خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مارچ 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 22؍ مارچ2019ء بمطابق 22؍امان1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
کل 23؍مارچ ہے اور یہ دن جماعت میں یوم مسیح موعودؑ کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جس مسیح و مہدی نے آخری زمانے میں آ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا کو بتانا تھا اور پھیلانا تھا اور مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا تھا بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لانا تھا اس کا اعلان ہوا۔ یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ میں ہی وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی اور یوں آپؑ نے اپنی بیعت کا آغاز فرمایا۔ اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی کچھ ارشادات پیش کروں گا جن میں آپ نے مسیح موعود کے آنے کی ضرورت، زمانے کی حالت اور اپنے دعوے کے بارے میں اور جو مختلف نشانات اس سے وابستہ تھے ان کے بارے میں بتایا ہے۔ آپؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ ؎
‘‘وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اَور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا’’
(درثمین صفحہ 160)
پس زمانے کی حالت متقاضی تھی کہ کوئی آئے جو اسلام کی ڈولتی کشتی کو سنبھالے لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء کی اکثریت نے جو پہلے اس انتظار میں تھے کہ کوئی مسیح آئے اور بڑی شدت سے یہ انتظار کر رہے تھے لیکن آپؑ کے دعوے کے بعد اکثریت نے مخالفت کی اور عامۃ المسلمین کو جھوٹی کہانیاں سنا کر، جھوٹی باتیں آپؑ کی طرف منسوب کر کے آپؑ کے خلاف اور آپؑ کی جماعت کے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ قتل کے فتوے دیے جانے لگے۔ بلکہ آج تک احمدیوں پر بعض ملکوں اور جگہوں پر ظلم و بربریت دکھاتے ہوئے قتل و غارت گری کی ایسی ہولناک مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یا کی گئیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا گیا جن کا اسلام کی حقیقت جاننے والے کبھی سوچ بھی نہیں سکتے اور کبھی ان سے ایسی حرکتیں عمل میں آ ہی نہیں سکتیں۔ بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حالات اور مسیح موعود کے آ جانے کے بارے میں کس طرح مختلف ارشادات فرمائے ہیں۔
اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ کیوں مسیح موعود کے آنے کی ضرورت ہے اور مسیح کو اس زمانے سے کیا خصوصیت ہے؟ آپؑ نے یہ نہیں فرمایا کہ بہرحال میں نے ہی آنا تھا۔ زمانہ متقاضی تھا کہ کوئی آئے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ
‘‘قرآن شریف نے اسرائیلی اور اسماعیلی دو سلسلوں میں خلافت کی مماثلت کا کھلا کھلا اشارہ کیا ہے جیسے اس آیت سے ظاہر ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور:56)’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘اسرائیلی سلسلہ کا آخری خلیفہ جو چودھویں صدی پر بعد حضرت موسیٰؑ آیا وہ مسیح ناصریؑ تھا۔ مقابل میں ضرور تھا کہ اس امّت کا مسیح بھی چودھویں صدی کے سر پر آوے۔ علاوہ ازیں اہل کشف نے’’ (جن کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا، صاحب کشوف تھے انہوں نے ،بہت سارے پرانے بزرگوں نے) ‘‘اسی صدی کو بعثت مسیح کا زمانہ قرار دیا’’ (ہے)۔ فرماتے ہیں کہ ‘‘جیسے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب وغیرہ اہل حدیث کا اتفاق ہو چکا ہے کہ علامات صُغریٰ کُل اور علامات کُبریٰ ایک حد تک پوری ہو چکی ہیں۔’’ (یعنی بڑی اور چھوٹی علامات جو مسیح کے آنے کی تھیں وہ پوری ہو چکی ہیں۔) آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘لیکن اس میں کسی قدر ان کی غلطی ہے۔’’ (علامات جو بھی تھیں) ‘‘علامات کُل پوری ہو چکی ہیں۔’’ (یہ نہیں کہ کچھ حد تک بلکہ مسیح کے آنے کی جو علامات تھیں وہ پوری ہو چکی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ) ‘‘بڑی علامت یا نشان جو آنے والے کا ہے وہ بخاری شریف میں یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ الخ لکھا ہے یعنی نزول مسیح کا وقت غلبہ نصارےٰ اور صلیبی پرستش کا زور ہے۔ سو کیا یہ وہ وقت نہیں؟ کیا جو کچھ پادریوں سے نقصان اسلام کو پہنچ چکا ہے اس کی نظیر آدم سے لے کر آج تک کہیں ہے؟ ہر ملک میں تفرقہ پڑ گیا۔ کوئی ایسا خاندان اسلامی نہیں کہ جس میں سے ایک آدھ آدمی ان کے ہاتھ میں نہ چلا گیا ہو۔ سو آنے والے کا وقت صلیب پرستی کا غلبہ ہے۔ اب اس سے زیادہ کیا غلبہ ہو گا کہ کس طرح درندوں کی طرح اسلام پر کینہ وری سے حملے کیے گئے۔’’ (یہ الفاظ ہی اس کی وضاحت کر دیتے ہیں جو الزام لگایا جاتا ہے کہ آپؑ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہیں۔ پس ان سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کیا آپ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہیں یا اسلام کے دفاع کے لیے اور اس کی برتری ثابت کرنے کے لیے میدان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارے گئے ہیں۔ بہرحال) آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘کیا کوئی گروہ مخالفین کا ہے کہ جس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت وحشیانہ الفاظ اور گالیوں سے یاد نہیں کیا؟ اب اگر آنے والے کا یہ وقت نہیں تو بہت جلدی وہ آیا بھی تو سو سال تک آئے گا کیونکہ وہ’’ (مسیح موعود) ‘‘وقت کا مجدد ہے جس کی بعثت کا زمانہ صدی کا سر ہوتا ہے۔ تو کیا اسلام میں موجودہ وقت میں اس قدر اَور طاقت ہے کہ ایک صدی تک پادریوں کے روز افزوں غلبہ کا مقابلہ کر سکے۔ غلبہ حد تک پہنچ گیا اور آنے والا آگیا۔ ہاں اب وہ دجال کو اِتمام حجت سے ہلاک کرے گا کیونکہ حدیثوں میں آ چکا ہے کہ اس کے ہاتھ پر ملتوں کی ہلاکت مقدر ہے نہ لوگوں کی یا اہل ملل کی تو ویسا ہی پورا ہوا۔’’
(ملفوظات جلد 1صفحہ47-48)
یعنی مسیح محمدی نے جو آنا تھا تو اس نے دلائل اور براہین سے تمام دوسرے مذاہب پر اسلامی تعلیمات کی برتری ثابت کرنی تھی اور اسلامی تعلیم کو ہر مذہب و ملت پر اپنی برتری منوانے کے لیے پیش کرنا تھا۔ ہزاروں غیر مسلم جو ہر سال جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں وہ آپؑ کے دیے ہوئے دلائل اور براہین کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں۔
پھر زمانے کی حالت اور مسیح موعود کی ضرورت کے بارے میں مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ
‘‘اگر زمین قابل نہیں ہوتی تو بارش کا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہوتا ہے۔’’ (اگر کوئی زمین اچھی نہ ہو، بنجر زمین ہو، سخت زمین ہو تو نقصان ہی ہوتا ہے۔) ‘‘اسی لیے آسمانی نور اترا ہے اور وہ دلوں کو روشن کرنا چاہتا ہے۔ اس کے قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار ہو جاؤ’’ (یعنی اپنی زمینوں کو، دلوں کی زمین کو اس قابل بناؤ )‘‘تا ایسا نہ ہو کہ بارش کی طرح کہ جو زمین جوہر قابل نہیں رکھتی وہ اس کو ضائع کر دیتی ہے۔’’ (پانی کا اس پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔) ‘‘تم بھی باوجود نور کی موجودگی کے تاریکی میں چلو اور ٹھوکر کھا کر اندھے کوئیں میں گر کر ہلاک ہو جاؤ۔’’ (یہ نہ ہو کہ کہیں تمہارا یہی حال ہو جائے کہ تاریکی ملے باوجود روشنی کے اور اندھے کنویں میں گر کر ہلاک ہو جاؤ۔) فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ تعالیٰ مادرِ مہربان سے بھی بڑھ کر مہربان ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی مخلوق ضائع ہو۔ وہ ہدایت اور روشنی کی راہیں تم پر کھولتا ہے مگر تم ان پر قدم مارنے کے لیے عقل اور تزکیہ نفوس سے کام لو۔ جیسے زمین کہ جب تک ہل چلا کر تیار نہیں کی جاتی تخم ریزی اس میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب تک مجاہدہ اور ریاضت سے تزکیہ نفوس نہیں ہوتا پاک عقل آسمان سے اتر نہیں سکتی۔ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا اور اپنے دین اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں غیرت کھاکر ایک انسان کو جو تم میں بول رہا ہے بھیجا تا کہ وہ اس روشنی کی طرف لوگوں کو بلائے۔ اگر زمانہ میں ایسا فساد اور فتنہ نہ ہوتا اور دین کے محو کرنے کے لیے جس قسم کی کوششیں ہو رہی ہیں نہ ہوتیں تو چنداں حرج نہ تھا۔’’ (کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔) ‘‘لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ ہر طرف یمین و یسار اسلام ہی کو معدوم کرنے کی فکر میں’’ (ہیں۔ دائیں بائیں سے حملے ہو رہے ہیں۔) ‘‘جملہ اقوام لگی ہوئی ہیں۔’’ (تمام قومیں اسی کوشش میں ہیں، اسی فکر میں ہیں۔ آج تک کسی نہ کسی طریقے سے یہی حال ہے۔) فرماتے ہیں کہ ‘‘مجھے یاد ہے اور براہین احمدیہ میں بھی میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کے خلاف چھ کروڑ کتابیں تصنیف اور تالیف ہو کر شائع کی گئی ہیں۔’’ (آپؑ کے زمانے کی بات ہے آج سے سوا سو سال پہلے بلکہ ڈیڑھ سو سال پہلے۔) فرماتے ہیں کہ ‘‘عجیب بات ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد بھی چھ کروڑ اور اسلام کے خلاف کتابوں کا شمار بھی اسی قدر ہے۔’’ (اُس وقت مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی۔ اب تو تقریباً پچاس ساٹھ کروڑ ہے بلکہ اس سے زیادہ)۔ فرمایا کہ ‘‘اگر اس زیادتی تعداد کو جو اب تک ان تصنیفات میں ہوئی ہے چھوڑ بھی دیا جائے’’ (یعنی کہ اس کے علاوہ بھی اگر کوئی ہیں) ‘‘تو بھی ہمارے مخالف ایک ایک کتاب ہر ایک مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔’’ (جتنی مسلمانوں کی تعداد اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اور اب تو مختلف ذریعوں سے، میڈیا سے، سوشل میڈیا سے، انٹرنیٹ سے، مختلف ذرائع سے یہ کام اس سے بھی بڑھ چکا ہے۔ نئے نئے طریقے اختیارکر لیے گئے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ مخالف ایک ایک کتاب ہندوستان کے ہر مسلمان کے ہاتھ میں دے چکے ہیں)۔ فرمایا کہ ‘‘اگر اللہ تعالیٰ کا جوش غیرت میں نہ ہوتا اور اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ اس کا وعدۂ صادق نہ ہوتا تو یقینًا سمجھ لو کہ اسلام آج دنیا سے اٹھ جاتا اور اس کا نام و نشان تک مٹ جاتا۔ مگر نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کا پوشیدہ ہاتھ اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ مجھے افسوس اور رنج اس امر کا ہوتا ہے کہ لوگ مسلمان کہلا کر ناطے بیاہ کے برابر بھی تو اسلام کا فکر نہیں کرتے۔’’ (اتنی فکر بھی نہیں جتنی شادی بیاہ کے لیے فکر ہوتی ہے) ‘‘اور مجھے اکثر بار پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ عیسائی عورتوں تک مرتے وقت لکھوکھا روپیہ عیسائی دین کی ترویج اور اشاعت کے لیے وصیت کر جاتی ہیں۔’’ (اس زمانے میں عیسائیوں کا مدد کی طرف رجحان تھا تو ان کی عورتیں بھی قربانیاں کیا کرتی تھیں) ‘‘اور ان کا اپنی زندگیوں کو عیسائیت کی اشاعت میں صرف کرنا تو ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔’’ (اُس زمانے کا آپؑ پھر نقشہ کھینچتے ہیں کہ) ‘‘ہزارہا لیڈیز مشنری گھروں اور کوچوں میں پھرتی’’ (عیسائی عورتیں تبلیغ کرتی پھرتی ہیں) ‘‘اور جس طرح بَن پڑے نقد ایمان چھینتی پھرتی ہیں۔’’ فرمایا کہ ‘‘مسلمانوں میں سے کسی ایک کو نہیں دیکھا کہ وہ پچاس روپیہ بھی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کر کے مرا ہو۔ ہاں شادیوں اور دنیاوی رسوم پر تو بے حد اسراف ہوتے ہیں’’ (اور یہ اسراف تو آجکل بھی ہیں۔ اسلام کی خدمت کے لیے جو تھوڑا بہت نام نہاد خرچ کرتے بھی ہیں، ان کے بھی جو دنیاوی خرچ ہیں ان خرچوں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے) فرمایا ‘‘اور قرض لے کر بھی دل کھول کر فضول خرچیاں کی جاتی ہیں مگر خرچ کرنے کے نہیں تو صرف اسلام کے لیے نہیں۔ افسوس! افسوس!! اس سے بڑھ کر اَور مسلمانوں کی حالت قابل رحم کیا ہو گی؟’’
(ملفوظات جلد 1صفحہ72 تا 74)
مسلمانوں کی اکثریت کا آج بھی یہی حال ہے۔ گو کہ کچھ بہتری بعض جگہوں پر پیدا ہوئی ہے لیکن وہ بھی جیسا کہ میں نے کہا کہ دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جتنا خرچ کیا جاتا ہے دین کے لیے اس کے عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ یہ اس وقت کے حالات تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا۔ اب اگر مسلمانوں کے ایک حصہ کو مذہب کی طرف توجہ پیدا بھی ہوئی ہے جیسا کہ میں نے کہا تو صرف اس حد تک ہے کہ اسلام پر قائم رہنا ہے۔ چلو اس حد تک بہتری آئی ہے کہ ٹھیک ہے بہت سارے لوگ ہیں جو اسلام پہ قائم رہنا چاہتے ہیں۔ کچھ حد تک مسجدیں بھی انہوں نے اپنی آباد کی ہیں۔ لیکن اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے کوئی کوشش نہیں ہے اور اگر کوئی نام نہاد کوشش ہے تو وہ شدت پسندی کی ہے کہ ہم نے زبردستی اسلام کو پھیلانا ہے۔ اس طرح مختلف گروہ بن چکے ہیں یا مسیح موعود کی اور اس کی جماعت کی مخالفت کے لیے کوشش ہو رہی ہے۔ پس ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اب اگر اسلام دنیا میں پھیلنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کے ذریعہ ہی پھیلنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔
آنے والے مسیح موعود کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کچھ نشانیاں بھی بتائی تھیں۔ یہ نہیں کہ وہ آنے والا بغیرکسی نشانی کے دعویٰ کر دے گا ۔ چنانچہ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘آنے والے کا ایک یہ نشان بھی ہے کہ اس زمانہ میں ماہ رمضان میں کسوف و خسوف ہو گا’’ (چاند گرہن لگے گا اور سورج گرہن لگے گا۔) ‘‘اللہ تعالیٰ کے نشان سے ٹھٹھا کرنے والے خدا سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ کسوف و خسوف کا اس کے دعویٰ کے بعد ہونا یہ ایک ایسا امر تھا جو افترا اور بناوٹ سے بعید تر ہے’’ (اس کو افترا نہیں کہہ سکتے۔ اتفاق بھی نہیں کہہ سکتے۔ دھوکا بھی نہیں کہہ سکتے۔) فرمایا کہ ‘‘اس سے پہلے کوئی کسوف و خسوف ایسا نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا کہ جس سے اللہ تعالیٰ کو کُل دنیا میں آنے والے کی منادی کرنی تھی۔ چنانچہ اہل عرب نے بھی اس نشان کو دیکھ کر اپنے مذاق کے مطابق درست کہا۔ ہمارے اشتہارات بطور منادی جہاں جہاں نہ پہنچ سکتے تھے وہاں وہاں اس کسوف و خسوف نے آنے والے کے وقت کی منادی کر دی۔ یہ خدا کا نشان تھا جو انسانی منصوبوں سے بالکل پاک تھا۔ خواہ کوئی کیسا ہی فلسفی ہو وہ غور کرے اور سوچے کہ جب مقرر کردہ نشان پورا ہو گیا تو ضرور ہے کہ اس کا مصداق بھی کہیں ہو۔ یہ امر ایسا نہ تھا کہ جو کسی حساب کے ماتحت ہو جیسے کہ فرمایا تھا کہ یہ اس وقت ہو گا جب کوئی مدعی مہدویت ہو چکے گا’’ (مہدی اور مسیح کا دعویٰ ہو چکا ہوگا تب یہ نشان ظاہر ہوگا۔) فرماتے ہیں کہ ‘‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ آدمؑ سے لے کر اس مہدی تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ اگر کوئی شخص تاریخ سے ایسا ثابت کرے تو ہم مان لیں گے۔’’ (ملفوظات جلد1 صفحہ 48-49)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ایک اَور نشان یہ بھی تھا کہ اس وقت ستارہ ذُوالسِّنِیْن طلوع کرے گا۔ یعنی ان برسوں کا ستارہ جو پہلے گزر چکے ہیں۔ یعنی وہ ستارہ جو مسیح ناصری کے ایام (برسوں) میں طلوع ہوا تھا۔ اب وہ ستارہ بھی طلوع ہو گیا جس نے یہودیوں کے مسیح کی اطلاع آسمانی طور سے دی تھی۔ اسی طرح قرآن شریف کے دیکھنے سے بھی پتہ لگتا ہے وَاِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾ وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾ وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۷﴾ وَاِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾ وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۹﴾ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۱۰﴾ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۱﴾ ’’ (یہ ساری پیشگوئیاں قرآن کریم میں ہیں کہ وحشی اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس کی مختلف تشریح ہے۔ یہ بھی ہے کہ چڑیا گھر قائم ہوگئے۔ یہ بھی ہے کہ تعلیم عام ہو کے دنیا میں پھیل گئی۔ یہ بھی ہے کہ بعض مقامی لوگوں کو بعض قوموں نے حملہ کر کے ختم کر دیا۔ پھر سمندروں کے ملائے جانے کا بھی ہے۔ لوگوں کے ملائے جانے کا بھی ہے۔ اب رابطے کے آسان ترین طریقے ہو گئے ہیں اور اب تو ایک سیکنڈ میں دنیا میں ہر جگہ رابطے ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ عورت جس پہ اس وقت جو ظلم ہوتا تھا۔ اس کے حقوق مارے جاتے تھے۔ قتل کی جاتی تھی وہ سوال کرے گی کہ کس جرم میں مجھے قتل کیا جا رہا ہے؟ صحیفے نشر کیے جائیں گے۔ پریس میڈیا ہے یہ ساری چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور قرآن شریف میں اس کی پیشگوئیاں موجود ہیں) آپ فرماتے ہیں ‘‘یعنی اس زمانہ میں اونٹنیاں بیکار ہو جاویں گی ۔اعلیٰ درجہ کی سواری اور باربرداری جن سے ایام سابقہ میں ہوا کرتی تھی یعنی اس زمانہ میں سواری کا انتظام کوئی ایسا عمدہ ہو گا’’ (یعنی مسیح کے زمانے میں) ‘‘کہ یہ سواریاں بیکار ہو جائیں گی۔ اس سے ریل کا زمانہ مراد تھا’’ (اور یہ بھی آپؑ کی ایک پیشگوئی تھی تو اس کے مطابق اب تو ریل مدینہ اور مکہ کے درمیان بھی چل پڑی ہے یا ریلوے لائن بچھا دی گئی ہے۔) فرماتے ہیں کہ ‘‘وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ ان آیات کا تعلق قیامت سے ہے وہ نہیں سوچتے کہ قیامت میں اونٹنیاں حمل دار کیسے رہ سکتی ہیں کیونکہ عِشَار سے مراد حمل دار اونٹنیاں ہیں۔ پھر لکھا ہے کہ اُس زمانہ میں چاروں طرف نہریں نکالی جائیں گی اور کتابیں کثرت سے اشاعت پائیں گی۔ غرضیکہ یہ سب نشان اسی زمانہ کے متعلق تھے۔ ’’
(ملفوظات جلد 1صفحہ49،50)
پھر آپؑ مزید دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مسیح موعود نے کہاں مبعوث ہونا تھا؟ ‘‘اب رہا مکان کے متعلق۔ سو یاد رہے کہ دجال کا خروج مشرق میں بتایا گیا ہے جس سے ہمارا ملک مراد ہے۔ چنانچہ صاحب حجج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان میں ہو رہا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ظہور مسیح اسی جگہ ہو جہاں دجال ہو۔ پھر اس گاؤں کا نام قدعہ قرار دیا ہے جو قادیان کا مخفف ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یمن کے علاقہ میں بھی اس نام کا کوئی گاؤں ہو۔’’ آپؑ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یمن کے علاقے میں بھی اس نام کا کوئی گاؤں ہو۔ کہا جاتا ہے ‘‘لیکن یہ یاد رہے کہ یمن حجاز سے مشرق میں نہیں بلکہ جنوب میں ہے۔’’
فرمایا کہ ‘‘… اس کے علاوہ خود قضاء و قدر نے اس عاجز کا نام جو رکھوایا ہے تو وہ بھی ایک لطیف اشارہ اس طرف رکھتا ہے کیونکہ غلام احمد قادیانی کے عدد بحساب جمل پورے تیرہ سو نکلتے ہیں۔’’ (جو حروف ابجد کے نمبر بنتے ہیں اس کے حساب سے یہ تیرہ سو نکلتے ہیں) ‘‘یعنی اس نام کا امام چودھویں صدی کے آغاز پر ہو گا۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اسی طرف تھا۔’’
(ملفوظات جلد 1صفحہ50)
پھر آپؑ نشانات کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ ‘‘حوادث بھی ایک علامت تھی’’ (مختلف قسم کی آفتیں آئیں گی، حادثات ہوں گے۔) فرمایا کہ ‘‘حوادثِ سماوی نے قحط، طاعون اور ہیضہ کی صورت پکڑ لی۔ طاعون وہ خطرناک عذاب ہے کہ اس نے گورنمنٹ تک کو زلزلہ میں ڈال دیا’’ (جس زمانے میں آپؑ بیان فرما رہے ہیں اس زمانے میں یہ پانچ چھ سال رہا اور بڑی خوفناک تباہی پھیلائی) ‘‘اور اگر اس کا قدم بڑھ گیا تو ملک صاف ہو جائے گا’’ (اتنی تیزی سے پھیل رہا تھا۔) پھر فرماتے ہیں کہ ‘‘ارضی حوادث، لڑائیاں، زلازل تھے جنہوں نے ملک کو تباہ کیا’’ (اور زمینی لڑائیاں تو ابھی بھی اسی طرح جاری ہیں۔) ‘‘مامور من اللہ کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ وہ اپنے ثبوت میں آسمانی نشان دکھاوے۔’’ فرمایا کہ ‘‘ایک لیکھرام کا نشان کیا کچھ کم نشان تھا؟ ایک کُشتی کے طور پر کئی سال تک ایک شرط بدھی رہی۔ پانچ سال تک برابر جنگ ہوتا رہا۔طرفَین نے اشتہار دیے، عام شہرت ہو گئی’’ (ہر طرف لیکھرام کا واقعہ مشہور ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مقابلہ ہو رہا ہے)۔ ‘‘ایسی شہرت کہ جس کی مثال بھی محال ہے۔ پھر ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے کہ کہا گیا تھا۔ کیا اس واقعہ کی کوئی اَور نظیر ہے؟ دھرم مہوتسو کے متعلق بھی کئی دن پہلے اعلان کیا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ ہمارا مضمون سب پر غالب رہے گا۔ جن لوگوں نے اس عظیم الشان اور پُر رعب جلسہ کو دیکھا ہے وہ خود غور کر سکتے ہیں کہ ایسے جلسہ میں غلبہ پانے کی خبر پیش از وقت دینی کوئی اٹکل یا قیاس نہ تھا۔ پھر آخر وہی ہوا جیسے کہا گیا۔’’
(ملفوظات جلد 1صفحہ50 تا 51)
آپ کی کتاب جو ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ ہے یہ اس کے بارے میں تھا۔ اس کے بارے میں اس زمانے کا ایک اخبار جنرل وگوہر آصفی کلکتہ ہے۔ اس کا ایک بیان پڑھ دیتا ہوں۔ وہ لکھتا ہے کہ ‘‘اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے رو برو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔’’
(تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 572)
اب یہ لکھنے والا کوئی احمدی نہیں بلکہ ایک غیر ہے لیکن مجبور ہوئے اور غیروں کے بھی حوالے دے رہے ہیں اور اس طرح کے بے شمار اخباروں نے لکھا۔
پھر آپؑ مامورِ الٰہی ہونے کی شہادتیں پیش کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ
‘‘غرض اس وقت میرے مامور ہونے پر بہت سی شہادتیں ہیں۔ اول: اندرونی شہادت۔ دوم: بیرونی شہادت۔ سوم: صدی کے سر پر آنے والے مجدد کی نسبت حدیث صحیح۔ چہارم: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر:10) کا وعدہ حفاظت۔ اب پانچویں اور زبردست شہادت میں اَور پیش کرتا ہوں اور وہ سورۂ نور میں وعدۂ استخلاف ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے۔’’ (پہلے بھی ذکر ہو گیا کہ) ‘‘ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ (النور:56) اس آیت میں وعدۂ استخلاف کے موافق جو خلیفےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ہوں گے وہ پہلے خلیفوں کی طرح ہوں گے۔ اسی طرح قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا (المزّمّل:16) اور آپؐ مثیلِ موسیٰ استثنا کی پیشگوئی کے موافق بھی ہیں۔’’ (بائبل میں پیشگوئی ہے۔) ‘‘پس اس مماثلت میں جیسے کَمَا کا لفظ فرمایا گیا ہے ویسے ہی سورۂ نور میں کَمَا کا لفظ ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسوی سلسلہ اور محمدی سلسلہ میں مشابہت اور مماثلت تامہ ہے۔ موسوی سلسلہ کے خلفاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آ کر ختم ہو گیا تھا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آئے تھے۔ اس مماثلت کے لحاظ سے کم از کم اتنا تو ضروری ہے کہ چودھویں صدی میں ایک خلیفہ اسی رنگ و قوت کا پیدا ہو جو مسیح سے مماثلت رکھتا ہو اور اس کے قلب اور قدم پر ہو۔ پس اگر اللہ تعالیٰ اس امر کی اَور دوسری شہادتیں اور تائیدیں نہ بھی پیش کرتا تو یہ سلسلہ مماثلت بالطبع چاہتا تھا کہ چودھویں صدی میں عیسوی بروز آپؐ کی امت میں ہو ورنہ آپؐ کی مماثلت میں معاذاللہ ایک نقص اور ضعف ثابت ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس مماثلت کی تصدیق اور تائید فرمائی بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ مثیل موسیٰ موسیٰ سے اور تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تر ہے۔’’ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل تر ہیں۔)
فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اپنی کوئی شریعت لے کر نہ آئے تھے بلکہ توریت کو پورا کرنے آئے تھے۔ اسی طرح پر محمدی سلسلہ کا مسیح اپنی کوئی شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ قرآن شریف کے احیاء کے لیے آیا ہے۔’’ (اس کو زندہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم پھیلانے کے لیے آیا ہے) ‘‘اور اس تکمیل کے لیے آیا ہے جو تکمیل اشاعتِ ہدایت کہلاتی ہے۔’’
(ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 9-10)
پھر آپؑ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ ‘‘تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اِتمامِ نعمت اور اِکمالُ الدین ہوا’’ (تھا یعنی دین اپنے کمال کو پہنچ گیا اور نعمت اپنے انتہا کو پہنچ گئی جہاں تک پہنچ سکتی تھی) ‘‘تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول تکمیلِ ہدایت دوسری تکمیلِ اشاعتِ ہدایت۔’’ آپؑ فرماتے ہیں ‘‘تکمیلِ ہدایت من کلِّ الوجوہ آپؐ کی آمدِ اوّل سے ہوئی’’ (ہدایت کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے، شریعت اترنے سے ہوئی) ‘‘اور تکمیل اشاعت ہدایت’’ (اس ہدایت کی، شریعت کی جو اشاعت ہونی ہے وہ) ‘‘آپؐ کی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۂ جمعہ میں جو آخرین منھم والی آیت آپؐ کے فیض اور تعلیم سے ایک اَور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی ایک بعثت اَور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے۔’’ (ایک ظلّی ہے) ‘‘جو اس وقت ہو رہی ہے۔ پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہو رہے ہیں۔ چھاپہ خانوں کی کثرت’’ (ہے۔ پریس بے شمار ہے) ‘‘اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہونا’’ (پریس میں بھی زیادہ سہولتیں مل رہی ہیں۔ بلکہ جدید ٹیکنالوجی اس میں استعمال ہو رہی ہے) ‘‘ڈاکخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کا اجرا اور اخبارات کی اشاعت، ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے۔ پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپؐ کی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت پورا ہو رہا ہے۔’’
(ملفوظات جلد 4صفحہ9-10)
اور فرماتے ہیں کہ ‘‘اب ان تمام امور کو یکجا کر کے دانشمند غور کرے کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں کیا وہ اس قابل ہے کہ سرسری نگاہ سے اسے ردّ کر دیا جائے؟ یا یہ کہ اس پر پورے غور اور فکر سے کام لیا جاوے۔ جو کچھ ہمارا دعویٰ ہے کیا یہ صدی کے سر پر ہے یا نہیں؟ اگر ہم نہ آتے تب بھی ہر ایک عقل مند اور خدا ترس کو لازم تھا کہ وہ کسی آنے والے کی تلاش کرتا کیونکہ صدی کا سر آ گیا تھا اور اب تو جبکہ بیس برس گزرنے کو ہیں اَور بھی زیادہ فکر کی ضرورت تھی۔ موجودہ فساد اپنی جگہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ کوئی شخص اس کی اصلاح کے لیے آنا چاہیے۔’’ فرمایا کہ ‘‘عیسائیت نے وہ آزادی اور بے قیدی پھیلائی ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں ہے اور مسلمانوں کے بچوں پر جو اس کا اثر ہوا ہے اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے ہی نہیںہیں۔’’(ملفوظات جلد 4صفحہ13-14)
آپؑ فرماتے ہیں کہ حق معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہونا چاہیے؟کس طرح حق معلوم کرو؟ فرماتے ہیں ‘‘خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصّب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہار کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گزرے گا’’ (چالیس دن نہیں گزریں گے) ‘‘کہ اس پر حق کھل جائے گا مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان شرائط کے ساتھ خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضد و تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کرا لیتے ہیں کیونکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لیے بطور میخ کے ہے اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے۔’’ (ملفوظات جلد 4صفحہ16)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان چند حوالوں کے بعد اب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مختلف حوالے پیش کرتا ہوں جو آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں مختلف جگہوں پر پیش فرمائے۔ ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے اور جب مخالفت بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیدات اور نصرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں’’۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب کوئی دوست یہ ذکر کرتے کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپؑ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے۔ جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت بھی بڑھتی ہے کیونکہ مخالفت کے نتیجہ میں کئی ناواقف لوگوں کو بھی سلسلہ سے واقفیت ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان کے دل میں سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ کتابیں پڑھتے ہیں تو صداقت ان کے دلوں کو موہ لیتی ہے۔’’
فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپؑ کی بیعت کی۔ بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی؟ وہ بے ساختہ کہنے لگے کہ مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے۔’’ (جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مخالف تھے۔) ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حیرت سے فرمایا وہ کس طرح؟’’ کہتے ہیں ‘‘وہ کہنے لگے میں مولوی صاحب کا اخبار اور ان کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور مَیں ہمیشہ دیکھتا کہ ان میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلہ کی کتابیں دیکھوں’’ (اتنی مخالفت جو ہورہی ہے تو کتابیں دیکھوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کیا ہے) ‘‘کہ ان میں کیا لکھا ہے۔ اور جب میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لیے تیار ہو گیا۔ تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الٰہی سلسلہ کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آ جاتی ہے۔’’
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 487)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کے حوالے سے کہ انبیاء کس طرح اپنی مخالفت پر ردّ عمل دکھاتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرمایا کرتے تھے۔ پہلے تو مصری حکومت کی پرانے زمانے کی مثال دی ہے۔
آپؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘مصری حکومت اپنے زمانہ میں نہایت نامور حکومت تھی اور اس کا بادشاہ اپنی طاقت و قوت پر ناز رکھتا تھا’’ (فرعون تھے وہاں کے) ‘‘ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو گو بادشاہ نے ان کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی مٹا دیا جائے گا اور تمہاری قوم کو بھی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام باز نہ آئے اور انہوں نے کہا کہ جو پیغام مجھے خدا نے دنیا کے لیے دیا ہے وہ میں ضرور پہنچاؤں گا۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے روک نہیں سکتی’’ فرماتے ہیں کہ ‘‘یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تھا۔ یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ایسی ہی حالت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دیکھی۔ ساری قومیں آپؑ کی مخالف تھیں۔ حکومت بھی ایک رنگ میں آپؑ کی مخالف ہی تھی گو آخری زمانہ میں یہ رنگ نہیں رہا’’ (تھا۔ مخالفت میںکچھ کمی ہو گئی تھی۔) ‘‘بہرحال قومیں آپؑ کی مخالف تھیں۔ تمام مذاہب کے پیرو آپؑ کے مخالف تھے۔ مولوی آپؑ کے مخالف تھے۔ گدی نشین آپؑ کے مخالف تھے۔ عوام آپؑ کے مخالف تھے اور امراء اور خواص بھی آپؑ کے دشمن تھے۔ غرض چاروں طرف مخالفت کا ایک طوفان برپا تھا۔ لوگوں نے آپؑ کو بہت کچھ سمجھایا بعض نے دوست بن بن کر کہا کہ آپؑ اپنے دعووں میں کسی قدر کمی کر دیں۔ بعض نے کہا کہ اگر آپؑ فلاں فلاں بات چھوڑ دیں تو سب لوگ آپؑ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے مگر آپؑ نے ان میں سے کسی کی بھی پروا نہ کی اور ہمیشہ اپنے دعویٰ کو پیش فرماتے رہے۔ اس پر شور ہوتا رہا۔ ماریں پڑتی رہیں۔ قتل ہوتے رہے مگر باوجود ان تمام تکالیف کے’’ (اور یہ اب تک جاری ہیں) ‘‘اور باوجود اس کے کہ آپؑ کا مقابلہ ایک ایسی دنیا سے تھا جس کا مقابلہ کرنے کی ظاہری سامانوں کے لحاظ سے آپؑ میں قطعاً طاقت نہ تھی پھر بھی آپؑ نے اپنے مقابلہ کو جاری رکھا بلکہ مجھے خوب یاد ہے۔’’ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ‘‘میں نے متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا کہ نبی کی مثال تو ویسی ہی ہوتی ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک پاگل عورت رہتی تھی جب بھی وہ باہر نکلتی چھوٹے چھوٹے لڑکے اکٹھے ہو کر اسے چھیڑنے لگ جاتے۔ اس کے ساتھ مذاق کرتے’’ (اسے تنگ کرتے) ‘‘… اسے بار بار تنگ کرتے۔ وہ بھی مقابلہ میں ان لڑکوں کو گالیاں دیتی اور بددعائیں دیتی۔ آخر ایک دن گاؤں والوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ عورت مظلوم ہے اور ہمارے لڑکے اسے ناحق تنگ کرتے رہتے ہیں۔ مظلومیت کی حالت میں یہ انہیں بددعائیں دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو اس کی بددعائیں کوئی رنگ لائیں’’ (قبول ہو جائیںکہیں) ‘‘ہمیں چاہیے کہ اپنے لڑکوں کو روک لیں تا کہ نہ وہ اسے تنگ کریں اور نہ یہ بددعائیں دے۔ چنانچہ اس مشورہ کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کل سے سب گاؤں والے اپنے لڑکوں کو گھروں میں بند رکھیں اور انہیں باہر نہ نکلنے دیں۔ چنانچہ دوسرے دن سب لوگوں نے اپنے اپنے لڑکوں سے کہہ دیا کہ آج سے باہر نہیں نکلنا اور مزید احتیاط کے طور پر انہوں نے باہر کے دروازوں کی زنجیریں لگا دیں’’ (تالے لگا دیے۔) ‘‘جب دن چڑھا اور وہ پاگل عورت حسبِ معمول اپنے گھر سے نکلی تو کچھ عرصہ تک وہ ادھر ادھر گلیوں میں پھرتی رہی۔ کبھی ایک گلی میں جاتی اور کبھی دوسری’’ (گلی) ‘‘میں مگر اسے کوئی لڑکا نظر نہ آیا۔ پہلے تو یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کوئی لڑکا اس کے دامن کو گھسیٹ رہا ہے۔ کوئی اسے چٹکی کاٹ رہا ہے۔ کوئی اسے دھکا دے رہا ہے۔ کوئی اس کے ہاتھوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور کوئی اس سے مذاق کر رہا ہے مگر آج اسے کوئی لڑکا دکھائی نہ دیا۔ دوپہر تک تو اس نے انتظار کیا مگر جب دیکھا کہ اب تک بھی کوئی لڑکا اپنے گھر سے نہیں نکلا تو وہ دکانوں پر گئی اور ہر دکان پر جا کر کہتی کہ آج تمہارا گھر گر گیا ہے؟ بچے مر گئے ہیں؟ آخر کیا ہوا کیا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے؟ تھوڑی دیر کے بعد جب اس طرح اس نے ہر دکان پر جا کر کہنا شروع کیا تو لوگوں نے کہا گالیاں تو اس طرح بھی ملتی ہیں اور اس طرح بھی۔ چھوڑو بچوں کو۔ ان کو قید کیوں کر رکھا ہے۔ آپؑ یہ حکایت بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کا حال بھی اپنے رنگ میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ دنیا ان کو چھیڑتی ہے۔ تنگ کرتی ہے۔ ان پر ظلم و ستم ڈھاتی ہے اور اس قدر ظلم کرتی ہے کہ ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایک طبقہ کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ لوگ ظلم سے کام لے رہے ہیں۔ انہیں نہیں چاہیے کہ ایسا کریں مگر فرمایا وہ بھی دنیا کو نہیں چھوڑ سکتے۔ جب دنیا ان کو نہیں ستاتی تو وہ خود اس کو جھنجھوڑتے اور بیدار کرتے ہیں تا کہ دنیا ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی باتوں کو سنے۔’’
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 24 صفحہ 272 تا 274)
چاہے وہ کسی طرح سنے۔ مخالفت میں بھی پھر اچھے لوگ نکل آتے ہیں۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ ‘‘مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جوانی کے دوست اور آپؑ سے تعلق رکھنے والے تھے اور جو ہمیشہ آپؑ کے مضامین کی تعریف کیا کرتے تھے انہوں نے اس دعوے کے معاً بعد، (آپؑ کے دعوے کے معاً بعد) یہ اعلان کیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اسے تباہ کر دوں گا۔ اس وقت کون تصوّر کر سکتا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی جیسا معزز اور بارسوخ انسان کسی کے متعلق یہ کہے کہ میں اسے تباہ کر دوں گا اور پھر وہ تباہ بھی نہ ہو۔’’ (وہ یقینًا ایسے زور والے انسان تھے کہ جب کہتے تھے تو کربھی سکتے تھے۔)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے رشتہ داروں نے بھی اعلان کر دیا بلکہ بعضوں نے، (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رشتہ داروں نے) اخبارات میں یہ اعلان بھی چھپوا دیا کہ اس شخص نے دکانداری چلائی ہے۔ اس کی طرف کسی کو توجہ نہیں کرنی چاہیے اور اس طرح ساری دنیا کو انہوں نے بدگمان کرنے کی کوشش کی۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ بہت سے کام کرنے والے لوگوں نے جو زمیندارا انتظام میں کمّی کہلاتے ہیں آپؑ کے گھر کے کاموں سے انکار کر دیا۔ (جو آپؑ کے ملازم تھے انہوں نے بھی کام سے بالکل انکار کردیا) اس کے محرک دراصل ہمارے رشتہ دار ہی تھے۔ غرض اپنوں اور بیگانوں نے مل کر آپؑ کو مٹانا اور آپ کو تباہ و برباد کرنا چاہا۔
(ماخوذ از الفضل 13 نومبر 1940ء صفحہ 2-3 جلد 28 نمبر 258)
لیکن ہوا کیا! آج آپ کا نام دنیا کے 212 ممالک میں لیا جاتا ہے۔ یہ آپؑ کی صداقت نہیں تو اَور کیا ہے؟
پھر ایک اَور نشان صداقت بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور آپؑ کا وجود ہمارے لیے آیات مبینات بن گیا۔ جو شخص بھی آپؑ کے پاس بیٹھا اس کو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نظر آ گئی اور کوئی چیز اس کو اسلام سے ہٹانے والی نہ رہی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھیں والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا۔ آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور کچھ نہ کچھ سزا دے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب نے جب یہ بات سنی تو ڈر گئے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گورداسپور حاضر ہوئے جہاں مقدمے کے دوران میں آپؑ ٹھہرے ہوئے تھے اور کہنے لگے کہ حضور بڑے فکر کی بات ہے۔ آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے۔ آپؑ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب! خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے! میں خدا کا شیر ہوں۔ وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔’’ فرماتے ہیں ‘‘دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ پیش ہوا اور ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی۔ (جو آپؑ کے خلاف کرنا چاہتے تھے) ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مر گیا اور وہ اسی غم میں نیم پاگل ہو گیا۔ اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا، حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیںکہ ایک دفعہ میں دہلی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانے کے سٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاح سے، (بڑی لجاجت سے، بڑے درد سے) کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے۔ مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں۔ آپؓ نے فرمایا کہ انہوں نے کہا کہ میرا ایک بیٹا ہے دعا کریں، (ایک بیٹا تو مرگیا۔ اب ایک بیٹا اور ہے دعا کریں) کہ اللہ تعالیٰ اسے اور مجھے دونوں کو ہی تباہی سے بچائے (جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تھا)۔ آپؓ لکھتے ہیں کہ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو ان کے مقصد میں ناکامی ہوئی ۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 359)
پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ ‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ آپؑ کے ایک دوست تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے۔ ان کا نام نظام الدین تھا۔ انہوں نے سات حج کیے تھے۔ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے۔ چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اس لیے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ ماموریت کیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپؑ پر کفر کا فتوی لگایا تو ان کے دل کو بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیکی پر بہت یقین تھا۔ وہ لدھیانہ میں رہا کرتے تھے اور مخالف لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کچھ کہتے تو وہ ان سے جھگڑ پڑتے اور کہتے کہ تم پہلے حضرت مرزا صاحب کی حالت تو جا کر دیکھو وہ تو بہت ہی نیک آدمی ہیں۔ اور میں نے ان کے پاس رہ کر دیکھا ہے کہ اگر انہیں قرآن مجید سے کوئی بات سمجھا دی جائے تو وہ فورًا ماننے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ فریب ہرگز نہیں کرتے۔’’ (کبھی دھوکانہیں کرتے) ‘‘اگر انہیں قرآن کریم سے سمجھا دیا جائے گا کہ ان کا دعویٰ غلط ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ فورًا مان جائیںگے۔ بہت دفعہ وہ لوگوں کے ساتھ اس امر میں جھگڑتے اور کہا کرتے تھے کہ جب میں قادیان جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے دعویٰ سے توبہ نہیں کرتے۔ میں قرآن کھول کران کے سامنے رکھ دوں گا اور جس وقت میں قرآن کی کوئی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق بتاؤں گا تو وہ فورًا مان جائیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ میں خوب جانتا ہوں کہ وہ قرآن کی بات سن کر پھر کچھ نہیں کہا کرتے۔ آخر ایک دن انہیں خیال آیا اور لدھیانے سے قادیان پہنچے۔ آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ کیا آپؑ نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور قرآن سے انکار کر دیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ قرآن کو تو میں مانتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے۔ کہنے لگے کہ الحمد للہ۔ میں لوگوں سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ وہ قرآن کو چھوڑ ہی نہیں سکتے۔ پھر کہنے لگے اچھا اگر میں قرآن مجید سے سینکڑوں آیتیں اس امر کے ثبوت میں دکھا دوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سینکڑوں آیات کا کیا ذکر ہے۔ اگر آپ ایک ہی آیت مجھے ایسی دکھا دیں گے تو میں مان لوں گا۔ کہنے لگے الحمد للہ۔ میں لوگوں سے یہی بحث کرتا آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ سے منوانا تو کچھ مشکل بات نہیں ہے۔ یونہی لوگ شور مچاتے ہیں۔
پھر کہنے لگے اچھا سینکڑوں نہ سہی مَیں اگر سو آیتیں ہی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کر دوں تو کیا آپؑ مان لیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ ایک ہی آیت ایسی پیش کر دیں گے تو میں مان لوں گا۔ قرآن مجید کی جس طرح سو آیتوں پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک یا سو آیتوں کا سوال ہی نہیں۔ کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو کیا آپ کا وعدہ رہا کہ آپؑ اپنی بات چھوڑ دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک ہی آیت پیش کریں میں ماننے کے لیے تیار ہوں۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جوں جوں اس امر پر پختگی کا اظہار کرتے جائیں انہیں شبہ ہوتا جائے کہ شاید اتنی آیتیں قرآن میںنہ ہوں۔ آخر کہنے لگے اچھا دس آیتیں اگر میں پیش کر دوں تو پھر ضرور مان جائیںگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا میں تو اپنی پہلی ہی بات پر قائم ہوں۔ آپ ایک آیت ہی پیش کریں۔ کہنے لگے اچھا اب میں جاتا ہوں چار پانچ دن تک آؤںگا اور آپؑ کو قرآن سے ایسی آیتیں دکھلا دوں گا۔ ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور میں تھے اور حضرت خلیفہ اول بھی وہیں تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس وقت مباحثے کے لیے شرائط کا تصفیہ ہو رہا تھا جس کے لیے آپس میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی۔ مباحثے کا موضوع وفات مسیح تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ کہتے تھے کہ چونکہ قرآن مجید کی مفسِّر حدیث ہے اس لیے جب حدیثوں سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کی ہی بات سمجھی جائے گی۔ اس لیے حدیثوں کی رو سے وفات و حیات مسیح پر بحث ہونی چاہیے اور حضرت مولوی صاحبؓ فرماتے تھے کہ قرآن مجید حدیث پر مقدم ہے۔ اس لیے بہر صورت قرآن سے ہی اپنے مدعا کو ثابت کرنا ہوگا۔ اس پر بہت دنوں بحث رہی اور بحث کو مختصر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ تا کسی نہ کسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ ہو جائے حضرت خلیفہ اولؓ اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرتے چلے گئے کہ ٹھیک ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے اور مولوی محمد حسین بہت خوش تھے کہ جو شرائط میں منوانا چاہتا ہوں وہ مان رہے ہیں۔
اس دوران میں میاں نظام الدین صاحب بھی وہاں پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب رخصت ہوئے تو ان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے اب تمام بحثیں بند کر دو۔ میں اب حضرت مرزا صاحبؑ سے مل کر آیا ہوں اور وہ بالکل توبہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ میں چونکہ آپ کا بھی دوست ہوں اور مرزا صاحبؑ کا بھی اس لیے مجھے اس اختلاف سے بہت تکلیف ہوئی ہے۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی طبیعت میں نیکی ہے اس لیے میں ان کے پاس گیا اور ان سے وعدہ لے کر آیا ہوں کہ قرآن سے دس آیتیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق دکھا دی جائیں تو وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو جائیں گے۔ آپ مجھے ایسی دس آیتیں بتلا دیں۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طبیعت میں بڑا غصہ تھا۔ وہ بہت جلدباز تھے۔ اسے اپنے دوست کو کہنے لگے کہ کمبخت تو نے میرا سارا کام خراب کر دیا۔ میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تو پھر قرآن کی طرف لے گیا ہے۔ میاں نظام الدین کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں بھی آپ کی تائید میں نہیں ہیں! وہ کہنے لگا تُو جاہل آدمی ہے تجھے کیا پتہ کہ قرآن کا کیا مطلب ہے؟ جب یہ باتیں مولوی صاحب نے میاں نظام الدین کو کہہ دیں تو وہ کہنے لگا اچھا تو پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں بھی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ تو اس طرح ان کی بیعت کا واقعہ تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں دیکھو قرآن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قدر اعتماد تھا اور آپؑ کتنے وثوق سے فرماتے تھے کہ قرآن آپؑ کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قرآن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے یا اس کا جماعت احمدیہ سے خاص تعلق ہے۔ قرآن تو سچائی کی راہ دکھائے گا اور جو فریق سچ پر ہو گا اس کی حمایت کرے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ یقین تھا کہ آپؑ حق پر ہیں اس لیے قرآن بھی آپؑ کے ساتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرا کوئی دعویٰ قرآن کے مطابق نہ ہو تو مَیں اسے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دوں۔ اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعوے کے متعلق کوئی شبہ تھا بلکہ یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپؑ کو یقین تھا کہ قرآن میری تصدیق ہی کرے گا۔ یہ امید ہے جس نے ہمیں دنیا میں کامیاب کر دیا ہے۔
(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 13 صفحہ 416 تا 418)
اور یہ آج بھی ہماری کامیابیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا ذریعہ ہے اور یقینًا قرآن ہمارے ہی ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
‘‘یقینا یاد رکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں۔ اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اس کو ضرور قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کرے گا۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق مسیح موعود ہو کر آیا ہوں۔ چاہو تو قبول کرو چاہو تو ردّ کرو۔ مگر تمہارے ردّ کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے براہین میں فرما دیا ہے صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔’’(ملفوظات جلد 1صفحہ206)
کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کہا ہے وہ سچ ہوا اور خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہوتا ہے۔
اب میں گزشتہ جمعہ کو نیوزی لینڈ میں جو واقعہ ہوا تھا اس کے بارے میں تھوڑا سا کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ جمعہ ہی کہنا تھا لیکن آخر میں وہ ذہن سے نکل گیا۔ بہرحال اس کے بعد مَیں نے ایک پریس ریلیز دلوا دی تھی جہاں جماعت کی طرف سے اس پر اظہار افسوس کیا گیا تھا کہ کئی بے گناہ اور معصوم اور بچے مذہبی اور قومی منافرت کی بھینٹ چڑھ گئے اور شہید کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم فرمائے۔ ان سے رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔
کچھ باتیں بعد میں بھی آ گئیں تو اس موقع پر نہ بیان کرنےکا فائدہ اس لحاظ سے ہوگیا کہ نیوزی لینڈ کی حکومت نے اور خاص طور پر وزیراعظم نے جن اعلیٰ ترین اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت کے فرائض ادا کرنے کا حق ادا کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ کاش کہ مسلمان حکومتیں بھی اس سے سبق لیں اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے والی ہوں۔ وہاں کے عوام نے بھی پورا ساتھ دیا۔ سنا ہے کہ آج جمعہ کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جمعہ کے وقت میں مسلمانوں سے یکجہتی کے سلوک کے طور پر، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اذانیں بھی دی جائیں گی۔ غیر مسلم عورتوں نے، عیسائی عورتوں نے بھی یکجہتی کے اظہار کے طور پر سر پر سکارف اور دوپٹہ لینے کا اعلان کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان نیکیوں کو قبول کرتے ہوئے ان کو سچائی اور حق پہچاننے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
وہاں مسجد میں بہت سے لوگ جو مسلمان تھے جن کو اس ظالم قاتل نے شہید کیا ان میں سے ایک خاتون کا ٹی وی انٹرویو آ رہا تھا اور غیر معمولی صبر اور حوصلہ اس نے دکھایا۔ ان کا خاوند بھی اور 21 سالہ نوجوان بیٹا بھی اس کی بھینٹ چڑھ گئے اور وہ اس طرح کہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جان دی ہے تو بہرحال ایک نیکی کی خاطر اور نیک مقصد کی خاطر جان دی۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحم کا سلوک فرمائے۔ یہ ایک انتہائی قابل افسوس واقعہ ہے اور وہاں کے مسلمانوں نے تو بڑے صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے اور یہی ایک مسلمان سے توقع کی جا سکتی ہے اور یہی ایک اظہار ہے جو مسلمان کو کرنا چاہیے لیکن بعض شدت پسند گروہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے حالانکہ انتہائی غلط چیزہے۔ اس طرح تو دشمنیاں چلتی چلی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اسلام کے اندر جو شدت پسند گروہ ہیں ان کا بھی خاتمہ ہو اور اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلے اور مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرمائے کہ ان کی اکثریت بلکہ تمام ہی زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں اور تا کہ پھر ایک ہو کر دنیا میں اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم کو پھیلایا جا سکے۔
اس کے علاوہ نمازوں کے بعد مَیں کچھ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ ہے مولانا خورشید احمد انور صاحب کا جو قادیان میں تحریک جدید کے وکیل المال تھے۔ 19؍مارچ کو 73 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ایک لمبے عرصے سے کینسر کی وجہ سے علیل تھے لیکن بڑے صبر اور ہمت اور حوصلے کے ساتھ آپ نے اس بیماری کا سامنا کیا، اس بیماری کو برداشت کیا۔ شدید بیماری اور کمزوری کے باوجود اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ باقاعدگی سے دفتر آتے۔ بلکہ اپنے وقف کو آخر دم تک احسن رنگ میں جس حد تک کوشش ہو سکتی تھی نبھانے کی کوشش کی بلکہ میں سمجھتا ہوں جس طرح حق ادا کرنا چاہیے تھا وہ حق ادا کیا۔ مرحوم عبدالعظیم صاحب درویش قادیان اور رئیسہ بیگم صاحبہ کے بیٹے تھے اور پنڈی بھٹیاں سے ان کا تعلق تھا۔ ان کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے والد کو قبول احمدیت کی توفیق نصیب ہوئی۔ بیعت کے بعد آپ کے دادا نے ان کی شدید مخالفت کی اور زدوکوب کیا۔ پھر انہوں نے قادیان ہجرت کی اور یہیں مستقل قیام کیا۔ آپ کا بچپن قادیان کے ماحول میں بزرگ صحابہؓ اور درویشان قادیان کی صحبت میں گزرا۔ میٹرک تعلیم الاسلام سکول قادیان سے کیا۔ پھر مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1967ء میں مدرسہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور مدرسہ احمدیہ قادیان میں ہی پہلا تقرر بحیثیت ٹیچر کے ہوا۔ اس کے بعد 1982ء میں مینیجر بدر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ ایڈیٹر بدر بھی رہے۔ 1989ءمیں بحیثیت ناظم ارشاد وقف جدید قادیان خدمت کی توفیق پائی۔ اسی طرح نائب ناظر اشاعت، صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت، نائب ناظر بیت المال آمد کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 2006ء میں انہیں مَیں نے وکیل المال تحریک جدید مقرر کیا تھا اور اس عہدے پر یہ وفات تک بڑے احسن رنگ میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی طرح کئی اہم مرکزی کمیٹیوںکے صدر اور ممبر بھی رہے۔ انتظامی صلاحیت ان میں بڑی اچھی تھی اور بشاشت قلبی اور جانفشانی سے اپنے فرائض کو بڑی اچھی طرح انجام دیتے تھے۔ چندہ تحریک جدید میں بھی بھارت بہت پیچھے تھا اس کی پوزیشن کو انہوں نے مستحکم کیا اور بڑی کوشش کی اور اللہ کے فضل سے قربانیوں کے لحاظ سے بڑا آگے لے آئے۔ سلسلہ کے پیسے کا درد رکھنے والے تھے اور بڑی احتیاط سے خرچ کیا کرتے تھے۔ علمی صلاحیت بھی کمال تھی۔ آپ کے مضامین بڑے عمدہ ہوتے تھے۔ سالہا سال تک اخبار بدر قادیان کی کامیاب ادارت کی توفیق پائی۔ اخبار بدر میں آپ کے اداریے دینی معلومات سے پُر اور اردو کی فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتے تھے۔ حیدرآباد دکن میں ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ادارہ تعمیر ملت تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مقابلہ کراتا تھا اور وہاں بھی ایک دفعہ انہوں نے مضمون لکھا تھا اور پہلا انعام حاصل کیا۔ یہ چالیس سال پرانی بات ہے۔ جوانی کی بات ہے۔ مرحوم بہت سی خوبیوں کے حامل وجو دتھے۔ ملنساری، مہمان نوازی، انتھک محنت ان کے نمایاں وصف تھے۔ جلسہ سالانہ سے قبل بڑی لگن کے ساتھ مہمانوں کی آمد کی تیاری کرتے تھے۔ محدود وسائل ہونے کے باوجود بہت عمدگی سے مہمان نوازی کا انتظام کرتے۔ بڑے صائب الرائے تھے۔ غریبوں کے ہمدرد تھے اور افسران بالا کے انتہائی مطیع۔ خلافت سے گہری وابستگی تھی۔ آپ کا عرصہ خدمت قریباً باون سال پر پھیلا ہوا ہے۔ آپ کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹے ہیں۔ اور بیٹے یہاں ہیں اور ایک بیٹی ان کی امریکہ میں ہے اورایک قادیان میں۔
ان کے داماد خالد احمد الٰہ دین صاحب نے لکھا کہ بیماری کے دنوں میں جب کبھی میں ان کو آرام کرنے کا کہتا تو آپ یہی جواب دیتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میں آخر دم تک خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤں اور اس عہد کو انہوں نے نبھایا۔ اور ان کے نائب صدر مجلس تحریک جدید لکھتے ہیں ان کا طالبعلمی کے زمانہ سے خاکسار کے ساتھ تعلق تھا اور مختلف مواقع پر ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ بحیثیت نائب ناظر بیت المال آمد مقرر ہوئے تو اس وقت موصوف نے خاکسار کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک نہایت عمدگی سے کام کیا۔ نہایت اطاعت گزار، محنتی، دیانتدار تھے اور مالی معاملات پر بڑی گہری نظر رکھنے والے تھے۔ جب ان کو وکیل المال کا چارج دیا گیا ہے تو تحریک جدید کا بجٹ چند لاکھ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں میں چلا گیا۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ طاہر حسین منشی صاحب نائب امیر فجی کا ہے جو 5؍مارچ کو 72 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ فجی جماعت کے دیرینہ خادم تھے۔ بڑا لمبا عرصہ ان کو نائب امیر کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ بہت نیک، دعا گو، مخلص اور باوفا بزرگ انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے، حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ادا کر دیا تھا۔ پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی یادگار چھوڑی ہیں۔ یہ دونوں بچے احمدی نہیں ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے فجی کے تعلیمی شعبہ میں بہت نام کمایا۔ کالج کے پرنسپل رہے۔ منسٹری آف ایجوکیشن میں سیکنڈری پرنسپل ایجوکیشن آفیسر رہے۔ بعدازاں ترقی ہوئی تو ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن ہو گئے اور اسی پوسٹ پر 1999ء میں ان کی ریٹائرمنٹ ہوئی۔ پھر ان کو گورنمنٹ نے دوبارہ ری امپلائی (re-employee)کر لیا اور پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا رُکن بنا دیا جو کچھ عرصہ تک رہے پھر بیماری کے بعد اس سے فراغت ہو گئی۔ قبولیت احمدیت کے بارے میں حامد حسین صاحب صدر جماعت نسروانگا بیان کرتے ہیں کہ منشی صاحب کی پہلی پوسٹنگ 1968ء میں نسروانگا پرائمری سکول میں ہوئی تو میں اس وقت سکول کا سیکرٹری تھا۔ چنانچہ میری ان کے ساتھ دوستی ہو گئی۔ ہم اکثر وقت اکٹھا گزارتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جماعت کے خلاف ہونے کے باوجود وہ احمدیت کی بات سنتے تھے اور بحث بھی کرتے تھے۔ وہ سُنّیوں میں سے تھے۔ منشی صاحب کی بیک گراؤنڈ سنّی تھی اور جب وہ اپنے مولوی کو بحث کے لیے بلاتے تو وہ انکار کر دیتے تھے جس پر ان کو بہت افسوس ہوتا تھا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت فضل کیا اور ان کو امام وقت کو ماننے کی توفیق بھی دی۔ حامد حسین صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ ان کو احسان کس طرح اتارنے کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ منشی صاحب قادیان سے ہو کر لوٹے تو مجھے بتایا کہ میں نے بیت الدّعا میں آپ کے لیے بہت دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے ذریعہ سے اس مقام پر پہنچایا یعنی ا ن کے ذریعہ سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تو بیت الدعا میں گئے تو ان کے لیے دعا کرتے رہے کہ اس شخص نے مجھ پر بہت احسان کیا ہے۔ محسن کے لیے ایسی دعا کا خیال بھی ایک احمدی کو ہی آ سکتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے زمانے میں آپ نے ان کو نائب امیر فجی مقرر کیا تھا۔
نعیم اقبال صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ بڑے باوفا تھے۔ خلافت سے بہت زیادہ وفا کا تعلق تھا۔ دوسروں کو بھی خلافت کے احترام اور اطاعت کی تحریک کرتے تھے۔ اپنا اعلیٰ نمونہ بھی ہر وقت دکھاتے۔ کبھی کسی بات پر اختلاف ہوتا لیکن جب پتا لگتا کہ خلیفۃ المسیح کی رائے اس بارے میں یہ ہے تو فورًا اپنی رائے چھوڑ دیتے۔
تیسرا جنازہ موسیٰ سسکو صاحب کا ہے جو مالی کے باشندے ہیں۔ 15؍ فروری کو ان کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ فوج میں بریگیڈ کمانڈر تھے۔ احمدیت کا تعارف آپ کو جماعت کے ایک رسالے سے ہوا۔ اس کے بعد سکاسو (Sikasso) ریجن کے مبلغ سے مسلسل رابطے میں رہے۔ نومبر 2012ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ 2013ء میں ان کو سکاسو (Sikasso) شہر میں جماعت کے ریڈیو سٹیشن کے آغاز پر ریڈیو کا ڈائریکٹر اور اسی سال صدر جماعت بھی مقرر کیا گیا۔ ریڈیو سٹیشن کے قیام کے بعد سکاسو ریجن میں غیر معمولی مخالفت کا سامنا تھا اس وقت انہوں نے بڑی حکمت اور صبر و تحمل سے حالات کا سامنا کیا اور تمام مسائل کا حل نکالا۔ متعلقہ اتھارٹی سے رابطہ کیا۔ جماعت کا تعارف کروایا۔ اس کے علاوہ 2016ء سے آپ نیشنل عاملہ میں بطور سیکرٹری امور خارجہ خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بیعت کے بعد انہوںنے اپنے آپ کو جماعتی کاموں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ نماز باجماعت کے علاوہ باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے تھے۔ بہت مخلص اور باوفا انسان تھے۔ خلافت سے غیر معمولی محبت تھی اور خلافت کی ہر تحریک پر لبیک کہنے میں پہل کرتے تھے۔ پسماندگان میں دو بیویوں کے علاوہ دس بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے۔ منشی صاحب کی جو اولاد احمدی نہیں ہے اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ وہ بھی زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔
٭…٭…٭