایک بڑا پُرلطف لطیفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ساتھ پیش آیا۔ مفتی صاحبؓ ابتداء میں لاہور میں ملازم تھے اور ہر اتوار کو یا ہر چھٹی کے موقع پرعموماً قادیان بھاگے آیا کرتے تھے۔ ایک روز اسی طرح کوئی دن کے ایک بجے مفتی صاحب قادیان پہنچے۔ حضرت صاحب کو خبر ہوئی تو فوراً باہر تشریف لے آئے۔ بڑی محبت سے ملے اور مفتی صاحب کو اندر گھر میں لے گئے اور کھانا لاکر مفتی صاحب کے آگے رکھ دیا۔ خود پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ مفتی صاحب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ ظہر کی اذان کی آواز آئی جسے سُن کر مفتی صاحب نے جلدی جلدی کھانا شروع کیا تاکہ جماعت میں شامل ہوسکیں۔ حضرت اقدس یہ دیکھ کر مسکرانے لگے اور ہنستے ہوئے فرمایا: مفتی صاحب! جلدی جلدی کھانے کی ضرورت نہیں، نہایت اطمینان سے کھایئے، جب تک میں نہیں جاتا نماز نہیں ہوگی اور جب تک آپ کھانا نہیں کھالیتے میں باہر نہیں جاؤں گا۔
٭حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کپورتھلوی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ نے گورداسپور جانا تھا۔ جب مڑھی کے پاس پہنچے تو آپ نے ساتھ چلنے والوں سے مصافحہ فرماکر اُنہیں واپس کردیا۔ صرف مَیں اور یکّہ والے ساتھ رہے۔ فرمایا: اب یکہ میں سوار ہو جاؤ۔ مَیں نے عرض کی: مجھے اپنی لڑکی کو ملنے جانا تھا یہاں تو دیر ہو گئی اب وہاں جانا واپس آنا پھر آپ کے ساتھ شامل ہونا مشکل ہے۔ آپؑ نے فرمایا: تم یکّہ میں سوار ہو کر چلو اور فارغ ہو کر بٹالہ پہنچو مَیں پیدل آتا ہوں۔ مَیں نے اصرار کیا۔ بڑا اصرار کیا۔ آپؑ نے فرمایا: اَلْاَمْرُ فَوْقَ الْاَدَب۔ چنانچہ مَیں یکّہ پر سوار ہو کر چلا گیا۔اور لڑکی کو بٹالہ میں مل کر مَیں راستہ پر آیا تو سینکڑوں آدمی منتظر کھڑے تھے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ خدا کے محبوب ہاتھ میں چھڑی لے کر تن تنہا پیدل چلے آرہے ہیں۔
٭حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ روایت کرتے ہیں: میں آنکھوں سے معذور تھا۔ ظاہری وجاہت نہ تھی۔ مگر حضور کی محبت اور اخلاق کے قربان جاؤں۔ مَیں نے آپ کے اخلاق کا جو مقام دیکھا وہ پھر کسی انسان کا نہ دیکھا۔ ایک دفعہ مَیں حضور کی زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ کمرہ چھوٹا تھا اور احباب بھرے ہوئے تھے۔ جگہ تنگ تھی اس لیے میں جوتیوں ہی میں بیٹھ جانے لگا۔ حضور نے مجھے دیکھ کر آگے بلوالیا اور اس سے بڑھ کر یہ شفقت کی کہ اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ یہاں جگہ ہے۔ اسی طرح ایک اَور واقعہ ہوا۔ مسجد مبارک تنگ تھی، چھ آدمی کھڑے ہوتے تھے۔ عشاء کی نماز کا وقت تھا۔ جب جماعت کھڑی ہونے لگی تو مَیں تنگی کے خیال سے پیچھے ہٹنے لگا۔ مگر آپؑ نے میرا بازو پکڑ کر پاس کھڑا کرلیا۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ حضورؑ کی شفقت کے یہی ایک دو واقعات ہیں۔ ہرشخص کی ذات کے ساتھ حضور کے وہ احسانات بیکراں ہیں جن کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مَیں ایک دفعہ عیدالفطر کے موقعہ پر قادیان آیا۔ مَیں ابھی مسجد کے باہر ہی تھا اور حضور مسجد کے اندر تھے۔ مَیں نے اندر جانے کی کوشش کی۔ حضورؑ نے دیکھ کر فرمایا: حافظ صاحب! آپ وہیں ٹھہریں مَیں آتا ہوں۔
٭حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ روایت کرتے ہیں: گورداسپور کے قیام کے ایام میں ایک روز مہمان زیادہ آگئے، کھانا ختم ہو گیا۔ حافظ حامد علی صاحبؓ نے عرض کی کہ حضور کھانا ختم ہوگیا، اگر ارشاد ہو تو اور تیار کروالیں۔ فرمایا: نہیں اَور پکانے کی ضرورت نہیں دودھ ڈبل روٹی لے آؤ۔ ڈبل روٹی تو مل گئی مگر دودھ نہ ملا۔ جب عرض کی گئی کہ حضور دودھ بھی نہیں ملا تو فرمایا پانی میں بھگو کر کھالیں گے۔اور ایسا ہی کیا۔
٭حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ حضرت کے پرانے خدام میں سے تھے اور باوجود ایک خادم ہونے کے حضرت صاحب ان سے اس قسم کا برتاؤ کرتے تھے جیسا کسی عزیز سے کیا جاتا ہے اور یہ بات حافظ صاحب ہی پر موقوف نہ تھی حضرت کا ہر ایک خادم اپنی نسبت یہی سمجھتا تھا کہ مجھ سے زیادہ اَور کوئی آپؑ کو عزیز نہیں۔ بہرحال حافظ صاحب کو ایک دفعہ کچھ لفافے اور کارڈ آپؑ نے دیے کہ ڈاک خانہ میں ڈال آؤ۔ حافظ حامد علی صاحب کا حافظہ کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ کسی اور کام میں مصروف ہوگئے اور اپنے مفوض کو بھول گئے۔ ایک ہفتہ کے بعد حضرت مرزا محمود احمد صاحب (جو اُن ایام میں ہنوز بچہ ہی تھے) کچھ لفافے اور کارڈ لیے دوڑتے ہوئے آئے کہ ابّا! ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے خط نکالے ہیں۔آپؑ نے دیکھا تو وہی خطوط تھے جن میں بعض رجسٹرڈ خط بھی تھے اور آپ ان کے جواب کے منتظر تھے۔ حامد علی کو بلوایا اور خط دکھاکر بڑی نرمی سے صرف اتنا ہی کہا:‘‘حامد علی! تمہیں نسیان بہت ہوگیا ہے ذرا فکر سے کام کیا کرو’’-
٭حضرت شیخ عبدالقادر صاحب سوداگر مل اپنی کتاب ‘‘حیات طیبہ’’میں رقمطراز ہیں:خاکسار نے کئی پرانے صحابہ سے یہ روایت سنی ہے (جن میں حضرت بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہوری اور حضرت میاں عبدالعزیز مغل کا نام خاص طور پر یاد ہے) کہ ایک دفعہ جبکہ حضورؑ لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے یہ مشورہ کیا کہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کی قوموں کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود اُن کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہیے۔ چنانچہ ہم نے گاڑی والے کو کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کرلو، آج گاڑی ہم کھینچیں گے۔ کوچ مَین نے ایسا ہی کیا۔ جب حضورؑ باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں؟ ہم نے عرض کی کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان کی قوم کے نوجوان ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ آج حضورؑ کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے۔ فرمایا: فوراً گھوڑے جُوتو۔ ہم انسان کو حیوان بنانے کے لیے دنیا میں نہیں آئے۔ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لیے آئے ہیں!
٭حضور علیہ السلام کے خادم مرزا اسماعیل بیگ کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدسؑ اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لیے جایا کرتے تھے تو سواری کے لیے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہمرکاب ہوتا تھا، لیکن جب آپؑ چلنے لگتے تو آپؑ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے۔ مَیں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا: حضور! مجھے شرم آتی ہے۔ آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کوسوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے؟ جب حضرت قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کراتے۔ جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طَے ہو جاتا تو مَیں اُتر پڑتا اور آپؑ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپؑ سوار ہوتے۔ جب آپؑ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اسی چال سے چلنے دیتے۔
٭مرزا دین محمد صاحب کا بیان ہے کہ میں اوّلاً حضرت مسیح موعودؑ سے واقف نہ تھا یعنی اُن کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے، یہ شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور مَیں اُن کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لیے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے پیچھے سوار کرلیتے تھے اور بٹالہ جا کر اسے اپنی حویلی میں باندھ دیتے۔ اس حویلی میں ایک بالاخانہ تھا۔ آپؑ اس میں قیام فرماتے۔ اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپؑ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے۔ یہ اپنے لیے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی۔ وہ اس جولاہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کے لیے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔
٭حضرت شیخ امام بخش صاحبؓ شاہجہانپوری کی ایک روح پرور روایت ہے کہ حضورعلیہ السلام مع خدام گول کمرہ میں کھانا کھا رہے تھے۔ ایک شخص درمیان میں ایسا بھی تھا کہ اس کے کپڑے بالکل میلے اور پھٹے ہوئے تھے۔ ایک امیر اور خوش پوش نے اسے ذرا کہنی سے دبایا کہ پیچھے رہو پھر کھالینا۔ حضرت صاحب کی نظر پڑ گئی۔ آپؑ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی کہ ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے اور ہرمامور کی جماعت غرباء سے ترقی کرتی رہی ہے۔فرمایا کہ اگر کسی ذی مقدرت دوست کو کوئی غریب برا معلوم ہو یا اس سے نفرت آوے تو اسے چاہیے خود الگ ہو جائے۔
………*…
‘نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ’ کا شاندار ظہور
ماہنامہ ‘‘النور’’ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میںمکرم عبدالرّب انور محمود خان صاحب کے قلم سے کیپیٹل ہِل (امریکہ) میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے لیکچر کا آنکھوں دیکھا حال شامل اشاعت ہے۔
ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ دوسرے انبیاء پرمجھے چھ باتوں میں فضیلت حاصل ہے۔ چنانچہ ان میں سے دوسرے نمبر پرآپؐ نے جس بات کا ذکر فرمایا وہ یہ تھی کہ ‘نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ’ رُعب سے میری مدد کی گئی ہے۔
آنحضرت ﷺ کے غلام کامل اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبھی ایک الہام دو مرتبہ کسی قدر مختلف الفاظ میں 1883ء میں اور 1906ء میں ہوا۔ جس میں نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ کے پُرشوکت الفاظ شامل تھے۔
‘‘تُو رُعب کے ساتھ مدد دیا گیا’’ کا ظہور متعدد بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی زندگیوں میں احمدیوں نے بچشم خود ملاحظہ کیا ہے۔ لیکن اس کا ایک عجیب اظہار 27 جون 2012ء کو عمل میں آیا جب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ Capitol Hill میں تشریف لائے اور پہلی مرتبہ مملکتِ امریکہ کے قانون ساز ادارے کے کئی ارکان کے سامنے قرآن کریم کی تعلیمِ انصاف کے ذریعہ امن عالم کے قیام پر بصیرت افروز روشنی ڈالی۔ آئیے اب نصرت الٰہی کے زندہ جاوید نظارے مشاہدہ کریں۔
*…حضور ایدہ اللہ اپنے خدام کے ہمراہ جب Rayburn بلڈنگ میں داخل ہوئے تو Corridor میں اپنے مشاغل میں مصروف پبلک حضور کو دیکھ کر دو رویہ قطار میں کھڑی ہوگئی جیسے وہ حضور کے استقبال کے لیے ہی جمع ہوئے ہوں۔ اور ہر کیمرے نے حضور کی جانب رُخ کرکے حضور کی پُرکشش شخصیت کو اپنے کیمرہ میں محفوظ کیا۔ ان میں سے کسی کو یہ علم نہ تھا کہ یہ کون صاحب ہیں اور کیوں یہاں آئے ہیں۔
*…اس نصرت کی دوسری جھلک اس وقت نظر آئی جب حضور اقدس ایدہ اللہ Gold Room میں داخل ہوئے (جہاں 140 کے قریب ممبرانِ کانگریس، وزراء، مختلف ممالک کے سفراء و مندوبین اور پریس نمائندگان جمع تھے) سب نے یک لخت کھڑے ہوکر اور تالیوں کی گونج میں حضور کا خیرمقدم کیا۔
*…ایک کانگریس مَین نے حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں امریکہ کا وہ جھنڈا پیش کیا جو اُس دن Capitol HIll پر لہرایا گیا تھا اور ’مرزا مسرور احمد‘ کو معنون کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا جو اس بات کا تصدیق نامہ تھا کہ یہی جھنڈا آج لہرایا گیا تھا۔
*…ایک اَور کانگریس مَین نے حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں ایک تہنیت نامہ پیش کیا جس پر 22 ممبرانِ کانگریس کے دستخط ثبت تھے۔ اس میں حضور ایدہ اللہ کی دنیابھر میں انسانی بہبود کے لیے خدمات پر ستائش کا اظہار تھا۔
*…ایک مقررہ مکرمہ ڈاکٹر Katrina Lantos Swett صاحبہ (سربراہ امریکی کمیشن برائے عالمگیرمذہبی آزادی) نے دنیا بھرمیں احمدیوں پرہونے والے مظالم اور حضور انور ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز کی امن عالم کے قیام کے لیے عالمگیرکاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
‘‘میرا دل پکار رہاہے کہ آج مختلف لوگوں سے بھرا ہوا یہ کمرہ خاص الخاص برکات سے معمورہے۔ کسی حد تک اس کا سبب یہاں پر جمع ہونے والے افرادکے پیار، بہتر مستقبل کی امید، قلوب کی گرمجوشی اور بھلائی کے جذبات بھی ہیں۔ لیکن اے مقدّس ہستی! لاریب یہ ساری برکات اس نور سے پھوٹ رہی ہیں جو آپ کے وجود مسعود سے عبارت ہے۔ بلاشبہ آپ کی آج یہاں آمد ہم سب کے لیے باعث صد افتخار ہے اور ہم سب آپ کے انتہائی حد تک تہہ دل سے ممنون ہیں’’۔
*…محترمہ Nancy Pelosi نے جو کہ Democratic House کی سربراہ ہیں حضور ایدہ اللہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
‘‘اگرچہ مرزا مسرور احمد صاحب نے بطور ٹیچر کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن اپنے مضبوط اصولوں پر بڑی مستعدی سے قائم رہے اور عوام الناس کی بہبود میں انہیں ستایا گیا، گالیاں دی گئیں، جیل بھیجا گیا، ملک بدر کیا گیا مگر ان تمام تکالیف نے ایک لحظہ بھی آپ کے قدمِ استقلال میں جنبش نہ ہونے دی اور آپ نے کسی ایسے عمل کا جواب انتہاپسندی یا شدّت سے نہیں دیا بلکہ اپنے اصولوں پر قائم رہے اور آج وہ 175 ملین لوگوں کے سربراہ ہیں اور ان کا ایک ہی اصول ہے ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’’۔
*… اس کے بعد حضور ایدہ اللہ اپنے لیکچر کے لیے تشریف لائے تو ایک مرتبہ پھر جملہ حاضرین بیک وقت حضور کے استقبال کے لیے ایستادہ ہوگئے اور پھر ایک مرتبہ یہ الہام ‘‘نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ’’ عالم شہود میں کارفرما ہوا۔
*…حضور ایدہ اللہ نے اپنے خطاب میں عالمی امن کے قیام کے لیے انصاف پر زور دیا اور اس پہلو سے اسلامی تعلیمات اور قرآنی معارف بیان فرمائے اور وہ جملہ اقدام بیان کیے جن کی نشاندہی قرآن کریم نے بڑی صراحت سے کی ہے۔ تمام حاضرین اس دلکش خطاب کو بڑے غور اور توجہ سے سنتے رہے اور متعدد لوگوں نے اس کو قلمبند کیا۔
*…جب حضور کا خطاب ختم ہوا تو تیسری مرتبہ پھر تمام حاضرین نے ایستادہ ہوکر تالیوں کی گونج میں حضور کو خراج تحسین پیش کیا۔
*…یہ وہ قانون ساز افراد ہیں جو صدر مملکت کے لیے بھی Standing Ovationنہیں دیتے یا شاذونادر ہی ایسا کرتے ہیں۔ یقیناً الٰہی تحریک ان کے قلوب کو مسخر کررہی تھی:
کس طرح کروں احوال مَیں اس کا بیاں
ہے قلم ساکت سکونِ قلب ہے سیماب وار
*…بعدازاں حضور کو Capitol Hill کا Tour کرایا گیا۔ جب حضور کانگریس کے ہال کی گیلری میں تشریف لائے جہاں کانگریس کی کارروائی جاری تھی تو کانگریس کے Podium پر ایک کانگریس مَین آئے اور حضور ایدہ اللہ کا تعارف کرایا اور اشارہ سے گیلری میں حضور ایدہ اللہ کی جانب سب حاضرین کی توجہ کرائی اور باضابطہ کانگریس کی کارروائی کے رجسٹر میں خیرمقدم اور تعارف ریکارڈ کرایا۔
*…اس تقریب کے اختتام پر کانگریس کے ایک نمائندہ نے کہا کہ حضور کا ایڈریس «Pure Gospel» تھا۔ جب مَیں نے یہ الفاظ سنے تو میرا دماغ 1896ء کی تاریخ میں ڈوب گیا جب ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ کے لیکچر کے بعد جو تبصرے شائع ہوئے تھے ان میں ایک تبصرہ Spiritual Journal Boston نے لکھا اور وہ یہی دو الفاظ تھے ‘Pure Gospel›۔ غور کرنے پر یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ فلاسفی کے اس لیکچر اور حضور ایدہ اللہ کے اس خطاب میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہر دو لیکچرز میں صرف اسلام کی خوبیاں اور حسین تعلیمات پیش کی گئی ہیں اور کسی مذہب پر کسی اعتراض کا کوئی ذکر نہیں۔
*…کانگریس کے ایک اور نمائندہ سینیٹر Casey نے کہا:
‘‘مَیں نے کوئی مسلمان لیڈر نہیں دیکھا جو اس قدر Humbleہو اور بیان میں اتنا Masterful’’۔
*…حاضرین کے ایک اَور فرد نے کہا کہ: کانگریس کو اس کی شدید ضرورت تھی۔
*…Nancy Pelosi بجائے اسٹیج پر بیٹھنے کے حاضرین میں بیٹھ گئیں تاکہ وہ براہ راست حضور انور کو دیکھ سکیں اور آپ کے خطاب سے لطف اندوز ہوسکیں۔
صاحب بصیرت حضرات نے اس غیرمعمولی کشش اور رُعب کا اثر جو حضور ایدہ اللہ کے مبارک وجود سے چھلک رہا تھا اپنے وجودوں پر محسوس کیا اور وہ ان کو بار بار مجبور کر رہا تھا کہ وہ آپ کے لیے ہر طریقہ سے استقبال اور تکریم کے جذبات پیش کریں۔ الغرض اس تقریب میں زمانے نے دوعظیم الشان الہامات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیے:
اِنِّیْ مَعَکَ یَا مَسْرُوْر اور نُصِرْتَ بِالرُّعْبِ۔
خاکسار نے حضور ایدہ اللہ سے اس کا تذکرہ کیا تو حضور نے فرمایا کہ آج صبح جب مَیں Capital Hill جانے کی تیاری میں مصروف تھا تو میری توجہ اس الہام کی طرف ہوئی۔ تو مَیں نے دعا کی کہ خدایا! یہ الہام میرے حق میں بھی پورا فرمادے۔
فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعا قبول فرمائی اورنہ صرف کیپٹل ہل کے Gold Room میں موجود افراد نے بلکہ MTA کے ذریعہ ساری دنیا نے اس پُرشوکت نظارہ کو دیکھا اور اس کی صداقت پر گواہ بن گئی۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
………*…
ماہنامہ ‘‘النور’’ امریکہ مارچ 2012ء میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالہ سے کہی گئی مکرم مبارک احمد صدیقی صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
اک نئے دَور کا پاسباں ہوگیا
وہ کڑی دھوپ میں سائباں ہوگیا
اُس کی خاطر زمیں نے دکھائے نشاں
اُس کی خاطر گواہ آسماں ہوگیا
جو کہا اُس نے پورا نشاں ہوگیا
اُس کا دشمن ہوا جو کوئی معتبر
دیکھتے دیکھتے ہوگیا دربدر
جو فضاؤں میں تھا آگیا خاک پر
حکمراں تھا کوئی بے اَماں ہوگیا
جو کہا اُس نے پورا نشاں ہوگیا
اُس کے کوچے سے پھر ریگزاروں تلک
ریگزاروں سے پھر مرغزاروں تلک
اُس کی تبلیغ پہنچی کَناروں تلک
مرجعِ خاص پھر قادیاں ہوگیا
جو کہا اُس نے پورا نشاں ہوگیا
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 24 دسمبر2012ء میں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے یور پین پارلیمنٹ میں ارشاد فرمودہ خطاب کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
عبقری لوگ تھے اور چنیدہ سبھی
باادب صف بہ صف یورپی یونین
گر رہے تھے خطابت کے دُرِّعدن
چُن رہی تھی صدف یورپی یونین
اک طرف تھا خطیبِ جہاں بولتا
سنتی تھی اِک طرف یورپی یونین
خوبیاں ان کی ، کوتاہیاں بھی بیاں
گفتگو کا ہدف یورپی یونین
جس کے آہنگ سے قدسیؔ سبھی چُور تھے
سُن رہی تھی وہ دَف یورپی یونین
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 21 دسمبر 2012ء میں مکرم مبارک احمد ظفر ؔصاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے یور پین پارلیمنٹ میں ارشاد فرمودہ خطاب کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
رُعب پڑتے دلوں پہ دیکھا ہے
حق اترتے دلوں پہ دیکھا ہے
اے محبت کے بادشاہ تیرا
حُکم چلتے دلوں پہ دیکھا ہے
آج میری نگاہ نے تجھ کو
راج کرتے دلوں پہ دیکھا ہے
تیرے نورِ فراستانہ کی
بجلی گرتے دلوں پہ دیکھا ہے
تیری نظروں کے عین تیروں کو
جا کے لگتے دلوں پہ دیکھا ہے
صبحِ خوش رنگ کی اُمنگوں کو
رقص کرتے دلوں پہ دیکھا ہے
تیرے منشورِ امنِ عالم کو
پائوں دھرتے دلوں پہ دیکھا ہے