’’خلیفۂ وقت کی تمام تقاریر حقیقی اسلام کا گہوارہ ہیں۔ آپ کی باتیں از خود دل میں اتر جاتی ہیں۔‘‘ جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کے تأثرات
خطبہ جمعہ فرمودہ 09؍اگست 2019ء
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 09؍ اگست 2019ء بمطابق 09؍ ظہور 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن، سرے۔یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے کا سہ روزہ جلسہ سالانہ اختتام کو پہنچا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی اَن گنت برکات ان جلسوں کے ساتھ منسلک ہیں جن کے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے حامل بنتے ہیں۔ جلسے کے بعد کے جمعے کے خطبے میں انہی باتوں کامیں ذکر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد جماعت پر جو اثر ہوتا ہے وہ تو ہے، غیروں پر بھی اس کا کیا اثر ہے اور کس طرح وہ جلسے کے ماحول کو دیکھتے ہیں اور نئی نئی باتیں ان کو پتا لگتی ہیں، اسلام کے بارے میں تحفظات ان کے ختم ہوتے ہیں۔ تو ان باتوں کا مَیں عموماً اگلے جمعے میں ذکر کیا کرتا ہوں اور کروں گا لیکن اس سے پہلے میں تمام کارکنان اور کارکنات کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں جو کسی بھی شعبے سے منسلک تھے۔ کسی بھی شعبے میں کسی بھی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ معاون سے لے کر افسر تک، عورت، مرد، بچے، جوان، بوڑھے ہر ایک بے نفس ہو کر اپنی ڈیوٹیاں اور فرائض سرانجام دے رہا تھا اور غیر مہمانوں کے سامنے اپنے عمل سے اسلام کی حقیقی تصویر یہ لوگ پیش کر رہے تھے۔ خاص طور پر معاونین شکریے کے مستحق ہیں کہ جو ایک بڑی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اصل کام تو ان معاونین کا ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ جلسے کے کارکنان کے علاوہ مستقل مرکزی دفاتر کے کارکنان ہیں۔ ایم۔ٹی۔اے کے کارکنان ہیں۔ اس میں یوکے کے رہنے والے والنٹیئر بھی ہیں اور دوسرے ممالک سے بھی آئے۔ بعض ڈاکیومنٹریز پیش کی گئیں ان کی تیاری کے لیے کام کرنے والے اور کچھ وہاں سٹوڈیو میں پروگرام ہوئے ان میں کام کرنے والے۔ غرض کہ ہر شعبہ جو ہے جلسے کے دنوں میں اپنا بڑا فعال کردار ادا کرتا ہے۔ پھر ریویو آف ریلیجنز کی جو نمائش ہوتی ہے اس کا بڑا اثر ہوتا ہے اور آرکائیو کی نمائش ہے۔ پھر مخزنِ تصاویر ہے تو یہ سب شعبے جو کام کر رہے ہیں اور تمام کارکنان جو ہیں جنہوں نے جلسے سے پہلے کام کیا ہے یا بعد میں، سب اپنا ایک اہم کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ لوگ ہمارے شکریے کے مستحق ہیں۔ اب میں بعض لوگوں کے جو تاثرات ہیں وہ وقت کی رعایت سے پیش کروں گا۔
مالے ہوسو یعقوب صاحب مسلم کمیونٹی بینن کے وائس پریذیڈنٹ ہیں اس دفعہ جلسہ میں شامل ہوئے کہتے ہیں میں نے بیس سے زیادہ حج کیے ہیں لیکن جماعتِ احمدیہ کے جلسے میں شامل ہو کر مجھے اس سے کہیں زیادہ بہتر انتظامات دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ جلسے کا ماحول ایسا تھا کہ میں نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا۔ میں نے بہت سی مذہبی کانفرنسز اور اجتماعات میں شرکت کی ہے لیکن جلسہ سالانہ جیسا ماحول کہیں نہیں ملا۔ ائیر پورٹ سے لے کر رہائش کے انتظامات تک ایسے انتظامات تھے کہ لگتا تھا کہ گھر میں رہ رہے ہیں۔ پھر جلسے میں ہر طبقے کے لوگوں کو دیکھا۔ انجنیئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز پڑھے لکھے لوگ، بڑے علم والے لوگ بڑے انکسار سے سب نے ہماری خدمت کی اور اس بات پر بڑے خوش تھے۔ پھر میری تقاریر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سے صحیح اسلام کا پیغام ملا اور اسی پیغام کی عالم ِاسلام کو اور مسلمانوں کو ضرورت ہے تا کہ اسلام کے بارے میں جو تحفّظات ہیں وہ دور ہوں۔ کہتے ہیں میں نے یہاں آ کر بہت کچھ سیکھا۔ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ میں بینن جا کر لوگوں کو بتاؤں گا کہ دوسروں کی باتوں پر کان نہ دھرو اور احمدیت سے سیکھو۔ صرف احمدی ہی ہیں جو دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان کو بیان کر رہے ہیں۔
پھر برکینا فاسو سے سیمون سوادوگو صاحب (Simeon Sawadogo)ہیں جو وزیر مذہبی امور ہیں اور وزیرِ داخلہ اور وزیر ِمملکت ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار یہ کیا کہ بطور وزیر مذہبی امورمیں تمام مذاہب کا احترام کرتا ہوں۔جلسے میں شامل ہو کر میرے بہت سے سوال حل ہو گئے ہیں۔ وہ سوالات جومیں نے پوچھے بھی نہیں ان کے جواب بھی مل گئے۔ میری بہت مدد ہوتی ہے۔ میں پہلی دفعہ جلسے میں شامل ہوا ہوں۔ جلسے کے مقدس خیالات اور پاکیزہ ماحول نے روحانی طور پرمیری بہت مدد کی ہے۔ ہم محبت، اخلاقیات اور اصولوں پر عمل پیرا ہو کر مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ پھر جلسے کے کارکنان کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جلسے میں کام کرنے والے رضاکار ٹائلٹ صاف کر رہے تھے، پلیٹیں دھو رہے تھے، چھوٹے بچے پانی پلا رہے تھے ۔ یہ سب کچھ جذبۂ ایثار کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسروں کی خدمت کرنے کا جذبہ غیر معمولی ہے۔ پھر کہتے ہیں میں مسجد فضل بھی گیا۔ چھوٹی سی مسجد ہے، ابتدائی مسجد ہے ۔اس میں کشش تھی اور سادگی بھی، اس کی ایک خوبصورتی تھی۔ پھر بیعت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اخلاص، وفا اور اطاعت کی ایک زنجیر جو دنیا کے لیے نمونہ ہے اور لوگ خلیفہ کی آواز کو سمجھ نہیں رہے۔ آج کی دنیا مادیت کے پیچھے دوڑ رہی ہے لیکن اس مادہ پرستی کا نقصان بھی انسان کو ہی ہو رہا ہے اور پھر میرے متعلق کہا کہ اپنے خطاب میں بہتر معاشرے قائم کرنے کا لائحہ عمل دیا ہے۔ والدین کے حقوق ہیں۔ بچوں کے حقوق ہیں اور جو آخری تقریر تھی اس میں یہ چیزیں تھیں ان لوگوں نے اس سے کافی اثر لیا ہے۔ اکثر لوگوں نے یہی تبصرے کیے ہیں۔
برکینا فاسو سے سایوبہ اورراگو صاحب (Sayouba Quedraogo)ممبر پارلیمنٹ ہیں کہتے ہیں جلسہ بہت اچھا تھا۔ ہر کام منظم تھا ۔ہر کوئی متحرک تھا۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے چھوٹے بڑے مردوزَن اسلام کے لیے ہر خدمت کے لیے تیار تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج اسلام احمدیت کے ذریعہ پھیل رہا ہے۔ احمدی ایک دوسرے کی مدد کرتے اور دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے میرے بارے میں یہ کہا کہ آپ نے ہمارے حکمرانوں کے لیے اور قیامِ امن کے لیے دعا کی، یہ ہمارے لیے سرمایہ ہے۔ جلسے کے موقعے پر ہمارا بڑا اچھا استقبال کیا گیا اور پھر باقی تقاریر بھی بہت اعلیٰ تھیں۔
پھر یونان سے چیف ریبائے آف ایتھنز (Chief Rabbi of Athens)گیبرئیل نیگرین صاحب (Gabriel Negrin) تھے کہتے ہیں مَیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے اس حیرت انگیز بین الاقوامی جلسے کا حصہ بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جلسے کا ماحول اور منتظمین اور شرکاء دونوں کی فراخ دلی کا ہر پہلو جماعتِ احمدیہ کے نصب العین ‘محبت سب کے لیے’ کو اجاگر کرتا ہے۔ بحیثیت ریبائے (Rabbi)میں نے یہاں دوسرے مذاہب اور عقائد کے لیے قبولیت اور احترام کو محسوس کیا۔ پھر کہتے ہیں مجھے ان تمام محترم اماموں نے دل سے اعزاز سے نوازا جن سے مجھے ملاقات اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں واقعی خوش تھا کہ میں اپنی مخصوص ٹوپی کیپا (kippah)سر پہ پہن کے بغیر کسی دھمکانے والے اشارے، غضب ناک دیکھتی ہوئی نظروں یا نعوذ باللہ متشدد ردّعمل کے ہزاروں مسلمان بھائیوں کے درمیان گھومتا پھرتا تھا اور یہ بالکل اس کے برعکس تھا جو باقی جگہ مجھے دیکھنے کو ملتا ہے۔ پھر کہتے ہیں ہر لحاظ سے میرا خیال رکھا گیا۔ میرے لیے کھانا بھی میرے مطابق تیار کیا گیا۔ میری عبادت کے فرائض ہیں ان کو بھی ایڈجسٹ (adjust)کیا گیا اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن جلسے کی انتظامیہ نے اور میرے میزبانوں نے یہ سب کچھ میرے لیے کیا۔
پھر جاپان سے بدھ مت کے معبد کے چیف یوشیدا نی چی کو(Yoshida Nichiko)، یہ جلسے پہ آئے تھے اور ان کے مطابق میجی (Meiji)بادشاہ کی والدہ ان کے معبد کی مرید تھیں اور ٹوکیو میں واقع ان کے معبد میں میجی بادشاہ کی والدہ کی راکھ بھی دفن ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسے کا ماحول دیکھ کر دل کو حقیقی سکون ملتا ہے۔ سب کی حفاظت کے لیے چیکنگ تو ہوتی ہے لیکن کوئی جھگڑا نہیں دیکھا، کسی کو تلخ ہوتے نہیں دیکھا۔ کھانے سے لے کر تقاریر تک سب پروگرام نہایت منظم تھے اور پھر خطاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ بہت بَروقت محسوس ہوا۔ آج واقعی دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مذہب کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کی مدد سے ہم ایک دوسرے کے حقوق ادا کر سکتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ جاپانی معاشرہ بھی والدین اور بچوں میں دوری کے مسئلے سے دوچار ہے۔ ہر طرح کی کوشش کے باوجود ہم اس لہر کا مقابلہ نہیں کر پا رہے اور کہتے ہیں کہ آپ کی نصائح ہم اپنے معاشرے میں بھی استعمال کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ کہتے ہیں اسلام کے بارے میں پہلے بھی میرا برا تأثر نہیں تھا لیکن جلسے کا ماحول دیکھ کر جب بیعت کی تقریب کا وقت آیا تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں امن کے قیام اور محبت و اخوت پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے مجھے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دینا چاہیے لہٰذا میں بھی بیعت میں شامل ہو گیا۔ میں آپ کی لیڈرشپ کو تسلیم کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ دنیا کے امن کے لیے کی جانے والی کاوشوں میں آپ کا مددگار ہوں گا۔ یعنی یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے بیعت کر لی لیکن دنیا میں امن قائم کرنے کا جو مقصد ہے اس کے لیے کہتے ہیں کہ میں ہر طرح آپ کے ساتھ ہوں۔
ارجنٹائن سے ایک خاتون تھیں جودِث صاحبہ (Judith) یہ خود عیسائی ہیں۔ ان کے خاوند نے دس ماہ پہلے احمدیت قبول کر لی تھی۔ کہتی ہیں کہ میں پیشے کے اعتبار سے وکیل ہوں اور جلسے کی تقاریر میں سے میری سب سے پسندیدہ تقریر امام جماعت کا اختتامی خطاب تھا (وہ میرے خطاب کی بات کر رہی ہیں) جس میں آپ نے بڑی تفصیل اور خوبصورتی سے اسلامی تعلیمات کے ذریعہ قائم ہونے والے ہیومن رائٹس پر روشنی ڈالی۔ جلسے میں شامل ہونے سے قبل میں کچھ پریشان تھی اور کچھ تحفظات بھی تھے۔ میرا خیال تھا کہ اس قدر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں گے تو یقیناً بدمزگی اور جھگڑے ہوں گے لیکن آپ لوگوں کا جمع ہونا ہمارے لوگوں کے جمع ہونے سے بالکل مختلف تھا۔ لوگوں کے رَش اور اس قدر بڑی تعداد میں جمع ہونے کے باوجود ہر وقت پیار محبت اور امن کا ماحول تھا ۔لوگوں کے چہروں پر مستقل مسکراہٹ تھی۔ پھر یہ کہتی ہیں مجھے یہ بھی فکر تھی کہ جلسے میں شامل ہونے کے لیے مجھے اسلامی پردہ کرنے کا کوئی لازمی حکم نہ دیا جائے دباؤ نہ ڈالا جائے۔ لیکن شروع سے لے کر آخر تک میں نے اپنے آپ کو آپ کے درمیان اسلامی پردے کے بغیر بہت ہی comfortable محسوس کیا اور آپ کی عورتیں اور مرد مجھ سے بڑی عزت سے پیش آئے بلکہ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ لوگ میرا دوسروں سے زیادہ خیال رکھ رہے ہیں۔
لائبیریا کے منسٹر برائے پوسٹ اینڈ ٹیلی کمیونی کیشن کُوپر ڈبلیو کرُوآ صاحب (Kooper W. Kruah) شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں جلسے کے مختلف پروگرامز کا انعقاد ایسے خوبصورت طریق سے کیا گیا کہ مجھے اس میں کسی قسم کی کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ یہاں تک کہ جلسے کے انتظامات کے بعض حصے جیسا کہ پبلک ریلیشن سے لے کر کچن تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام انتظامات رضاکاروں کی ٹیم انجام دے رہی تھی جو برادرانہ ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ کسی کی ایسی کمٹمنٹ (commitment) نہیں دیکھی جیسے یہ رضا کار اپنے کام کے لیے comitted تھے۔ جلسے کے پروگراموں کے دوران شاملینِ جلسہ کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے لیے عزت اور اخوت کے جذبات دیکھنے کو ملے۔ انتالیس ہزار سے زیادہ لوگوں کے لیے اتنے وسیع پیمانے پر کسی انتظامی بدنظمی کے بغیر سارے پروگرام ترتیب دینا کم از کم میرے لیے تو حیران کن ہے۔
پھر یوروگوائے سے ایک مہمان خاتون تھیں جو یونیورسٹی میں اورینٹل سٹڈیز (Oriental Studies)کی پروفیسر ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں تیس سال سے زائد عرصے سے اسلامی ممالک اور تنظیموں کا مطالعہ کر رہی ہوں۔ آپ کے جلسے میں شامل ہو کر دو امتیازی باتیں دیکھی ہیں جو کہیں اَور دیکھنے کو نہیں ملیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ جماعت کے اتحاد اور ایک لیڈر کے ذریعہ یک جہتی کی مثال کہیں نہیں دیکھی۔ مربیان سے لے کر مختلف شعبوں میں رضاکارانہ ڈیوٹی کرنے والوں میں خواہ کھانا پیش کرنے والے ہوں یا گاڑیوں کے ڈرائیور ہوں ان سب میں ایک بات مشترک ہے، ہر کوئی اپنے خلیفہ سے اطاعت اور اخلاص کا غیر معمولی رشتہ رکھتا ہے۔ پس یہ وہ معیار ہے جو ہمارے دوستوں کو بھی نظر آتا ہے اور حاسدوں کو بھی نظر آتا ہے اور اس کی وجہ سے حاسد پھر فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی آج ہم نے عمل سے بھی اور دعا سے بھی حفاظت کرنی ہے۔
پھر کہتی ہیں دوسری بات یہ ہے کہ جماعت میں کسی قسم کا ریس ازم (racism)نہیں پایا جاتا خواہ پیدائشی احمدی ہوں یا نئے، خواہ عرب ہوں یا غیر عرب، خواہ پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی ،آپ کی جماعت کا نظام ہر قسم کے ریس ازم (racism)اور قومی تعصّب سے پاک معلوم ہوتا ہے۔
پس یہ وہ خوبی ہے کہ صرف یہی نہیں کہ ظاہری طور پر چند دنوں کے لیے ہم دکھائیں بلکہ یہ ہمیشہ ہمارے اندر رہنی چاہیے۔ اور یہی وہ آخری پیغام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا تھا کہ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور عربی کو عجمی پر عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے سب برابر ہیں۔
پھر مراکش کے ایک دوست ہیں جو کہ فلسفے کے پروفیسر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جلسے سے ہم نے بہت اچھا تأثر لیا ہے ۔یہ جماعت کو قریب سے دیکھنے کا بڑا اچھا موقع تھا۔ ہم نے اس عالمی اجتماع میں جماعت کی بہت مضبوط تنظیم،تقسیم کار اور مہمانوں کے بہترین استقبال کو دیکھا۔ اسی طرح ہمیں جماعتِ احمدیہ کے اعلیٰ اخلاق کا پتا لگا جو اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا عکس ہیں۔ اس جلسے کے ذریعہ مخالفین کے پروپیگنڈے کا جھوٹ بھی ہم پر کھل گیا۔ یہ لوگ اس خدائی جماعت سے خواہ مخواہ کینہ اور دشمنی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خدمتِ انسانیت کی توفیق دیتا چلا جائے۔
پھر گنی کناکری سے الحاج محمد وکیل یاتارا صاحب ہیں جو مذہبی امور کے انسپکٹر جنرل ہیں وہ کہتے ہیں کہ جلسے کے ان تین دنوں میں جس چیز نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ تھی کہ احمدی احباب کی تربیت خالص اسلامی تعلیمات کے مطابق کی گئی ہے اور تمام احمدی جو اس جگہ جمع ہوئے یوں لگتا تھا کہ یہ سب اسلامی بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہیں۔ ایک ہی ماں کی اولاد اور ایک ہی گھر سے آ رہے ہیں۔ غیر معمولی نظم و ضبط، رضاکاروں کے مسکراتے چہرے، جلسہ گاہ میں بغیر کسی کو تکلیف دیے آنا جانا۔ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔ یہ سب دیکھ کر لگ رہا تھا کہ آج اگر کوئی جماعت اسلام کا حوالہ بن سکتی ہے تو وہ احمدیہ جماعت ہی ہے۔ کہتے ہیں مجھے دوسرے اسلامی ممالک کے علاوہ سعودی عرب میں بھی بارہا جانے کا اتفاق ہوا ہے لیکن میں علیٰ وجہ البصیرت کہہ رہا ہوں کہ مجھے اسلامی بھائی چارے سے بھرپور ایسا ماحول کہیں میسر نہیں آیا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی عار نہیں کہ تقریباً چالیس ہزار کے قریب لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور پھر مسلسل اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنا اور بغیر کسی جھگڑے اور بھگدڑ کے اللہ تعالیٰ کے رسول کی محبت میں یہ دن گزارنا احمدیہ جماعت کا ہی طرہ امتیاز ہے۔
پھر ایک اور خاتون فانتا فوفانہ عمر صاحبہ (Fanta Fofan Oumar) ہیں جو کسٹم ایئر پورٹ گنی کناکری میں لیفٹیننٹ (lieutenant)ہیں۔ انہوں نے بیعت بھی کی ہوئی ہے۔ نومبائعہ ہیں ۔کہتی ہیں کہ میں اگرچہ احمدیہ تعلیمات سے متأثر ہو کر احمدی تو ہو گئی تھی لیکن دل میں خوف تھا کہ کہیں مجھ سے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں ہو گیا کیونکہ گنی میں جماعت کی مخالفت اور جماعت مخالف پروپیگنڈا دیکھ کر بعض اوقات پریشان ہو جاتی تھی لیکن آج جبکہ میں جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئی ہوں تومیں خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ میرے سارے شکوک و شبہات دور ہو گئے اور جلسے میں شامل ہو کے مجھے یقین ہو گیا کہ دنیا میں آج اگر کوئی جماعت اسلام کی نمائندگی کر سکتی ہے تو وہ احمدیہ مسلم جماعت ہی ہے۔ کہتی ہیں کہ اگر مجھے جلسے کی ویڈیوز مل جائیں تو پھر میں اپنی ساری فیملی کو اس سچائی اور حقیقت سے آشکار کرنا چاہتی ہوں اور آخر میں دعا کی درخواست کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ میرے سارے خاندان کو احمدیت اور حقیقی اسلام میں دل و جان سے داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر شانتل مارتھ ایتالی جو کہ گیبون کی بینن میں کونسلر جنرل ہیں ،کہتی ہیں کہ قبل ازیں پچاسویں جلسہ سالانہ میں شامل ہوئی تھی اب میں 53ویں جلسہ سالانہ میں بہت خوش اور دل کی گہرائی سے شکریہ کے جذبات کے ساتھ شامل ہو رہی ہوں اور پہلے بھی یہ محسوس ہوتا تھا کہ روحانی ماحول ہے اور وہی روحانی ماحول اور سب کے لیے جذبات آج بھی ہیں اور سب چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان، بچے عورتیں محبت سے پیش آتے ہیں۔ جہاں تک انتظامات کا تعلق ہے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔ جماعتِ احمدیہ کے رضاکاروں کا جو نظام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی جہاں اس کو ہونا چاہیے تھا اور ہر چیز اعلیٰ معیار کی تھی اور ہر ایک میں، ہر رضا کار میں عاجزی تھی، خدمت کے جذبے سے معمور تھے اور ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر تھے۔ میں اپنے آپ کو بھی اس ماحول کا حصہ سمجھنے لگی اور کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اور تقاریر بھی بڑی عمدہ اور تعلیمات سے بھری ہوئی تھیں۔ مہمان نوازی بہت عمدہ تھی۔ نمائشیں دیکھنے کا مجھے موقع ملا، نمائشیں بہت اعلیٰ تھیں۔ کہتی ہیں احمدیہ تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بہت فائدہ ہوا۔ نمائشوں میں بہت معلومات تھی اور پھر جماعتی خدمتِ خلق کے جو کام ہیں ان کو جاننے کا بھی موقع ملا۔
کوملن پطرس صاحب (Comlan Patrice) جو بینن سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور فنانس کمیشن کے ہیڈ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ جماعتِ احمدیہ کے جلسہ میں شامل ہوا۔ بڑا متاثر ہوا۔ کہتے ہیں جب میں بینن سے جلسے کے لیے سفر شروع کر رہا تھا تو بالکل بھی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے بڑے اور عظیم الشان جلسے میں شامل ہونے جا رہا ہوں اور اس جلسے میں ہر مرتبہ اور ہر حیثیت والے لوگ شامل تھے لیکن اس کے باوجود میں نے کسی کے چہرے سے ناخوشی کے آثار نہیں دیکھے اور میرا بڑا خیال رکھا۔ میرے ایئر پورٹ سے اترنے سے لے کے مہمان نوازی تک چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بڑی خدمت کی اور سب نے اپنے آرام کو ترک کر کے لگتا تھا کہ مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ مختلف ثقافتیں، مختلف زبانیں، مختلف رنگ و نسل ان سب کے لیے بغیر پولیس اور فوج کے آپ نے کس طرح ڈسپلن اور بغیر شورو غوغا اور لڑائی جھگڑے کے اس کا انتظام کیا؟ پھر میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اتنی تعداد میںمختلف لوگ ہیں اور پھر بھی کوئی جھگڑا نہیں؟ کہتے ہیں میری سوچ کا نتیجہ یہی ہے کہ بے شک یہ سب کچھ جو نظر آتا ہے آپ کی محنت اور جماعتِ احمدیہ کے ساتھ الٰہی تائیدات سے ہی ممکن ہوا ہے۔ پھر میری تقریر کے بارے میں کہتے ہیں عالمی امن کے لیے بڑی ضروری ہیں۔ پھر نمائشیں بہت اچھی لگیں۔ اس میں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ بیان کی گئی تھی۔ شہدائے احمدیت کے واقعات سن کر مجھے دلی صدمہ ہوا اور بہت کچھ مجھے جاننے کو ملا۔
گیبون کے سابق وزیر اعظم اور ممبر پارلیمنٹ پاؤل بیوگے صاحب جلسے میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ سو سے زیادہ ممالک سے لوگوں کا ہزاروں کی تعداد میں جلسے میں شامل ہونا میرے لیے ایک منفرد تجربہ تھا۔ ان سب کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے لیے رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد نے دن رات کام کیا اور چھوٹے، بڑے، بوڑھے، بچے، عورتیں، ہر کوئی ایک دوسرے کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ اور کوئی ناخوش گوار واقعہ نہیں ہوا۔ اور جلسے کے دوران پیش کی جانے والی تقاریر سے مجھے اسلام اور بالخصوص احمدیت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اور ہمارے ملک گیبون میں جماعتِ احمدیہ ابھی نئی ہے۔ میں احمدیت کو بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح سمجھتا تھا لیکن جب مجھے جلسے میں شامل ہونے کی دعوت دی تو میں نے سوچا میں خود جا کر دیکھوں کہ کیسے لوگ ہیں۔ کیا احمدیت کا اسلام بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم ٹی وی کے ذریعہ دیکھتے ہیں جو دنیا کے امن کو برباد کر رہے ہیں؟ لیکن میں یہاں آ کر آپ کے کاموں سے بہت متاثر ہوں۔ آپ محنت کرنے والے لوگ ہیں۔ آپ کا اسلام حقیقی اسلام ہے اور آج دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ میرے ملک کو بھی اسی اسلام کی ضرورت ہے۔
پھر گیبون سے ہی پاسدالو باادونکا صاحب (Pacide Olouba Odounga)ہیں جو کہ وزارتِ خارجہ میں ڈائریکٹر کیبنٹ ہیں ۔کہتے ہیں کہ جلسے کا ماحول بہت عمدہ تھا۔ بڑا روحانی ماحول تھا۔ اسےکبھی بھول نہیں سکتا ۔ جلسے کے انتظامات سے بہت متاثر ہوں۔ ایک چین (chain)کی طرح سب چھوٹے بڑے منسلک تھے اور کام کر رہے تھے. اور پھر کہتے ہیں جماعتِ احمدیہ کے جلسہ میں شامل ہو کر مجھے قرآن اور بائبل میں بیان کردہ تعلیمات کا عملی نمونہ دیکھنے کا موقع ملا۔ سب ایک خاندان کی شکل میں رہ رہے تھے ۔ اور اسی طرح پھر انہوں نے میری تقاریر کا ذکر کیا کہ مجھے انہوں نے بہت متاثر کیا۔ کہتے ہیں جلسے میں شامل ہو کر مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اسلام کے متعلق بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی توفیق ملی۔ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن میں اب اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہوں۔ اسی طرح مجھے جلسہ کے دوران مختلف نمائشیں اور سٹالز وغیرہ دیکھنے کا بھی موقع ملا جس سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔
پھر ایک مہمان حیری علی گونیسا صاحب ہیں جو سنٹرل افریقن ریپبلک کے صدر کے مشیر ہیں۔ کہتے ہیں جلسے کے دوران انتظامات بہت اعلیٰ تھے۔ جماعتِ احمدیہ کے رضا کار جن میں بچے، جوان، بوڑھے شامل تھے ، ہرطبقۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے تھے، ان لوگوں نے ایک خلیفہ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے بہترین انتظامات کا ثبوت دیا۔ جماعتِ احمدیہ کا ایک مقصد ہے کہ دنیا میں بھائی چارے کا قیام ہو اس کام کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں جبکہ دنیا کی دوسری تنظیموں میں اس اعلیٰ اخلاص کی کمی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اعلیٰ پائے کی اسلامی تعلیمات ہیں جو آپ پیش کرتے ہیں، جو دل پر اثر کرنے والی تھیں اور یہ تعلیمات اور محبت اس سے بہت مختلف ہے جو لوگ جماعتِ احمدیہ کے متعلق باتیں کرتے ہیں اور اپنی ناسمجھی اور کم علمی کی وجہ سے جماعتِ احمدیہ کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ اس موقعے پر میں اپنی اور اپنے ملک کی طرف سے اس کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور میں جماعتِ احمدیہ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ میرے ملک میں بھی ان تعلیمات اور محبت کو عام کریں۔ میرا ملک جو کئی سالوں کی خانہ جنگی کے بعد اب امن کی طرف جا رہا ہے ، ان تعلیمات سے ملک میں امن کا دیرپا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ اور کہتے ہیں جلسے کا ماحول میرے لیے ایک نہ بھولنے والا واقعہ ہے اور میری کوشش ہو گی کہ میں ہر سال جلسے میں شامل ہو کر روحانی سکون حاصل کرنے کی کوشش کروں اور اس کے لیے میں دعا کرتا ہوں۔ پھر کہتے ہیں اب میں واپس جا کر جماعتِ احمدیہ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤں گا کہ یہی حقیقی اسلام ہے۔ پھر عالمی بیعت کا کہتے ہیںمجھ پہ بہت اثر ہوا ۔ میں احمدی نہیں ہوں لیکن جب آپ بیعت لے رہے تھے تو اس وقت میں اپنے آپ سے وعدہ کر رہا تھا کہ اس جماعت کی حتی المقدور اپنے ملک میں مدد کروں گا ۔ ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی اور مجھے انہوں نے کہا کہ مجھے اب آپ سینٹرل افریقن ریپبلک میں اپنا سفیر سمجھیں۔
پیراگوئے کے وائس منسٹر آف ریلجین فرنینڈو گریفیت (Fernando Griffith) صاحب جلسے میں شامل ہوئے تھے۔کہتے ہیں مجھے احمدیہ جماعت کو جان کر بڑی خوشی ہوئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ بے شمار لوگ رضاکارانہ طور پر خدمت سرانجام دے رہے تھے اور ایک مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کر رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیراگوئے بحیثیت ملک آپ کی جماعت سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اور پھر میری تقریر کے بارے میں کہتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم اور تربیت پر بہت زور دیا ، نیز عزیز واقارب سے اچھے تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا اور عورتوں اور بچوں کے بارے میں اسلامی تعلیم کی روشنی میں جو بیان کیا تھا وہ ان کو خاص طور پر بہت پسند آیا تھا اور باقی انتظامات کے بارے میں پھر یہ کہتے ہیں کہ عارضی ہونے کے باوجودبڑے اعلیٰ تھے۔
ماسکو سے آنے والے الدار سافن صاحب (Ildar Safan)نے جلسے میں شرکت کے بعد کہا کہ ہم ایک فیملی ہیں جو پہلی مرتبہ ماسکو سے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں جلسہ سالانہ بہت پسند آیا اور ہم آئندہ لمبے عرصے تک اسے یاد کرتے رہیں گے اور اپنے دوستوں کو بھی ان یادوں سے آگاہ کریں گے۔ تمام انتظام اچھے تھے۔ رضاکاروں کا کام بہت اچھا لگا جو بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ ہر وقت مسکراتے چہرے کے ساتھ مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ چھوٹے بچوں کو رضا کار کے طور پر کام کرتے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور کہتے ہیں ہر جگہ ہمارا آپ نے ایسا خیال رکھا کہ اپنائیت کا اظہار ہوتا تھا۔
پھر برازیل کے مہمان ہیں مورو ہنریق(Mauro Henrique) جو کہ پیٹرو پولِس (Petropolis)سٹی کونسل کے صدر ہیں، کہتے ہیں مجھے اپنے ملک برازیل کی نمائندگی میں اس عظیم اسلامی جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے کی بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ خلیفۂ وقت کی تمام تقاریر حقیقی اسلام کا گہوارہ ہیں۔ آپ کی باتیں از خود دل میں اتر جاتی ہیں۔میں نے جلسے کے تین دن روحانیت کے ماحول میں گزارے اور کسی قسم کی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوا۔ جلسے پر نماز کا منظر کہ ایک آواز پر سب کا اٹھنا اور بیٹھنا میرے لیے غیر معمولی اور حیران کن بات تھی۔ یہ مسلمان نہیں ہیں لیکن مستقل دیکھتے رہے ۔اس کے علاوہ ایک اَور بات جس نے میرے پر ایک غیر معمولی اثر چھوڑا ہے جس کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جیسے ہی خلیفہ کہیں بھی آتے ہیں تو ہزاروں افراد کا مجمع یک دم خاموش ہو جاتا ہے ، کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض نظام میں نہیں بلکہ تمام لوگوں کے دلوں میں اپنے خلیفہ کے لیے حد درجہ عزت و احترام ہے اور یہ یادیں لے کر میں واپس جا رہا ہوں اور پھر کہتے ہیں کہ میں نے جو محسوس کیا ہے اس کو میں اپنے سینٹر میں اور کونسل میں آگے پھیلاؤں گا۔ درحقیقت حقیقی اسلام یہی ہے۔
پھر اُرلی میسیاس (Orli Mesias) جو ایکواڈور (Ecuador)سے آئے تھے۔ یہ اپنے علاقے کے بشپ ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسے کے انتظامات بہت عمدہ تھے۔ کھانا میرے لیے گو مختلف تھا لیکن مجھے پسند آیا۔ جلسے کا ماحول ایک بڑی فیملی کی دعوت کی طرح تھا جس میں کوئی اجنبیت نہیںتھی اور ایک دوسرے کے نہ جاننے کے باوجود بھی اپنائیت اور سکون کا احساس تھا۔ خلیفہ کی تقاریر میں تمام وہ لوازمات موجود تھے جو ہمارے مطمح نظر کو بدلنے کے لیے ضروری ہیں۔ مجھے ان کی تقریر کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ انہوں نے کسی قوم یا مذہب کے بارے میں منفی بات بالکل نہیں کی بلکہ ان کا سارا زور اسلام کی حقیقی اور مثبت تعلیمات پر تھا۔ امام جماعت نے اپنی تقریروں میں ایک حدیث پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ خدا قیامت کے دن پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا یا پیاسا تھا اور ننگا تھا تو پانی نہیں دیا اور کپڑے نہیں دیے۔ یہی بات بائبل میں بھی مذکور ہے جس کا میرے دل پر اثر ہوا اور پھر مجھے پتا لگا کہ یہ تمام تعلیمات ایک خدا کی طرف سے ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو یہ بھی سمجھنے کی توفیق دے کہ یہ تعلیمات جس خدا کی طرف سے ہیں اسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھیجا ہے اور یہ لوگ اسلام کی حقیقی تعلیم کو ماننے والے ہوں۔ کہتے ہیں میں جب اس جلسہ میں شمولیت کی غرض سے گھر سے نکلا تو میرے ذہن میں اسلام ایک مذہب سے زیادہ نہ تھا مگر یہاں آ کر میں نے دیکھا کہ اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان برادری ہے، ایک کنبہ ہے، ایک فیملی ہے۔ میں اسلام کے قائم کردہ نظامِ اخوت اور آپ لوگوں کی اپنے مذہب کے لیے جاں فشانی اور قربانیوں کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ پھر عالمی بیعت کے حوالے سے کہتے ہیں مجھے پہلے صرف اتنا محسوس ہوا کہ یہ تقریب سب شاملین کے لیے ایک خاص اہمیت کی حامل ہے مگر جیسے ہی بیعت شروع ہوئی تو کسی نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور میں نے بھی اپنے آگے والے شخص کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تو میں نے محسوس کیا کہ ایک برقی رَو ہے جو تمام شاملینِ جلسہ میں سے گزر رہی ہے۔ میں نے خاص طورپر یہ محسوس کیا کہ احمدی اس بیعت کے بعد اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کر رہے تھے اور ایسے ہیں کہ جیسے انہیں ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ میں تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس جلسے میں شمولیت کا موقع دیا اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے متعارف کرایا اور اب کہتے ہیں مجھے خاص طور پہ یہ احساس ہوا ہے کہ ہمیں چند لوگوں کے غلط اقدامات کی وجہ سے تمام مذہب اسلام کو غلط نہیں سمجھنا چاہیے۔ پھر ایک بات ترجمانی کے شعبے کے لیے بھی کہہ دوں جو انہوں نے لکھی ہے جو کمی ہے وہ ہمیں، ایم۔ٹی۔اے کے ترجمانی کے شعبے کو پوری کرنی چاہیے ۔کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ سپینش ترجمے کے حوالے سے میں کہتا ہوں کہ سپینش ترجمہ صرف کرسیوں تک محدود تھا۔ اگر کوئی شخص کہیں اَور بیٹھنا چاہے تو رینج (range)سے باہر ہو جاتا تھا۔ ترجمہ اور آواز نہیں آتی تھی۔ سپینش ترجمہ کی رینج کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے، نہ صرف سپینش بلکہ باقیوں کو بھی چیک کرنا چاہیے۔ ان مہمانوں کے ذریعہ سے ہمیں اپنی بعض کمیوں کا بھی پتا لگ جاتا ہے۔
اسی طرح سلوینیا سے باربرا ہوچے وارصاحبہ (Barbara Hocevar)آئی تھیں۔ یہ عیسائیت کی پروفیسر ہیں اور کہتی ہیں کہ میں نے کبھی ایسا اسلام نہیں دیکھا جو جماعتِ احمدیہ پیش کرتی ہے۔ جلسہ دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک نئے اسلام کو دیکھ رہی ہوں۔ آپ کا جلسے کا انتظام بہت اچھا اور عمدہ ہے۔ نہ کوئی مسئلہ، نہ کوئی لڑائی ، نہ کوئی گند۔ میں اس بات سے بہت متاثر ہوں۔ پھر کہتی ہیں جماعتِ احمدیہ کا حضرت عیسیٰ کے متعلق موقف یعنی صلیب کا واقعہ ، آپؑ کی ہجرت اور وفات سب سے زیادہ قابل یقین اور حقائق کے مطابق معلوم ہوتی ہیں۔
بوسنیا سے ایک فیملی شامل ہوئی اور یہ سرکاری افسر ہیں۔ اس فیملی کے سربراہ سینائج صاحب بیجچ (Senaid Begic)ممبر پارلیمنٹ ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ میں سب سے پہلے جماعتِ احمدیہ کا شکرگزار ہوں کہ جماعت نے مجھے، میری فیملی کو ایک پُرسکون اور پُرامن محبت کی فضا میں چند روز گزارنے کا موقع دیا۔ جلسہ سالانہ یوکے کا تجربہ ہمارے لیے بالکل نیا تھا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ اس جلسے کی خوبصورتی اور انتظامی پہلو کے حسن کو بیان کر سکوں۔ انتظامیہ نے ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھا اور ہر رضا کار نے مسکراتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو ادا کیا۔ ہیومینٹی فرسٹ کی نمائش میں مجھے بتایا گیا کہ اس کارِ خیر کے آغاز کا سبب میرا ملک تھا جہاں جنگ کے دوران جماعتِ احمدیہ نے اپنی بے لَوث خدمت پیش کی تھی اور آج بھی کر رہی ہے۔ان تمام باتوں کے علاوہ ایک خاص بات جس نے مجھے اور میری فیملی کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آگے پھر میرے سے جو ان کی ملاقات تھی اس کا ذکر کرتے ہیں کہ بڑی اچھی ملاقات رہی۔ پھر کہتے ہیں کہ آج میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ میری طرف سے تاحیات اس دوستی کے تعلق کو اور اخلاص کے تعلق کو نبھایا جائے گا اور بوسنیا میں نیز اس ملک سے باہر بھی حسبِ توفیق میں اس سلسلے کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے خود کو پیش کرتا ہوں۔
پھر مؤانس سینانووچ صاحب (Muanis Sinanovic) یہ سلوینیا سے ہیں ۔مصنف ہیں، پیدائشی مسلمان ہیں لیکن کبھی ان کی اسلام میں دل چسپی نہیں رہی۔ بس نام کے مسلمان تھے۔ پچھلے دو سال سے کہتے ہیں میں نے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کیا اور پھر اپنی نمازیں بھی پڑھنی شروع کیں لیکن کسی امام کے پیچھے کبھی نماز نہیں پڑھی۔ یہاں آ کے میں نے دیکھا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا جو مزہ ہے وہ ایک بالکل الگ مزہ ہے۔ پچھلے دو سال سے جب میں نے اسلام میں دل چسپی لینی شروع کی تو میں نے کسی اسلامی کمیونٹی یا اسلامی انٹرپرٹیشن (interpretation)کو فالو(follow)نہیں کیا بلکہ خود عقل اور دل کے ساتھ اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بہرحال جب مجھے احمدیت کے بارے میں پتا لگا تومجھے ایسے لگا کہ جماعتِ احمدیہ کی تعلیم وہی ہے جو میں اسلام کے بارے میں خود سمجھتا تھا یعنی ہر چیز فطرت کے مطابق ہے۔ ایک اور بات جو ان کو پسند آئی تھی وہ یہ تھی کہ احمدی وہی کرتے ہیں جووہ کہتے ہیں اور یہ اس لحاظ سے ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے کہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے قول اور عمل ایک ہونا چاہیے۔ جو ہم کہیں وہی کریں۔
ایک رشین مہمان ہیں عزت صاحب ۔ کہتے ہیں پہلی مرتبہ جلسے میں شامل ہوا۔ میرے دادا نے مجھے جلسے میں شامل ہونے کی تحریک کی۔ اس دفعہ آنے کے لیے ان کے دادا نے کہا کہ تمہیں احمدی بلاتے ہیں توجاؤ ۔ کہتے ہیں کہ انصاف کی بات یہ ہے کہ میں اس جماعت کے لوگوں کو دیکھ کر عجیب حیرانگی کی کیفیت میں ہوں۔ جلسے میں شامل تمام احمدی ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ ہمیشہ مدد کرنے کے لیے تیار ہوتے اور ہر مشکل میں اچھا مشورہ دیتے۔
ہالینڈ سے ایک گروپ آیا ہوا تھا ۔ اس میں فان بومبل صاحب (van Bommel) جوکہ سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں اور ایک ماہر ِِنفسیات خاتون شامل تھیں۔ وہ کہتے ہیں جماعت کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ پہلے بھی جلسے میں شامل ہو چکا ہوں لیکن اس دفعہ بھی انتظامات بہت متاثر کن تھے۔ ابھی تک اس بات کو سمجھنے سے میں قاصر ہوں کہ کس طرح رضا کار اتنے زبردست اندازمیں تمام انتظامات کر لیتے ہیں۔
مس نکیتا جو کہ ایرانی النسل ہیں وہ بھی انتظامات سے بہت متاثر تھیں خاص طورپر حیران تھیں کہ جماعت نے اتنی بڑی جگہ کس طرح حاصل کر لی اور کس طرح یہ سارے انتظامات ہو رہے ہیں اور ان کو پھر حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے تعارف بھی کروایا گیا۔ مسیح موعودؑ کے آنے کے بارے میں ان کے ساتھ تبلیغی نشستیں بھی ہوئیں۔ بہرحال ان پہ اچھا اثر ہوا ہے اور متأثر ہو کر گئی ہیں۔
اٹلی سے واسکو صاحب (Vasco)ہیں جو نیپلس (Naples)کی یونیورسٹی میں اسلامی فقہ اور شریعت کے پروفیسر ہیں ۔کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میرے لیے بہت کامیاب رہا ۔ میں نے امام جماعت کا اختتامی خطاب سنا اور مجھے بہت پسند آیا۔ خصوصاً اس بات پر جب آپ نے فیملی اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اور بالخصوص عورتوںکے حقوق کے حوالے سے بتایا۔ میں نے عالمی بیعت میں بھی شرکت کی اور میں اس تقریب میں بہت جذباتی ہو گیا تھا۔
اٹلی سے میڈالینا (Madalena) صاحبہ ہیں جنہوں نے ویٹیکن( Vatican)کی اسلامی اور عربی کی یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ بہت اچھا، دل کش، پُرامن اور پیار سے بھرا ہوا تھا۔ ہر انتظام بہترین تھا۔ تقاریر بہت اچھی تھیں اور صرف احمدی احباب کے لیے نہیں بلکہ سب مہمانوں کے لیے علم میں اضافہ کرنے والی تھیں ۔نیز احمدیت کا بالخصوص اسلام کا تعارف بڑھانے والی جو باتیں تھیں وہ بہت اچھی تھیں۔
پھر جواد بولامِل (Jawad Boulaamayl) صاحب ہیں جو فرانس میں منسٹری آف جسٹس کے لیے کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں پہلی مرتبہ جلسے میں شامل ہوا۔ خوشی کا باعث تھا کہ مجھے آپ کی جماعت کو اتنے قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ جلسے کے دنوں میں IAAAE اور ہیومینٹی فرسٹ کی نمائش میں جا کر اور آپ کی جماعت کے فلاحی کاموں کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ اصل دین یہی ہے جو بلا امتیاز قوم و نسل انسانی خدمت کر رہا ہے۔ سیکیورٹی انتظامات اور عمومی انتظامات بھی دیکھے اور بڑا متاثر ہوا ۔ہر انتظام میں بڑا پروفیشنل ازم تھا۔
سپین کے وفد میں ایک مہمان سوزانہ مورال (Susana Morales)شامل تھیں جو کہ جیورسٹ (jurist) ہیں، وکیل ہیں ۔ ‘محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں’ کا ذکر کر کے کہتی ہیں کہ میرے خیال میں یہ جملہ کامل رنگ میں اس شاندار اجتماع کی عکاسی کر رہا ہے۔ میں نے مختلف قسم کے لوگوں کو آپس میں ملتے دیکھا ہے یہ ایک ایسا مذہب ہے جسے دنیا میں قیام امن کی مساعی اور ناانصافی کے خلاف جنگ کے لیے جانا چاہیے۔ بلاشبہ یہ چند ایام میرے دل میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔ میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گی۔
برازیل سے ایک دوست ڈان فرانسسکو (Don Francisco)جو ایک کیتھولک عیسائی ہیں اور اخبار اور ریڈیو کے مالک ہیں اور شاہی خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے مذہبی امور کے تعلق میں واسطہ پڑتا رہتا ہے لیکن جو حسن انتظام جلسہ میں دیکھا ہے بہت متاثر کن تھا۔ بہت سی باتیں سیکھنے کا موقع ملا۔ اور میں اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہوں۔ کہتے ہیں میں انڈیا کی ایک مسجد میں اپنی بیوی کے ساتھ گیا تو وہاں مسلمانوں کی طرف سے بہت غیر مناسب رویہ پایا لیکن یہاں جلسہ سالانہ کے دوران اور بعد میں بھی اس کے مقابل مجھے بہت عزت اور توقیر ملی۔
اور سپین سے سوشلسٹ پارٹی کے سابق ممبر پارلیمنٹ اسٹیکو صاحب (Eustaquio)کہتے ہیں کہ میں خود کو مذہبی عقائد سے دور سمجھتا ہوں لیکن جماعتِ احمدیہ عمل کے ذریعہ محبت کی تبلیغ کرتی ہے جس کی وجہ سے میں جماعت کے قریب آ گیا ہوں۔ کل کی بیعت نے میرے اندر بہترین جذبات کو جنم دیا اس لیے میں اس نا قابلِ فراموش تجربے کی وجہ سے بہت خوش ہوں۔ یہ دن میرے لیے ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان دنوں میں مجھے محسوس ہوا کہ میں احمدی ہوں جو دنیا میں امن اور محبت چاہتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ایک جسٹس آئے ہوئے تھے، ریٹائرڈ جسٹس نظام الدین صاحب۔ کہتے ہیں میں احمدی نہیں ہوں لیکن احمدی مسلمان ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیوں پر لمبے عرصے سے مظالم ہورہے ہیں۔ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ (activist)ہونے کی وجہ سے میں انسانی ہمدردی کی بنا پر احمدیوں کی حمایت کرتا ہوں اور مختلف ممالک میں سفر کر چکا ہوں۔ ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کا پرچار کرے۔ جلسے میں نظم و ضبط دیکھا اور افرادِ جماعت میں اپنے خلیفہ کے لیے پیار اور عزت اور علم کی پیاس نہایت متاثر کن چیزیں تھیں۔ میں نے تمام خطابات بڑے غور سے سنے ہیں جس سے میری اپنی بعض غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں۔ احمدیوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بولیں تا کہ ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوں۔ پہلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں سمجھتے لیکن یہاں آ کے مجھے پتا لگا کہ ایسا نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ میں نے اس جلسے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میں سب کا بالخصوص امام جماعتِ احمدیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ہیوفرے (Hugh Farey)یہ عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں، سائنس دان ہیں، نظم برٹش سوسائٹی آف ٹیورن شراؤڈ کے سابقہ ایڈیٹر ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں باقاعدہ جلسے پہ پانچ سال سے آرہا ہوں اور مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس نے اپنی پرکشش دعاؤں سے پُر اس روح کو ختم نہیں ہونے دیا جو اس کی فضا میں مجھے تب بھی محسوس ہوئی تھی جب پہلی دفعہ دعوت دی گئی تھی۔ میں شراؤڈ آف ٹیورن کا ماہر ہوں اور یہ ایک ایسا کپڑا ہے جو احمدیہ جماعت میں نہایت دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ثبوت ہے کہ مسیح کی وفات صلیب پر واقع ہیں ہوئی تھی۔ اس کے باوجود یہ بات ان کو اس چیز سے نہیں روکتی کہ وہ اس کے ماہرین کو دعوت دیں جن میں سے اکثر اس بات سے متفق ہیں کہ یہ تصویر ایک وفات یافتہ شخص کی طرف دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہیں کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر بھی ان کو بلاتے ہیں۔ میرا اپنا تجزیہ کہ یہ قرونِ وسطیٰ میں بنایا گیا تھا احمدیوں کی اس بات سے تضاد نہیں رکھتا کہ مسیح بچ گئے تھے اور پھر کشمیر کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ اپنا نکتہ نظر بتا رہے ہیں کہ میرا بھی یہی نکتہ نظر ہے جو احمدیوں کا ہے۔
ریویو آف ریلیجنز کی یہ نمائش احمدیوں کی فراخ دلی، پُر امن اور متحمل فطرت کی طرف دلالت کرتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ یہاں مختلف ڈسکشنز (discussions)بھی ہوئیں۔ پینل ڈسکشنز (panel discussions) بھی ہوئیں۔ امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر صاحب ایک پینل میں شامل ہوئے تھے جو ٹراما (Trauma)کے سرجن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اس دفعہ پہلے احمدی ماہرین میں شامل ہوئے ، انہوں نے اس پینل میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے ذاتی تجربے پر مشتمل وسیع علم نے ان کے دلائل کو اور مضبوط کر دیا جو اس آدمی کے بچ جانے کے متعلق پیش کر رہے تھے جو کفن میں موجود تھا۔ یہ بھی کافی متاثر تھے۔
پھر پیٹر واڈھمز (Peter Wadhams) جو کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور شراؤڈ آف ٹیورن کمیٹی کے سرکاری ممبر ہیں کہتے ہیں کہ میرا پہلا جلسہ ہے افسوس کہ میں اس سے قبل شامل نہ ہو سکا۔ میں چاہوں گا کہ میں اس جیسے مزید جلسوں پر آؤں اور مجھے یقین ہے کہ میں آئندہ منعقد ہونے والوں پر تو ضرور آؤں گا لیکن میں اس میٹنگ سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا موجود ہونا اور پھر اتنی محنت خرچ ہونا اور اتنی محبت سے سب کچھ ہونا ۔ ٹیورن کی نمائش کے لیے اتنی محنت کرنا اور پھر جس سنجیدگی سے جماعتِ احمدیہ کا اس نمائش کا انعقاد کروانا وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ اس کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند ہیں حالانکہ ہم ابھی تک خود بھی اس کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے۔
پھر کینیڈا کی ایباریجنل (Aboriginal)کمیونٹی کی نمائندگی ہوئی تو اباریجنیز (Aborigines)کے جو نمائندے تھے چیف میئنگن ہنری (Chief Myeengun Henry)وہ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شمولیت میرے لیے بہت اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس سے میری زندگی بدل گئی ہے۔ میں اب اسلام کے متعلق پہلے سے کہیں زیادہ جانتا ہوں اور مجھے احساس ہوا ہے کہ اسلام اور کینیڈاکے قدیم مذہب میں بہت سی مشترک باتیں پائی جاتی ہیں۔ میرے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ اسلام عورتوں کو مساوی حقوق دیتا ہے پہلے مجھے ہر طرف مرد ہی مرد دکھائی دے رہے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ عورتوں کا انتظام بھی مردوں ہی کی طرح کا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس سے بہت سے غیر مسلم بے خبر ہیں۔ لہٰذا میں انہیں بتاؤں گا کہ اسلام مرد و زن کے حقوق میں تفریق نہیں کرتا اور انہوں نے میرے سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس کے بھی تاثرات ہیں کہ اس ملاقات کا مجھ پر بڑا اچھا اثر ہے۔
اسی طرح چیف رین وارن شیبوئر (Chief Rene Warren Chaboyer)جلسہ سالانہ میں شرکت کی بات کرتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے اتنے بڑے جلسے سے خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔ مَیں کبھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ اسلام اتنا پُر امن اور مخلوقِ خدا سے محبت کرنے کا درس دینے والا مذہب ہے۔ کہتے ہیں میں نے چاہا کہ امام جماعتِ احمدیہ کو اباریجنل کمیونٹی کا سب سے بڑا اعزاز دوں یا دینا چاہیے تو میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے میزبان سے کیا اور اس کی تکمیل کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے ہیڈ ڈریس جو باز کے پروں سے بنا ہوا ہے۔ یہ تاج پہنتے ہیں جس پہ پَر لگے ہوتے ہیں اس میں سے باز کا ایک پر جو ہمارے لیے بڑا قیمتی ہے وہ نکال کے امام جماعتِ احمدیہ کی خدمت میں پیش کروں اور یہ ایسا اعزاز ہے جو میں نے آج تک کسی لیڈر کو نہیں دیا اور میں جماعتِ احمدیہ اور ان کے عقائدکا بہت احترام کرتا ہوں۔ پھرکہتے ہیں،میرے ساتھ وقت گزارنا بھی مجھے بڑا اچھا لگا اور پھر انہوں نے ایک ملاقات کے دوران مجھے وہ پَر دیا بھی تھا۔
بیلیز کی ایک مہمان ہیں رینے ٹرھیو (Renee Trujillo)جو لَو ایف ایم (Love FM)کے چینل کی ڈائریکٹر آف نیوز ہیں۔ کہتی ہیں میں نے احمدیوں میں جو اتحاد دیکھا ہے وہ انسان میں ایک نئی روح پھونکنے والا ہے۔ اس کو دیکھ کر دل میں امن کے حصول کی خواہش سر اٹھاتی ہے۔ ہمیں بڑی سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔ انتظامات بہت منظم تھے۔ امام جماعت کے خطابات موجودہ زمانے کی ضرورت کے عین مطابق تھے۔ مجھے ان سب سے زیادہ آپ کے اس خطاب نے متاثر کیا جو آپ نے عورتوں میں کیا تھا اور اس تجربے نے مجھے دینِ اسلام کو مزید بہتر طور پر سمجھنے کے قابل بنا دیا ہے۔ جلسے میں شمولیت کے باعث مجھے احمدیت اور اس کے عقائد کے متعلق سوالات کرنے کا موقع ملا اور اس کا مجھے فائدہ ہوا۔
پھر بیلیز سے چسٹر ولیم (Chester Williams) صاحب ہیں جو بیلیز ملک کے پولیس کمشنر ہیں۔ کہتے ہیں اسلام کے متعلق میرے علم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس جلسہ میں شمولیت سے قبل مجھے لگتا تھا کہ مسلمان ایک جیسے ہیں۔ اب سمجھ آئی ہے کہ اور بھی فرقے ہیں۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ احمدی امن کو فروغ دیتے ہیں اور نوجوانوں کی اصلاح کے لیے بہت سا وقت خرچ کرتے ہیں۔
امریکہ سے حکومتی طور پر کانگریس سٹاف اور اس کے علاوہ یوایس کمیشن برائے مذہبی آزادی کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے۔ اسی طرح چائنہ کے اویغور مسلم (Uyghur Muslims)جو ہیں ان کے نمائندے بھی تھے۔ وہ کہتے ہیں میں نے جلسہ سالانہ یوکے اور یو ایس اے دونوں میں شرکت کی ہے اور جس طرح جماعت مل جل کر کام کرتی ہے یہ دیکھنا نہایت تعجب انگیز ہے۔ تمام جماعتی رضاکاران کا بے لوث خدمت کرنا بہت متاثر کن تھا۔ اس جلسے نے نوجوانوں کو اتحاد کی طرف مائل کیا اور یکجہتی کا ماحول بھی پیدا ہوا۔ یہ ان کے عمومی تاثرات تھے۔
پھر باقی اب میں چھوڑتا ہوں۔ ارجنٹائن کے ایک مہمان صحافی تھے۔ ان کا ذکر کر دیتا ہوں ۔ وہ کہتے ہیں خاکسار کو بطور صحافی مختلف ایونٹس (events)میں شامل ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن آپ لوگوں کے جلسے میں ایک غیر معمولی بات یہ دیکھی ہے کہ سب شاملین اور ممبران بیک وقت میزبان آرگنائزیشن کے ممبرز معلوم ہوتے ہیں، کہ دونوں شاملین بھی ہیں اور آرگنائزر بھی ہیں اور کہتے ہیں کہ دوسرے ایونٹس میں واضح طور پر میزبان اورمہمان میں فرق نظر آتا ہے بلکہ اس پیمانے کا ایونٹ کرنے کے لیے لوگ ہائر کیے جاتے ہیں لیکن آپ کے جلسے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب شاملین بیک وقت مہمان بھی ہیں اور میزبان بھی ہیں۔ جب بھی ضرورت پیش آتی تھی تو مہمان میزبان میں بدل جاتے تھے اور یہی ایک خوب صورتی ہے جو ہمارے ہر جلسہ میں ہمیشہ ہونی چاہیے۔
کولمبیا سے تعلق رکھنے والے ایک اخبار نویس وکیل جیزز گیبلم (Jesus Gabalam)ہیں، کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بارے میں جو امام جماعت کی تقریر تھی وہ مجھے بہت پسند آئی ہے۔ بطور جرنلسٹ دنیا کی اہم سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات کو ملنے کا مجھے موقع ملتا ہے اور امام جماعت سے بھی ملااور ان سے ملنا مجھے بڑا اچھا لگا۔ میری خواہش ہے کہ اسلام کی حسین تعلیمات سے کولمبیا کے لوگوں کو روشناس کروانے کے لیے احمدی مشنریز کو وہاں بھیجا جائے جس کی میرے ملک کو اس وقت بہت ضرورت ہے۔
پھر اسی طرح بی۔بی۔ایس ٹی وی (BBS.Tv) یوگنڈا کے سی ای او کہتے ہیں میں نے اتنا بڑا اجتماع ڈسپلن کے ساتھ دیکھا اور بڑا حیران ہوا کہ کوئی فوج اور پولیس نہیں تھی۔ میں عیسائی ہوں اور جیزز اِن انڈیا (Jesus in India)کے حوالے سے جلسے میں نمائش دیکھی ۔وہاں ایک آرگنائزر سے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بات ہوئی تو انہوں نے مجھے بائبل کے حوالے دے کر ایسی باتیں بتائیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھیں۔ مجھے سخت حیرانی ہوئی کہ احمدیوں کے پاس تو عیسائیوں سے زیادہ بائبل کا علم ہے۔
پھر بولیویا سے ٹی وی کے نمائندے آئے تھے۔ جو بڑا ٹی وی شو کرنے والے ہیں ۔ آرندیا (Arandia) صاحب ان کا نام ہے۔ کہتے ہیں کامیاب تجربہ تھا۔ اس سے پہلے مجھے جلسہ سالانہ کینیڈا میں بھی شمولیت کا موقع ملا اور ان جلسوں میں شامل ہو کر مجھے اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں پتا چلا ہے۔ جلسے کے ماحول اور اس میں ہونے والی تقاریر نے اسلام کے بارے میں میرے تمام تر شبہات اور غلط فہمیوں کو دور کر دیا ہے۔
یوکرائن سے ایک دوست ایگر صاحب تھے۔ جو مذہبی علوم کے ماہر ہیں۔ انہوں نے پی۔ایچ۔ ڈی کی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر ہیں ۔ دو کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں۔ انہوں نےجماعتِ احمدیہ کے لٹریچر کا بڑا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔ جلسے میں شمولیت کی اور پھر انہوں نے بیعت بھی کر لی۔ اور یہ یوکرائن قوم سے پہلے احمدی ہیں۔ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی زندگی میں مجھے مختلف موضوعات پر ہونے والی بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں، جلسوں اور تقاریب میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے لیکن جلسہ سالانہ میں شمولیت نے میرے دل اور روح پر ایسا اثر کیا ہے جو اس زندگی سے لے کر اگلے جہان میں جانے تک باقی رہے گا۔ پھر کہتے ہیں عربی زبان میں ایک بہت پیارا لفظ ‘نور’ ہے جس کا مطلب ہے روشنی اور جلسہ سالانہ ایمان اور محبت کی وہ روشنی ہے جو پوری انسانیت کو اپنے وجود سے منور کرتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں خلیفة المسیح کے خطابات سے مجھے یہ بات سمجھنے میں بہت مدد ملی کہ اس دنیا میں میری موجودگی کا اصل مقصد کیا ہے۔ پھر انتظامیہ کے کاموں کو بھی انہوں نے بڑا سراہا کہ ہر ایک بڑی محنت سے مصروف ِعمل ہے۔
اسی طرح میکسیکو کے تاثرات ہیں۔ ایک بیان کر دیتا ہوں۔ ماریہ صاحبہ ہیں کہتی ہیں کہ مجھے اسلام قبول کیے صرف دو ماہ ہوئے ہیں۔ میرے اسلام کے بارے میں کافی سوالات تھے مگر جلسے میں شمولیت کی وجہ سے میری اسلام کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ میرے سارے شکوک اور سوالات ختم ہو گئے ہیں۔ اس جلسہ میں شمولیت ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ جلسے میں شمولیت کی وجہ سے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں اور آج میں نے اس بات کا عہد کر لیا ہے کہ اب سے اپنا حجاب فخر سے پہنوں گی اور ہر وقت استعمال کروں گی۔
پیراگوئے کی ایک نومبائعہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ جلسہ بڑا اچھا تھا اور میں نے آپ کے خطابات سنے اور بڑے قابلِ عمل ہیں اور میرے خطابات کے بارے میں کہتی ہیں کہ میرے جو سوال تھے ان کے مجھے جواب مل گئے اور مجھے یوں لگتا تھا کہ آپ نے اپنی تقاریر میرے سوالات کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے تیار کی ہیں اور میں روحانی طور پر بہت سا علم اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا تصرف ہوتا ہے کہ وہ ایسی تقاریر بھی تیار کروا دیتا ہے اور پھر لوگوں پر اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔
پھر پریس اینڈ میڈیا کی رپورٹ ہے۔ باقی تو اب میں چھوڑتا ہوں۔ ہمارے مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس کی رپورٹ کے مطابق اس وقت تک کل ایک سو تراسی (183) میڈیا رپورٹس نشر ہو چکی ہیں۔ میڈیا کوریج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعہ ایک سو تہتر ملین سے زائد افراد تک پیغام پہنچا ہے اور میڈیا جس نے کوریج دی ہے وہ بی۔بی۔سی ریڈیو فور (BBC Radio4)ہے۔ بی۔بی۔سی ورلڈ سروس ہے۔ بی۔بی۔سی ایشین نیٹ ورک ہے، اور ٹیلیگراف (ڈچ نیشنل نیوز پیپر) ہے۔ سکائی نیوز ہے۔ آئی ٹی وی ہے۔ ایکسپریس ہے۔ ہفنگٹن پوسٹ ہے۔ پریس ایسوسی ایشن (نیوز ایجنسی) ہے۔ای۔ایف۔ای (سپینش نیوز ایجنسی) ہے، یاہو نیوز (Yahoo News)ہے اور یوکے، برازیل، ہالینڈ، سپین، ارجنٹینا، پانامہ، کولمبیا، چلی، پیرو، وینزویلا، کیمرون، نائیجیریا، بیلجیئم، گھانا، اٹلی وغیرہ کافی ملکوں میں یہ ساری کوریج ہوئی ہے۔
ایم۔ٹی۔اے افریقہ کے ذریعہ انیس (19)چینلز پر الحمد للہ یہ کوریج ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی جماعت کے لوگوں کی، افراد جماعت کی جلسے میں شمولیت کے علاوہ غیروں کے بھی بہت سارے تاثرات ہیں جنہوں نے جلسے کے دنوںمیں یہ پروگرام دیکھے اور بڑے متاثر ہوئے۔
اللہ تعالیٰ جلسے میں شامل ہونے والے احمدیوں کے لیے بھی یہ جلسہ سالانہ ان کے ایمان میں ترقی کا باعث بنائے اور جو باتیں انہوں نے سنی اورسیکھیں ان کو ہمیشہ اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں، اس پر عمل کرنے والے ہوں اور پریس اور میڈیا کے ذریعہ جوخبریں دنیا کو پہنچی ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کرے کہ لوگوں کے دلوں پر اثر کرنے والی ہوں اور ان کے لیے احمدیت اور حقیقی اسلام کو قبول کرنے کا باعث بنائے۔
نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ کا ہے۔ یہ 30جولائی 2019ء کو ربوہ میں طاہر ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں 85 سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مجیب الرحمٰن صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور ان کے والد محترم مولاناظل الرحمٰن صاحب مربی سلسلہ تھے اور انہوں نے ان کو بچپن میں باقی بچوں کے ساتھ، والدہ کے ساتھ قادیان بھیج دیا تھا۔ مجیب الرحمٰن صاحب کی والدہ اور باقی بہن بھائیوں کو بنگال سےتربیت کے لیے قادیان بھیج دیا تھا۔ ان کے والد حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کے اوّلین شاگردوں میں سے تھے۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس اور غلام احمد صاحب بدوملہی وغیرہ بزرگان ان کے ہم مکتب تھے۔ انہوں نے تقریباً 36سال بنگال میں خدمات سرانجام دیں۔
مجیب الرحمٰن صاحب پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب وکیل تھے اور جماعتی خدمات بھی ان کی بہت ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے ان کو 1980ء میں جماعتِ احمدیہ راولپنڈی کا امیر مقرر کیا تھا اور 1998ء تک یہ امیر جماعت رہے۔ 1974ء میں ‘بیت الحمد’ مری روڈ راولپنڈی کی جو مسجد ہے اس کا مقدمہ بھی انہوں نے کافی خدمات سرانجام دیں۔ 1978ء میں ڈیرہ غازی خان کی مسجد کے مقدمے کی پیروی ہائی کورٹ میں کی۔ بے شمار جماعتی مقدمات تھے جن میں انہوں نے پیروی کی اور پیروی کا حق ادا کیا۔ 1978ء میں مجلسِ شوریٰ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن بنے۔ پھر صدر انجمن احمدیہ کے قواعد و ضوابط کی تدوین میں ان کو خدمت کا موقع ملا۔ فقہ کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے فقہ احمدیہ حصہ اول کی تدوین میں شمولیت کا موقع ملا۔ پھر 1977-78ء کے جلسہ ہائے سالانہ میں ان کو تقاریر کا موقع ملا۔ اسلام اور مذہبی آزادی کے عنوان پر 79ء سے 83ء تک جلسہ ہائے سالانہ میں اسلام میں اختلافات کا آغاز، احمدی حضرت بانی سلسلہ کی نظر میں، عافیت کا حصار ، شجرِ احمدیت کے شیریں ثمار کے موضوع پر تقاریر کا موقع ملا۔ ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں میں ان کو شرکت کا موقع ملا ۔غیروں کے اعتراضوں کے جواب دیے۔ ان کا دینی علم بھی بہت تھا ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیاوی علم بھی بہت تھا اور بولتے بھی بہت اچھا تھے اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہوا تھا جس سے انہوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا ان کو موقع دیا۔ پھر ایم۔ٹی۔اے کے پروگراموں میں مختلف پروگرام شامل ہیں۔ 1974ء کی پاکستان کی قومی اسمبلی کے فیصلہ پر تبصرہ، عالمی شہرت یافتہ مؤرخین کے انٹرویوز، براہین احمدیہ کے محاسن وغیرہ شامل ہیں۔ پھر 1984ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف جو شرعی عدالت میں مقدمہ داخل ہوا اس کی پیروی کی ان کو توفیق ملی اور وہاں بھی انہوں نے اس پیروی کا خوب حق ادا کیا۔ فوجی عدالتوں میں بھی پیروی کا ان کو موقع ملا۔ جماعت کے خلاف جو مقدمات تھے ان میں انہوں نے اسیرانِ راہ ِمولیٰ کی خدمت کی توفیق پائی۔ 1993ء میں سپریم کورٹ میں بنیادی حقوق کے مقدمہ کی پیروی کرنے والی ٹیم کے رکن بھی بنے تھے۔ ان کو وہاںموقع ملا۔
1976ء کی کراچی میں منعقدہ جیورسٹس کانفرنس میں مقالے پڑھنے کا موقع ملا۔ انگلستان، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، امریکہ، کینیڈا، جاپان وغیرہ میں انسانی حقوق کے حوالے سے دانش وروں اور قانون کے ماہرین سے تبادلہ خیال کرنے اور سیمینارز میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ منیسوٹا سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ میں قانون کے طلبہ سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور جرمنی کی ایک عدالت میں اٹھارہ گھنٹے تک بطور ایک ایکسپرٹ گواہ کے انہوں نے اپنے بیان ریکارڈ کرانے کی توفیق پائی۔ 2014ء میں جماعتِ احمدیہ امریکہ کی طرف سے مختلف یونیورسٹیز میں لیکچر کے لیے دعوت کا انتظام کیا گیا تھا وہاں مذہب اور آزادیٔ ضمیر کے موضوع پر انہوں نے لیکچر دیے۔ پھر رائس یونیورسٹی میں 2017ء میں قرآن کانفرس کا اہتمام کیا گیا جس میں جماعتِ احمدیہ کو بھی دعوت دی گئی۔ میں نے ان کو وہاں بھجوایا تھا اور انہوں نے وہاں نمائندگی کے فرائض انجام دیے اور حق ادا کیا۔ وہاں بھی قرآن کریم کے محاسن کو دنیا کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عِلم کلام کی روشنی میں بیان کرنے کی ان کو توفیق ملی۔
سوئٹزرلینڈ اور کینیڈا میں امیگریشن بورڈ کے سامنے قانونی مسائل کی وضاحت کا موقع ملا۔ اَور بے شمار ان کی خدمات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تمام جماعتی کام جو ان کے سپرد کیے جاتے تھے وہ وقف کی رُو ح سے کرنے کی کوشش کی اور اس کا خوب حق ادا کیا۔
ان کی شادی ان کی تایا زاد سے ہوئی تھی اور ان کی اہلیہ 1999ء میں وفات پا گئی تھیں۔ اس وقت ان کے تین بیٹے ہیں۔ عزیز الرحمٰن وقاص ہیں۔ راولپنڈی میں ایڈووکیٹ ہیں ۔وہ بھی جماعتی مقدمات میں مدد کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن معاذ آج کل قطرمیں ہیں۔ خلیل الرحمٰن حماد صاحب ہیں یہ بھی پاکستان میں ہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموںمیں جگہ دے۔ نمازوں کے بعد جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ان کی نماز ِجنازہ ادا کروں گا۔