’’فتح اسلام‘‘
نام کتاب: فتح اسلام (روحانی خزائن جلد 3)
مصنف: حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام
سن اشاعت بار اوّل 1891:ء۔ زیر نظر ایڈیشن 2008ء
پرنٹر : نظارت نشرو اشاعت، صدر انجمن احمدیہ ، قادیان
ٹائٹل بار اوّل پر تحریر ہے: ’’فتح اسلام اور خدا تعالیٰ کی تجلّی خاص کی بشارت اور اُس کی پیروی کی راہوں اور اس کی تائید کے طریقوں کی طرف دعوت‘‘۔ حضور علیہ السلام نےاس رسالہ کے آخری صفحہ 48 پر ایک اعلان بھی تحریر فرمایا۔ فرماتے ہیں : ’’اس رسالہ کے ساتھ دو اور رسالے تالیف کیے گئے ہیں جو درحقیقت اسی رسالہ کے جزو ہیں چنانچہ اس رسالہ کا نام ’’فتح اسلام‘‘ اور دوسرے کا نام ’’توضیح مرام‘‘ اور تیسرے کا نام ’’ازالہ اوہام‘‘ ہے۔ المعلن ۔میرزا غلام احمد از قادیاں‘‘۔
پس منظر: 1883ء میں پورے ہندوستان میں عیسائیوں کی تبلیغ زوروں پر تھی۔اس کےلیےہر جگہ مشن قائم کئے جارہے تھے۔کروڑوں کی تعداد میں کتب اور پمفلٹ اور اشتہارات مفت تقسیم کئےجا رہے تھے۔ تبلیغ کرنے میںعیسائیت کوانگریز حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر جگہ، شہروں، دیہاتوں اور قصبوں ہسپتالوں میں عیسائیت کی تبلیغ جاری تھی۔ اس دَور میں عیسائیوں اور مسلمانوں کا عقیدہ ایک ہی تھا اور وہ یہ کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔اور عیسائی یہ بھی کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی تمام انبیاء وفات پاچکے ہیں۔ جس رفتار سے تبلیغ جاری تھی عیسائی یہ خیال کررہے تھے کہ چند سال بعد سارا ہندوستان عیسائیت قبول کرلے گا۔
(ماخوذ از روحانی خزائن جلد 3از آغاز تعارف )
اس عقیدہ کوتوڑنے کی ضرورت تھی ۔چونکہ خدا تعالیٰ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس عقیدہ کو توڑ کر پوری دنیا میں خدا کی واحدانیت کو قائم کیا جائے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس حال پر اپنا خاص رحم فرماکرحضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس زمانہ میں امام اور مہدی کے طور پر مبعوث فرمایاجس کی غرض یہ تھی کہ لوگ خدا کو شناخت کریں اُس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں اس سے نجات پائیں۔کیونکہ آ پ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اسلام کی حیا ت نو کا ذریعہ بھی ہے۔چنانچہ خدا تعالیٰ نے وفات ِمسیح کی خبرکوحضرت مسیح موعود علیہ السلام پربذریعہ خاص الہام سے ظاہر کیا جو ازالہ اوہام میں تحریر فرمایاہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’۔۔۔مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے۔ اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ موافق تو آیا ہے ۔وکان وعداللہ مفعولا‘‘۔ مزیدفرمایا:۔’’میں نے اس کتاب (یعنی ازالہ اوہام) میں نہایت زبردست ثبوتوں سے مسیح کا فوت ہوجانا اور اموات میں داخل ہونا ثابت کردیا ہے۔‘‘
(ماخوذ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳ صفحہ402 ایڈیشن 2003)
چنانچہ آپ نے1890ء کے آخر میں 48صفات پر مشتمل رسالہ ’’فتح اسلام‘‘ تحریر فرمایا جو 1891ء کے شروع میں چھپ کر شائع ہوا ۔جس میںآپ علیہ السلام نے فرمایاامام مہدی کے ظہور کے وقت مسلمانوں کے ایمان کی حالت یہودیوں کی حالت کےجیسی ہو جائے گی۔یعنی اب یہ وہ زمانہ ہے۔مسلمانوں میں جو جو برائیاں پیدا ہوگئی ہیں اُن میں ایمانی حالت عملی طور پر رسمی اور لفظی ہوگئی ہے۔ صرف زبان سے اقرار کیا جارہا ہے۔اور جو حقیقی نیکی ہے اُس سے بے خبرہوکر شیطانی علوم اپنا کر عبادات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔جس سےخدا تعالیٰ کی عظمت اوروقعت دلوں میں سے ختم ہو گئی ہے۔ اس معاملے میں جو شخص سب سے زیادہ شریر ہوگا وہی سب سے زیادہ لائق اور کامیاب سمجھا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ طرح طرح کےجھوٹ، فریب،لالچ وغیرہ سے بھری عادتیں پھیل گئی ہیں اس کی وجہ سے جھگڑےاورفساد برپا ہو رہے ہیں۔اور اس سے معاشرے میں شرم و حیا ،دیانت کا فقدان پیدا ہوگیا ہے۔ اسی طرح اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو غلط پیش کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں ۔اسلام کی پاک تعلیم کو ختم کرنے کے لیے عیسائی قوم جو حربے استعمال کررہی ہے اس میں مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں۔یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی اختیار کئے۔ یہ زمانہ جس میں اب ہم ہیں ۔ایسا زمانہ ہے جیسےمسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت تھا ۔ ان حالات میں خدا تعالیٰ کی مدد جو اپنے اندر معجزات رکھتی ہو اس معجزہ سے اس عیسائیوں کے ہر اُس جادو کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کردے تب تک سادہ لوح دل والوں کا ایمان حاصل کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
( ماخوذ ازفتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 3,5,6ایڈیشن 2003)
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اپنے الہام اور کلام اور اپنی خاص برکات کے ساتھ اور اپنی راہ کے باریک علوم دے کر مخالفین کے مقابل پر مجھ عاجز کو بھیجا ۔جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ… میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا ۔اس زمانہ کی تاریکی اورہر طرف فساد کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کیسے چپ رہتا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی غلط ثابت ہو جاتی جس میں فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید کریگا۔خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا ۔اب تم شکر بجا لائو کہ یہ زمانہ پالیا جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء اور بے شمار انسان اس دنیا سے رُخصت ہوگئے۔ اب اس کی قدر کرنا نہ کرنا تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔میں اس کو بار بار بیان کروں گا ۔میں اس سے رُک نہیںسکتا کیونکہ میں وہی ہوں جو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا۔تاکہ ایمان کو پوری دنیا میں تازہ رکھوں۔
(ایضاً صفحہ6-8)
فرمایا :۔ یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُن حملوں کے دن نزدیک ہیں اور یہ حملے تلوار اور بندوق سے نہیں ہوں گے بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد آئے گی ۔جو عیسائی عقیدہ پر ہونگے۔اُن سب کے عقیدہ کو اللہ کی تلوار پاش پاش کریگی۔ اور یہودی مذہب ختم کردے گی۔جو حق پر ہوگا اُس کی فتح ہوگی۔اور اسلام کی تعلیم روزِروشن کی طرح از سر نو زندہ ہوجائے گی۔یہ آفتاب تبھی پوری آب و تاب سے روشن ہوگا جیسے پہلے رسول اللہ صلی علیہ والہٖ وسلم کے زمانہ میں چڑھ چکا ہے۔ کیونکہ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے وہ کیا ہے ؟ ہمارا اسی رہ میں مرنا، اپنے آرام، اپنی جان اپنا سب کچھ نہ لٹا دیں۔یہی ہے جس پر اسلام کی زندگی،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا سے ملاقات منحصر ہے۔ اورخدا تعالیٰ اسلام کو پوری دنیا میں زندہ کرنا چاہتا ہے۔اور اس کے لیے ایسا انتظام کیا جاتا ہے جو مؤثر ہوتا جو خدا تعالیٰ قائم کرتاہو اُس حکیم و قدیر نےاس عاجز کو اصلاح خلائق کے لیے بھیج کر ایسا ہی کیا تاکہ دنیا،سچائی کی طرف کئی شاخوں پر پکی تائید حق اور اسلام کو پھیلانے پر متوجہ کردیا۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے ان شاخوں میں سے پانچ شاخوں ذکر فرمایا جو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنےہاتھ سے قائم کیا۔
اس سلسلہ میں مالی امدا کی طرف بھی توجہ دلائی جو خاص اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھی ۔فرمایا:۔کچھ لوگ تالیف کے سلسلہ کو ضروری سمجھیں گے اور شتہارات کو غیر ضروری لیکن خدا تعالیٰ کی نظرمیں یہ سب ضروری ہیں کیونکہ اصلاح ان پانچوں شاخوں کا استعمال سے ہی ہو سکتی ہے۔اگر چہ خدا تعالیٰ کی طرف سےمبشرانہ وعدہ ہے کہ وہ اسلام کی سچائی کو دنیا میں پھیلائے گا ۔وہی اس کو دنیا میں پہنچانے کے لیے کافی ہے جو دل کو اطمینان پہنچاتا ہے۔ساتھ ہی اس کے حکم کے مطابق مسلمانوں کو مدد کی طرف توجہ دلائی ۔جیسا کہ تمام انبیاء جو گزر چکے ہیں مشکلات پیش آنے پر توجہ دلاتے تھے۔اسی غرض سے کہتا ہوں ان پانچوں شاخوں کو وسیع طور پر جاری رکھنے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت پڑے گی۔
(ایضاً صفحہ 9,10)
ایک شاخ:۔ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے ۔جومیرےسپرد کیا گیاہے۔اومجھ کو وہ معارف و دقائق سکھائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔
دوسری شاخ :۔اشتہارات کا سلسلہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم کے ذریعہ سے جاری ہے اور اب تک بیس ہزار سے کچھ زائد اشتہارات اسلام کی اشاعت کے لیے تبلیغ کی غرض سے چھپ کر شائع ہوچکے ہیں اور آئندہ ضرورت کے وقتوں میں ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔یہ الہٰی قانون ہے جس میں تبدیل نہیں ہو سکتی جو اس پر غور نہ کرے اس کی بد قسمتی ہے۔
تیسری شاخ :۔خدا تعالیٰ سے خبر پاکر حق کی تلاش کے لیے آنے والوں کی ہے۔چند سالوں کے ہی اندر ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے۔موقع محل کے مطابق تقریروں میں بعض اوقات تالیف کے ذریعے کچھ بیان کیا جاتاہے۔ نبیوں کا بھی یہی طریق تھا کہ مجالس اور محفل میں اُن کے حال کے مطابق تقریریں کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نبیؐ اور رسول بھیجے تاکہ لوگ ان کی صحبت میں رہ کر ان کے اعلیٰ نمونوں کو اپنی آنکھوں سے پاکر خدا تعالیٰ کے کلام پر عمل کرنے والوں کی اقتداء کے لیے کوشش کریں۔اگر صحبت صالحین میں رہنا دین میں لازم نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اپنے کلام کو بغیر رسولوں اور نبیوں کے اور طریق سے نازل کر سکتا تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایسی پیروی کرکے ایک وجود بن گئےایسے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس ہوگئے۔یہ اندرونی تبدیلی جس کے ذریعے بت پرستی کرنے والے خدا تعالیٰ کی پرستی کرنے لگ گئے جو ہروقت دنیا میں مشغول رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق قائم کرگئے کہ اس کی راہ میںاپنا خون پانی کی طرح بہا دیا۔ یہ ایک سچے نبیؐ کی صحبت میں رہنے کا نتیجہ تھا۔سو اسی سلسلہ کو قائم رکھنے کے لیے اس عاجز کو مامور کیا گیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ صحبت صالحین میں رہنے والوں کا سلسلہ بڑھے اور ایسے لوگ پیدا ہوں جو دن رات ایسی صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین بڑھانے کا شوق رکھتے ہوں ۔اور ان پر وہ انوار،وہ ذوق، ظاہر ہوں جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے۔اور اسلام کی روشنی دنیا میں پھیل جائے۔
چوتھی شاخ :۔جو حق کے طالبوں یا مخالفوں کی طرف لکھے جاتے ہیں ۔چنانچہ اب تک نوے ہزار سے بھی کچھ زیادہ خط آئے ہوں گے جن کا جواب لکھا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ بد ستور جاری ہے۔
پانچویں شاخ: ۔خداتعالیٰ کی خاص وحی اور الہام کے ذریعے سے افراد کابیعت کرنے والوں کا سلسلہ قائم کیا۔تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے فرمایا :۔کہ زمین میںطوفان ِضلالت برپا ہے تُو اس طوفان کے وقت میں یہ کشتی تیار کر جو شخص اس کشتی میں سوار ہوگا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا۔اور جو انکار میں رہے گا اس کے لیے موت ہے۔یعنی جو شخص آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑے گا در اصل وہ خدا تعالیٰ سے جڑ جائے گا۔ اور جو آپؑ کے سچے متبعین اور محبت کرنے والے قیامت کے دن تک قائم رہیں گے اور ہمیشہ منکروں پر اُنہیں غلبہ رہے گا۔
(ایضاً صفحہ 12تا25)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اعلائے کلمہ اسلام کے لیے اور تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے روحانی بھائی حضرت حکیم مولوی نور الدین کا ذکر کرتے ہوئے انکی قربانی کو سراہتے ہوئے ان کے مکتوب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت اخویم مولوی صاحب کے اخلاص و وفا اور انتہائی اعلیٰ درجے کی قربانی پہ کسی قسم کا شک و شبہ نہیں اور میرے دل میں انتہا درجے کےجذبات ہیں مگر میں یہ بھی درست نہیں سمجھتا کہ میں وہ تمام ذمہ داریاں اور بوجھ جو کہ ایک جماعت کی ہیںایک فرد واحد پہ ڈال دوں ،اس لیے اس میں تمام افراد کو بحیثیت مجموعی حصہ لینا چاہیے ۔
(ایضاً صفحہ 35تا38)
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمدکی یہی غرض ہےکہ انسانوں کے دلوں میںخدا تعالیٰ سے حقیقی اور سچاتعلق قائم ہو جائےتاکہ انسان نفسانی خواہشات کی پیروی چھوڑ کر نجات کے سرچشمہ تک پہنچ جائے۔کیونکہ خدا پر کامل یقین اور سچا تعلق انسانی تدبیروں اور کوششوںسے ہر گز حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ روشنی خدا تعالیٰ اپنے خاص برگزیدہ بندوں کے ذریعے سےظلمت کے وقت آسمان سے نازل کرتا ہے۔ آپ ؑدعوت حق کی طرف بلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’… سو اے وے لوگو جو ظلمت کے گڑھے میں دبے ہوئے اور شکوک و شبہات کے نتیجہ میں اسیر اور نفسانی جذبات کے غلام ہو صرف اِسمی اور رَسمی اسلام پر ناز مت کرو۔… سوجاگو اور ہوشیار ہو جائو ایسانہ ہو کہ ٹھوکر کھائو۔مبادا سفر آخرت ایسی صورت میں پیش آوےجو درحقیقت الحاد اور بے ایمانی کی صورت ہو ۔یقیناً سمجھو کہ فلاح عاقبت کی امیدوں کا تمام مدوا انحصار ان رسمی علوم کی تحصیل پر ہرگز نہیںہو سکتا۔ ‘‘
(ایضاً صفحہ42)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس روحانی مائدہ سے ہمیشہ مستفیض ہوتے رہیں اوربشمول ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سےحصہ پانے والی ہوں۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ:۔ ’’…وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نےبھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کروکہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جائو اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پائو۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ403ایڈیشن 2003)