شمع کے حضور پروانے
اے شمع دیکھ پھر ترے پَروانے آگئے
بندھن تمام توڑ کے دیوانے آگئے
دریا و بحر و کوہ و بیاباں کو پھاند کر
گِر پڑ کے تیرے در پہ ہیں مستانے آگئے
اہلِ زمیں نے چاہا پہنچنے نہ پائیں یہ
افلاک سے مَلک انہیں پہنچانے آگئے
اُڑ کر ہے کوئی پہنچا تو گھٹنوں کے بَل کوئی
چاروں طرف سے کیسے خدا جانے آگئے
ارضِ صہیبؓ سے کوئی ارضِ بلالؓ سے
دیکھو تو رنگا رنگ کے پَروانے آگئے
آنکھیں ہیں اشک بار تو لب پر درود ہے
عشاق تیرے لے کے یہ نذرانے آگئے
باندھے رہیں گے خدمتِ اسلام پر کمر
تیرے حضور عہد یہ دُہرانے آگئے
دیکھا تھا جس کو دُور سے چشمِ کلیمؑ نے
اس آگ سے دلوں کو یہ گرمانے آگئے
یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے
نامحرموں کو راز یہ سمجھانے آگئے
ان عاشقوں کی مستی کا عالم تو دیکھیے
نام اپنا فردِ جُرم میں لکھوانے آگئے
دیکھو ذرا نظامِ خلافت کی برکتیں
گِردِ امام بکھرے ہوئے دانے آگئے
بھر دے گُلِ مراد سے اب ان کی جھولیاں
دامن تِرے حضور یہ پھیلانے آگئے
ان کے گھروں کا آپ محافظ ہو اَے خدا
تیرے سپرد کر کے یہ کاشانے آگئے
ہیں کتنے خوش نصیب وہ عشّاق اے ظفرؔ
اپنے دلوں کی آگ جو بھڑکانے آگئے