الرجی (قسط نمبر 3)
(گذشتہ سے پیوستہ) پولن کا وقت چاہے وہ درختوں کے ہوں، یا پھولوں یا گھاس کے ۔ یہ عام طور پر مارچ کے شروع سے شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ درختوں کے پولن ہوتے ہیں ۔ گھاس کے پولن مئی سے جولائی کے آخر تک آپ کو متاثر کرسکتے ہیں۔ مگر ان کی شدت مئی اور جون میں ہوتی ہے اسی طرح HDM (ہاؤس ڈسٹ مائیٹ) زیادہ تر سردیوں میں اثر کرتےہیں۔ جب گھر سردیوں کی وجہ سے بند اور گرم رکھے جاتے ہیں تو HDM کو بڑھنے کے لیے بہترین درجہ حرارت میسّر آتا ہے اور اگر گھر میں نمی بھی ہو تو وہ ان کی افزائش کو زیادہ بڑھاتی ہے۔آپ کی دلچسپی کے لیے بتاتی ہوں کہ ایک سنگل گدے یا میٹرس میں 2 ملین تک HDM ہو سکتی ہیں ۔ اور رات کو جب آپ سوتے ہیں اور ان کو اپنے سانس میں لیتے رہتےہیں تو اس سے آپ میں HDMکی علامات پیدا ہوسکتی ہیں ۔
چھوٹے بچوں میںدوسری علامات جو اوپر بتائی گئی ان کے علاوہ ناک سے خون آنا بعض دفعہ سردیوں میں زیادہ ہونا یا بہار کے مہینے میں زیادہ آنا اور زور سے خراٹے لینا اور رات کو بار بار جاگنا اور سانس کا رکنا بھی ہوسکتا ہے ۔بچہ ساری رات صحیح طرح سوتا نہیں اور اگلے دن خود بھی پریشان اور تھکا ہوا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتا ہے۔ اس لیے بچوں کے لیے ان کی علامات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عام طور پر Growth Hormone یا جسم بڑھانے والے ہارمون جب بچہ سکون کی نیند سوتا ہے تو زیادہ اچھی طرح نکلتے اور کام کرتے ہیں۔
موسمی دمہ: بعض لوگوں کو سردیوں یا بہار میں دمہ بھی ہوجاتا ہے یاسینے سے آوازیں آتی ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔ اس کو موسم کا دمہ یا Seasonal Asthma بھی کہتے ہیں۔ اس کا علاج ضروری ہے ۔الرجی کی تشخیص ڈاکٹر سے کرانا بہت ضروری ہے۔ خود سے ہی اپنے آپ کو الرجی کا شکار سمجھ لینا درست نہیں ۔کیونکہ ڈاکٹر بہتر سمجھتا ہے کہ آیا آپ کو واقعی الرجی ہے۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو تو وہ آپ کو اس سے بچنے کی ہدایات دیتا ہے اور جہاں ضرورت ہو دوا بھی تجویز کرتاہے تا کہ آپ کسی پیچیدگی کا شکار نہ ہوجائیں ۔اگر الرجی کے مریض ان چیزوں سے بچنا شروع کر دیں جن سے انہیں الرجی ہو تو ان کی 70 فیصد سے زائد علامات ختم ہو جائیں اور اگر ان کو دوائی لینے کی ضرورت پڑے تو بہت کم مقدار سے ان کا کام چل جائے گا۔ اور شاید انہیں لمبی مدت کے لیے دوا استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ مگر بعض حالات میں ان الرجی پیدا کرنے والے عناصر سے دور رہنا مشکل ہوتا ہے ۔ ایسے آدمی کو جو باغ میں کام کرتا ہو گھاس کی الرجی ہوجائے، یا گھریلو خواتین کو گرد، کیمیکل، بلیچ یا گندم وغیرہ کی الرجی ہو جائے۔ باورچی کو مچھلی کی الرجی ہو، کسی مِل میں کام کرنے والے کو اس کام میں استعمال ہونے والے کیمیکل یاڈسٹ سے الرجی ہوجائے وغیرہ۔ اور بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں الرجی ہونا بہت تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
الرجی کی تشخیص: الر جی کی تشخیص کے لیے آپ کا ڈاکٹر آپ کے مخصوص ٹیسٹ کرتا ہےجن کوSkui prick test ٹیسٹ کہتے ہیں۔ چھوٹے بچوں میں خون کے ٹیسٹ کراکر فیملی کی الرجی کی ہسٹری کے ساتھ موازنہ کر کے تشخیص کی جاتی ہے اور مریض کو ان کی مناسبت سے ہدایات دی جاتی ہیں۔ چند نہایت فائدہ مند اور ضروری مشورے ذیل ہیں:
دن میںکئی مرتبہ، کم از کم دو تین مرتبہ اپنے ناک میں پانی ڈال کر وضو کی طرف صفائی کریں ۔جب الر جی کے موسم میں باہر نکلیں تو چھوٹی انگلی ککی مدد سے ویسلین کو ناک کے اندر لگا لیں، زیادہ تردّد کرنے کی ضرورت نہیں یہ باریک تہہ ان الرجی پیدا کرنے والے عناصر کو ناک کی جھلی پر بیٹھنے نہ دے گی اور کوئی ری ایکشن نہ ہوگا ۔جب بھی باہر سے آئیں ، منہ ہاتھ اور ناک کی صفائی کریں۔ ڈاکٹر اگر آپ کو سپرے دے تو وہ ہدایت کے مطابق استعمال کریں ۔خود سے فارمیسی وغیرہ سے سپرے لے کر استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ ڈاکٹرز بالعموم ایسی صورت میں خون کی نالیاں تنگ کرنے والا سپرے دیتے ہیں جس سے ناک کھل جاتا ہے۔ لیکن یہ دوائی خون کی نالیوں کے والو کو خراب کرتی ہے اور وہ پھر ناک میں خون کا بہاؤ کنٹرول نہیں کر سکتیں اور ان میں مطلوبہ مقدار سے زیادہ خون آتا ہے۔ اور ناک کو بند کر نے کی وجہ بن جاتا ہے۔ اور اس کا پھر الگ سے علاج کرنا ضرورتی ہو جاتا ہے جو مریض کو مکمل آرام کی صورت میں کروانا کافی تکلیف دہ ہو سکتا ہے ۔اس لیے اگر آپ کو Decongestant Nasal Drops استعمال کرنا بھی پڑے تو ایک ہفتے سے زیادہ نہ کریں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوائی کی بوتل پر یہ سب لکھا بھی ہوتا ہے ۔
اگر آپ کو پتہ ہے کہ آپ کو درخت سے یا گھاس کے پولن سے الرجی ہوتی ہے تو دوائی جو کہNasal سپرے ہوتا ہے موسم کے شروع ہونے سے پہلے استعمال شروع کردیں جیسے درختوں کےپولن کا موسم مارچ کے آغاز سے شروع ہوتا ہے تو اگر آپ ڈاکٹر کے مشورے سے فروری کے آخر سے ایسا ناک کا سپرے جس میں الرجی کی اور ناک کی سوجن کم کرنے کی دوائیں ملیں ہوں استعمال کرنا شروع کر دیں اور جتنا زیادہ ہو سکے الرجی پیدا کرنے والے عناصر سے بچیں تو اتنا ہی بہتر ہو گا۔ فارمیسی سی دوا یاں غیر ضروری طور پر لے کر استعمال نہ کریں ۔جب بھی باہر سے آئیں کُلی کریں۔ منہ ہاتھ دھوئیں۔ اگر گھاس الرجی کے باوجود کاٹنی پڑے تو سارے احتیاطی عمل جیسے ناک میں ویسلین، منہ پر ماسک اور آنکھوں پر عینک لگا کر کریں اور فوراً آ کرنہا لیں ۔
آپ محسوس کریں گے کہ ان احتیاطوں کے ساتھ اگر آپ شہد کا استعمال بھی روزانہ کرلیں تو آپ کو اَور زیادہ فرق پڑے گا۔ شہد کی مکھیاں کیونکہ شہد کو پھولوں کے رس سے بناتی ہیں جو زمین سے اُگنے والے پودوں پر آتے ہیں اور مختلف جگہوں کی مکھیاں مختلف پھولوں سے یہ رس لیتی ہیں اور یہ پھول اپنے اندر مختلف قسم کے نمکیات اور خواص رکھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کو عام کھانوں میں نہیں ملتیں۔ اس طرح آپ روزانہ شہد لیتے ہیں جس سے آپ کے اندر بہت سے نمکیات خود بخود پورے ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے آپ ایک ہی طرح کا شہد استعمال نہ کریں بلکہ مختلف کمپنیوں کی طرف سے مہیا کردہ شہد استعمال کریں۔ اس طرح اپنے جسم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ اس میں نمکیات وغیرہ کی کمی کو پورا کریںجو الرجی کو ٹھیک کرنے یا اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے یا ٹھیک ہونے میں مدد دیتی ہے ۔
ریسرچ نے تو یہ سب ثابت کرنے میں بہت عرصہ لیا مگر قرآن شریف نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمادیا تھا کہ شہد میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ مگر میانہ روی سے ہٹ جائیں تو ہر چیز فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔الرجی کا بہت بڑا علاج الرجی پیدا کرنے والی چیزوں سے بچنا ہے ۔اور اگر دوا کی ضرورت ہو تو ایسا ہونا چاہیے کہ آپ کم سے کم دو ا کی مقدار سے ٹھیک رہنے والے ہوں ۔ چند سالوں میں اگر آپ اپنے علاج کو الرجی ہونے کے موسم میں ڈاکٹر کے مشورے سے جاری رکھیں تو ریسرچ ثابت کرتی ہے کہ آپ کی الرجی کم ہونے لگتی ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ بھی اس میں کمی آنے لگتی ہے۔ بعض دفعہ دوائیاں ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق لینے سے، احتیاطیں کرنے کے باوجود آپ کی علامات ٹھیک نہیں ہوتیں اور آپ کی روزمرہ زندگی پر بہت اثر کرتی ہیں۔ اس پر آپ کے ڈاکٹرکو آپ کے الرجی کے سپیشلسٹ کے پاس بھیجنا چاہیے تاکہ آپ میں اس الرجی کے خلاف قوت مدافعت دی جائے۔ اس کو Desensitization کہتے ہیں ۔اس میں مریض کو الرجی پیدا کرنے والی چیز بہت تھوڑی مقدار میں مناسب وقفے سے دی جاتی ہے۔ یہ عمل ہسپتال میں کیا جاتا ہے تاکہ کسی قسم کے بد اثرات پیدا ہونے کی صورت میں فوراً علاج کیا جاسکے۔
عام طور پر اس عمل میں الرجی کی دو اکو گولی یا انجکشن کی صورت میں مریض کو دیا جاتا ہے۔ اور یہ عمل بالعموم صرف اس صورت میں کیا جاتا ہے جبکہ مریض کو صرف ایک چیز سے الرجی ہو۔ مثلًا صرف گھاس کی یا صرف درخت کے پولن کی یا ہاؤس ڈسٹ مائٹ کی الرجی ہو۔ اگر ایک مریض میں ایک سے زائد چیزوں کی الرجی ہو تو Desensitizationکا زیادہ اثر نہیں ہوتا ۔ اور دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر اس عمل کی وجہ سے انسان تین سے پانچ سال تک الرجی کی شدّت سے بچا رہتا ہے۔ اور بعض حالات میں مریض کو کم سے کم مقدار میں دوائیاں جیسے ناک کا سپرے ،لینی پڑتیں ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنا پر مریضوں کا چناؤ الرجی کا سپیشلسٹ بہت دیکھ بھال کرکرتا ہے تاکہ مریض کو فائدہ ہو ۔
اگر الرجی کی شدت بہت زیادہ ہو اور زندگی کو خطرہ میں ڈالنے والی یا ANAPHYLACTICعلامات پیدا کرنے والی ہو، یعنی آپ کا سانس بند کرنے والی ہو، تویہ علامات محسوس ہوتے ہی ایمبولینس کو بلائیں اور ہسپتال جائیں۔ وہاں آپ کا فوری اور مناسب علاج ہو گا۔
٭…٭(جاری ہے)٭…٭