ہالینڈ کی پہلی احمدی مسلمان خاتون قادیان میں
حضرت مسیح موعود ؑ یورپ میں اسلام کے پھیلنے کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘ایسا ہی طلوع شمس کا جو مغرب کی طرف سے ہو گا۔ ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منور کیے جائیں گے اور اُن کو اسلام سے حصّہ ملے گا…اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔ ’’
(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3صفحہ376تا377)
اسی طرح آپ ؑ کو یہ الہام ہوا کہ
‘‘یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَاءِ’’
تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میںہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔(تذکرہ صفحہ39)
اللہ تعالیٰ کا یہ جماعت احمدیہ پر خاص فضل ہے کہ احمدیت کا پیغام اور حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ کو پھیلانے کے سامان وہ خود فرماتا ہے۔ بسا اوقات جماعت کا کوئی مبلغ بھی اس علاقے میں موجود نہیں ہوتا لیکن احمدیت کا پیغام وہاں پہنچ جاتا ہے اور سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حالیہ دورہ ہالینڈ کے سلسلہ میں جب ادارہ الفضل نے ہالینڈ میں احمدیت کی تاریخ پر نظر ڈالی تو وہاں سب سے پہلی احمدی ہونے والی خاتون کے قبول احمدیت کا نہایت ہی دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ہمارے سامنے آیا۔ ان خاتون کے قبول احمدیت کے حالات، ان کے خطوط اور بعد ازاں قادیان میں آمد اور وہاں لجنہ اماء اللہ قادیان کے ساتھ منعقد ہونے والی ایک تقریب میں ان کا دینی امور میںشوق و جذبےکا اظہار یقیناً حضرت مسیح موعود ؑکی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
(چنانچہ ان کے کچھ حالات ہدیۂ قارئین ہیں۔ناقل)
تعارف
ہالینڈ میں سب سے پہلے احمدی ہونے والی ایک محترمہ خاتون مس شارلاٹ ولبری بڈMs. Buddتھیں۔ وہ ڈچ زبان میں قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام سے متعارف ہوئیں۔
ایک امریکن رسالے میں حضرت مولوی محمد الدین صاحب مرحوم (سابق مبلغ امریکہ)کا مضمون پڑھ کرانہوں نے محترم مولوی صاحب سے رابطہ کیا۔محترم مولوی محمد الدین صاحب نے ان سے خط و کتابت کے علاوہ قادیان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کوان کا پتہ بھجوایا جنہوں نے قادیان سے انہیں بعض کتب ارسال گئیں۔
اسی دوران حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ لندن سے ہالینڈ پہنچے اور مس بڈ سے مل کر انہیں تبلیغ کی۔ چنانچہ 1924ء میں انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تحریراً بیعت کی درخواست بھیجی۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سے خط و کتابت
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مس بڈ کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘ملک ہالینڈ میں ایک معزز تعلیم یافتہ لیڈی مس شارلاٹ ولبری بڈ نے ڈچ زبان میں ترجمہ قرآن شریف پڑھ کر اسلام کے متعلق مزید حالات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اور یہ معلوم کر کے کہ امریکہ میں ایک رسالہ مسلم ورلڈ کے نام سے شائع ہوتا ہے اس نے اس کا ایک پرچہ منگوایا۔ مگر یہ دیکھ کر اسے بہت مایوسی ہوئی۔ کہ وہ رسالہ مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ عیسائیوں نے دین اسلام کے خلاف مضامین لکھنے کے واسطے اس کو جاری کیا ہوا ہے۔ حُسنِ اتفاق سے اس رسالہ میں ایک مضمون ہمارے امریکہ کے مشنری مولوی محمد الدین صاحب کا بھی تھا۔ اس میں مولوی صاحب کا پتہ بھی لکھا ہوا تھا۔ اس پر مس بڈ نے مولوی محمد الدین صاحب کو خط لکھا۔ مولوی صاحب موصوف نے خود بھی جواب لکھا اور مجھے بھی وہ خط بھیجا، جس سے میری اور مولوی صاحب دونوں کی خط و کتابت اس سے شروع ہوئی۔ کچھ کتابیں یہاں سے بھیجی گئیں۔ اور دیگر حالات بذریعہ خطوط لکھے گئے۔ جب مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یورپ جانے کا ارادہ کیا۔ تو میں نے انہیں مس بڈ کا بھی ایڈریس دیا۔ تاکہ سفر یورپ کے ایام میں اسے ضرور ملیں۔
چوہدری صاحب موصوف لندن کے کام سے فارغ ہو کر ایرپلین پر سوار ہو تے ہوئے ہالینڈ پہنچے۔ اور ان کی تبلیغ سے مس صاحبہ کا شوق و ذوق دین اسلام کے متعلق اس قدر بڑھا کہ اس نے کھلے بندوں دین محمدی ؐکو قبول کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت بذریعہ تحریر کی۔ اور صرف یہی نہیں کہ وہ خود مسلمان ہوئی۔ بلکہ اوروں کو بھی دین اسلام کی تبلیغ کرنے میں نہایت جوش کے ساتھ مصروف ہے۔ اس کے تازہ خط سے جو میرے پاس آیا ہے۔ کچھ اقتباس ناظرین کے واسطے درج ذیل کیا جاتا ہے:
جو خوشی مجھے دین اسلام میں داخل ہونے سے ہوئی ہے۔ میں اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ کہ میں ایک نہایت ہی خوبصورت نئے گھر میں داخل ہوئی ہوں۔ جس کا حُسن اور زیب و زینت کامل ہے۔ پہلے میں دور سے اس کی خوبصورتی دیکھ رہی تھی۔ مگر اس کا اندرونہ اس کے باہر سے بڑھ کر میں نے خوشنما اور آرام دہ پایا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ مجھے کیوں اتنی بڑی نعمت عطا ہوئی۔ یقیناً یہ بات میری نیکی یا راست بازی سے حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ خدا کے فضل سے ہوئی ہے۔ میں اپنے ارد گرد ہزار ہا آدمی ایسے دیکھتی ہوں۔ جو مجھ سے بڑھ کر اس نعمت کے مستحق معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کے خط کے ساتھ مجھے شیخ عبدالحمید صاحب کا خط بھی پہنچا ہے۔ جس سے مجھے بہت ہی خوشی ہوئی۔ کہ اس گھر میں داخل ہوتے ہی ایک اور نیک روح مجھے مبارکباد کہنے کے لیے آگے بڑھی۔میں جانتی ہوں کہ اگر میں شب و روز بغیر ایک لمحہ کے وقفہ کے دین اسلام کی خدمت میں لگی رہوںتب بھی جو کچھ مجھے عطا ہوا ہے میں اس کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہیں کر سکتی۔ اس امر کے معلوم کر نے سے مجھے خاص اطمینان اور خوشی ہوئی۔ کہ آپ کو ملک ہالینڈ کے متعلق ایک رؤیا ہوا ہے۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے۔ میرا ملک بہت جلد اسلام قبول کرنے والا ہے۔ بہت سے لوگ اس ملک میں ایسے ہیں جو اپنے پُرانے مذہب کو چھوڑ چکے ہیں اور کسی نئے مذہب کی تلاش میں ہیں۔ ایسے لوگ آئے دن نئی سوسائٹیاں بناتے رہتے ہیں۔ مگر چونکہ ان سوسائٹیوں میں ان کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اس واسطے جس سُرعت سے وہ سوسائٹیاں بنتی رہتی ہیں ویسی ہی جلدی سے ٹوٹتی بھی رہتی ہیں۔ بڑی ضرورت اس وقت میرے سامنے یہ ہے کہ سلسلہ کی چند ایک انگریزی کتابیں میرے پاس ہوںاور ان کو میں مختلف سوسائٹیوں اور کتب خانوں میں رکھاؤں۔ اور ایسے لوگوں کو دوں جو ان کو پڑھ کر دلچسپی حاصل کریں۔ میں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور یہاں کی یونیورسٹی کے تین پروفیسروں کو میں نے بعض کتابیں دی ہیں۔ انہوں نے ان کتابوں کو پڑھ کر بہت دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور اُمید ہےکہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں خطوط لکھیں گے اور اپنے مزید سوالات پیش کرینگے۔ کاش!کہ بہت جلد اس ملک میں ایک اسلامی مشن قائم کیا جاسکتا۔ جب تک یہ ممکن نہیں میں اپنی کوششوں کو اپنی ہمت کے مطابق جاری رکھوں گی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت احمد ؑکو اس ملک کے سامنے پیش کر کے ہر دو کا پیغام ان کو پہنچاتی رہوں گی۔
میں نے اپنے کام کی پہلی ماہواری رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بھیج دی ہے اور حضرت صاحب سے جو ہدایات مجھے آئیں گی ان پر عملدرآمد کرتی رہوںگی۔ اس ملک کی زبان ڈچ ہے۔ لیکن اکثر لوگ جرمن اور انگریزی زبان سمجھتے ہیں۔ میں آپ کی مشکور ہوں کہ آپ نے میرا پتہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو دیا۔ ان کی ملاقات سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ ان سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا۔ کہ میں حضرت صاحب کو براہ ِراست خط لکھ سکتی ہوں اور (یہ)کہ حضرت صاحب تمام خطوط کو خود کھولتے اور پڑھتے ہیں۔’’
(الفضل 11؍ دسمبر 1924ء)
اسلامی نام
مس بڈ کا اسلامی نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ‘ہدایت’ تجویز فرمایا ۔چنانچہ موصوفہ نے اس بارہ لکھا کہ حضرت اقدس نے مجھے جو نام دیا ہے اسے معلوم کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی میرے ولندیزی کانوں میں یہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے اور اس نام (ہدایت) کے معنے خصوصاً میرے لیے ہمیشہ بہت بڑی مدد ثابت ہوں گے۔
قادیان میں آمد
1929ء میں مس ہدایت بڈ ہندوستان آئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓان کے استقبال کے لیے سیلون گئے۔ اس موقع پر کئی اخباروں نے ان کی آمد اور قبولِ اسلام کی خبریں شائع کیں۔ قادیان پہنچنے پر موصوفہ کا شاندار استقبال کیا گیا۔
(اخبار فاروق 21-28؍مئی 1929ء صفحہ 17تا18)
لجنہ اماءاللہ قادیان کی طرف سے استقبالیہ
23؍ مئی 1929ء کو لجنہ اماء اللہ قادیان نے مس ہدایت بڈ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا اور انگریزی زبان میں ایڈریس پیش کیا اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ آپ ہالینڈ میں حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے والوں میں سے سب سے اوّل ہیں اور اہل ہالینڈ میں سے پہلی فرد ہیں جو ہزار ہا میل کا سفر کر کے مرکز میں آئی۔ایڈریس میں ان کی استقامت کے لیے دعا کی گئی جس کے جواب میں انہوں نے انگریزی میں تقریر کی۔ ذیل میں ایڈریس اور جوابی تقریرکا ترجمہ درج کیا جاتا ہے:
لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ایڈریس
‘‘ہماری پیاری دینی بہن ،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم ممبرات لجنہ اماء اللہ قادیان خوشی کے گہرے اور مخلصانہ احساسات کے ساتھ آپ کو اپنے درمیان خوش آمدید کہتی ہیں۔ مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق جو سرگرمی اور جوش آپ سے ظاہر ہوتا رہا ہے۔ اس کی خبریں ہمارے واسطے بہت خوشی کا موجب ہوتی رہی ہیں۔ شہر ایمسٹرڈیم میں آپ نے ہمارے مبلغین کے لیکچروں کا انتظام کر کے ان کی امداد فرمائی۔ خطوط اور مضامین کے ذریعہ آپ نے اس ملک کے اخبارات میں اسلام کی تائید میں سرگرمی سے کام کیا۔ آپ نے اپنے خرچ سے مفید رسالے چھاپ کر اپنے اہل وطن کو اسلام کے متعلق روشنی بہم پہنچائی۔ مرکز سلسلہ کے ساتھ آپ نے باقاعدہ خط و کتابت جاری رکھی۔ تا کہ جماعت احمدیہ کے مبارک امام حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی طرف سے آپ کو ہدایات حاصل ہوتی رہیں۔ آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ یگانہ عزت عطا کی کہ آپ ملک ہالینڈ میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ایمان لانے میں سب سے اول ہیں۔ اور اہل ڈچ میں سے آپ پہلی فرد ہیں جس نے ہزار ہا میل کا لمبا اور تکلیف دہ سفر برداشت کر کے سلسلہ احمدیہ کا مرکز آکر دیکھا۔ ہمیں آپ کو مبارکباد دینی چا ہیے۔ کہ آپ حضرت احمد علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کے لیے خود ایک شاہد بنی ہیں وہ پیشگوئی جو اس الہام الٰہی میں درج ہے کہ لوگ دنیا کے ہر حصہ سے قادیان میں آئیں گے۔ پس آپ کو اپنے درمیان دیکھ کر ہمیں بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ اور ہماری دلی خواہش ہے کہ قادیان میں جو پاکیزہ زندگی کا بہشتی چشمہ اللہ تعالیٰ نے جاری کیا ہے اس سے نہ صرف آپ ہی سیراب ہونگی بلکہ ہماری لجنہ کے کاروبارمیں بھی ایک گہری دلچسپی لیں گی۔ اس وقت اتنا موقع نہیںکہ ہم اس نازک کام کے متعلق پوری طرح بیان کر سکیں جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ بہت جلد آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔ تاہم اتنا کہنا چاہتی ہیں کہ یہ کام درحقیقت بہت ہی مشکل ہے۔ سلسلہ کے بہت سے فرائض ادا کرنے میں حصہ لینے کے علاوہ ہمارا یہ بھی کام ہے کہ آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم اور تربیت کا انتظام کریں اور ہمیں امید ہے اس معاملہ میں آپ ہماری پوری طرح امداد کریں گی۔ ہم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارا کام ایسا مشکل ہے۔ جیسا ایک کمزور اور ناتوان کے لیے پہاڑ پر چڑھنا۔ اور ہماری مشکلات بظاہر ناقابل حل ہیں۔ لیکن یہ دقتیں ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتیں بلکہ اور زیادہ ہمت اور کوشش سے کام کرنے کی ضرورت ظاہر کرتی ہیں۔ ممالک یورپ میں بھی جہاں ہر ایک قسم کے سامان آسائش میسر ہوسکتے ہیں ابتدائی صورت میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمیں صاف طور پر اس امر کا ظاہر کردینا ضروری معلوم ہوتا ہےکہ شائد ابتدا میں آپ کو بعض تکالیف اور مشکلات پیش آئیں جو سلسلہ کے مخلص کارکنوں کو ابتداءًپیش آتی ہیں۔ اس ملک کی آندھیوں مچھروں اور سخت گرمی کی برداشت کرنے کی آپ عادی نہیں ہیں۔ جن مضر صحت طریقوں میں یہاں کے لوگ زندگی بسر کرتے ہیں ان کو مغربی ممالک کے لوگ سمجھ نہیں سکتے۔ ایسی مشکلات بعض دفعہ ایک مخلص آدمی کو بھی گھبرا دیتی ہیں اور اس حالت میں ایک ظاہر بین انسان جلدی سے غلط نتائج پیدا کر کے اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ دانا آدمی کو چاہیےکوئی ایسی رائے قائم نہ کرے جسے عقل اور تجربہ فوراً رد کردے۔ ہم اس لیے اس امر کا اظہار کرتی ہیں کہ ہمیں معلوم ہے جب کوئی شخص کسی وجہ سے ایک غلط رائے قائم کرلیتا ہے۔ تو وہ رائے اسے ان بہترین موقعوں سے محروم کردیتی ہے جو انسانی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ مگر ہم امید کرتی ہیں۔ آپ جیسی روشن دماغ خاتون جو اتنی دور سے یہاں آئی ہیں اپنی کشتی ان خطرناک چٹانوں سے بچا کر چلائیں گی جو مصیبت اور تباہی کا موجب ہوتی ہیں بلکہ ہر ایک موقع سے ایسی صحت اور عمدگی سے استفادہ کریں گی کہ بالآخر آپ کا وجود سلسلہ کی مرکزی مشینری کے واسطے نہایت ضروری عضو بن جائے گا۔یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ لیکن ہماری پیاری بہن آپ یاد رکھیں اس سے بھی بڑھ کر آپ کےلیے جزائے خیر خدا کی طرف سے ہوگی بشرطیکہ آپ استقلال سے کام لیں۔
ہم خدائے قادر سے دعا کرتی ہیں کہ وہ ہمیشہ آپ کی امداد کرے اور صداقت اور راستی کی راہ پر آپ کو چلائے۔
ممبرات لجنہ اماء اللہ قادیان۔’’
جوابی ایڈریس
اس ایڈریس کے جواب میں مس ہدایت بڈ فرماتی ہیں:
‘‘میری پیاری دینی بہنو،
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جن مہربانی کے الفاظ میں آپ نے مجھے خطاب کیا ہے۔ ان سے میرے دل پر بہت اثر ہوا ہے۔ اور میں ممبرات لجنہ اماء اللہ کا اس خوش آمدید کے واسطے دلی شکر ادا کرتی ہوں۔
میں اللہ تعالیٰ کی شکر گذار ہوں کہ اس نے مجھے قادیان پہنچنے کی توفیق عطا کی۔ وہ قادیان جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندگی بسر کی اور دنیا کو خالص صحیح اسلام پہنچایا۔ وہ قادیان جہاں بہت سے مقدس مسلمانوں نے زندگی بسر کی اور اب بھی بسر کر رہے ہیں۔ اور جہاں کی فضا تقدس اور تقویٰ سے پُر ہے۔
کولمبو سے لے کر قادیان تک سارے راستے میں مجھے جو اصحاب ملے انہوں نے میرے ساتھ مہربانی اور محبت کا سلوک کیا مگر وہ مہربانی قادیان میں ایک اعلیٰ مقام پر پہنچ گئی۔ اور ریلوے سٹیشن پر میرا جو شاندار استقبال کیا گیا وہ مجھے عمر بھر نہ بھولے گا۔ بیگمات کا پلیٹ فارم پر جمع ہونا، شرفاء کی لمبی قطاریں، سکاؤٹس طالب علموں کا اھلاً وسھلاً و مرحباً بلند آواز سے کہنا چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام طلبا کا خوشی کا نعرہ لگانا۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جنہوں نے میرے دل پر گہرا نقش کیا ہے۔ اور ان کا خیال اب بھی میرے دل میں خاص احساسات پیدا کر دیتا ہے۔ ان تمام باتوں کے واسطےمیں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی ممنون ہوں اور سب سے اول میں حضرت خلیفۃ المسیح کی ممنون ہوں جنہوں نے مہربانی کر کے مفتی محمد صادق صاحب کو اتنی دور کولمبو بھیجا تا کہ وہ مجھے قادیان لے آئیں۔ اور ساتھ ہی میں مفتی صاحب کی ممنون ہوں کہ انہوں نے میری خاطر اتنا لمبا مشکل سفر اختیار کیا اور اس سارے سفر میں مجھے ہر طرح سے آرام پہنچایا۔
سچ تو یہ ہے کہ میں ان مہربانیوں کی مستحق نہیں ہوں۔ مگر میں خدا سے دعا کرتی ہوں۔ کہ وہ مجھے مستحق بنا دے۔ آپ کو معلوم ہے میرا یہ ارادہ ہے کہ میں سلسلہ کے مرکز قادیان میں رہ کر اپنے مذہب کا پورے طور پر مطالعہ کروں اور خدا کی مدد سے ایک سچی مسلمہ کی کامل زندگی پورے طور پر اختیار کروں۔
مجھے بڑی خوشی حاصل ہوگی اگر آپ مجھے لجنہ اماء اللہ کی ممبر بننے کی اجازت دیں گی اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں جہاں تک مجھ سے ہوسکے گا ان تمام فرائض کو ادا کروں گی جو میرے سپرد کیے جائیں گے۔
جن مشکلات کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بعض کا میں تجربہ کر چکی ہوں اور باقیوں کا بھی مجھے تجربہ کرنا ہو گا۔ مگر میں جانتی ہوں اس زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں کامل خوشی حاصل کی جا سکے مگر مشکلات اور تکالیف پیش نہ آئیں۔
اگلے دن میں احمدیہ بورڈنگ ہاؤس کے اس کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی جس میں سماٹری طالبعلم رہتے ہیں کہ کھڑکی میں سے میری نگاہ ان الفاظ پر پڑی جو ڈچ زبان میں سماٹری طلباء نے دیوار پر بخط جلی لکھ رکھے ہیں۔ ان کا مطلب ہے۔ ہر جا کہ گل است خار است۔ یہ مقولہ بالکل صحیح ہے۔ نہایت خوبصورت گلاب جس کی خوشبو ہمیں مسرت پہنچاتی ہے اور جس کا نظارہ آنکھوں کے لیے ٹھنڈک کا موجب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی کچھ کانٹے لگے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی قادیان کی مبارک زمین، جسے مَیں زمین پر ایک بہشت سمجھتی ہوں۔ مشکلات اور تکالیف سے خالی نہیں ہوسکتی۔ میں خدائے قادر سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے کہ قادیان میں جس قدر نیک باتیں ہیں میں ان سب سے فائدہ حاصل کروں اور صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کروں جو میرے حصہ میں آئیں۔
ایک اور بات کی میں آپ سے خواستگار ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ میں یہاں اجنبی ہوں میری تعلیم و تربیت ایک ایسےملک میں ہوئی ہے جہاں کے حالات اور فضا یہاں سے بالکل مختلف ہے۔ اس ملک کے رسم و رسوم سے میں بالکل ناواقف ہوں اور ممکن ہے ان چند ایام میں بھی مجھ سے ایسے افعال سرزد ہوئے ہوں جو آپ کے رسم و رواج کے خلاف ہوں اور کسی کی دل آزاری کا باعث ہوئے ہوں میری درخواست آپ سے یہ ہے کہ میرے ساتھ عفو اور نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔ اور یہ یقین رکھیں کہ مجھ سے اگر کوئی غلطی ہوئی تو اس وجہ سے نہ ہو گی کہ میں آپ کو ناراض کرنا چاہتی ہوں بلکہ اس وجہ سے ہو گی کہ میں آپ لوگوں کے رسم و رواج سے ناواقف ہوں یا ان کو پورا کرنے کے ناقابل ہوں۔
یہ جواب ختم کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ میں اپنی پیاری بہنوں کا اس تحفہ کے لیے بھی شکر یہ ادا کروں جو انہوں نے چند سال ہوئے مجھے ہالینڈ بھیجا تھا۔ یعنی برقعہ۔ یہ تحفہ اب میرے پاس قادیان میں موجود ہے۔ لیکن ایسی گرمی میں جو آج کل ہے مجھے اس کے پہننے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ کیونکہ میں ایک سخت سرد ملک سے آرہی ہوں۔ جب یہ گرمی ختم ہو گی اور ٹھنڈک پڑے گی تو میں اس برقعہ کو استعمال کر سکوں گی۔ تاہم سرِ دست میں اپنی ٹوپی کے اوپر سے نقاب پہنتی ہوں۔ جس سے برقعہ کا مطلب حاصل ہو جاتا ہے۔
مجھے یہاں آئے بھی چند روز ہوئے ہیں لیکن ان دنوں میں یہاں کی آب و ہوا اور حالات کو جو کچھ میں نے دیکھا ہے۔ اس سے مجھے یقین ہو گیا ہے۔ کہ میں قادیان میں خوشی سے زندگی بسر کر سکوں گی۔ اخیر میں مَیں پھر آپ کی دعاؤں اور محبانہ الفاظ کا شکر یہ ادا کرتی ہوں۔ آپ کی اسلامی بہن، ہدایت۔’’
(الفضل 7؍ جون 1929ء)
مس ہدایت بڈ ملک ہالینڈ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر ایمان لانے میں سب سے اوّل ہیں اور اہل ڈچ میں سے پہلی فرد ہیں جو ہزار ہا میل کا سفر کر کے مرکز میں آئیں اور ہالینڈ کی سب سے پہلی مبلّغہ قرار دی گئیں۔
٭٭٭
بہت پیارا معلوماتی مضمون