خلاصہ خطبہ جمعہ مورخہ 10؍مئی 2019ء
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 10؍مئی2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے
تشہد،تعوذ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کےبعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےسورۃ البقرۃ کی آیات185تا 187کی تلاوت کی،اور ان آیات کا ترجمہ پیش فرمایا۔
حضورِ انور نے فرمایا اِن آیات میں روزوں کی فرضیت،اہمیت،اس ماہ میں مؤمنوں کی ذمہ داریوں اور دعا کی قبولیت کے طریق بیان فرمائے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس میں خداتعالیٰ بندوں کے قریب ترین آجاتا ہے۔ شیطان کو جکڑدیا جاتا ہے،رحمتوں اور فضلوں کے اِس قدر دروازے کھلنے پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی بات سُن کر روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہیں پتا ہو تاکہ رمضان کی کیا کیا فضیلتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کس طرح اور کس قدر تم پر مہربان ہوتا ہے تو تم خواہش کرتے کہ سارا سال ہی رمضان ہو۔ ہم روزوں سے روحانی، جسمانی ہر طرح کےفوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ اب توغیرمسلم ڈاکٹرز بھی اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ روزوں کا انسانی صحت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔ روزے جہاںمومن کی جسمانی حالت کو بہترکرتے ہیں وہاں روحانی حالت کو بہتری کی طرف لےجانے کا باعث بنتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑنےفرمایا کہ خداتعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے ایک غذا کوکم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔روزےدار کو چاہیے کہ خدا کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔
روزہ تم پر اس لیے فرض کیا گیاہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ یہ ہے کہ تم روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ متّقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ اخلاقِ رذیلہ سے پرہیز کرےاور اس کے مقابل اخلاقِ فاضلہ میں ترقی کرے۔ سچی وفا اور صدق دکھلاوے ۔خدمات کےمقامِ محمودتلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہوجاتا ہے جیسا کہ فرمایا وھو یتولی الصالحین ۔
حضورِ انور نے مختلف احادیث کی روشنی میں اللہ کے، اپنےولی کے لیے نشانات اور سلوک ، اور روزوں کی اہمیت و برکات اور روزےدار کےلیے احکامات کا تذکرہ فرمایا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ انسان کا ہر عمل اس کی ذات کےلیے ہوتا ہے سوائے روزوں کے۔ جومیری خاطر روز ہ رکھتا ہےمیں اس کا جزا ہوتا ہوں۔ روزے ڈھال ہیں اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تووہ شہوانی باتیں اور گالی گلوچ نہ کرے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ روزہ ان کےلیے ڈھال بنتا ہے جو روزے کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے تمام تر افضال و برکات کے ساتھ یہ انذار بھی فرمایا ہے کہ جو شخص رمضان کو پائے اور بخشانہ جائے تو پھر وہ کب بخشا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی وسیع رحمت کےباوجود اگربخشش کےسامان نہیں ہوسکے توپھرکب ہوں گے؟
اگلی آیت میں ذکرہے کہ یہ گنتی کےچنددن ہیں؛ سال کے دنوں کا بارہواں حصّہ۔ بعض لوگ روزہ رکھ کر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے روزہ رکھا ہواہے تو یہ کوئی غیرمعمولی قربانی نہیں۔گنتی کے چند دنوں میں بھی اگرتم بیمار ہوجاتے ہو یا سفر درپیش ہوجاتا ہے توان دنوں میں روزے سے رخصت ہے۔ لیکن یہ تعداد، جو چُھوٹے ہوئے روزے ہیں انہیں سال کے دوران ،کسی وقت بھی پورا کرنا ہوگا۔ جو مستقل مریض ہیں اور مالی لحاظ سے استطاعت رکھتے ہیں تو ان کےلیے مسکین کو روزے رکھوانے ضروری ہیں۔ عارضی مریض بھی فدیہ دے سکتے ہیں لیکن صحت ہونے پر روزہ رکھنا بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو بھی تم پوری فرماں برداری کےساتھ نیکی کرتے ہو تو اللہ اس کے بہتر نتائج پیداکرے گا۔ بعد میں روزہ رکھ لینے کی نیّت ہوتے ہوئے فدیہ دینا یہ زائد نیکی ہے۔ یہی فمن تطوع خیراً کا مطلب ہے ۔
حضورِانور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کو رمضان کے مہینے سے خاص نسبت ہے۔ ہر کوئی قرآن کے گہرے مطالب تک خود نہیں پہنچ سکتااس لیے تلاوت وترجمے کے ساتھ جہاں جہاں درس کا انتظام ہے اُس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایم ٹی اے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے درس چل رہےہیں ان سے استفادہ ضروری ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اس دور میں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کوماننے کی توفیق ملی جنہوں نے قرآنِ کریم کےاسرارورموز اور تفسیرومعانی کے نئے زاویےبتائے اور اس پر عمل کرنے ،عزت دینے، پڑھنے، غور کرنے کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۔ حضورِانور نے قرآنِ کریم پڑھنے اور اُس پر عمل کرنے کےمتعلق سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اقتباس پیش کیے۔فرمایا؛ قرآنِ کریم اللہ کی کتاب ہےسو اُس کےعُلوم خداکےہاتھ میں ہیں جن کو سمجھنےکےلیے تقویٰ بطور ‘نردبان’ یعنی سیڑھی کے ہے۔ تقویٰ کی سیڑھی استعمال کروگے تو قرآنی عُلوم کا ادراک حاصل ہوگا۔ مغرب کی ترقی کے زیرِ اثرمسلمانوں نے بھی یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کی ترقی مغرب کی تقلیدمیں پوشیدہ ہے۔ جو پرانے فیشن کے مسلمان ہیں ان کی ساری عمر صرف ونحو اور صحیح تلفّظ کے جھگڑوں میں بسر ہوجاتی ہے۔ گویا تزکیہ نفس کی طرف توجہ ہی نہیں۔ پس احمدیوں کو صرف دنیا میں نہیں پڑنا چاہیےبلکہ قرآنِ کریم کے عُلوم کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔حدیث میں آیا ہے کہ قرآن ایسے شخص پرلعنت بھیجتا ہےجو قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا ۔ جو شخص قرآن کے سات سو احکامات میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنےپر بند کرلیتا ہے۔ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کومخاطب کرکے فرمایا کہ الخیر کلّہ فی القراٰن۔ قرآنِ کریم ایک پیاری نعمت اور بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغے کی طرح تھی۔
رمضان کے مہینے میں خداکی تلاش کرنے والے پہلے سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں ان کے قریب ہوں، ان کی پکار سنتاہوں۔ دعاقبول کروانے کےلیے ضروری ہے کہ بندہ بھی میری بات مانے۔ میرے حکم قبول کرے،مجھ پر ایمان مضبوط کرے۔حضورِ انور نے قبولتِ دعا کی شرائط اور طریق کے حوالے سے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اقتباس پیش کیے اور فرمایا کہ اِن دنوں میں خاص طورپر جماعت کےلیے دعاکریں اللہ تعالیٰ دشمنانِ احمدیت کے شر ان پر الٹائے۔ امّتِ مسلمہ کو بھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنےسے روکے۔ دنیا بڑی تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے،اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دےاور یہ خدا کو پہچانیں۔
آخر میں حضورِانور نے مکرم ڈاکٹر طاہرعزیز احمد صاحب ابن ارشد اللہ بھٹی صاحب آف اسلام آباد (پاکستان)اور مکرم ڈاکٹر افتخار احمد صاحب ابن ڈاکٹر خواجہ نذیر احمد صاحب مرحوم آف امریکہ کی نماز ہائے جنازہ پڑھائے جانے کااعلان فرمایا۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان کو 13؍مارچ کو اغوا کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضورِانور نےفرمایاکہ پاکستان میں احمدیوں کو قتل کرنے پر،قاتلوں کو پکڑنے جانے کی فکرنہیں ہوتی کیوں کہ احمدیوں کا قتل اُن کےلیے ثواب کاکام ہے۔ پھرانہیں مولوی کا اشیرباد بھی حاصل ہوتا ہے۔ سوہم اس لحاظ سےاسے شہادت بھی کہہ سکتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ احمدیت کا عنصر بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین کےساتھ رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائےاور اُن کی اولاد کو بھی جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔
٭…٭…٭