خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍جون 2019ء

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ14؍جون 2019ء بمطابق 14؍ احسان 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، سرے۔ یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

حضرت زید بن حارثہؓ کے واقعات مَیں گذشتہ خطبے میں بیان کر رہا تھا اور اس ضمن میں طائف کے سفر کے واقعے کا بھی ذکر ہوا تھا۔ وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ طائف کے اس سفر کی کچھ مزید وضاحت جو سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے، وہ بھی اس کے حوالے سے بیان کرتا ہوں۔

شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا تھا۔ جب یہ محاصرہ اٹھ گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حرکات و سکنات یعنی موومنٹ (movement) میں کچھ حد تک آزادی نصیب ہوئی تو آپؐ نے ارادہ فرمایا کہ طائف میں جا کر وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ طائف ایک مشہور مقام ہے جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس زمانہ میں قبیلہ بنو ثقیف سے آباد تھا۔ کعبہ کی خصوصیت کو اگر الگ رکھ کر دیکھا جائے تو شہر کے لحاظ سے طائف گویا مکہ کا ہم پلّہ تھا اور اس میں بڑے بڑے صاحبِ ثروت اور دولت مند لوگ آباد تھے اور طائف کی اس اہمیت کا خود مکہ والوں کو بھی اقرار تھا۔ چنانچہ یہ مکہ والوں کا ہی قول ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ

لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيْمٍ۔ (الزخرف:32)

یعنی اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا۔ غرض شوال 10؍ نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے۔ بعض روایتوں میں اکیلے تشریف لے گئے، بعض میں یہ ہے کہ زید بن حارثہؓ بھی ساتھ تھے۔ وہاں پہنچ کر آپؐ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی مگر اس شہر کی قسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدّرنہیں تھا۔ چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے رئیسِ اعظم عَبْدِیَالِیْل اور حدیث میں ابنِ عَبْدِیَالِیْل کا نام آتا ہے، اس کے پاس جاکر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ اگر آپؐ سچے ہیں تو مجھے آپؐ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو پھر گفتگو لا حاصل ہے۔ اس کا کوئی مقصد نہیں اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپؐ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے آپؐ سے کہنے لگا کہ بہتر ہو گا کہ آپؐ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپؐ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں اور اس کے بعد اس بد بخت نے شہر کے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھے لگا دیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپؐ کے پیچھے ہو لیے اور آپؐ پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے آپؐ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیااور جو پہلی روایت ہے اس میں یہ بھی تھا کہ حضرت زید بن حارثہؓ ساتھ تھے، ان کے سر پر بھی پتھر لگے جب وہ پتھروں کو روکتے تھے۔ بہر حال برابر تین میل تک یہ لوگ آپؐ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے۔

طائف سے تین میل کے فاصلے پر مکہ کے رئیس عتبہ بن ربیعہ کا ایک باغ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں آکر پناہ لی اور ظالم لوگ تھک کر واپس لوٹ گئے۔ یہاں ایک سائے میں کھڑے ہو کر آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یوں دعا کی کہ

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ۔اَللّٰھُمَّ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ

اے میرے ربّ ! میں اپنے ضعفِ قوت اور قلتِ تدبیر اور لوگوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بے کسوں کا تو ہی نگہبان اور محافظ ہے۔ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ میں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تو ہی ہے جو ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے۔

عُتْبَہ و شَیْبَہ اس وقت اپنے اس باغ میں موجود تھے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا تو دور و نزدیک کی رشتہ داری سے یا قومی احساس سے یا نہ معلوم کسی اَور خیال سے،بہرحال اپنے عیسائی غلام عَدَّاس نامی کے ہاتھ ایک کشتی میں کچھ انگور لگا کر آپ کے پاس بھجوائے۔ آپؐ نے لے لیے اور عَدَّاس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور کس مذہب کے پابند ہو؟ اس نے کہا کہ میں نینوا کا ہوں اور مذہباً عیسائی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہی نینوا جو خدا کے صالح بندے یونس بن متّٰی کا مسکن تھا؟ عَدَّاس نے کہا۔ اس نے پھر آپ سے پوچھا کہ ہاں مگر آپ کو یونس کا حال کیسے معلوم ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرا بھائی تھا کیونکہ وہ بھی اللہ کا نبی تھا اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں۔ پھر آپؐ نے اسے اسلام کی تبلیغ فرمائی جس کا اس پر اثر ہوا اور اس نے آگے بڑھ کر جوشِ اخلاص میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چوم لیے۔ اس نظارے کو دور سے کھڑے کھڑے عُتْبہ اور شَیْبَہ بھی دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جب عَدَّاس ان کے پاس واپس گیا تو انہوں نے کہا عَدَّاس تجھے کیا ہوا تھا کہ اس شخص کے ہاتھ چومنے لگا۔ یہ شخص تو تیرے دین کو خراب کر دے گا حالانکہ تیرا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔

اس کے بعد پھر تھوڑی دیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغ میں آرام فرمایا اور پھر وہاں سے روانہ ہوئے اور نخلہ میں پہنچے جو مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں کچھ دن قیام کیا۔ اس کے بعد نخلہ سے روانہ ہو کر آپؐ کوہِ حرا پر آئے اور چونکہ سفرِ طائف کی بظاہر ناکامی کی وجہ سے مکہ والوں کے زیادہ دلیر ہو جانے کا اندیشہ تھا اس لیے یہاں سے آپؐ نے مُطْعِم بِن عَدِی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ کیا تم مجھے اس کام میں مدد دے سکتے ہو؟ مُطْعِم پکا کافر تھا مگر طبیعت میں شرافت تھی اور ایسے حالات میں اِنکار کرنا شرفائے عرب کی فطرت کے خلاف تھاکہ اگر کوئی پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ نہ دیں۔ بہرحال عربوں میں اُس زمانے میں بھی، جاہلیت میں بھی یہ خصوصیت تھی۔ اس لیے اس نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور سب مسلح ہو کر کعبے کے پاس کھڑے ہو گئے اور آپؐ کو کہلا بھیجا کہ آجائیں ہم آپؐ کو پناہ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور کعبہ کا طواف کیا اور وہاں سے مُطْعِم اور اس کی اولاد کے ساتھ تلواروں کے سایہ میں اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ راستہ میں ابو جہل نے مُطْعِم کو اس حالت میں دیکھا تو حیران ہو کر کہنے لگا کہ کیا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف پنا ہ دی ہے یا اس کے تابع ہو گئے ہو؟ مُطْعِم نے کہا۔ میں صرف پنا ہ دینے والا ہوں۔ تابع نہیں ہوں۔ اس پر ابوجہل نے کہا۔ اچھا پھر کوئی حرج نہیں۔ بہرحال مُطْعِم کفر کی حالت میں ہی فوت ہوا۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 181 تا 183)

یہ بہرحال اس کی ایک نیکی تھی۔ حضرت زیدؓ جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آپؓ نے حضرت کلثوم بن ھِدْمؓ کے پاس قیام کیا جبکہ بعض کے مطابق آپؓ حضرت سعد بن خَیْثَمہؓ کے پاس ٹھہرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت اُسَیْد بن حُضَیْرؓ سے کروائی۔ بعض نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کی مؤاخات حضرت حمزہؓ سے قائم کروائی۔ یعنی کہ حضرت حمزہ ؓکو آپؓ کا بھائی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ احد کے دن حضرت حمزہ نے لڑائی کے وقت حضرت زیدؓ کے حق میں وصیت فرمائی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 32 زید الحب بن حارثہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 6 حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت )

اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں مزید لکھا ہے کہ

مدینہ پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ کو کچھ روپیہ دے کر مکہ روانہ فرمایا جو چند دن میں آپ کے اور اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی بکر، حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے کر مدینہ پہنچ گئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 269)

حضرت بَرَاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تو اہلِ مکہ نے اس بات سے انکار کیا کہ آپؐ کو مکہ میں داخل ہونے دیں۔ آخر آپؐ نے ان سے اس شرط پر صلح کی کہ آپؐ آئندہ سال عمرے کو آئیں گے اور یہاں مکہ میں تین دن تک ٹھہریں گے۔ جب صلح نامہ لکھنے لگے تو یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی۔ مکہ والے کہنے لگے کہ ہم اس چیز کو نہیں مانتے۔ اگر ہم جانتے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں تو آپؐ کو کبھی نہ روکتے۔ کہنے لگے ہمارے نزدیک تو آپؐ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ یہاں سے مٹا دو۔ حضرت علیؓ نے کہا ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! میں آپؐ کے خطاب کو کبھی نہیں مٹاؤں گا یعنی کہ ‘اللہ کا رسول’۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خطاب دیا ہے اس کو مَیں نہیں مٹا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے لکھا ہوا کاغذ لے لیا۔ آپ اچھی طرح لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ نے یوں لکھا کہ یہ وہ شرطیں ہیں جو محمد بن عبداللہ نے ٹھہرائیں۔ مکہ میں کوئی ہتھیار نہیں لائیں گے سوائے تلواروں کے، جو نیاموں میں ہوں گی اور مکہ والوں میں سے کسی کو بھی ساتھ نہیں لے جائیں گے اگرچہ وہ ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی نہیں روکیں گے اگر وہ مکہ میں ٹھہرنا چاہے۔ بہرحال اس معاہدے کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال مکہ میں داخل ہوئے اور تین دن کی مدت ختم ہو گئی تو قریش حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی محمد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں کیونکہ مقررہ مدت گزر چکی ہے، تین دن ٹھہرنے کی شرط تھی ،تین دن ہو گئے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔ حضرت حمزہؓ کی بیٹی عُمَارَہ ،ایک روایت میں ان کا نام اُمَامَہ اور دوسری روایت میں اَمَۃُاللّٰہ بھی ملتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آئیں کہ اے چچا! اے چچا! حضرت علیؓ نے جا کر اسے لے لیا، پکڑ لیا۔ اس کا ہاتھ پکڑا اور حضرت فاطمہ علیہا السلام سے کہا کہ آپؓ چچا کی بیٹی کو لے لیں۔ انہوں نے اس کو سوار کر لیا۔ اب حضرت علیؓ ،حضرت زیدؓ، اور حضرت جعفر ؓحضرت حمزہؓ کی لڑکی کی بابت جھگڑنے لگے۔ حضرت علیؓ کہنے لگے کہ مَیں نے تو اس کو لیا ہے اور میرے چچا کی بیٹی ہے اور حضرت جعفر نے کہا کہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ اسماء بنت عُمَیْس میری بیوی ہے اور حضرت زیدؓ نے کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات قائم کرائی تھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خالہ کے پاس رہیں یعنی حضرت جعفر جو تھے ان کے پاس رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالہ بمنزلہ ماں کے ہے اور حضرت علیؓ سے کہا تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں اور حضرت جعفر سے کہا تم صورت اور سیرت میں مجھ سے ملتے جلتے ہو اور حضرت زید سے کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو اور دوست ہو۔ حضرت علی نے کہا کہ آپ حمزہؓ کی بیٹی سے شادی نہیں کرلیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ میرے دودھ بھائی ہیں اور میں اس بچی کا چچا ہوں۔ یہ روایت بخاری میں ہے اور سیرة الحلبیة میں بھی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث 4251)
(السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 95 باب ذکر مغازیہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت ام ایمنؓ سے شادی کی تھی۔ حضرت ام ایمنؓ کا نام بَرَکَة تھا اور آپ اپنے بیٹے ایمنؓ کی وجہ سے ام ایمن کی کنیت سے مشہور تھیں۔ آپؓ حبشہ کی رہنے والی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں۔ ان کی وفات کے بعد حضرت آمنہ کے پاس رہنے لگیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھ سال کی تھی تو آپؐ کی والدہ ماجدہ آپؐ کو ساتھ لے کر اپنے میکے سے ملنے مدینہ گئیں تو اس وقت حضرت ام ایمنؓ بطور خادمہ ساتھ تھیں،چھوٹی بھی ہوں گی۔ مدینہ سے واپسی پر جب ابواء مقام جو کہ مسجد نبویؐ سے پانچ میل کے فاصلے پر ہے پہنچے تو حضرت آمنہ کی وفات ہو گئی ۔ حضرت ام ایمنؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انہی دو اونٹوں پر مکہ واپس لے آئیں جن پر وہ مکہ سے گئی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل مکہ میں حضرت ام ایمنؓ کی شادی عُبَیْد بن زید سے ہوئی جو خود ایک حبشی غلام تھے۔ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ایمن تھا۔ حضرت ایمنؓ نے غزوہ حنین میں شہادت کا مقام حاصل کیا۔ حضرت ام ایمنؓ کے خاوند کی وفات ہو گئی تو آپؓ کی شادی حضرت زیدؓ سے کر دی گئی۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت ام ایمنؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت مہربانی سے پیش آتیں اور آپؐ کا خیال رکھتی تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اہل جنت کی خاتون سے شادی کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ام ایمنؓ سے شادی کر لے۔ چنانچہ اس پر حضرت زید بن حارثہؓ نے ان سے شادی کی جس سے حضرت اسامہؓ پیدا ہوئے۔ حضرت ام ایمنؓ نے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ وہاں سے ہجرت کے بعد مدینہ واپس آئیں اور غزوۂ احد میں شرکت کی۔ اس موقعے پر آپؓ لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔ ان کو غزوۂ خیبر میں بھی شرکت کی توفیق ملی۔ 23؍ہجری میں جب حضرت عمرؓ نے شہادت پائی تو حضرت ام ایمنؓ بہت روئیں۔ لوگوں نے پوچھا کیوں روتی ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عمرؓ کی شہادت سے اسلام کمزور پڑ گیا ہے۔ حضرت ام ایمنؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کے آغاز میں ہوئی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 8 صفحہ 179 تا 181 ام ایمن ، جلد 1 صفحہ 93-94ذکر وفاۃ آمنۃ ام رسولؐ اللّٰہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (السیرۃ الحلبیۃ جلد اوّل صفحہ 77 باب وفاۃ والدۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) (اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 291 ’’ام ایمن‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)(معجم البلدان جلد اوّل صفحہ 102 ’’ابواء” مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

حضرت زیدؓ کی حضرت ام ایمنؓ سے شادی کے متعلق مختلف حوالوں سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر کیا ہے اس کاخلاصہ یہ ہے، جو آپؓ کی تحریرات میں ہے کہ ام ایمنؓ وہی ہیں جو آپؐ کے والد کی وفات پر ایک لونڈی کی حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورثہ میں پہنچی تھیں۔ بڑے ہو کر آپؐ نے انہیں آزاد کر دیا تھا اور ان کے ساتھ بہت احسان کا سلوک فرماتے تھے۔ بعد میں ام ایمنؓ کی شادی آپؐ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ کے ساتھ ہو گئی اور ان کے بطن سے اسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے۔(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 99) جنہیں اَلْحِبُّ ابْنُ الْحِبّ یعنی محبوب کا پیارا بیٹا کہا جاتا تھا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 1 صفحہ 75 ‘‘اسامہ بن زید’’ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ایمنؓ کو دیکھ کر فرمایا کرتے تھے کہ يَا أُمَّهْ یعنی اے میری والدہ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُمِّ ایمنؓ کی طرف دیکھتے تو فرماتے۔ هٰذِهٖ بَقِيَّةُ اَهْلِ بَيْتِىْ۔ یہ میرے اہل بیت میں سے باقی ماندہ ہیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے تھے کہ أُمُّ أَيْمَنَ أُمِّيْ بَعْدَ أُمِّيْ ۔ یعنی ام ایمنؓ میری حقیقی والدہ کے بعد میری والدہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں بھی ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔

(تاریخ الطبری جلد 13صفحہ 375المنتخب فی کتاب المذیل والذیل/ذکر تاریخ من عرف وقت وفاتہ من النساء…… دارالفکربیروت2002ء)(اسدالغابۃ جلد 7صفحہ 291، ام ایمن مولاۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب مہاجر مکہ سے مدینہ آئے اور ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ تھا اور انصار زمین اور جائیداد والے تھے تو انصار نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ ان کو اپنے باغوں کا میوہ ہر سال دیا کریں گے لیکن ان میں کام کاج وہ خود کریں گے۔ باغ کا پھل دیں گے، آمد دیں گے لیکن جو باغ کی محنت مزدوری ہے، اس کو سنبھالنا ہے وہ خود کیا کریں گے۔ مہاجرین کو نہیں کرنے دیں گے۔ حضرت انسؓ کی والدہ حضرت ام سُلَیْم تھیں جو حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ ؓکی بھی والدہ تھیں۔ حضرت انس کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کھجور کے درخت دیے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت اپنی کھلائی حضرت ام ایمنؓ کو دے دیے جو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی والدہ تھیں۔ ابنِ شہاب کہتے تھے کہ مجھے حضرت انس بن مالکؓ نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اہلِ خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے اور مدینہ کو لوٹ گئے تو مہاجرین نے انصار کے وہ عطیے یعنی وہ پھل دار درخت جو انہوں نے ان کو اپنے باغوں سے دیے ہوئے تھے، واپس کر دیے۔ اب ان کو اپنی بھی کچھ دولت جائیداد وغیرہ مل گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت انسؓ کی والدہ کو ان کی کھجوریں واپس کر دیں اور ان کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمنؓ کو اپنے باغ میں سے کچھ درخت دے دیے۔

(صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب فضل المنیحۃ حدیث 2630)

بخاری کی ایک دوسری روایت میں اس کی مزید تفصیلات یوں ہیں کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ کوئی صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت خاص کر دیا کرتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ اور نضیر فتح کیے تو آپؐ کو ان کی ضرورت نہ رہی۔ تو وہ کہتے ہیں کہ میرے گھر والوں نے مجھے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ درخت جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے تھے یا ان میں سے کچھ درخت واپس کرنے کے لیے کہوں کیونکہ اب آپؐ کو ضرورت نہیں رہی۔ حضرت انسؓ سے یہ روایت ہے۔ تو کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت کیونکہ حضرت ام ایمنؓ کو دیے ہوئے تھے تو یہ سن کر حضرت ام ایمنؓ آئیں اور میری گردن میں کپڑا ڈالا اور بولیں کہ میں ہرگز نہیں دوں گی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کہ یہ درخت تمہیں کبھی نہیں ملیں گے جبکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دے چکے ہیں یا کچھ ایسا ہی کہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، واپس کر دو۔ تمہیں اتنے ہی اَور دوں گا۔ جتنے تمہیں درخت دیے ہوئے ہیں اُتنے ہی دوسری جگہ سے اَور دے دوں گا۔ لیکن وہ کہتی تھیں کہ اللہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو، حضرت ام ایمنؓ کو اس سے دس گنا دیے یا کچھ ایسے ہی الفاظ تھے جو کہے۔(صحیح البخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیﷺ من الاحزاب …… الخ حدیث 4120)کہ میں تمہیں دس گنا دے دوں گا۔ اس کے بعد یہ درخت واپس کیے گئے۔

ایک روایت ہے کہ حضرت ام ایمنؓ کو مدینہ کی طرف پیدل ہجرت کرتے وقت شدید پیاس لگی، بڑی بزرگ عورت تھیں، اللہ تعالیٰ سے ان کا بڑا خا ص تعلق تھا۔ اس وقت آپؓ کے پاس پانی بھی نہیں تھا اور گرمی بھی بہت شدید تھی۔ انہوں نے اپنے سر کے اوپر کسی چیز کی آواز سنی تو کیا دیکھتی ہیں کہ ان پر آسمان سے ڈول کی مانند ایک چیز جھک آئی تھی جس سے پانی کے سفید قطرات گر رہے تھے۔ انہوں نے اس میں سے پانی پیا یہاں تک کہ سیراب ہو گئیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد سے مجھے کبھی پیاس اور تشنگی کا احساس نہیں ہوا، تکلیف نہیں ہوئی اور کبھی روزے کی حالت میں بھی پیاس محسوس ہوتی تو تب بھی میں پیاسی نہیں رہتی تھی۔

بدری صحابہ کے ساتھ جن خواتین کا بھی تعلق ہے ان خواتین کا ذکر بھی بعض صحابہ کے ذکر میں آ جاتا ہے تاکہ ان خواتین کے بلند مقام کا بھی ہمیں پتا لگتا رہے اس لیے میں یہ ذکر ساتھ ساتھ کرتا رہتا ہوں۔
حضرت ام ایمنؓ کی زبان میں کچھ لکنت تھی جب وہ کسی کے پاس جاتیں تو سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کی بجائے، (پہلے یہ سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کہنے کا رواج تھا،) لکنت کی وجہ سے سَلَامٌ لَا عَلَیْکُمْ کہتی تھیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سَلَامُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ کی بجائے سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کی اجازت دی اور اب وہی رواج ہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا تو اس وقت حضرت ام ایمنؓ آپؐ کے پاس تھیں۔ انہوں نے کہا یا رسولؐ اللہ! مجھے بھی پانی پلائیں۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں اس پرمیں نے اُن سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم اس طرح کہہ رہی ہو کہ تمہیں پانی پلائیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ کیا مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ خدمت نہیں کی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے۔ پھر آپؐ نے انہیں پانی پلایا۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد اول صفحہ 77-78 باب وفاۃ والدۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو حضرت ام ایمنؓ روتی رہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپؓ کیوں رو رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میں یہ تو جانتی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرور وفات پا جائیں گے لیکن میں تو اس لیے روتی ہوں کہ وحی ہم سے اٹھا لی گئی۔

(اسدالغابۃ جلد 7صفحہ 291، ام ایمن مولاۃ رسول اللہﷺ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2008ء)

یعنی آپؐ کی وفات کا ایک غم ہے وہ تو الگ رہا لیکن اس کے ساتھ جو تازہ بتازہ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا تھا، وحی ہوتی تھی وہ سلسلہ اب بند ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے مجھے رونا آ رہا ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہمارے ساتھ حضرت ام ایمنؓ کے ہاں چلو کہ ان سے ملیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ اس پر ان دونوں نے انہیں کہا کہ آپؓ کیوں روتی ہیں؟ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔ حضرت ام ایمنؓ نے کہا کہ میں اس لیے نہیں روتی کہ جانتی نہیں ہوں کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ اس کے رسولؐ کے لیے بہتر ہے۔ ان کا بھی نیکی میں بڑا مقام تھا جیسا کہ میں نے کہا۔ کہتی ہیں کہ میں تو اس لیے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی آنا بند ہو گئی۔ انہوں نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ دونوں بھی رونے لگے۔

(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ام ایمن حدیث (2454)

حضرت اسامہؓ اور حضرت زیدؓ کی رنگت کا بڑا فرق تھا۔ ماں کیونکہ حبشہ کی رہنے والی تھیں، افریقن تھیں۔ اور زیددوسری جگہ کے رہنے والے تھے تو اس وجہ سے باپ بیٹے میں فرق تھا۔ ماں کی طرف ان کا رنگ زیادہ مائل تھا جس کی وجہ سے بعض لوگ حضرت اسامہؓ کی نسل پر اعتراض کرتے تھے۔یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت زیدؓ کے بیٹے نہیں ہیں یا اعتراض برائے اعتراض ہوتے تھے ۔منافقین بھی اعتراض کیا کرتے تھے تو حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے پاس آئے تو آپؐ بڑے خوش تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ! ابھی مُجَزِّزْ مُدْلَجِی میرے پاس آیا تھا۔ اس نے اسامہ بن زیدؓ اور زید بن حارثہؓ کو اس حالت میں دیکھا کہ ان دونوں پر ایک چادر تھی ۔گرمی کی وجہ سے یا بارش کی وجہ سے بہرحال کسی وجہ سے ایک چادر دونوں نے لی ہوئی تھی اور منہ ڈھکے ہوئے تھے، جس سے انہوں نے اپنے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا اور چہرے بھی نظر نہیں آ رہے تھے اور ان دونوں کے پیر باہر نکلے ہوئے تھے۔ صرف پیر باہر نکلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ یقیناً یہ پیر ایک دوسرے میں سے ہیں یعنی کہ دونوں کے جو پاؤں ہیں بہت مشابہت رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خوش تھے کہ اسامہؓ پر جو اعتراض کیا جاتا تھا آج وہ اعتراض دور ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ماہر قیافہ شناس ہے اور یہ دیکھنے والے قیافہ شناس جو دنیادار آدمی ہوتے ہیں اس کی یہ بھی گواہی ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الفرائض باب القائف حدیث 6771) (فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب الفرائض حدیث 6771جلد 12 صفحہ 58 مطبوعہ دار الریان للتراث القاھرہ 1987ء)

اور عرب کے ماحول میں یہ ایک حتمی بات ہوا کرتی تھی۔ ویسے تو کوئی نہیں لیکن یہ جو دنیا داروں کا منہ بند کرانے کے لیے، منافقین کا منہ بند کرانے کے لیے ایک ثبوت ملا جس پہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش تھے۔

حضرت زیدؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے بھی تھے۔ آپؐ نے حضرت زیدؓ کی ایک شادی حضرت زینب بنت جحشؓ سے کروائی تھی لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہیں چلی اور حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی۔ یہ شادی ایک سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ تک رہی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت زینب بنت جحشؓ سے شادی کی۔

(السیرۃ النبویۃ ، عرض وقائع و تحلیل احداث از دکتور علی محمد صلابی۔ صفحہ 628-629۔ المبحث الاول: زواج النبی ﷺ بزینب بنت جحش، دار المعرفۃ بیروت 2007ء)

مختلف حوالوں کو اکٹھا کر کے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے جو تحریر فرمایا ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ

ہجرت کے پانچویں سال میں غزوۂ بنی مصطلق سے کچھ عرصہ پہلے جو شعبان 5؍ہجری میں واقع ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحشؓ سے شادی فرمائی۔ حضرت زینبؓ آنحضرتؐ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں اور باوجود نہایت درجہ نیک اورمتقی ہونے کے ان کی طبیعت میں اپنے خاندان کی بڑائی کااحساس بھی کسی قدر پایا جاتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اس قسم کے خیالات سے بالکل پاک تھی اور گو آپؐ خاندانی حالات کوتمدنی رنگ میں قابلِ لحاظ سمجھتے تھے مگر آپؐ کے نزدیک بزرگی کا حقیقی معیار ذاتی خوبی اورذاتی تقویٰ وطہارت پرمبنی تھا۔ جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاكُمْ (الحجرات:14) یعنی اے لوگو! تم میں سے جو شخص زیادہ متقی ہے وہی زیادہ بڑا اور صاحبِ عزت ہے۔ پس آپؐ نے بلا کسی تامل کے اپنی اس عزیزہ یعنی زینب بنت جحشؓ کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اورمتبنیٰ زید بن حارثہؓ کے ساتھ تجویز فرمادی۔ پہلے تو زینبؓ نے اپنی خاندانی بڑائی کاخیال کرتے ہوئے اسے ناپسند کیا لیکن آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی پُرزور خواہش کودیکھ کر رضامند ہو گئیں۔ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اورتجویز کے مطابق زینبؓ اور زیدؓ کی شادی ہو گئی اور گو زینبؓ نے ہر طرح شرافت سے نبھاؤ کیا مگر زیدؓ نے اپنے طَور پر یہ محسوس کیا کہ حضرت زینبؓ کے دل میں ابھی تک یہ خلش مخفی ہے کہ میں ایک معزز خاندان کی لڑکی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قریبی رشتہ دار ہوں اور حضرت زیدؓ ایک محض آزاد شدہ غلام ہے اور میرا کفو نہیں۔ دوسری طرف خود زیدؓ کے دل میں بھی زینب کے مقابلہ میں اپنی پوزیشن کے چھوٹا ہونے کا احساس تھا اور اس احساس نے آہستہ آہستہ زیادہ مضبوط ہوکر ان کی خانگی زندگی کو بے لطف کر دیا تھا اور میاں بیوی میں ناچاقی رہنے لگی تھی۔ جب یہ ناگوار حالت زیادہ ترقی کر گئی توزید بن حارثہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بزعم ِخود زینبؓ کے سلوک کی شکایت کرکے انہیں طلاق دے دینے کی اجازت چاہی اورایک روایت میں یوں بھی آتا ہے کہ انہوں نے یہ شکایت کی کہ زینبؓ سخت زبانی سے کام لیتی ہے۔ اس لیے میں اسے طلاق دینا چاہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً یہ حالات معلوم کرکے صدمہ بھی ہوا مگر آپؐ نے زیدؓ کو طلاق دینے سے منع فرمایا اور غالباً یہ بات محسوس کرکے کہ زیدؓ کی طرف سے نبھاؤ کی کوشش میں کمی ہے آپؐ نے حضرت زیدؓ کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو۔ اس کی کوشش کرو۔ چنانچہ قرآن شریف میں بھی آپ کے یہ الفاظ مذکور ہیں کہ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ (الاحزاب:38) کہ اے زید! اپنی بیوی کو طلاق نہ دو اور خدا کا تقویٰ اختیار کرو۔آپؐ کی اس نصیحت کی وجہ یہ تھی کہ اول تواصولاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طلاق کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا تھا کہ اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ۔ کہ ساری حلال چیزوں میں سے طلاق خدا کو زیادہ ناپسند ہے اوراسی لیے اسلام میں صرف انتہائی علاج کے طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔ دوسرے جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین کی روایت ہے اور امام زہری نے اس روایت کو مضبوط قرار دیا ہے چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے سے یہ وحی الٰہی ہوچکی تھی کہ زید بن حارثہؓ بالآخر زینبؓ کو طلاق دے دیں گے اوراس کے بعد زینبؓ آپؐ کے نکاح میں آئیں گی اس لیے آپؐ اس معاملہ میں اپنا ذاتی تعلق سمجھتے ہوئے بالکل غیر متعلق اورغیر جانبدارانہ رویہ رکھنا چاہتے تھے اوراپنی طرف سے اس بات کی پوری پوری کوشش کرنا چاہتے تھے کہ زیدؓ اورزینبؓ کے تعلق کے قطع ہونے میں آپؐ کا کوئی دخل نہ ہو اور جب تک نبھاؤ کی صورت ممکن ہو نبھاؤ ہوتا رہے اور تعلق قائم رہے اوراسی خیال کے ماتحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اصرار کے ساتھ زیدؓ کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم طلاق نہ دو اورخدا کا تقویٰ اختیار کرکے جس طرح بھی ہو نبھاؤ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بھی اندیشہ تھا کہ اگر زیدؓ کی طلاق کے بعد زینبؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں تو لوگوں میں اس کی وجہ سے اعتراض ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے اور خواہ نخواہ ابتلا کی صورت پیداہوگی۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ اَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ (الاحزاب:38) کہ اے نبی! تُو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھا وہ بات جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا۔ وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ … جسے خدا نے آخر ظاہر کر دیا تھا۔ اور تو لوگوں کی وجہ سے ڈرتا تھااوریقیناً خدا اس بات کا بہت زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔

بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیدؓ کو تقوی اللہ کی نصیحت کرکے طلاق دینے سے منع فرمایا اورآپؐ کی اس نصیحت کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے زیدؓ خاموش ہوکر واپس آگئے مگر اکھڑی ہوئی طبیعتوں کا ملنا مشکل تھا۔ دراڑیں پیدا ہو چکی تھیں۔ اب بڑا مشکل تھا اورجو بات نہ بننی تھی نہ بنی اورکچھ عرصے کے بعدزیدؓ نے طلاق دے دی۔ جب زینبؓ کی عدت ختم ہوچکی تو ان کی شادی کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر وحی نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوانہیں خود اپنے عقد میں لے لینا چاہیے اور اس خدائی حکم میں علاوہ اس حکمت کے کہ اس سے حضرت زینبؓ کی دلداری ہوجائے گی اورمطلقہ عورت کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں میں عیب نہ سمجھا جائے گا۔ یہ حکمت بھی مدِّنظر تھی کہ چونکہ حضرت زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنیٰ تھے اورآپؐ کے بیٹے کہلاتے تھے اس لیے جب آپؐ خوداس کی مطلقہ سے شادی فرما لیں گے تو اس بات کا مسلمانوں میں ایک عملی اثرہوگا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اورنہ اس پر حقیقی بیٹوں والے احکام جاری ہوتے ہیں اور آئندہ کے لیے عرب کی جاہلانہ رسم مسلمانوں میں پورے طور پر مٹ جائے گی۔ چنانچہ اس بارہ میں قرآن شریف نے جو تاریخ اسلامی کا سب سے زیادہ صحیح ریکارڈ ہے یوں فرماتا ہے کہ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْ أَزْوَاجِ اَدْعِيَائِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (الاحزاب:38) یعنی جب زیدنے زینب سے قطع تعلق کرلیا توہم نے زینب کی شادی تیرے ساتھ کردی تاکہ مومنوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی روک نہ رہے بعد اس کے کہ وہ منہ بولے بیٹے اپنی بیویوں سے قطع تعلق کرلیں اورخدا کا یہ حکم اسی طرح پورا ہونا تھا۔

الغرض اس خدائی وحی کے نازل ہونے کے بعد جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی خواہش اورخیال کا قطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینبؓ کے ساتھ شادی کا فیصلہ فرمایا اورپھر حضرت زیدؓ کے ہاتھ ہی حضرت زینبؓ کوشادی کا پیغام بھجوایا اور حضرت زینبؓ کی طرف سے رضامندی کا اظہار ہونے پر ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے ان کی طرف سے ولی ہوکر چار سو درہم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا نکاح کردیا اوراس طرح وہ قدیم رسم ،جو عرب کی سرزمین میں راسخ ہوچکی تھی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی نمونے کے نتیجے میں اسلام میں جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دی گئی۔

اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ عام مؤرخین اور محدثین کایہ خیال ہے کہ چونکہ زینبؓ کی شادی کے متعلق خدا ئی وحی نازل ہوئی تھی اورخدا کے خاص حکم سے یہ شادی وقوع میں آئی اس لیے ظاہری طور پر ان کے نکاح کی رسم ادا نہیں کی گئی مگر یہ خیال درست نہیں ہے۔ بے شک خدا کے حکم سے یہ شادی ہوئی اور کہا جاسکتا ہے کہ آسمان پرنکاح پڑھا گیا مگر اس وجہ سے شریعت کی ظاہری رسم جو تھی وہ بھی خدا ہی کی مقرر کردہ ہے اس سے آزادی حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ابنِ ہشام کی روایت ،جس کا حوالہ پہلے درج کیا گیا ہے اورجس میں ظاہری رسم نکاح کا واقع ہونا بتایا گیا ہے، اس معاملہ میں واضح ہے اورکسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ اور یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ دوسری امہات المومنین کے مقابلے میں حضرت زینبؓ یہ فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے ولیوں نے زمین پر پڑھائے ہیں اور میرا نکاح آسمان پر ہوا ہے، اس سے بھی یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت زینبؓ کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی کیونکہ باوجود ظاہری رسم کی ادائیگی کے ان کا یہ فخر قائم رہتا ہے کہ ان کا نکاح خدا کے خاص حکم سے آسمان پر ہوا مگر اس کے مقابل پر دوسری امہات المومنین کی شادیاں عام اسباب کے ماتحت ظاہری رسم کی ادائیگی کے ساتھ وقوع میں آئیں۔

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اذن کے زینبؓ کے پاس تشریف لے گئے تھے اوراس سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے نکاح کی ظاہری رسم ادا نہیں ہوئی تھی مگر غور کیاجاوے تو اس بات کو بھی ظاہری رسم کے ادا ہونے یا نہ ہونے کے سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینبؓ کے گھر بغیر اجازت چلے گئے تھے تویہ غلط اورخلافِ واقعہ ہے کیونکہ بخاری کی صریح روایت (بڑی واضح روایت) میں یہ ذکر ہے کہ شادی کے بعد زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں رخصت ہوکرآئی تھیں نہ کہ آپؐ ان کے گھرگئے تھے اور اگر اس روایت سے یہ مراد ہے کہ جب وہ رخصت ہو کر آپؐ کے گھر آگئیں تواس کے بعد آپؐ ان کے پاس بغیر اذن کے تشریف لے گئے تو یہ کوئی غیر معمولی اورخلافِ دستور بات نہیں ہے کیونکہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بن کر آپؐ کے گھر آگئی تھیں تو پھر آپؐ نے بہرحال ان کے پاس جانا ہی تھا اور آپؐ کواذن کی ضرورت نہیں تھی۔ پس اذن نہ لینے والی روایت کا قطعاً کوئی تعلق اس سوال سے نہیں ہے کہ آپؐ کے اس نکاح کی ظاہری رسم ادا کی گئی یا نہیں۔ اورحق یہی ہے جیسا کہ ابنِ ہشام کی روایت میں تصریح کی گئی ہے کہ باوجود خدائی حکم کے اس نکاح کی باقاعدہ رسم ادا کی گئی تھی۔ اورعقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایسا ہوا ہو کیونکہ اول تو عام قاعدے میں استثنا کی کوئی وجہ نہیں تھی اور دوسرے جب اس نکاح میں ایک رسم کاتوڑنا اوراس کے اثر کوزائل کرنا مقصود تھا۔ (یہ پہلے رسم تھی اور بڑی پکی رسم تھی کہ متبنیٰ کی بیوی سے نکاح نہیں ہو سکتا اور اس رسم کو توڑنا مقصد تھا) تو اس بات کی پھر بدرجہ اولی ضرورت تھی، بہت زیادہ ضرورت تھی کہ یہ نکاح بڑے اعلان کے ساتھ کیا جاتا اور بڑی شہادتوں کے سامنے کیا جاتا تا کہ دنیا کو پتا لگتا کہ یہ رسم آج ختم ہو رہی ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ 543 تا 546)

حضرت زیدؓ کی زندگی کے واقعات کے تعلق میں حضرت زینبؓ کے بارے میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے بارے میں بھی میں نے کچھ تفصیل سے یہ ذکر اس لیےکیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت زینبؓ کی شادی کے بارے میں آج کل بھی معترضین سوال اور اعتراض کرتے ہیں اس لیے اس بارے میں ہمیں کچھ تفصیلی علم بھی ہونا چاہیے۔ اس کی بعض اَور تفصیلات بھی ہیں ۔حضرت زیدؓ کے بارے میں بھی بعض باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ تو یہ دونوں باتیں جس حد تک بیان کرنے کی ضرورت ہوئی میں آئندہ بھی کروں گا۔ حضرت زید کے حوالے سے یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button