احمدی خواتین کا تبلیغ و تربیت میں کردار (قسط دوم۔ آخری)
تقریر جلسہ سالانہ یوکے 2019ء
قرآنِ مجید میں بالکل آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ نے متّقین کی چھے خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔
ان میں پہلی خصوصیت یہ ہے کہ متقی غیب پر ایمان لاتے ہیںغیب پر ایمان لانا اصل میں ایک بہت بڑی نعمت ہے ……اور ہر آئندہ ہونے والی ترقی کی بنیاد ایمان بالغیب پر ہی ہوتی ہے۔غیب کا مضمون عورتوں کے حوالے سے خدا تعالیٰ نے سورۃ النساء میں بیان فرمایا ہے ‘‘پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے تاکید کی ہے۔ ’’
اگر ہر عورت یہ سمجھے کہ ہر دور میں بیٹی، بیوی، ماں کی حیثیت سے اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور بحیثیت احمدی عورت ہونے کے کیا فرائض ہیں اور اگر ہر عورت اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو خدا کی محبت میں ادا کرے تو وہ خدا کے فضل سے غلط راستوں سے بچ سکتی ہے۔ اگر بیٹیاں ماں باپ بھائیوں کے ڈر کی و جہ سے کسی کام کو نہ کریں تو وہ تو ہر وقت ساتھ نہیں۔ کسی بھی وقت میں جب وہ اکیلی ہوں تو وہ خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ اسی طرح بیویاں اگر خاوند کی غیر موجودگی میں بھی اس کی عزت،اور اس کے مال، اور اس کی اولاد کی حفاظت کرنے والی ہوں تو وہی متقی کہلاسکتی ہیں۔ پھر احمدی عورت ہونے کی حیثیت سے اس وقت کام کرنا یا سر ڈھانپنا جب کوئی عہدے دار دیکھے تو یہ حرکت انسان کو تقویٰ سے دور لے جاتی ہے۔ حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘آج کل کے معاشرے میں یہ غیب میں حفاظت کا حق ادا نہ کرنا ہی ہے جس نے غلط قسم کی آزادی اور بے حیائی کو فروغ دے دیا ہے…… اگر ہر عورت اس بات کو سمجھ جائے کہ ایک خدا ہے جو عالم الغیب ہے جو ہماری ہر حرکت وسکون کو دیکھ رہا ہے ہر وقت اس کی نظر اپنی مخلوق پر پڑ رہی ہے ہر ایک کا عمل اس کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے تو کوئی عورت ایسا عمل نہیں کر سکتی جو اسے تقویٰ سے دور ہٹا دے’’۔
(خطاب 31 جولائی 2010ء جلسہ سالانہ برطانیہ ۔احمدی مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں)
دوسری خصوصیت متقین کی یہ بیان فرمائی کہ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
‘‘نماز کی حفاظت کرو۔’’حفاظت کس کی کی جاتی ہے؟ یقیناً سب سے قیمتی اشیاء کی۔ جب ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گی تو خدائی وعدے کے مطابق کہ ‘‘یقیناً نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے’’تو یہ نمازیں ہماری حفاظت کریں گی یہ روحانی ڈھال صرف ایک فرد کو نہیں پورے گھرانے کو بچائے گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘چونکہ خواتین بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اس لیے انہیں ہمیشہ نمازوں کی ادائیگی کا بہت خیال رکھنا چاہیے جب ایک عورت اپنی نماز وں کی حفاظت کرتی ہے تو تب ہی وہ اپنے بچوں کے جنت میں جانے کی ضمانت بن سکتی ہے’’۔
(خطاب30جون 2012ء جلسہ سالانہ امریکہ احمدی مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ
‘‘گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائےمگر …نماز بہر حال شرائط سے مقدم ہے۔اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے…جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو ، ان کے ترک کرنے میں گناہ ہے، لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو ان کے میسر نہ آنے کی وجہ سےنماز کا ترک گناہ ہے۔’’
(تفسیر کبیر، جلد اوّل ص 104)
متقین کی اگلی نشانی و مما رز قنھم ینفقون ہے یعنی اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا وہ خرچ کرتے ہیں۔کیا اس دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو خدا نے ہمیں نہیں دی جو ہم اس کی راہ میں خرچ نہ کریں؟ یہ زندگی،صحت، مال و دولت، عقل و علم، اولاد کوئی ایسی چیز ہے جو اس کی عطا کردہ نہ ہو ؎
سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے
خدا کے فضل سے جماعت میں ایسی خواتین کثرت سے ہیں جو ہر وقت اللہ کی راہ میں ہر چیز خرچ کرنے کو تیار رہتی ہیں لیکن کچھ تعداد ایسی خواتین کی بھی ہے جن کے پاس وقت نہیں ہے۔وہ اپنی ملازمتوں اور سماجی کاموں میں بہت مصروف ہیں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے تمام قوٰی اللہ کے ودیعت کردہ ہیںوہ جس وقت چاہے انہیں واپس لے سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان کا استعمال اللہ کی مرضی کے موافق کرنا چاہیے۔
اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ متقین کی 3اَور نشانیاں بیان فرماتا ہے: ‘‘اور وہ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف اتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اتارا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔’’(البقرہ:5)
آنحضرتﷺ پر قرآن نازل ہوا۔ خواتین کے عشقِ قرآن کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ حضرت عائشہ ؓنے دین کا علم سیکھ کر یہ درجہ پایا کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔حضرت عمرؓ کا اسلام لانا بھی آپ کی بہن کے عشقِ قرآن کی وجہ سے ہوا۔
آج بھی پوری دنیا میں ماشاء اللہ کافی خواتین قرآن مجید کے تراجم کرنے، بچوں اور دوسری خواتین کو پڑھانے اور research cellمیں قرآنی صداقتیں دکھانے میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کچھ تعداد ایسی بھی ہے جو باقاعدگی سے تلاوت نہیں کرتیں اور بہت سی ایسی ہیں جو ترجمہ سے ناواقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کا سیکھنا آسان بنایا ہے بہت سی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں قرآن مجید کو سیکھنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیکھ گئیں ۔ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہیے بلکہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔چاہے ہماری کوئی بھی زبان ہو اور عمر کا کوئی بھی حصہ ہو۔
متقین کی اگلی نشانی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آنحضرت ﷺ سے پہلے نازل ہوا سبحان اللہ کیسا عظیم الشان کلام ہے ایک اُمّی کی زبان سے متقی کی یہ نشانی! ایسی عالمگیر اور خوبصورت تعلیم۔ یہ ہے ہمارا اسلام اور یہ ہے ہمارا قرآن اور یہ ہے ہمارا رسول ﷺ جو پہلوں کے لیے بھی تھا اور آخرین کے لیے بھی ہے۔پس متقی وہ ہے جو نہ صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی کتاب پر ایمان لائے بلکہ آپؐ سے پہلے تمام نبیوں اور ان کی کتابوں پر ایمان لائے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے اور کسی بھی زمانے میں ہوں۔ اللھم صل علی محمدو اٰل محمد……
متقیوں کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور آخرت بعد میں آنے والی چیز کو کہتے ہیں۔پس اس آیت کے سیاق و سباق سے یہ معنی نکلتے ہیں جیسا کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے بیان فرمایا ہے کہ ‘‘آ خرہ سے مراد اس جگہ بعد میں آنے والی وحی ہے……مسلمانوں میں سے جس نے اس دروازہ کوکھلا بتایا، مسلمانوں نے اس پر کفر کا فتوی ٰلگا دیا…’’
(تفسیر کبیر، جلد اول ص 146-144)
متقی آ نحضرت ﷺ کی وحی پر بھی ایمان رکھتا ہے آپؐ سے پہلے وحی پر بھی اور آپؐ سے بعد میں آنے والی وحی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ آج مسلمان اپنے ہاتھ سے وحی کا دروازہ بند کر چکے ہیں نتیجۃً جہالت کی گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں اور جو شخص آنحضرت ﷺ کی غلامی میں وحی کا دروازہ کھلا رکھتا ہے اس پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں لیکن فی الحقیقت جو آخرت پر یقین رکھے گا وہ تقویٰ میں ترقی کرے گا۔
اسلامی معاشرے میں عورت پر تین ادوار آتے ہیں۔ ایک بیٹی کی حیثیت سے۔ وہ بیٹی جو رحمت لے کر آتی ہے جس کے ساتھ حسن سلوک پر رسول کریم ﷺ نے ایک عورت کو فرمایا کہ ‘‘اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی’’
(حدیقۃ الصالحین۔ایڈیشن اول ۔ص418)
تو وہ جس کی تعلیم و تربیت پر اتنا زور دیا گیا ہے اس دور کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔قرآن مجید میں ہمیں حضرت موسیٰ کی بہن کا ذکر ملتا ہے جب حضرت موسیٰؑ کی ماں نے اس کی بہن سےکہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جا۔ پس وہ دور سے اسے دیکھتی رہی۔
جب فرعون کے خاندان نے اسے دریا سے نکال لیا تو اس کی بہن نے کہا کہ کیامیں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ دوں جو تمہارے لیے اس کی پرورش کر سکیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں؟
پس یہ وہ متقی بیٹی ہے جس نے اپنی نیک ماں کا کہنا مانا اور دریا کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔ پھر انتہائی حکمت اور عقل سے اس نے فرعون کے خاندان کو اس بچے کی صحیح پرورش کرنے والے خاندان کے متعلق بتا دیا اس پیغام میں نہ تو اس بیٹی نے جھوٹ بولا نہ مبالغہ سے کام لیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ حضرت موسیٰؑ کو اس کی ماں کی طر ف لوٹا دیا۔
دوسری بچی جس کا ذکر قرآنِ مجید نے محفوظ فرمایا ہے وہ حضرت مریم ؑ ہیں جنھیں ان کی والدہ نے ان کی پیدائش سے پہلے وقف کر دیا اور دعا کی کہ اللہ اس وقف کو قبول کرے اور اسے اور اس کی نسل کو دھتکارے ہوئے شیطان سے محفوظ رکھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو ایک حسین قبولیت کے ساتھ قبول فرمایا اور اللہ تعالیٰ کو اس بچی کی ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اس نے یہ اعلان فرمایاکہ ‘‘اللہ نے تجھے چن لیا اور تجھے پاک کر دیا ہے اور تجھے سب جہانو ں کی عورتوں پر فضیلت بخشی ہے’’۔پس آج بھی ہماری بچیوں کو یہ بات اپنے دل و دماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ ہر رزق، ان کی عمر،ان کی صحت،علم، طاقت، آرام و آسائش ہر چیز خدا ہی کی طرف سے ہے اور انہوں نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں بچپن سے بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ ان کا اصل خزانہ ان کی ظاہری خوبصورتی ہے حتیٰ کہ نرسری اور reception میں بھی بچوں کو friend/boy friendکا تصور ہوتا ہے۔ ہر عورت بچپن سے بڑھاپے تک مرد کی توجہ کھینچنے کی فکر کرتی ہے۔ سکولوں، بازاروں، اور دفتروں میں عورت کی عزتِ نفس ختم کر کے اسے کشش کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے اور وہ بچیاں جنہیں شروع سے یہ دباؤ ہو کہ ان کا بوائے فرینڈ ہونا ضروری ہے انہیں ڈیٹس پر جانا ضروری ہے شادی کی عمر تک پہنچنے تک گھر ٹوٹنے کی تعداد میں اضافہ ، نشہ آور اشیاء،قتل،ناجائز تعلقات …اتنے صدمے دیکھ چکی ہوتی ہیں اور اعتبار کھو دیتی ہیں کہ ان کے لیے اپنا گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اسی طرح بیٹی ہے تو وہ اپنے تقدس اور عصمت کی حفاظت کرنے والی ہو۔ اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو اور کوئی ایسی دوستی،ایسے طبقے میں اٹھنا،بیٹھنا، ایسی حرکت نہ کرے جو اسے اپنے ماں باپ سے چھپانی پڑے۔ ہمیشہ یاد رکھے کہ عالم الغیب خدا ہے جو اسے دیکھ رہا ہے غلط قسم کے لڑکے لڑکیوں سے دوستیوں کو وہ اپنے ماں باپ سے پردے میں رکھ سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ سے نہیں جو ہر حرکت و سکوں کو ہر وقت دیکھ رہاہے۔’’
(خطاب 31 جولائی 2010ء احمدی مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں)
یہ اسلام ہی ہے جو مسائل کے پیدا ہونے سے پہلے ان کا حل بیان فرماتا ہے۔اسلام فرماتا ہے کہ جب نکاح کرنا ہو تو بنیادی چیز تقویٰ ہونی چاہیے۔اس لیے خطبۂ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے آخر اس تکرار کی کیا وجہ ہے؟ اللہ تعالی نے بار بار تاکید فرمائی ہے کہ تقوٰی سے کام لینا چاہیےاور جو رشتہ تقویٰ کے بغیر ہو گا وہاں بے چینیاں جنم لیں گی چاہے وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں۔ بعض دفعہ لڑکی والے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ لڑکا British Bornہو، اچھی جاب ہو،گھر، گاڑی وغیرہ ہو اور ماں باپ سے علیحدہ اپنی بیوی کو رکھ سکے۔اور دوسری طرف لڑکے والے یہ مطالبہ کریں گے کہ بہت چھوٹی عمر کی انتہائی خوبصورت لیکن پڑھی لکھی لڑکی ہو جو سسرال میں ساتھ رہے اور ضرورت پڑنے پر لڑکے کے ساتھ مل کر مورگیج کی ادائیگی میں مدد بھی کرے اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اب زمانہ وہ نہیں جہاں صرف ایک شخص کمائے۔ ان دونو ں نظریات میں کسی جگہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور تقویٰ کا ذکر نہیں۔ ہر چیز اپنے ہاتھ میں سمجھی جاتی اور کنٹرول کی جاتی ہے۔ ایسی شادیاں اگر ہو بھی جائیں تو جب تک قائم رہیں بے سکونی کا باعث بنتی ہیں یا پھر ٹوٹ جاتی ہیں۔
ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوؓل نے خلیفہ نورالدین صاحب جمونیؓ کو ایک نیک اور مخلص لڑکے کا رشتہ تجویز فرمایا۔ اس پر ان کی رائے تھی کہ یہ غریب آدمی ہے۔ اس کا نہ کوئی آگا ہے نہ پیچھا، نہ گھر نہ گھاٹ۔ اس کے کمرہ میں صرف ایک چٹائی، ایک لوٹا، اور ایک چارپائی ہے و بس۔ ہماری لڑکی رہے گی کہاں؟…
حضرت مولوی صاحبؓ نے بڑے زور سے پنجابی زبان میں فرمایا:‘‘میاں نورالدین صاحب! جے تے تہاڈی لڑکی دے بھاگاں وچ کجھ ہے تو اوہ خالی گھر وچ جا کے وی اونوں بھر دئے گی۔ تے جے اوہدے بھاگاں وچ کجھ نہیں تے اوہ بھرے گھر وچ جا کے بھی اوہنوں خالی کر دئے گی’’۔
حضرت مولوی صاحبؓ کے یہ الفاظ سن کر حضرت خلیفہ صاحب نے فوراً یہ رشتہ منظور کر لیا۔
(حیات نور صفحہ280)
قرآن کریم نے عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے لباس کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ہم نے تم پر لباس اتارا ہے…جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس! تو وہ سب سے بہتر ہے۔
(الاعراف:27)
اللہ تعالیٰ ایک اَو رجگہ لباس کا ذکر ایک ایسی بستی کی مثال دیتے ہوئے کرتا ہےجو پر امن اور مطمئن تھی اور رزق بھی بافراغت تھا لیکن جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو……اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ۔
(النحل :113)
یہاں اللہ تعالیٰ نے بڑے واضح الفاظ میں لباس کی دونوں انتہاؤں کا ذکر فرمادیا ہے لباسِ تقویٰ کا بھی اور بھوک اور خوف کے لباس کا بھی ۔اس جگہ دو واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گی۔
ایک حضرت اماں جانؓ کی شادی کا واقعہ ہے۔ حضرت میر ناصر نوابؓ نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو خط لکھا کہ دعا کریں اللہ تعالی مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے… جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا رشتہ آیا تو حضرت نانی جان کو یہ اعتراض ہوا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں، آپ کا رہنا سہنا اور زبان مختلف ہے، عمر بھی بڑی ہے اور پہلے شادی بھی ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں اور رشتے بھی آئے لیکن حضرت نانی جان کو وہ پسند نہ آئے۔ آخر ایک دن فرمایا:‘‘ان لوگوںسےتوغلام احمد ہزار درجہ بہتر ہے’’۔
(سیرت حضرت اماں جانؓ، صفحہ 4تصنیف صاحبزادی امتہ الشکور)
اس طرح حضرت میر ناصر نواب ؓکی اپنی بیٹی کے بارے میں یہ دعا قبول ہوئی جسے جتنی دفعہ بھی بیان کیا جائے اس کا مزہ پہلے سے زیادہ ہی آتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے حضرت میر ناصر نواب ؓسے فرما یا کہ احمدیت سے پہلے آپ بھی اہلِ حدیث تھے اور ہم بھی۔لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کی لڑکی کو مسیح موعودؑ جیسا شوہر مل گیا تومیر صاحبؓ نے فرمایا کہ ‘‘اصل بات تو اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کی ہے۔ لیکن جب سے میری یہ لڑکی پیدا ہوئی ہے میں نے کوئی نماز ایسی ادا نہیں کی جس میں اس کے لیے یہ دعا نہ کی ہو کہ اے اللہ تیرے نزدیک جو شخص سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو اس کے ساتھ اس کا عقد ہو جائے’’۔ تو حضور نے فرمایا ‘‘بس میں سمجھ گیا کہ یہ کسی وقت کی دعا ہی ہے جس کا تیر نشانے پر لگا ہے۔’’
دوسرا واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا ہے۔
ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓلاہور میں کسی رئیس کے گھر میں مہمان تھے جس کی ایک بیٹی تھی شام کو لڑکیاں سیر کو گئیں تو شدید طوفان کی وجہ سے وہ بچی بچھڑ گئی اور کسی طرح بادشاہی مسجد میں پہنچ گئی اور اسے ایک حجرے میں ٹھہرنا پڑا جہاں ایک انتہائی غریب لڑکا دیا جلا کر پڑھ رہا تھا،گندا بستر، اکیلی لڑکی والدین سے دور بہت پریشان تھی اور سو نہ سکی۔دوسری طرف لڑکے نے جو لڑکی کو دیکھا تو شیطان نے اس پر حملہ کر دیا مگر تھا وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والا اس نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو خدا کو کیا جواب دوں گا کیا جہنم کی آگ برداشت کرسکوں گا؟ یہ سوچ کر اس نے اپنی ایک انگلی دیے کی ‘لاٹ’پر رکھی لیکن کچھ ہی دیر بعد اَور آگ برداشت نہ کر سکا اور واپس کھینچ لی۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا کہ شیطان نے پھر حملہ کر دیا لیکن پھر اس نے وہی سوچ لے کر دوسری انگلی آگ پر رکھی اس طرح یہ جنگ پوری رات جاری رہی اور اس نے اپنی دس کی دس انگلیاں جلالیں لڑکی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی گھر جاکر اس نے جب ذکر کیا تو حضور ؓنے فرمایا کہ اس لڑکے کو بلا کر پوچھنا چاہیے جب اس سے پوچھا تو اس نے سارا واقعہ سنا دیا۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ‘‘یہ لڑکا اس امر کا مستحق ہے تم اس بچی کی شادی اس سے کر دو۔’’اس پر رئیس نے کہا کہ یہ تو بہت ہی نعمتوں میں پلی ہے اس کے ساتھ کیسے رہے گی؟مجھے برادری کیا کہے گی؟ اس پر حضور ؓنے فرمایا کہ آپ اپنی جائیداد سے اسے امیر بنا سکتے ہیں لیکن ایسا امیر آپ کو کہیں نہیں ملے گا جو اس جیسا نیک ہو۔’’
(حیات نور۔صفحہ69-67)
یہ ہے خدا کی ذات پر توکل اور لباس تقویٰ۔
جب گھر بن جائیں تو اگلا مرحلہ گھر کی ذمہ داری ہوتا ہے کہ اسے کس طرح ادا کیا جائے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا نشان ہے۔اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ ‘‘پہاڑوں میں بھی، درختوں میں اور ان بیلوں میں جو وہ اونچے سہاروں پر چڑھاتے ہیں، گھر بنا۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھا اور اپنے رب کے رستوں پر عاجزی کرتے ہوئے چل۔’’
(النحل:69-70)
ہر جگہ گھر بنانے کا حکم ہے۔ لیکن بنیادی چیز پھلوں کو کھانا اور عاجزی اختیار کرنا ہے۔ ہم عورتوں کے لیے اس میں یہ نصیحت ہے کہ عاجزی اختیار کریں اور رب کے راستے پر چلیں ہر جگہ گھر بنائیں اور بہترین گھر اور مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا یعنی مذہب ہے جس جگہ پر بھی ہوں اس کی تعلیمات کو سمجھیں اورانھیں اپنائیں۔اس کے بعد جب اگلی نسل پیدا ہوگی جو مختلف رنگ و نسل کی ہو وہی ہے جو معاشرے کے لیے شفا بنے گی۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ تحریم میں کفر کرنے والے لوگوں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے۔
‘‘وہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کے ماتحت تھیں۔ پس ان دونوں نے ان سے خیانت کی تو وہ اُن کو اللہ کی پکڑ سے ذرا بھی بچا نہ سکے اور کہا گیا کہ تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ آگ میں داخل ہو جاؤ’’۔
(التحریم:11)
چونکہ وہ دونوں ایمان نہ لائیں اس لیے ظاہری رشتہ کام نہ آیاحتیٰ کہ نبی کا تعلق بھی ان کو بچا نہ سکا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ نیک آدمی کی بیوی بننے سے عورت کسی رعا یت کی مستحق نہیں ہوتی بلکہ اس کی ذمہ داری بڑھ جا تی ہے۔
(تفسیر صغیر صفحہ 757)
اوراللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لیے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔
(التحریم:12)
یہ تھیں وہ مقدس خواتین جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کی اور برکتوں کی وارث بنیں۔آج بھی خدا کے فضل سے جماعت میں ایسی خواتین ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں ، اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس سے مدد مانگتے ہوئےاپنے گھروں کو آباد رکھتی ہیں ۔لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو اس بات کا شکوہ بھی اپنے دل میں رکھتی ہیں کہ میرے میاں کو میرا برتھ ڈے یاد نہیں اور ایسی معمولی باتوں سے ہی لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
نیا گھر بنانے والے لڑکے اور لڑکی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔‘‘اس تعلق کو اس نہج پر چلاؤ کہ رشتوں میں مضبوطی آئے دراڑیں نہ آئیں رشتے نہ پھٹیں…خاوند اور بیوی کے جو اپنے اپنے رحمی رشتے تھے وہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے رحمی رشتے بن جاتے ہیں۔ آپس کے تعلق نبھانے کی خاطر اسی طرح لڑکے کو صبر اور دعا کا حکم ہے جس طرح لڑکی کو ہے۔ آپس میں میاں بیوی میں اعتماد کی فضا ہو۔صاف اور سچائی سے پر باتیں کرو اور ان میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اپنے ہر کام انجام دو۔یہی تقویٰ ہے۔
(4؍اکتوبر 2009ء سالانہ اجتماع لجنہ برطانیہ۔ احمدی مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں)
پھر عورت کی زندگی کا تیسرا دور ماں کا دور ہے۔اسلام نے جو مقام عورت کو بطورِ ماں کے دیا ہے اس کا لاکھواں بلکہ کروڑواں حصہ بھی کسی مذہب یا کسی تہذیب میں نہیں ملتاجہاں اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی۔ قرآنِ مجید ہمیں یہ دعا سکھاتا ہے کہ ‘‘اے ہمارے رب تو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا کرنا،اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں کہ صالح اور متقی اولاد سے پہلے ضروری ہے کہ والدین پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنی زندگی کو متقیانہ بنائیں۔ (ملفوضات جلد6صفحہ 370)اور جب اس دنیا سے رخصتی کا وقت آئے تو آنکھوں کی ٹھنڈک دینے والی یہ تصویر سامنے ہو کہ ؎
یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا
جب آئے وقت میری واپسی کا
تاریخ سے ہمیں ایسی ایسی عظیم الشان ماؤں کی مثال نظر آتی ہے جنہوں نے اپنی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ڈال دی۔ حضرت حاجرہ ؑکی تقلید میں خدا کے فضل سے ایسی مائیں پیدا ہو رہی ہیں جو اپنے بچوں کو خدا کی رضا کی خاطرقربانی کے لیے تیار کرتی ہیں یہ اسلام کے دورِ اول میں بھی تھیں اور دورِ آخر میں بھی ہیں۔حضرت سیّدہ اماں جان نے حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے وقت بچوں کو یوں تسلی دی کہ ‘‘بچو !خالی گھر دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے انھوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے ۔جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا۔’’
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات پر جو آپ نے صبر دکھایا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو وحی ہوئی ‘‘خدا خوش ہو گیا’’۔ جب حضرت اماں جان نے یہ سنا تو فرمایا۔ ‘‘مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔’’
(محسنات صفحہ58)
حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کی اہلیہ حضرت شاہ جہاں بی بی صاحبہ نے انتہائی درد ناک حالات دیکھے مگر ہر موقع پر یہی فرمایا کہ اگر احمدیت کی وجہ سے میں اورمیرے چھوٹے چھوٹے بچے قربان کر دیے جائیں تو اس پر خدا تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں گی اور بال بھر بھی اپنے عقائد میں تبدیلی نہ کروں گی۔’’
(محسنات صفحہ118)
حضرت چوہدری ظفراللہ خاں صاحب ؓکی والدہ نے بھی اپنے بیٹوں کی زند گی بچانے کے لیے چڑیل صفت جے دیوی کو کچھ نہ دیا بلکہ یہ فرمایا کہ میں چڑیلوں کو ماننے والی نہیں ہوں میں صرف اللہ تعالیٰ کو موت اور حیات کا مالک مانتی ہوں اور کسی کا ان معاملات میں کوئی اختیار تسلیم نہیں کرتی’’…اور جب بڑے بیٹے کی وفات ہو گئی تو فرمایا:‘‘تونے ہی دیا تھا اور تو نے ہی لے لیا میں تیرہ رضا پر شاکر ہوں اب تو ہی مجھے صبر عطا کیجیو!
اور پھر دوسرے بیٹے کی دفعہ جب جے دیوی کا واقعہ دوبارہ ہوا تو آپ نے فرمایا:‘‘یہ میرے ایمان کا امتحان ہے کیا میں تسلیم کر لوں کہ میرے بچے کی زندگی اس عورت کے اختیار میں ہے؟یہ تو کھلا شرک ہے اگر میرے بچے کو اللہ تعالیٰ زندگی دے گا تو وہ زندہ رہے گا اگر وہ اسے زندگی عطا نہیں کرے گا تو کوئی اور ہستی اسے زندہ نہیں رکھ سکتی۔ میں تو اپنے ایمان کو ہر گز شک میں نہ ڈالوں گی بچہ زندہ رہےیا نہ رہے۔’’
اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑکے زمانے میں ایک میراثن تھی جس کا لڑکا عیسائی تھا اسے کسی طرح حضورِ اقدس ؑ کے بارے میں پتہ چلا وہ لڑکے کو لے کر وہاں پہنچی حضور ؑکے سمجھانے پر بھی وہ لڑکا نہ مانا اور بھاگ گیا اس عورت نے دوبارہ لڑکے کو پکڑا حضورؑ کے پاس لائی اور عرض کی کہ میرا خاوند مر چکا ہے مجھے اس کی زندگی کی کوئی خواہش نہیں، اس کی صحت کی خواہش نہیں،صرف یہ خواہش ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں نہ مرے آخر خداتعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور وہ لڑکا مسلمان ہو گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول)
محترمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ نے اپنے لختِ جگر کی شہادت کے موقع پر فرمایا:‘‘تمہاری جان کا نذرانہ مجھے سرفراز کر گیامیں نے اپنے بیٹے کو جزاک اللہ قادر۔ جزاک اللہ کہہ کر رخصت کیا’’۔ پھر فرماتی ہیں جب قادر جیسے لوگ دنیا سے جاتے ہیں تو چراغ بجھا نہیں کرتے بلکہ زیادہ آب و تاب سے جلا کرتے ہیں جس سے تمام راہیں جگمگا اٹھتی ہیں۔
چند قصّے ہیں جس کا ذکر آپ کے سامنے کیا گیا ہے۔ بے شمار لعل و جواہرات کی سجی تاریخ سے یہ چند چمکتے موتی نکال سکی ہوں ہمیں پوری ہمت اور عزم کے ساتھ ان ماؤں کے نقوش کو اپنی ذات میں اتار کر اگلی نسل میں منتقل کرنا ہے تاکہ ہمارے بچے ہمیشہ ہر طرح کی قربانی کے لیے تیارر ہیں۔ اگر احمدی ماؤں نے ایسا کیا تو خدا کے فضل سے احمدیت کو دنیا میں کوئی خطرہ نہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘پس جمعے کی نماز کے لیے بڑی توجہ اور پابندی سے آنا چاہیے اس سے اللہ کی رضا بھی ملے گی اور دعائیں بھی قبول ہوں گی اور دنیاوی فوائد بھی مل جائیں گے۔’’
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کرنا متقیوں پر واجب قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
‘‘جب تم میں سے کسی پر موت کا وقت آجائے اگر وہ کوئی مال چھوڑ رہا ہو تو وہ اپنے والدین کے حق میں اور رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے متقیوں پر لازم ہے۔’’
(البقرہ:181)
ایک تو معروف احکامِ وراثت ہیں۔دوسرے بعض حقوق ایسے ہیں جو احکامِ وراثت سے باہر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ والدین اور رشتہ داروں کے لیے جو بھی معروف ہو اس کی وصیت کر دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر مہر مقرر ہو چکا ہو مگر میاں بیوی کا تعلق قائم نہ ہوا ہو اور طلاق کی نوبت آجائے تو ایسی صورت میں طلاق دیتے وقت تمہیں مہر نصف ادا کرنا پڑے گا اور یہ کہ تمہارا معاف کر دینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اس میں مرد، عورت، ولی سب مراد ہیں اور یہ قاعدہ بنایا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر اپنا حق چھوڑنا بہ نسبت اپنا حق طلب کرنے کے زیادہ افضل ہو تا ہے اور تقویٰ کا یہی تقاضا ہوتا ہے۔مگر افسوس ہے کہ لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے اور ہمیشہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے اور اس پر لڑتے جھگڑتے ہیں لڑکے والے بعض اوقات یہ کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسا ذریعہ ہو کہ نہ صرف یہ کہ اسے مہر ادا نہ کرنا پڑے بلکہ جو چیز وہ تحفۃً اسے دے چکے ہوتے ہیں وہ بھی واپس مانگی جاتی ہے۔اور لڑکی یہ کوشش کرتی ہے کہ مہر اور زیادہ سے زیادہcompensation لے سکے جب کہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ تمہارا معاف کر دینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
اللہ تعالیٰ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اور اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہلِ بیت! یقیناً اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کردے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔(الاحزاب:34)
یہاں جس چیز سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہےوہ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰیگزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار سے ۔ یہ جاہلیت کے سنگھار کیاہیں؟ نمایاں بننے کی خواہش، جس طرح چھوٹی عمارات میں ایک برج یا ٹاور ہوتا ہے، اس طرح کچھ ایسا کیا جائے کہ ہم باقی عورتوں سے نمایاں نظر آئیں۔کبھی خاندان کا فخر، کبھی اولادکی لیاقت کبھی ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کے زیورات، کبھی گھر، گاڑیاں جو محض دنیاوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور بعض دفعہ انہیںفخر سے بیان کرتے ہوئے،اللہ تعالی ٰ کےفضل کو بھول جاتی ہیں۔اور خود کو بڑا ثابت کرتے ہوئے، دوسروں کو نیچا دکھاتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما یا ہے۔
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک احمدی مسلمان عورت کو حقیقی سجاوٹ کا مطلب سمجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ‘‘ایک احمدی عورت کو چاہیے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں۔ اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں… اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ ’’
(خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا 15اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)
ایک اور اہم معاملہ جن رستوں پر چلنے سے ہم نے اپنے آپ کو بچانا ہے وہ‘غیر اسلامی رسومات’ہیں۔ غیراسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے بعض اوقات ہم ان کی رسومات کو فن (fun)کی خاطر اپنانا شروع کردیتے ہیں۔Valentines, Halloween,Fathers’ Day/Mothers’ Day, Birthday وغیرہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پیدائش، شادی بیاہ، اور وفات پر بھی بعض کام محض رسماً کیے جاتے ہیں۔ خدا کے فضل سے جماعت میں جہاں ایک کثیر تعداد اپنے بچوں کو وقف کرتی ہے وہاں کچھ ایسی بھی ہیں جن میں یہ رسومات داخل ہو رہی ہیں۔ پھر شادی بیاہ کے موقع پر بہت مہنگے دعوتی کارڈ، رونقوں کے نام پر بے انتہا دعوتیں، دلہن کی تیاری اور سٹیج کے لیے مہنگے…20-15 مرغن کھانے۔یہ سب کچھ اس لیے تاکہ لوگ یہ کہیں کہ ایسی شادی تو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ لیکن ہم اس وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دکھاوے دلہا دلہن کی خوشیوں کا ضامن نہیں ہوتے وہ تو خدا کے فضل سے نصیب ہوتی ہیں۔ حضورِ انور ایداللہ تعالیٰ تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار اور اسلامی تعلیم اور وقار کی دھجّیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر میں بلا استثناء بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے ہر اس چیز سے بچنا ہوگا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہو۔’’
(خطبہ جمعہ25 نومبر2005ء)
تربیت کے ضمن میں سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ سب کے دلوں کو خدا تعالی کی محبت کے نام پر اکٹھا کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کی محبت کا سفرہی ایک ایسا سفر ہے جو اس محبت کے سوا کسی اور چیز کی ہوش نہیں رہنے دے گا۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ آخر ہمارا محبوب ہے کیسا؟ اس کی صفات ہیں کیا؟ پھر ہم اپنے محبوب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں گے، اس سے ملنے کی کوشش کریں گے۔پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اس تک پہنچنے کے راستوں کو خود چھوٹا کر دیتا ہے۔
لیکن کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ وہ خود خدا تک پہنچ جائےیا خدا کا پیار حاصل کر لے۔ اس کے لیے مدد بھی خدا ہی سے مانگنی پڑتی ہے۔ کبھی یہ التجا کر کے ‘‘تمہیں سے تمہیں مانگنا چا ہتی ہوں ’’ اور کبھی یہ التجا کر کے:
بارِ گنہ بلا ہے مرے سر سے ٹال دو
جس راہ سے تم ملو مجھے اس رہ پہ ڈال دو
دونوں جہاں میں مایۂ راحت تمہیں تو ہو
جو تم سے مانگتا ہوں وہ دولت تمہیں تو ہو
قرآنِ کریم متقیوں کی ایک اور خصوصیت یہ بیان فرماتا ہےکہ…‘‘اور وہ شخص جو سچائی لے کر آئے اور وہ جو اس سچائی کی تصدیق کرے یہی وہ لوگ ہیں جو متقی ہیں۔’’(الزمر:34) خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے سچائی بھیجی اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں اس جماعت میں شامل کیا ہے جس کا ایک راہنما ہے۔ اور راہنما بھی ایسا جو محبت کے ان راستوں میں ماں سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھتا ہے ۔ ہم وہ خوش قسمت ہیں جنہیں اس سچائی کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ پس یقیناً یہ خوش ہونے اور خوشی سے اچھلنے کی بات ہے لیکن اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں ہم خلیفۂ وقت کے ہاتھ میں ایسے ہوں جیسے مردہ غسّال کے ہاتھ میں ہوتا ہے حضرت خلیفۃالمسیح الاوؓل فرماتے ہیں کہ ‘‘بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔’’
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں : ‘‘تم سب امام کےاشارے پر چلو اور اس کی ہدایت سے ذرّہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہو۔جب وہ حکم دے بڑھو جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ جدھر بڑھنے کا حکم دے ادھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے ادھر سے ہٹ جاؤ’’۔
(انوار العلوم جلد 14 صفحہ 516-515)
جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی حکم نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں، اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے۔اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم، وہی تجویز، وہی تدبیر مفید ہے۔جس کا خلیفۂ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل،اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔’’
(خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں :
‘‘یہ خلافت ہی کی نعمت ہے جوجماعت کی جان ہے اس لیے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت کی وابستگی میں ہی مضمرہے۔ایسے بن جائیں کہ خلیفہ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے، خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہو جائے۔’’
اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی اطاعت میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭