جلسہ سالانہ قادیان، روح پرور تجربات
ڈاکٹر اسامہ عبدالعظیم صاحب مصر سے تعلق رکھنے والے احمدی ہیں۔ جلسہ سالانہ 2018ء کے موقع پر موصوف حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے قادیان سے نشر ہونے والے عربی پروگرام ‘اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح’ میں شرکت کی غرض سے قادیان تشریف لے گئے۔ موصوف پہلے جماعت احمدیہ مسلمہ کے شدید مخالف تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے احسان سے جب انہوں نے جماعت احمدیہ کے بارہ میں تحقیق کی تو اسے سراسر حق پایا اور خلافت احمدیہ کے زیرِ سایہ آجانے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی راستہ نہ بچا! ذیل میں اوّلًا ان کی جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر کی جانے والی تعارفی تقریر کا خلاصہ اور پھر سفرِ قادیان کے بعد ان کی بعض تحریرات کا اردو ترجمہ ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے۔
جلسہ سالانہ قادیان2018ء کے موقع پر تعارفی تقریر
قبولِ احمدیت زندگی میں پہلی بار مجھے قادیان میں حاضر ہونے كی سعادت مل رہی ہے۔
میرے خیال میں میرا قادیان میں آنا ناممكنات میں سے تھا كیونكہ میرا شمار ایك لمبے عرصہ تك جماعت كے شدید مخالفین میں ہوتا تھا ۔ اس كی وجہ جماعت كے خلاف ہمارے ممالك میں جھوٹا پراپیگنڈه اور جھوٹ کا پلندا ہیں جن كی بنا پر میرے اور میرے جیسے نوجوانوں كے ذهن میں جماعت كی تصویریہی تھی كہ یہ اسلام كے مخالف ایك نیا دین ہے اور یہ لوگ ختم نبوت كے منكر ہیں۔
جیسا كہ مشہور ہے كہ جھوٹ زیاده دیر تك قائم نہیں ره سكتا چنانچہ میرے ساتھ بھی ایساہی ہوا اور الله تعالیٰ كی مشیت كے مطابق مجھے حضرت مرزا غلام احمد علیه السلام كی كتب پڑھنے كی توفیق ملی۔ میں نے آپؑ كی تحریرات سچائی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ كی محبت میں فنا ہونےكے جذبات سے معمور پائیں۔ان كلمات او ران میں پائے جانے والے صدق كی روشنی سے جھوٹ كے تمام بت ٹوٹ گئے۔
اس صورتحال كے پیش نظر میں نے خدا كی طرف رجوع كیا او ر چند سال قبل رمضان المبارك كی ایك رات كو اٹھ كر تضرع وابتهال كے ساتھ دعا كی كہ یا الہی تو مجھے مرزا غلام احمدؑ كے باره میں بتا كہ كیا واقعی آپؑ وہی مسیح موعود ہیں جس كا امت انتظار كررہی ہے؟!
جب میں نے نہایت خاكساری اور عاجزی وانكساری كے ساتھ خدا تعالیٰ كے حضور یہ دعا كی تو الله تعالی كا فضل نازل ہوا اور اس كی طرف سے بہت جلدی مجھے جواب مل گیا۔ میں نے نیند وبیداری كی كیفیت میں نہایت پرشوكت آواز میں یہ كلمات سنے :
مَنَحْتُهٗ مَقْعَدَصِدْقٍ عِنْدَ مَلِیْكٍ مُّقْتَدِرٍ
یعنی میں نے اسے مقتدر بادشاه كے حضور صدق كا مقام عطا كیا ہے۔
اس آواز نے میرے جسم كے ذرے ذرے كو هلا كر ركھ دیا۔میں خدا كی قسم كھا كر كہتا ہوں كہ جیسے میں سورج كو دیكھ كر اس كی روشنی كے باره میں شك نہیں كر سكتا اسی طرح ایك لمحہ كے لیے بھی ان كلمات كی صداقت میں شك نہیں كرسكتا۔
چنانچہ اس كے بعد الله تعالیٰ نے مجھے اس داعی كی آواز پر لبیك كہنے كی توفیق عطا فرمائی اور میں نے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایده الله بنصره العزیز كی بیعت كرلی۔
پھر الله تعالی نے فضل فرمایا اور اب مجھے اس سرزمین كی زیارت كی سعادت بھی نصیب فرما دی جس پر حضرت مسیح موعود علیه السلام كے قدم مبارك پڑے۔مجھے قادیان آنے كی توفیق ملی اورمیں یہ كہنا چاہتا ہوں كہ میں نے قادیان میں خدا تعالیٰ كو دیكھ لیا ہے۔ میں نے اسلام كی تمام پیشگوئیاں نبی كریم صلی الله علیه وسلم كے خادم صادق كے ہاتھ پر پوری ہوتے ہوئے دیكھی ہیں۔
مجھے یوں محسوس ہوا كہ قادیان كی فضا میں حضرت مسیح موعود علیه السلام كے انفاسِ قدسیہ ابھی تك پھیلے ہوئے ہیں۔اور آپؑ کے ان مبارك قدموں كی آواز بھی ابھی تك تازه ہے جب آپ اسلام كا پیغام لے كر اسكی گلیوں میں چلتے تھے۔
مسجد مبارك بیت الدعاء او ربیت الفكر میں سجده كرتے وقت میرے آنسو نكل آئے كیونكہ یہاں حضرت مسیح موعود علیه السلام نے رو رو كر دعائیں كی تھیں اور اسلام كے دفاع اور نبی كریم صلی الله علیه وسلم كی ناموس كی حفاظت كے لیے جہاد كیا تھا۔
جب میں آپ علیه السلام كے مزار مبارك كے سامنے كھڑا ہوا تو اس وقت میں نے آنحضرت صلی الله علیه وسلم كی طرف سے دی گئی امانت كی ادائیگی كرتے ہوئے آپ كا سلام حضرت مسیح موعود علیه السلام كو پہنچایا ۔
میں نے قادیان میں اسلام كی بعثت ثانیہ كی تاریخ دیكھی۔ قادیان میں مَیں نے اپنی آنكھوں سے نبی كریم صلی الله علیه وسلم كی پیشگوئیوں كو پورا ہوتے ہوئے دیكھا۔
اس موعودؑ كو اس بستی میں ظاہر ہوئے سوا سو سال سے زیاده كا عرصہ ہو چكا ہے جس نے آكر اعلان كیا كہ وه مسیح موعود اور امام مہدی ہے۔اور كہا كہ خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وعده كیا ہے كہ میں تیری تبلیغ كو زمین كے كناروں تك پہنچاؤں گا۔ پھر دنیا كی آنكھ نے دیكھا كہ تھوڑے سال ہی گزرے تھے كہ اس كی پیشگوئیاں پوری ہوگئیں اور ایك غیر معروف بستی کا شمار دنیا كی مشہور ترین بستیوں میں ہونے لگا ۔
دنیا میں بہت سے مہدویت كے دعویدار آئے اور انہوں نے اپنی تبلیغ كے دنیا میں پھیلنے كی پیشگوئیاں كیں لیكن سوائے ایك كے كسی كی بات پوری نہ ہوئی۔ اور یہ وہی شخص ہے جو بہشتی مقبره میں مدفون ہے جس كی لوح مزا ر پر تحریر ہے كہ
مزار مبارك حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی
مسیح موعود وامام مہدی علیہ السلام
آج میں قادیان سے پوری دنیا سے یہ سوال پوچھتا ہوں كہ كیا ابھی بهی اس شخص كی صداقت میں كوئی شك كی گنجائش باقی ہے؟؟!
جلسہ سالانہ میں شمولیت کے بعد تاثرات
اس سفر میں مجھے جدہ میں ٹرانزٹ کے دوران کچھ مشکل پیش آئی تو خاکسار کے ایک غیراحمدی عزیز نے میرے قادیان جانے پر اعتراض کیا کہ خواہ مخواہ مشقت اٹھا رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ بغیر مشقت کے راحت اور لذت نہیں ملتی۔ پھر اس کی مثالیں دیں۔ تو اس نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔
قادیان پہنچ کر سب سے پہلے خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبرمبارک کی زیارت کی۔ پھر قادیان کے باقی مقدس مقامات دیکھے۔ قادیان میں داخل ہو کر ایک سکون، راحت، خشوع اور روحانیت کا احساس ہوتا ہے۔ جہاں آنحضرتﷺ کی عظیم پیشگوئیاں پوری ہوئیں۔
بہشتی مقبرے کے بعد دار المسیح، مسجد مبارک اور ان کے ارگرد کے مقامات کی زیارت کی۔ میری زبان پر حضرت یونسؑ کی درج ذیل دعا جاری ہوگئی: لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَاور میں نے سوچا کہ یہ دنیا بھی تو حوت کی مانند ہے جو اکثر لوگوں کو نگل گئی ہے اور اس سے نجات اس دعا ہی سے ممکن ہے۔
پھر دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تو ہم دارالضیافت گئے جہاں مجسم سخاوت، خدمت اور ہمدردی وجودوں کو اپنی اعلیٰ صورت میں پایا۔ میرا ذہن اس روحانی مائدے کی طرف چلا گیا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو مبعوث کر کے نازل فرمایا جس سے تمام دنیا کی تشنہ روحیں سیر ہو رہی ہیں۔
قادیان میں گھومتے پھرتے میں نے بڑے غور سے اس بستی کے احمدیوں کو دیکھا۔ میں سوچتا تھا کہ ان لوگوں میں كوئی خاص بات ہے جس کی وجہ سے ان کو ‘الدار ’کی نگہبانی کا شرف ملا۔ تو میں نے دیکھا کہ یہ خصوصیت عجزوانکسار اور اپنی ذات کی کلیۃً نفی ہے۔ قادیان کے احمدی ایک خاموش مدرسہ ہیں جن سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
جیسے جیسے جلسہ کے دن قریب آتے گئے قادیان میں لوگ اس طرح جمع ہو تے گئے جیسے چھتے کے گرد شہد کی مکھیاں جمع ہوتی ہیں۔اس چہل پہل میں ایک نظام اور جوش وجذبہ اور عجیب عاجزی تھی۔ سینکڑوں لوگ دن رات باری باری ڈیوٹیاں دے رہے تھے۔ ان کے چہرےایمان ، بشاشت اورقربانی کے جذبہ سے معمور تھے۔
مجھے پتا چلا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ تمام عرب احمدیوں کو تاریخی مقامات کی زیارت کروائی جائے۔ چنانچہ اہل قادیان نے حسب معمول فوری تعمیل کی اور محمد شریف کوثر صاحب کے ساتھ قادیان کے اہم مقامات کی زیارت کروائی۔
درویش قادیان سے ملاقات
علاوہ ازیںہم ایک درویش قادیان مکرم ایوب بٹ صاحب سے ملنے بھی گئےجن کی عمر نوے سال کے قریب ہے۔ یہ ملاقات بہت روحانی تھی اور میں درویشِ قادیان سے مل کر بے حد متاثر ہوا۔ ان کے ایک بیٹے نے ہمارا استقبال کیا۔ بٹ صاحب بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔
بڑھاپے اور بیماری كی وجہ سے دھیمی آواز سے پوچھاكہ آپ كہاں سے آئے ہیں۔ ہم نے عرض كیا كہ مصر اور فلسطین سے۔ اس پر ان كا چہره خوشی سے چمكنے لگا۔
پھر اپنے باره میں بتایا كہ میں كشمیر سے ہوں اور میرا نسب بنی اسرائیل كے ان قبائل تك پہنچتا ہے جنہیں نبوكد نضر نے بابل سے قید كیا۔میرے والد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ كے دست مبارك پر بیعت كی تھی۔ میں اپنے بھائیوں میں بڑا ہوں۔ جب گاؤں والوں كو ہماری بیعت كا علم ہوا تو دونوں باپ بیٹے كو بہت زد وكوب كیا حالانكہ میری عمر اس وقت دس سال تھی۔ میں رویا تو والد صاحب نے سختی سے ڈانٹ كر كہا كہ اے كمزور ایمان! خدا كے رسول پر ایمان كے بعد روتے كیوں ہو؟
اگر تمہیں مرزا غلام احمد صاحبؑ كے باره میں شك ہے تو جاؤ اور خدا تعالیٰ سے دعا كرو اور اُس سے ان كے باره میں دریافت كرو۔ وه تمہیں بتائے گا۔ میں چھوٹا بچہ واقعی مسجد چلا گیا اور نماز پڑھ كر خدا كے حضور دعا كی اور مسجد كی صف پر ہی سو گیا۔ خواب میں دیکھا كہ دو گھڑسوار سفید گھوڑوں پر میری طرف آرہے ہیں۔ جب قریب پہنچے تو ایك ان میں سے آنحضرتﷺ تھے اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے سلام كہہ كر میرا ہاتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كے ہاتھ میں د ے دیا۔
یہ بچہ والد اور فیملی كے ساتھ تیس كی دہائی میں قادیان آگیا۔ ان كے والد نے اپنی حضرت مصلح موعودؓ كے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی بیٹے كو اسلام كے لیے وقف كردیا۔ حضورؓ بچے كی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا كہ كیا تم اس معاملہ كو سمجھتے ہوجو تمہارے والد نے كیا ہے؟ تمہارے باپ نے تجھے میرے ہاتھ بیچ دیا ہے۔
1947ء میں جب قادیان كو مفسدہ پردازوں كے حملہ كا خطره تھا تو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ كو درویشان قادیان میں شامل فرمایا۔میں نے آپ سے سوال كیا كہ آپ قادیان كا دفاع كیسے كرتے تھے ؟
انہوں نے بتایا كہ ہم گمان كرتے تھے كہ ہم قادیان كی حفاظت كرتے ہیں جبكہ اصل بات یہ ہے كہ قادیان ہماری حفاظت كرتا تھا حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی بركت سے ہم ایك سے زیاده دفعہ شدید خطره سے محفوظ رہے۔
انہوں نے بتایا كہ مفسدہ پرداز ہمیں كمزور اور بزدل سمجھتے تھے۔ اس لیےكہ ہم کبھی زیادتی نہیں كرتے تھے بلكہ اپنے مقامات مقدسہ كا دفاع كرتے تھے۔ ان كو یہ معلوم نہیں تھاكہ اگر ہم اپنے خلیفہ كی اس بات میں اطاعت نہ كرتے كہ كسی سے زیادتی نہیں كرنی تو ہم ان میں سے كسی كو نہ چھوڑتے لیكن ہمارے سروں پر تو اطاعت كی تلوار لٹكی رہتی تھی۔
ان كے الفاظ سے اسلام کے لیے ایسی محبت اور جوش ٹپکتا تھا جونو جوانوں میں نہیں ملتا ۔ آپ كے روئیں روئیں میں اسلام كی محبت تھی۔وه كہتے تھے كہ میں دعا میں وقت گزارتا ہوں كہ الله تعالیٰ اپنی جماعت اور خلیفہ كو كامیاب فرمائے اور احمدیت پوری دنیا میں پھیل جائے۔
انہوں نے عربوں كے باره میں پوچھاكہ كیا اكثریت نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ كو پہچان لیا ہے، ہرروز اس پہچان میں بڑھ رہے ہیں؟ ایمن مالكی صاحب نے انہیں یمن كے دوستوں كی تصویریں بھی موبائل میں دكھائیں۔ انہوں نے موبائل ہاتھ میں لے كر سب كو بوسہ دیا۔
میں نے عرض كیا كہ آپ ہمیں كیا نصیحت كرتے ہیں؟
آپ نے كہا كہ مرتے دم تك خلافت سے چمٹے رہو۔ یہ تمہاری حفاظت كا ذریعہ ہے۔خلیفہ رات خدا تعالیٰ كے ساتھ گزارتا ہے اور دن كو تمہارے ساتھ لہٰذا اس سے چمٹے رہو۔
میں نے انہیں احباب جماعت مصر اور باقی عربوں كا عمومی سلام پہنچایا اور بعض دوستوں نے خصوصیت سے كہا تھا ان كا سلام پہنچایا۔
انہوں نے اپنی باتوں سے ہمارے دلوں میں بہت جوش وجذبہ پیدا كیا اور عزم وجذبہ قربانی پیدا كیا۔ اس كے بعد ہم نے ان سے اجازت لی كہ تا وه آرام كرسكیں۔ ہم ان كا ہاتھ اور سر چوم كر دعا كی درخواست كركے ان سے رخصت ہوئے۔
قادیان میں جو مختلف احباب سے ہماری بہترین نشستیں ہوئیں ان میں سے ایك خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام كے افراد كے ساتھ تھی۔ انہوں نے روزانہ ‘سرائے وسیم’ میں ہمارے ساتھ ملاقات كی۔ ہر روز ایك نیا گروپ ہوتا تھا۔ لیكن ہر گروپ میں وہی قوت قدسیہ اور مبارك روح تھی۔
ہم نے ان سے بہت كچھ سیكھا۔ ان كے افعال، اخلاق اور اعلےٰ درجہ كی انكساری اور بلند ادب اور نورانی كلمات۔
مكرم طاہر ندیم صاحب كو الله جزا دے۔ وه ہمارے درمیان رابطہ كا ذریعہ تھے۔ان حضرات كے منہ سے نكلنے والے ہر لفظ كا باریكی سے ترجمہ كرتے۔ ان كی گفتگو كے دوران ندیم صاحب مضمون نوٹ كرلیتے اور پھر ان روحانی موتیوں كا ہمارے لیے ترجمہ كرتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے خاندان كے افراد كے ساتھ پہلی ملاقات كے بعد
ینقطع من آبائك ویُبدأ منك
یہ دعویٰ دو بندے ہی كر سكتے ہیں ،ایك وه جو كہے كہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ الہام كیاہے۔ دوسرا وه جوخدا تعالیٰ پربڑی جسارت كرنے والا ہو۔ یا خدا تعالیٰ پر پورا یقین ركھنے والا كہ یہ اس قادر خدا كا وعده ہے جس کے وعده میں كبھی تخلُّف نہیں ہوا۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے یہ الہام پورے یقین اور وثوق سے نشر كیا۔ اور پھر چند سال میں ہی یہ پیشگوئی پورے جلال اور زور سے اعجازی رنگ میں پوری ہوئی۔ ممكن نہیں كہ كوئی شخص خود ایسا الہام بنا كر اسے پورا بھی كرسكے۔ آج دنیا میںحضرت اقدس مسیح موعودؑ كے چچوں كی نسل ختم ہو گئی ہے اور كرهٔ ارض پر صرف آپؑ كی مبارك نسل اور بركات موجود ہیں۔ صرف امسال كے جلسہ میں ہی 132؍افراد اس مبارك خاندان سے شامل ہوئے۔
آج ہم عربوں كے وفد كی تاریخی اور مبارك ملاقات اس خاندان كے بعض افراد سے ہوئی۔ تعارف كے بعد انہوں نے ہمیں اپنے حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی طرف منسوب ہونے كی بركات كا ذكر كیا۔ اور ہمیں روحانی فضاؤں كی سیر كرائی۔ بعض ایسے حالات بتائے جہاں وحی والہام سےسرفراز ہوئے۔ نیز حضور علیہ السلام كی وفات كے بعد حضور كی اس خاندان كے باره میں پیشگوئیوں كے معجزانہ رنگ میں پورا ہونے كا ذكر كیا۔ پھر انہوں نے خاندان كے طریق تربیت اولاد كا بھی بتایا اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑكے سوانح كے حوالہ سے تربیت اولاد كے ضمن میں اعلیٰ سبق دیے۔ میں تو ان كے چمكتے چہروں اوراحترام اور انتہائی انكساری پر ہی غور كرتا رہا۔ اور خود سے یہ سوال كرتا رہا كہ كیا یہ ساری بركتیں كسی جھوٹے كی اولاد میں ہو سكتی ہیں؟ كیا خدا تعالیٰ دجال كے بچوں كے چہروں پر بھی ایسا نور ڈالتا ہے؟ ہمارے مخالفین كو كچھ تو عقل وحیا اور سوچ سے كام لینا چاہیے۔
قادیان کے احمدی نوجوانوںکی مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی بے لوث خدمت سے متاثر ہو کر
خدا كی قسم احمدیوں كے جو نمونے میں نے قادیان میں دیكھے ہیں اور ان سے ملا ہوں ۔ ایسی تربیت پر كوئی انسان قادر نہیں ہو سكتا۔ یقینا ًیہ آسمانی وروحانی وربانی تربیت ہے۔ ان میں سے ہر ایك حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی صداقت كی دلیل ہے۔ مجھے ان لوگوں سے ایسی محبت ہے كہ جس كا بیان ممكن نہیں۔
جلسہ كے پہلے دن حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی آواز پر لبیك كہتے ہوئے آنے والے ہزاروں لوگوں كو دیكھ كر حیران پریشان ہو گیا۔ جن كی زبانیں مختلف ہیں ، قومیتیں مختلف ہیں، ان میں سے ہر ایك اپنی ذات میں ایك داستان ہے اور ہر کسی کے خدا تعالیٰ كے ساتھ ایسے روحانی تجارب ہیں جنہیں سن كر انسان عش عش كر اٹھتا ہے۔
لیكن مخالفین كی اپنی آنكھوں پر پردے پڑے ہیں لہٰذا انہیں یہ سب كچھ نظر نہیں آتا۔ ان احمدیوں میں سے ہر ایك حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی صداقت كا نشان ہے۔ لیكن ظاہری دنیاوی آنكھیں ان روحانی لوگوں كو دیكھ نہیں سكتیں۔
جلسہ كے آخری دن حضرت امیر المومنین ایده الله تعالیٰ بنصره العزیز كا خطاب
حضور کا خطاب ان مخالفین كو منہ توڑ جواب تھا جو الزام لگاتے ہیں كہ حضرت مسیح موعودؑ نعوذ بالله آنحضرتﷺ كی شان كو كم كرنے والے تھے خطاب كے دوران عشق محمدﷺ كے ذكر سے ایك عجیب سماں بندھ گیا۔
عجیب اتفاق ہے كہ خطاب سے ذرا پہلے میں واٹس ایپ پر ایك غیر احمدی دوست سے گفتگو كر رہا تھاا اور وه یہ الزام لگا رہا تھا كہ ہم آنحضرت ﷺ كی شان اقدس كو كم كرنے والے ہیں۔ لہٰذا یہ خطاب بہت بروقت ہمیں نصیب ہوا اور الہامی خطاب تھا۔
كیا ہی عظیم جلسہ تھا اور كتنی پیاری بستی میں ہوا !كتنے ہی پیار كرنے والے مہربان دوست وہاں تھے۔ یہی حقیقی اسلام كے علمبردار ہیں، یہیں حقیقی اسلام ہے۔
ربوہ سے آنے والے دوستوں کا اخلاص
ربوہ سے آنے والے دوست جب پہلی بار مجھے ملے تو ابتدائی سلام دعا كے بعد كہا كہ عشاء كے بعد سرائے وسیم میں مجھ سے ملیں گے جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں ان كی عاجزی ،انكساری اورعربوں سے محبت سے بہت متاثر ہوا۔ میں اپنے آپ سے پوچھنے لگا كہ ان لوگوں میں عربوں سے اس قدر محبت اور اہتمام كیا حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی صداقت كی دلیل اور آپؑ كی اپنے سید ومولیٰ ﷺ سے عظیم محبت اور تعظیم كا نشان نہیں تو اور كیا ہے؟ اگر آپؑ خود كو آنحضرت ﷺ سے افضل سمجھتے (نعوذباللہ) تو پھر تو آپؑ كو یقینا ًاپنے متبعین كو عربوں سے قطع تعلقی كی تعلیم دینی چاہیے تھی۔ اور ان كی اس طرح تربیت كرنی چاہیے تھی كہ اپنی قوم كو عربوں سے بڑھ كر سمجھیں تا كوئی ان سے نبوت میں مقابلہ نہ كرے۔ لیكن آپؑ سے عربوں سے تعلق ركھنے والی ہر چیز سے محبت ركھنے كی تعلیم دی جودرحقیقت آپؑ كی آنحضرتﷺ سے محبت كی دلیل ہے۔
بہرحال ہمارا تعلق بڑھا او ملاقاتیںہوئیں۔ میں ان كی عاجزی اور اعلیٰ سلوك اور خلافت سے محبت اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور عربی زبان سے عشق سے بڑا متاثر ہوا۔
ہم نے ان سے پاكستان میں احمدیوں پر ہونے والے ظلم وزیادتی كے واقعات بھی سنےجہاں ان لوگوں كو مختلف انتہا پسند تنظیموں اور ظالم ملكی قوانین كی وجہ سے عام مذہبی حقوق سے بھی محروم كیا گیا ہے۔ مجھے ان سے بڑی ہمدردی پیدا ہوئی اور احساس ہوا كہ ہم ان لوگوں كے لیے دعاؤں میں كوتاہی سے كام لے رہے ہیں۔ منگلا صاحب اس ملاقات میں ہزاروں طلبہ جامعہ واساتذه كی نمائندگی كر رہے تھے۔
ان كے علاوه بھی بعض طلبہ واساتذه جامعہ سے ملاقات ہوئی سب ہی اعلیٰ روحانی ترقی اور اخلاق پر فائز ہیں۔ انہیں دیكھ كر میں نے سوچا كہ ان روحانی لوگوں كی یہ اعلیٰ تربیت كس نے كی ہے۔ یقیناً یہ بركات خلافت میں سے ہے اور ہمارے درمیان ایك مُزكّی كی بركت سے ہے۔ ان میں اكثر وقفِ نو تھے۔ یہ لوگ پاكستان سے آتے ہیں اور یہاں آكر حضرت اقدس مسیح موعودؑ كے مہمانوں كی خدمت اور مہمان نوازی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
پہلی ملاقات كے بعد ہمیشہ منگلا صاحب میرے ساتھ رہے۔ حتی كہ قادیان سے واپسی كے وقت الوداعی ملاقات میں ہم دونوں كی آنكھوں میں آنسو تھے۔ ہر جگہ كے احمدیوں سے مجھے جو محبت ملی یقیناً یہ قرآنی آیت وأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهم كا مصداق ہے۔
قادیان سے میری واپسی سے چند گھنٹے قبل منگلا صاحب ملنے آئے اور نمناك آنكھوں سے مجھے ایك لفافہ پكڑایا كہ اسے سرائے وسیم سے رخصت ہوجانے كے بعد كھولوں۔ میں نے وه لفافہ جیب میں ڈال لیا۔ اور حسب ہدایت بعد میں كھولا تو اس میں 100 روپے تھے۔ اس كے ساتھ اختصار سے منگلا صاحب نے ایك نوٹ لكھا تھا كہ
حضرت اقدس مسیح موعودؑ كے صحابی مكرم محمد سعید الشامی الطرابلسی صاحب جب قادیان سے رخصت ہونے لگے تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ صحابہ كو ارشاد فرمایا كہ اپنے اس بھائی سے ہمدردی كریں اور حسبِ استطاعت مالی مدد بھی كریں۔ خدا كی خاطر محبت كے اظہار كے طور پر دیں خواه ایك روپیہ ہی ہو۔
اس كے بعد لكھا كہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ كے ارشاد كے تعمیل میں یہ تھوڑی سے رقم پیش كرتا ہوں۔ خدا كا شكر ہے كہ قادیان میں ہی حضورؑ كی اس سنت پر عمل كی توفیق مل رہی ہے۔
ان الفاظ كو پڑھتےہوئے میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں ركھ سكا۔ كتنے كریم یہ لوگ ہیں اور كتنے نازك جذبات ہیں۔ خدا كی قسم! یہ ایك آسمانی مبعوث كی تربیت كا نتیجہ ہے۔
منگلا صاحب كے خیال میں بھی نہیں ہو گا كہ میں ان كے باره میں یہ سب كچھ لكھ رہا ہوں۔ بلكہ اگر انہیں علم ہو جاتا تو شاید بہت شرمندگی محسوس كرتے۔
لیكن برادرم منگلا صاحب! یہ ایك شہادت ہے جو میں ریكارڈ كرانا چاہتا ہوں ان عربوں كے لیے جنہیں امام الزمانؑ كو پہچاننے اور زیارت قادیان كی توفیق نہیں ملی۔
ربوه بلكہ دنیا كے ہر احمدی كو میرا سلام۔ ہمارے دلوں كو الفت ومحبت كے تعلقات سے استوار كرنے والی ربانی خلافت كو بھی میرا سلام۔
جلسہ ختم ہو گیا۔ اور قادیان سے واپسی كی تیاریاں ہونے لگیں۔ میرا تو غم اور اداسی سے برا حال ہو رہا تھا۔ میں تو اس جگہ سے اس قدر مانوس ہو گیا تھا كہ یہاں سے جانے كا تصور بھی نہ كرسكتا تھا۔ بہرحال وداع كی گھڑیاں آگئیں۔ روانگی سے كچھ پہلے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ كے مزار پر گیا اور الوداع كہا ۔ مسجد اقصیٰ كا چكر لگایا۔ منارة المسیح كو جی بھر كر دیكھا۔ اور بڑے غم اور اداسی سے یہ الفاظ لكھے۔
ترجمہ: اے قادیان! میں دل كے آنسؤوں سے تجھ سے رخصت ہوتا ہوں۔ میرے جسم كا رُؤاں رؤاں جدائی كی گھڑیوں سے تكلیف میں ہے۔چند گھڑیوں بعد میں تیری معطرگلیوں میں پھرنے سے محروم ہو جاؤں گا۔ چند گھڑیوں بعد میری آنكھیں منارة المسیح اور بہشتی مقبره كے حسن وجمال كے دیدار سے محروم ہو جائیں گی۔چند گھڑیوں بعد مسجد مبارك ، مسجد اقصیٰ، بیت الذكر اور بیت الفكر كے فرش پر سجده سے میری پیشانی محروم ہو جائیگی۔ چند گھڑیوں میں سینكڑوں اصفیاء واتقیاء كی ملاقات سے محروم ہو جاؤں گا۔
میں یہ تصور بھی نہ كرسكتا تھا كہ چند گھڑیوں بعد منارة المسیح سے مؤذن كی آواز سننےسے محروم ہو جاؤں گا۔ اور اس كے بعد بھاگ كر مسجد مبارك نہ جاسكوں گا۔ قادیان كی یہ یادیں میرے دل پر نقش ہیں اور موت تك نہیں بھلا سكوں گا۔ اے قادیان! مجھے تیرے ساتھ دلی محبت ہے۔اے مسیح موعود كی سرزمین! تجھ پر سلام! اے پیشگوئیوں اور الہامات پورا ہونے كی سرزمین! اے دعاؤں كی قبولیت اور تضرعات كی شنوائی كی سرزمین! میں جسمانی طورپر یہاں سے رخصت ہو جاؤں گا لیكن میری روح ہمیشہ كے لیے یہیں رہے گی اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ كے مزار مبارك كو چھوڑ كر كہیں نہیں جائے گی۔
اے رسول الله ﷺ كے غلام صادق تجھ پر سلام
قادیان سے واپسی کے بعد
میں بظاہر قادیان سے واپس آگیا ہوں لیكن میری روح وہیں ہے۔ میں مصر میں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں ہوں۔ جب بھی قادیان كا خیال آتا ہے شوق اور محبت سے آنكھوں میں آنسو امڈ آتے ہیں۔ قادیان میں ایك بے نظیر سحر ہے۔ از حد سادگی كے باوجود قادیان كا دل پر عظیم رعب پڑتا ہے۔ ضیافت اور كرم قادیان میں ہر احمدی كے گھر جاری ہے۔
ہم قادیان كے ایك گھر میں داخل ہوئے اور دیكھا كہ سارے افرادِ خانہ بالائی منزل كے ایك كمره میں رہ رہے تھے اور باقی كمرے اور نچلی منزل ساری مہمانوں کے لیے وقف تھی۔ اس كے باوجود گمان كرتے تھے كہ مہمان نوازی كا حق پوری طرح ادا نہیں كر سكے ۔
واقعی اہل قادیان نے ثابت كر دیا ہےكہ وه ذمہ داری كے اہل ہیں۔ انہوں نے اس چھوٹی سی بستی كے ایك گھر میں جنم لینے والے اس مبارك انسان كا سر بلند كر دیا ہے۔
مجھے یہ جان كر بڑی حیرانی ہوئی كہ حضرت مرزا غلام احمد قادیا نی علیہ السلام كو اس بستی اور اردگرد كے علاقوں كے سكھوں، ہندؤں اور عیسائیوں كی زبان سے بھی بہت عزت وتكریم ملی۔
ایك سكھ لیڈر نے جلسہ كے سٹیج سے كہا ہم سكھ اس بات پر فخر كرتے ہیں كہ ہماری بستی میں وه شخص پیدا ہوا جس كی تبلیغ ساری دنیا میں پھیل گئی۔ جب ہم آپ لوگوں كے جلسہ سالانہ میں دنیا كی مختلف شہریتوں كے لوگ دیكھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے كہ اس شخص كی تبلیغ كتنی سچی اور خالص تھی جس نے پوری دنیا میں امن ومحبت كو پھیلایا۔
جلسہ كے دنوں میں سكھ اور ہندو قادیان كے گلی كوچوں میں رات گئے تك بكثرت پھرتے نظر آتے ہیں۔میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا كہ یہاں ان لوگوں پر رش كے باوجود كوئی زیادتی نہیں كرتا۔ اس لیے یہ اپنے علاقوں سے زیاده یہاں امن محسوس كرتے ہیں۔ انہیں یہ ادراك ہے كہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے جس كی تعلیم ہے كہ مسلمان وه ہے جس كے ہاتھ اور زبان سے سب لوگ محفوظ رہیں۔
میں نے قادیان كی بركات اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں كی قبولیت كے نظارے اپنی آنكھوں سے دیكھے ہیں ۔ قادیان كی بعض مزید بركات بیان كرنا چاہتا ہوں۔
میری كمپنی نے مجھے سفر قادیان كے لیے چھٹی دینے سے انكار كر دیا تھا لیكن قادیان جانے سے كچھ عرصہ قبل كمپنی میں كوئی بات ہوئی اور مجھے مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔ پھرالله تعالیٰ نے عجیب تصرف كیا كہ اس كے فورًا بعد میرے ایك دوست نے مجھے اپنے بعض كام كرنے كو كہا اور مجھے اس تنخواه سے ڈیڑھ گنا تنخواه دی جو میں كمپنی سے لیتا تھا۔ گویا الله تعالی نے مجھے سفر قادیان كی چھٹیوں كا معاوضہ بھی دے دیا۔
مزید برآں قادیان سے واپس آنے کے بعد 23؍ جنوری كو حضور كی خدمت میں اپنی نوکری کے لیے دعا كی درخواست كی اور اگلے ہی روز مجھے سعودیہ سے انٹرویو كی كال آگئی ۔ مجھے توقع نہ تھی کہ یہ نوکری مجھے ملے گی كیونكہ اس کے امیدواروں کی تعداد بہت زیاده تھی اور وه مجھ سے زیاده تجربہ كار بھی تھےلیكن حیرت انگیز طور پر میں منتخب ہو گیا اور اس میں كسی انسانی تدبیر كا ہاتھ نظر نہیں آتا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ محض بركات خلافت كا فیض ہے۔گویا جاب دینے والے كو كوئی بیرونی قوت مجھے منتخب كرنے کے لیے مجبور كررہی تھی۔
مزید یہ بھی کہ یہ جاب خانہ كعبہ سے صرف ایك گھنٹہ كی مسافت پر ہے جہاں سے میں بآسانی زیارت كعبہ كر سكتا ہوں۔
میری بیوی اور اردگرد كے لوگ بھی اس واقعہ سے بہت متاثر ہیں۔ انہیں یہ ادراك ہو گیا ہے كہ یہ محض خلیفۂ وقت كو دعا کے لیے لكھنے كی بركت ہے۔
خاكسار قادیان حوار مباشر پروگرام میں شركت كے لیے گیا تھا۔ یہ پہلا تجربہ تھا اس لیے بہت ڈرا ہوا تھا۔ حضورانور سے بھی دعا كے لیے عرض كیا تھا۔ سفر قادیان سے پہلے میں نے خواب میں دیكھا كہ میں ایك لائیو پروگرام میں بڑے آرام مگر مؤثر انداز میں بول رہا ہوں۔ میں نے شریف عوده صاحب سے اس خواب كا ذكر كیا تو كہنے لگے كہ یہ الله تعالیٰ كی طرف سے بشارت ہے۔ پھر پروگرام میں مَیں نےدیكھا كہ واقعی میں بہت اطمینان سے بول رہا ہوں اور الحمد لله لوگوں نے بھی اچھے تبصرے کیے۔ یہ سب حضور كی دعاؤں كی بركت ہے۔
میرے قیام قادیان كے دوران میری چار سالہ بیٹی بیمار ہو گئی۔مصر سے میری بیگم نے فون كركےكہا كہ اس کے لیے دعا كریں۔ میں فورًا مسجد مبارك پہنچا اور اُس جگہ نماز پڑھی جہاں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نماز پڑھا كرتے تھے۔ مسجد مبارك كے متعلق الہامات میرے ذہن میں آگئے اور میں نے سجده میں بہت دعا كی كہ مولیٰ میں تو تیری راه میں یہاں آیا ہوں اور اپنے بیوی بچوں كو تیرے سپرد كر آیا ہوں اب میری بیٹی كو تُو ہی شفا دے۔ مسجد مبارك سے نكل كر مَیں نے بیگم سے رابطہ كیا تو كہنے لگی كہ الحمد لله بچی بغیر كوئی دوا استعمال کیے بالكل ٹھیك ہو گئی ہے اور اب بچوں كے ساتھ كھیل رہی ہے۔ اس پر میری آنكھیں بھر آئیں كہ اتنی جلدی خدا تعالیٰ نے دعا قبول كر لی۔
سفر قادیان سے قبل میری گردن اور دائیں بازو میں شدید درد تھا حتی كہ میں دائیں جانب سو نہ سكتا تھا۔ بہت علاج كیا، دوائیں استعمال كیں لیكن آرام نہ آتا تھا۔ مگر خدا كی قس! قادیان میں داخل ہوتے ہی میری سب دردیں ایسے ختم ہوئیں كہ جیسے كبھی تھیں ہی نہیں۔ اورخدا كی قسم اس وقت بھی مجھے كوئی درد نہیں حالانكہ میں نے كوئی دوا استعمال نہیں كی۔یہ سب قادیان كی بركت ہے۔
میری ساس احمدی ہیں۔ ان كا دایاں بازو ٹوٹ گیا تھا اور لوہےكے راڈ ڈالنے كی وجہ سے انہیں شدید درد تھی۔ انہوں نے مجھے قادیان میں دعا كے لیے كہا۔ میں نے ہر مقدس جگہ پر ان کے لیے دعا كی۔ الحمد لله اب ان كی حالت بہت بہتر ہے اور اس بات كو ہر كوئی محسوس كر رہاہے۔ یہ بھی قادیان كی بركات میں سے ہے۔
سفر قادیان سے قبل میں ایك پرانے دوست كو تبلیغ كرتا تھا اور كہتا تھا كہ دعا كرو۔ سفر كےدوران میں اس كے ساتھ رابطہ میں رہا۔ واپسی پر اس نے بتایا كہ اس نے ایك خوبصورت خواب دیكھی ہے كہ تم لوگوں میں تسبیحیں بانٹ رہے ہو تاكہ ان كے ذریعہ الله تعالیٰ كی تسبیح كریں ۔ میں نے تم سے تین خوبصورت تسبیحیں لیں۔ ان میں سے ایك ٹوٹ گئی تو میں بہت غمگین ہوا تو تم نے مجھے خواب میں كہا كہ غم نہ كرو ۔ پھر تم نے مجھے 5 منكے دیے اور كہا انہیں باقی منكوں كے ساتھ ركھ لو، ساری تسبیح مكمل ہو جائیگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر خواب میں ہی اس دوست نے میرے ہاتھ میں مٹھائی كا ایك پیكٹ دیكھا جو میں اس کی طرف بڑھا رہا تھا تا كہ وه اُس میں سے لے لے۔ چنانچہ اس نے مٹھائی كے تین ٹكڑے لیے ،مزید لینا چاہتا تھا لیكن شرما گیا۔
اس نے مجھ سے اس خواب كی تعبیر پوچھی تو میں نے كہاكہ اس كا مطلب ہے كہ تم انشاء الله امام الزمانؑ كی بیعت كی توفیق پاؤ گے۔5منكوں سے مراد پانچ خلفائے احمدیت ہیں كیونكہ خلافت ہی مسلمانوں كے ہار كو بكھرنے اور ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔
میں نے اس دوست كو بكثرت دعا كرنے كی نصیحت كی اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ كی بعض كتب بھی دیں كہ ان كا مطالعہ كرے ۔
قیام قادیان كے دوران بہشتی مقبره مجھے بہت اچھا لگا۔ ہر روز حاضری دیتا تھا۔ بعض دفعہ دو بارروزانہ۔ اكثر غروب آفتاب سے قبل جاتا اور دعا كرتا اور پھر مزارات كے درمیان بیٹھ جاتا جو سكون اور خشوع سے بھرے ہوئے تھے۔ وہاں میں نے الله تعالیٰ سے بہت دعا كی كہ مجھے ان قبروں كے باسیوں كا جوار نصیب كرے اور مجھے قادیان میں موت دے اور بہشتی مقبره میں دفن ہونےكی سعادت بخشے۔ اس بات كو اپنی طرف سے پورا كرنے کے لیے میں نے جلسہ كے دوسرے روز ہی نظام وصیت میں شركت كر لی ۔
٭…٭…٭