‘‘کشتی نوح’’
تعارف کتاب: کشتی نوح ، دوسرا نام دعوت الایمان تیسرا نام تقویۃ الایمان،(روحانی خزائن جلد19)
مصنف : سلطان القلم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام
شائع کردہ: نظارت نشرو اشاعت، صدر انجمن احمدیہ ، قادیان
مطبع: فضلِ عمر پریس قادیان
سن اشاعت بار اوّل:5اکتوبر1906ء ، زیر نظر ایڈیشن 2008ء
تعداد صفحات زیر نظر ایڈیشن:86
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ آپ علیہ السلام کے ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور قرآن کریم کی صداقت دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے اسی لیے خدائے کریم نے آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل وہ تمام اسباب مہیا فرمادیے جن کے ذریعے کتابوں اور رسائل کی نشرواشاعت ممکن اورعام ہوگئی۔ اس بارہ میں آپ علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
‘‘اور نشر صحف سے اس کے وسائل یعنی پریس وغیرہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ نے ایسی قوم کو پیدا کیا جس نے آلات طبع ایجاد کئے۔ دیکھو کس قدر پریس ہیں جو ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے تا وہ ہمارے کام میں ہماری مدد کرے اور ہمارے دین اور ہماری کتابوں کو پھیلائے اور ہمارے معارف کو ہر قوم تک پہنچائے تا وہ ان کی طرف کان دھریں اور ہدایت پائیں۔’’
(بحوالہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 473
ایڈیشن 2008ء اردو ترجمہ روحانی خزائن جلد5 صفحہ 1تا 2)
سو اس زمانے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ساری دنیا تک پہنچانے اور اسلام کی سچائی کو ساری دنیا پر ثابت کرنے اور خدائے واحد و یگانہ کی توحید کا پرچار کرنے کے لیے اسلام کا یہ بطل جلیل اور جری اللہ سیف کا کام قلم سے لیتے ہوئے قلمی اسلحہ پہن کر سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اترااور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا ایسا کرشمہ دکھایا کہ ہر مخالف کے پرخچے اڑا دیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا پرچم ایسا بلند کیا کہ اس کی رفعتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور ساری دنیا میں آپ علیہ السلام کا یہ پیغام آپ علیہ السلام کی تحریرات کے ذریعے پھیل رہا ہے اور پھیلتا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریرات سے ایک جہان روحانی اور جسمانی احیا کی نوید سے مستفیض ہورہا ہے اور صدیوں کے مردے ایک بار پھر زندہ ہو رہے ہیں۔ الحمد للہ۔
یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مجموعہ کتب ‘‘روحانی خزائن’’کی انیسو یں جلد میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کتاب کی اہمیت اور وجۂ تالیف بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
‘‘ہماری کتابوں کو خوب پڑھتے رہو تاکہ واقفیت ہو اور کشتی نوح کی تعلیم پر ہمیشہ عمل کرتے رہا کرو اور ہمیشہ خط بھیجتے رہو ۔’’
(ملفوظات جلد 2صفحہ 502ایڈیشن 2003ء)
ایک اور جگہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
‘‘اورایک یہ بھی علاج ہے گناہوں سے بچنے کا کہ کشتی نوح میں جو نصائح لکھی ہیں ان کو ہر روز ایک بار پڑھ لیا کرو۔ ’’
(ملفوظات جلد 2صفحہ 399ایڈیشن 2003ء)
6؍فروری1898ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :
‘‘ میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں اور وہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اورخوفناک اور چھوٹے قد کے ہیں۔ میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے ۔میرے پر یہ امر مشتبہ رہا کہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض بہت پھیلے گا یا یہ کہا کہ اس کے بعد کے جاڑے میں پھیلے گا ۔لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جو میں نے دیکھا ۔’’ اور فرمایا ‘‘مجھے اس سے پہلے طاعون کے بارے میں الہام بھی ہو ا اور وہ یہ ہے : اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَ نْفُسِھِمْ۔اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ۔ یعنی جب تک دلوں کی وبا معصیّت دور نہ ہو تب تک ظاہری وبابھی دور نہیں ہو گی۔’’
(تذکرہ صفحہ262,261 ایڈیشن چہارم)
اس پیش گوئی کے مطابق پنجاب میں طاعون پھیلی اور ماہ اکتوبر1902ءمیں جبکہ طاعون زوروں پر تھی گورنمنٹ نے پنجاب میں طاعون کے ٹیکے کی سکیم وسیع پیمانہ پر شروع کی اور تقریر اور تحریر کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ہر شخص کے لیے ٹیکا لگوانا ضروری ہے۔مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ٹیکا لگوانے سے انکار کیا اور 5 اکتوبر 1902ء کو‘‘کشتی نوح’’کتاب تحریر فرمائی۔ اس سے آگے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ تعلیم لکھی ہے اور وہ ایسی پاک اور عمدہ تعلیم ہے کہ اگر ہماری جماعت کے سب افراد اس پر کما حقّہ عمل پیرا ہو جائیں تو انکا نمونہ دنیا میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔
اس کتاب کی اصل غرض بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آغاز میں سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 51 کا حوالہ دے کر تحریر فرماتے ہیں:
ترجمہ:‘‘ ہمیں کوئی مصیبت ہر گز نہیں پہنچ سکتی بجز اس مصیبت کے جو خدا نے ہمارے لیے لکھ دی ۔وہی ہماراکارساز اور مولا ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ بس اسی پر بھروسہ رکھیں ۔’’
آپ علیہ السلام نے گورنمنٹ کی طرف سے ٹیکا کے انتظامات کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ
‘‘یہ وہ کام ہے جس کا شکر گزاری سے استقبال کرنا دانشمند رعایا کا فرض ہے’’
اور اپنے اور اپنی جماعت کے متعلق فرمایا کہ
‘‘ اگر ہمارے لیے ایک آسمانی روک نہ ہوتی تو سب سے پہلے رعایا میں سے ہم ٹیکا کراتے۔ اور آسمانی روک یہ ہے کہ خدا نے چاہا ہے کہ اس زمانہ میں انسانوں کے لیے ایک آسمانی رحمت کا نشان دکھاوے سو اس نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تو اور جو شخص تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہو گا ،اوروہ جو کامل پیروی اور اطاعت اور سچے تقویٰ سے تجھ میں محو ہو جائے گا وہ سب طاعون سے بچائے جائیں گے اور ان آخری دنوں میں خدا کا یہ نشان ہوگا تا وہ قوموں میں فرق کر کے دکھلاوے ۔لیکن وہ جو کامل طور پر پیروی نہیں کرتا وہ تجھ میں سے نہیں ہے اس کے لیے مت دلگیر ہو یہ حکم الٰہی ہے ،جس کی وجہ سے ہمیں اپنے نفس کے لیے اور ان سب کے لیے جو ہمارے گھر کی چار دیوار میں رہتے ہیں ٹیکا کی کچھ ضرورت نہیں……’’
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 1تا 2ایڈیشن2008ء)
اور فرمایا:‘‘……… اگر یہ سوال ہو کہ وہ تعلیم کیا ہے جس کی پوری پابندی طاعون کے حملہ سے بچاسکتی ہے تو میں بطورمختصر چند سطریں نیچے لکھ دیتا ہوں۔’’
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10 ایڈیشن 2008ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تعلیم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :‘‘ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو۔ پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا۔’’اور جن باتوں کی پیرو ی کی جانی چاہیے ان میں پہلی بات خدا تعالیٰ کی توحید ہے اور ہم خدا کواپنی روحانی حالت میںپیدا ہونے والے نیک تغیر ات سے پہچان سکتے ہیں۔وہ خارق عادت قدرت اس جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔ اور اس خدا کی شناخت ہی ہمارے سلسلہ کی جڑ ہے اس پر ایمان،اس سے صدق و صفا اور اس کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہی ہمارے ایمان کا اہم حصہ ہے ۔ ’’ آپ ؑنے بیان کیا کہ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی،حلم اور اعلیٰ درجہ کے اخلاقِ فاضلہ ہی وہ خوبیاں ہیں جو ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں ۔گناہ سے نفرت ہماری زندگی کا حصّہ ہوناچاہیے۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘‘تمہارے لیے ا یک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑدو ۔کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ ’’
(ماخوذ از‘‘کشتی نوح ’’رحانی خزائن جلد 19 صفحہ 10تا 13ایڈیشن 2008ء)
آپ علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ نجات مرنے کے بعد ظاہر ہونے والی چیز نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت ہی میں اب اصل نجات ہے۔آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض و برکات کا سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہنے والا ہے اور مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں آنا اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس زمانے میں مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے اور میری آمد کے نشانات میں سے ایک نشان طاعون کو بنا کر بھیجا اس لیے وہ شخص جو سچے دل سے مجھ پر ایمان لاتا اور سچے دل سے میری پیروی کرتا ہے وہ اس آفت (طاعون) سے بچایا جائے گا ۔مگر یہ اس صورت میں ممکن ہو گا جب تم سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے کیونکہ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہوگی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا۔سو اگرتم خدا کو مضبوطی سے تھام لو تو کوئی تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا جب تک کہ تم خود اپنا برا نہ چاہو۔ اور یہ بھی ضرور ہے کہ تم دکھ اور تکلیف دیے جائو ،کیو نکہ آزمائش شرط ہے ۔آپ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی خبر دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ سورۃ المائدہ کی آیت 118 اور سورۃ المُؤمنون کی آیت سے ثابت ہے کہ عیسیٰ ابن مریم وفات پا چکے ہیں ۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام کی وضاحت فرمائی ا ور اس غلط فہمی کو بھی دور کیا کہ آپ علیہ السلام حضرت عیسیٰ کی عزت نہیں کرتے ۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں کا اور افعال کا ذکر کیا جن پر عمل نہ کرنے سے انسان آپؑ کے دائرہ بیعت سے خارج ہو جاتا ہے۔آپ علیہ السلام بیان کر تے ہیں کہ ان تمام گناہوں کے زہر سے انسان اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا جب تک خدا کا فضل ساتھ نہ ہو اور مجھ سے کامل وابستگی نہ ہو کیونکہ خدا نے مجھے اس زمانہ کے لیے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے۔اس لیے مجھ پر ایمان لانا لازمی ہے۔ آپ علیہ السلام بہت ہی لطیف انداز میں خدا شناسی کے بارہ میں بیان کرتے ہیں‘‘کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتا نہیں کہ اس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے ۔ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ۔ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں ……یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے ۔ اور یہ لعل خرید نے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ ’’
(کشتی نوح ،رحانی خزائن جلد 19 صفحہ16تا21 ایڈیشن2008ء)
آپ علیہ السلا م نے بیان کیا کہ سچے دین کی شان یہ ہے کہ اس میں وحی الٰہی کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔یہ وہ انعام ہے اور دعا ہے جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ۔پس ہمیں شدید اضطراب سے دعا کرنی چاہیے تا خدا کی رحمت جوش کے ساتھ ظاہر ہو۔ آپ علیہ السلام نے ہدایت کے تین ذرائع بیان فرمائے۔ ان میں اول قرآن ہے کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میںہیں۔اور اس کی تعلیمات پر مکمل عمل انسان کو ایک ہفتہ میں پاک کرسکتا ہے کیونکہ اس پر عمل سے ہمیں نبی ،رسول،صدیق،شہید اور صالح جیسے درجات ملتے ہیں ۔پھر آپؑ نے ان قرآنی تعلیمات کا ذکر کیا جن سے اجتناب بے حد ضروری ہے ۔ اس میں سب سے پہلے شرک ،جھوٹ ،بدنظری ،حرمت شراب ،غصہ ،زنا ،بے ہودہ قسم کھانا ،ظلم کا اسی قدر جواب نہ دینا، بد ظنی قابل ذکر ہیں۔ اس کے برخلاف خدا تعالیٰ ہمیں جن امور پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے وہ عدل و احسان ، ایتاءِ ذی القربیٰ اور انفاق فی سبیل اللہ ہیں۔آپ علیہ السلام نے ان تمام امور کی تفصیل سے تشریح بیان کی جن سے ان معاملات کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی اہمیت بھی بیان فرمائی اور بیان کیا کہ کائنات کا ہریک ذرہ خدا کی تمجید و تقدیس کر رہا ہے اور بیان کیا کہ خدا کے قانونِ قدرت میں فرشتوں کو بدی کی قدرت نہیں ہے جبکہ انسان کو نیکی اور بدی کو اختیار کرنے کی قدرت دی ہےاور استغفار کرنے کا اختیار بھی دیا تا بدی سے بچ پاویں۔ اور جو رجوع نہیں کرتا وہ دنیاوی قانونِ قدرت کی طرح خدا کے ہاں سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔مگر جیسے دنیا میں بسا اوقات فوری سزا لازم نہیں ہوتی اسی طرح خدا کے آسمانی قانون نے اس قدر نرمی دے ر کھی ہے کہ جرائم پیشہ جلدی سے پکڑے نہیں جاتے ،مگر سزا ضرور ملتی ہے ۔ دوسرا قانون یہ ہے کہ انسان کو گناہ کرنے کا اختیار ہے تو نیکی کرنے اور اس میں ترقی کرنے کا بھی اختیار ہے ۔ انسانی خطاکاریاںاگر توبہ کے ساتھ ختم ہوں تو فرشتوں سے اچھا بنا دیتی ہیں ۔انسان کے گناہ توبہ سے بخشے جاتے ہیں ۔ سہو و نسیان انسانی فطرت کا خا صہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قدرت اور جلال تو غیر مغیر اور غیر مبّدل ہے ۔اور زمین اور آسمان پر صرف خدا کی بادشاہت ہے اور اس بات کو آپ علیہ السلام نے سورۃ الحدید آیت نمبر 3،سورۃ یٰس آیت نمبر 83،سوۃ یوسف آیت نمبر 22 اور سورۃ الفاتحہ آیت 2تا 7کی تفسیرکی روشنی میں بیان کیا ۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ ہر وہ کام جو موقع محل کی مناسبت سے کیا جائے وہی بہتر ہوتا ہے ۔تم اعلیٰ درجہ کے حلیم اور خلیق بنو، لیکن نہ بے محل اور بے موقعہ۔ آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ ٹھٹھا ہنسی ،کینہ روی، گندہ دہنی، لالچ، جھوٹ، بدکاری، بدنظری، بدخیالی، دنیا پرستی، تکبر، غرور، خود پسندی ،شرارت، کج بحثی، خداسے رابطے میں روک ہیں ،سورہ فاتحہ میں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ا س میں ایک بڑی پیش گوئی بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی چاروں صفات کا ذکر کرکے اپنی عام قدرت کے اظہار کے بعد یہ دعا سکھلائی کہ ہمیں اپنے انعام سے نواز ،اور وہ انعام نبوت کا انعام ہے ۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیش گوئی بھی بیان ہوئی کہ مسلمانوں میں ایک گروہ یہود کی مانند عذابِ الٰہی میں مبتلا ہو گا ۔آخری زمانہ کے ہزار ہا مسلمان یہودی و عیسائی صفات کے مالک ہوجائیں گے ۔پھر آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ آپ کن معنوں میں مسیح ابنِ مریم ہیں اور اس کی تفصیل بیان کی ۔اور بیان کیا کہ ابتدا میں میرا بھی یہی دعویٰ تھا کہ عیسٰی ابنِ مریم آئے گا مگر جب خدا کی وحی کے اسرار و رموز مجھ پر کھلے تو مجھے بتایا گیا کہ مَیں ہی عیسٰی ابنِ مریم ہوں، اور یہ بات قرآن کریم کی سورۃ التحریم اوربراہین احمدیہ دونوں میں درج ہے۔آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ عیسیٰ ا بن مریم مَیں ہی ہوں اور میری آمد کی نسبت لوگ شکوک میں مبتلا تھے ۔ آپ نے سلسلہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی سلسلہ موسوی سے مماثلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر شور اٹھا ،پھر آپ علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا، اور اس کی تشہیر کی گئی ،اور سخت بد زبانی کی گئی ۔یہی صورت اب پیش آئی گویا اٹھارہ سوسال کے بعد وہی عیسیٰ پھر پیدا ہو گیا اور وہی یہود پھر پیدا ہوگئے ۔خدا تعالیٰ نے مجھے عین چودھویں صدی کے سر پر بھیجا جیسا مسیح ابنِ مریم چودھویں صدی کے سر پر آیا تھا۔پس میں تو خدا کی اینٹ ہوں اور میرے پیچھے خدا کا ہاتھ ہے ۔پس ہر قسم کی مخالفت کے باوجود مجھے خدا نے ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھا۔ اس بارہ میں آپ نے مارٹن کلارک کے مقدمہ کی تفصیل بھی بیان کی اور یہ بھی بیان کیا کہ خدا تعالیٰ نے کیسے مولوی محمد حسین بٹالوی کو ذلیل و رسوا کیا۔ اور اس انگریز گورنمنٹ کے حاکم کی انصاف پرستی کا بھی ذکر کیا کہ اس نے حق کاساتھ دیا۔ پھر آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ سورہ فاتحہ میں راہ راست کی دعا مانگی گئی ہے اور سورۃالبقرہ میں دعا قبول ہو کر راہ راست بتائی گئی ہے ۔اس طرح ان سورتوں کا آپس میں ربط بتایا گیا ۔آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ آپ کے معجزات اور نشانات عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے بڑھ کر ہیں اوربیان کیا کہ یہ سب فیوض و بر کات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور کامل پیروی کی بدولت ہیں۔ اسکے بعد آپ علیہ السلام نے ہدایت کے دوسرے ذریعہ کا ذکر کیا جو کہ سنت ہے۔ آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ سنت کا درجہ حدیث سے اس لیے زیادہ ہے کہ سنت قرآن کا حصہ ہے جب کہ حد یث ڈیڑھ سو سال بعد جمع کی گئی ہے ۔اس لیے حدیث کا تیسرا درجہ ہے ۔ حدیث کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا بشر طیکہ وہ قرآن اور سنت سے متصادم نہ ہو ۔تاہم حدیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں ۔اور اس احتیاط سے ان پر عمل واجب ہے کہ کوئی مضمون ایسا نہ ہو جو قرآن و سنت اور ان احا دیث سے مخالف ہو جو قرآن کے مطابق ہیں۔آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ یقین ہی ہے جو گناہ سے بچاتا ہے ۔پھر مختلف مثالوں سے ثابت کیا کہ یقین کی قوت کیسے گناہ سے روک کا سبب بنتی ہے ۔اور یہ قوت ہمیں خدا کی عبادت سے مل سکتی ہے جس میں اول درجہ نماز کا ہے کیونکہ نماز نہ صرف دعا ہے بلکہ تسبیح ،تحمید ،تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ مانگی جاتی ہے ۔اس لیے ادعیہ ماثورہ کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی چاہیے ۔اس میں آپ علیہ السلام نے نماز کی حالت میں انسان پر جوکیفیات وارد ہوتی ہیں ان پانچ حالتوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا ۔آپ علیہ السلام نے بیان کیا کہ ہر ایک بدی اور نشہ آور اشیاء سے بچو،تاکہ تم ان کے ذریعے پیدا ہونے والے گناہوں سے بچائے جائو ۔پھر آپ علیہ السلام نے بہت سی ایسی کمزوریوں کا ذکر کیا جس کی وجہ سے انسان اکثر نقصان اٹھاتا ہے اس لیے ہمیں ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔علماء کو نصیحت کرتے ہوئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ مخالفت میں جلدی مت کریں ‘‘ بہت سے اسرار ایسے ہوتے ہیں کہ انسان جلدی سمجھ نہیں سکتا۔ …… یہ تقویٰ کا طریق نہیں…… اب عیسیٰ تو ہرگز نازل نہیں ہوگا ………اور یہی سچ ہے کہ مسیح فوت ہو چکا اور سری نگر محلہ خانیار میں اس کی قبر ہے ۔
(ماخوذ از کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 22 تا 75 ایڈیشن 2008ء)
آخرمیں آپ علیہ السلام عورتوں کو عمومی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ تعدّد نکاح کو بری نظر سے نہ دیکھیں۔ دراصل خدا کی شریعت بہت قسم کے مسائل کا علاج اپنے اندر رکھتی ہے۔ خدا کی شریعت دوا فروش کی دکان کی مانند ہے جس میں سے ہر ایک بیماری کی دوا مل سکتی ہے ………وہ شریعت کس کام کی جس میں کل مشکلات کا علاج نہ ہو۔
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ نمبر80)
کتاب کے اختتام پر آپ علیہ السلام ان تمام نصائح کولکھنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
‘‘تا ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے خوف میں ترقی کرے اور تا وہ اس لائق ہوجاویںکہ خدا کا غضب …… ان تک نہ پہنچے …… پس تم اپنے تئیں اس آگ سے بچاؤ۔’’
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 82 ایڈیشن 2008ء)
اس کے علاوہ اس کتاب میں آپ علیہ السلام نے دینی کاموں کے لیے مالی قربانی کی جانب بھی توجہ دلائی۔ آپ کی فارسی زبان میں ایک نظم ‘‘پیشگوئی متعلق طاعون’’ بھی اس میں مطبوعہ ہے اور آخری صفحہ پر ایک چندہ کی تحریک بھی فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان بابرکت تحریرات کا بغور مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے دل اور سینے اس نور سے منور ہو جائیں کہ جس کے سامنے دجال کی تمام تاریکیاں کافور ہوجائیں ۔آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭