حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کا عبرتناک انجام(قسط اول)
ڈوئی کے متعلق گزشتہ مضمون مطبوعہ الفضل 7۔اکتوبر 2015ئمیں کچھ تفصیلات درج کی گئی تھیں کہ کس طرح 1902ء میں حضرت اقدس مسیح موعودنے جان الیگزینڈر ڈوئی کو روحانی مقابلہ کی دعوت دی۔ لیکن با وجود اپنے بلند و بانگ دعاو ی کے ڈوئی نے مذکورہ طریق پر اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور گریز کا راستہ اختیار کیا ۔ البتہ جب اس چیلنج کا تذکرہ امریکہ کے اخبارات میں بار بار ہوا توحضرت مسیح موعود کے پیش کردہ نظریات کا گستاخی اور بد تمیزی سے ذکر ضرور کیا اور اسے اپنے اخبار لیوز آف ہیلنگ میں شائع بھی کرا دیا ۔پھر اگست 1903ء میں حضرت مسیح موعود نے اسے دوسری مرتبہ روحانی مقابلہ کی دعوت دی ۔ اور اس کے لئے سات ماہ کی مہلت بھی دی۔ اور اعلان فرمایا کہ اگر یہ اشارتاََ بھی مقابلہ پر آیا تو میری زندگی میں نہایت حسرت اور دکھ سے اس دنیا سے رخصت ہو گا۔اور ڈوئی یہ مقابلہ قبول کرے یا نہ کرے اس کی شکست ظاہر ہو گی اورآپ نے تحریر فرمایا کہ دونوں صورت میں صیہون پرجلد تر تباہی آنے والی ہے۔اس پر طیش میں آکر ایک ماہ بعد ہی ڈوئی نے اپنے اخبار میں حضرت مسیح موعود کے بارے میں اپنا ایک سابقہ بیان پھر شائع کروادیا ۔ جیسا کہ گزشتہ مضمون میں حوالہ درج کیا گیا تھا، اس میں ڈوئی نے یہاں تک گستاخی کی کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم اس کا جواب کیوں نہیں دیتے اور اُس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ میں اگر ان مکھیوں اور مچھروں پر پاؤں رکھوں تو انہیں کچل دوں۔اس طرح مقابل پر اشارہ کرنا تو درکناراس نے انتہائی گستاخی کر کے خدا کے غضب کو للکارا۔ حضرت مسیح موعود نے اگست 1903میں یہ پیشگوئی شائع فرمائی تھی کہ ڈوئی یہ دعوت قبول کرے یا نہ کرے جلد صیہون پر تباہی آنے والی ہے ۔ اور جیسا کہ گذشتہ مضمون میں حوالے درج کئے گئے تھے ستمبر1903 ء میں ڈوئی یہ اعلان کیا تھا کہ صیہون پر کبھی تباہی نہیں آئے گی۔ اور خدا کا ارادہ یہ ہے کہ صیہون کے ذریعہ یسوع مسیح کی بادشاہت دنیا میں قائم کی جائے۔
آسٹریلیا کے اخبارات میں پیشگوئی کا چرچا
گذشتہ مضمون میں چند حوالے درج کیے گئے تھے جن سے ظاہر ہو تا تھا کہ اس وقت امریکہ کے اخباروں میں اس چیلنج کا کثرت سے ذکر ہو رہا تھا اور اس پر تبصرے کیے جا رہے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر صرف امریکہ کے اخبارات میں نہیں ہو رہا تھا بلکہ دنیا بھر کے اخبارات میں ہو رہا تھا۔ آسٹریلیا اور انگلستان کے اخبارات بھی اس کی خبریں شائع کر رہے تھے۔مثلاََ ADELAIDE(آسٹریلیا ) کے اخبار THE REGISTERنے اپنی 8دسمبر 1903ء کی اشاعت میں برطانیہ کے ایک جریدہ GLASGOW HERALDکے حوالے سے اس چیلنج کی خبر شائع کی ۔ اور حضرت مسیح موعود کے بارے میں لکھا کہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ عیسائیت کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اس کے نظریات انسانی عقل کی ترقی کے ساتھ غلط ثابت ہو جاتے ہیں تو نئی اختراع کر لی جاتی ہے تا کہ اپنے نظریات کو قابل ِ قبول بنایا جائے۔ اور پرانے غلط دعاوی کو ثابت کرنے کے لیے نئے غلط دعاوی پیش کر دئیے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرتھ (آسٹریلیا ) کے ایک جریدے Sunday Timesنے 29مئی1904 ء کی اشاعت میں 1903ء میں ڈوئی کو دیئے جانے والے دوسرے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ حضرت مسیح موعود نے اب ڈوئی کو یہ چیلنج دیا ہے
But if Dr. Dowie cannot even now gather courage to appear in the contest against me, let both continents bear witness I shall be entitled to claim the same victory as in the case of his death in my lifetime, if he accepts the challenge. The pretentions of Dr. Dowie will thus be falsified, and proved to be an imposture. Though he may try as hard as he can to fly from death that awaits him yet his flight from such a mighty contest will be nothing less than death to him, and calamity will certainly overtake his Zion.
ترجمہ : اگر اب بھی ڈاکٹر ڈوئی میرے مقابل پر آنے کی ہمت نہیں کر سکتا تو دونوں برِ اعظم گواہ رہیں تو اس صورت میں بھی میرا حق ہو گا کہ میں اپنی فتح کا اعلان کروں جس طرح اگر وہ میرے چیلنج کو قبول کر کے میری زندگی میں ہلاک ہو گیا تو فتح میری ہوگی۔ اس طرح ڈاکٹر ڈوئی کے دعاوی جھوٹے ثابت ہو جائیں گے اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ مفتری ہے۔اگرچہ ڈوئی جتنا چاہے کوشش کرے کہ وہ اس موت سے بھاگ سکے جو کہ اس کا انتظار کر رہی ہے ، لیکن اس عظیم الشان مقابلے سے فرار بھی اس کے لئے موت سے کم نہیں ہوگا۔ اور یقینا اس کے صیہون پرایک تباہی آنے والی ہے۔
(نوٹ: مندرجہ بالا دونوں حوالے Trove Digitilized Newspapers پر موجود ہیں ) مندرجہ بالا دونوں حوالوں سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس وقت اس روحانی مقابلہ کی دعوت کی خبریں دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر شائع ہو رہی تھیں۔ اور یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ با وجود اتنے واضح الفاظ میں اس مقابلے کے لیے بلائے جانے کے ڈوئی مذکورہ طریق پر مقابلہ پر نہیں آرہا اور اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہو رہی تھی کہ حضرت مسیح موعود نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ ڈوئی مذکورہ طریق پر اس دعوت کو قبول کرے یا فرار کا راستہ اختیار کرے دونوں صورتوں میںصیہون پر تباہی آنے والی ہے۔
نیو یارک پر ڈوئی کی یلغار
اس مرحلہ پر ڈوئی کے ایک اہم منصوبے کا وقت قریب آ رہا تھا۔صیہون کی تنظیم نیو یارک پر ایک بہت بڑی تبلیغی یلغارکا آغاز کرنے والی تھی۔ اخبارات میں خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ نیویارک پر ایک منفرد حملہ کاآغاز ہونے والا ہے۔ ڈوئی نے اس غرض کے لیے میڈیسن سکوائر گارڈن کرائے پر حاصل کر لیا تھا۔ اور اس باغ میں ایک تالاب بھی بنایا جا رہا تھا تا کہ جو لوگ ڈوئی کے پیغام کو قبول کریں گے انہیں موقع پر ہی بپتسمہ دیا جائے گا۔اس مہم سے بڑے نتائج کی توقع کی جا رہی تھی۔یہ مہم بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ شروع کی جا رہی تھی۔ کئی ماہ قبل اس غرض کے لیے صیہون میں نیویارک کے بڑے بڑے نقشے شائع کیے گئے تھے۔ اور نیویارک شہر کی تفصیلات کا بھر پور جائزہ لیا گیا تھا۔ اور یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ منادیوں کی اس فوج کو ستر ستر لوگوں کے گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جو کہ نیویارک میں گھر گھر جا کر ڈوئی کا پیغام پہنچائیں گے۔اس غرض کے لیے نیو یارک کو بارہ بارہ بلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر بلاک میں کام کرنے کے لیے ایک ایک آدمی انچارج مقرر کیا گیا تھا۔
14۔اکتوبر 1903ء کو ڈوئی اپنے تین ہزار منادیوں کی فوج کے ساتھ صیہون سے نیو یارک کے لئے روانہ ہوا۔ یہ گروہ چھ ریل گاڑیوں میں سوار تھے ۔ یہ ریل گاڑیاں آدھے آدھے گھنٹے کے وقفے سے صیہون سے روانہ ہوئیں۔ سات ہزار کا مجمع ان کو رخصت کرنے کے لئے موجود تھا۔ دوسری طرف نیویارک میں صیہون کے کارندے ان کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔
(The Evening Statesman, 12 September, 1903)
(The Topeka State Journal, 14 October, 1903, p1)
(Commercial Advertiser Oct 15 1903 p1)
/14اکتوبر کو ڈوئی کی اس فوج کی نیو یارک میں آمد شروع ہو گئی۔ ہزاروں لوگ نظمیں گاتے ہوئے پہنچے۔ اور پمفلٹ تقسیم کرنے شروع کیے۔ لیکن منصوبہ یہ تھا کہ دو روز کے بعد اتوار کے دن مہم کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔ڈوئی کی مہم کا آغاز ہوا اس کے وعظ میں ہزاروں لوگ شامل ہونے آ رہے تھے۔ بعض اوقات ہزاروں کو جگہ نہ ہونے کے باعث واپس جانا پڑتا تھا۔ چنانچہ 19اکتوبر 1903ء کو ڈوئی کے وعظ کے متعلق اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ چودہ ہزار کا مجمع اس کا وعظ سننے کے لئے موجود تھا اور تقریباً پانچ ہزار افراد کو جگہ نہ ہونے کے باعث واپس جانا پڑا۔ یہ سب کچھ اس تزک و احتشام سے ہو رہا تھا کہ یونیفارم میں ملبوث گانے والوں کا وہ طائفہ جو اس موقع پر مذہبی نظمیں پڑھ رہا تھا، چھ سو افراد پر مشتمل تھا۔
(The Topeka State journal, 16th October 1903 p1, Columbia Courier 28 October 1903 p1,)
نیویارک میں ناکامی
جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ مہم ڈوئی اور اس کی تنظیم صیہون کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی اور اس کے لئے کئی ماہ سے تیاری کی جا رہی تھی۔لیکن اس کے شروع ہونے کے چند روز کے بعد ہی یہ آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے کہ ڈوئی کو اپنی زندگی کی بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے منہ سے ان وعظوں کے دوران ایسے فقرے نکلنے لگے کہ حاضرین کو اس کے ذہنی توازن پر شبہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سب کچھ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں ہو رہا تھا اور اخبارات میں بھی شائع ہورہا تھا۔ تقریبات کے ختم ہونے سے قبل ہی آدھے لوگ واپس چلے جاتے۔ گو کہ وہاں پر ہزاروں لوگ ڈوئی کے وعظ سننے کے لیے تو آتے لیکن نیویارک کے لوگ ڈوئی کی تنظیم میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بعض مواقع پر تو یہ خوف بھی پیدا ہوا کہ فسادات شروع ہو سکتے ہیں۔ اس کے پیروکاروں کی فوج میں بھی بد دلی پھیلنی شروع ہوگئی اور ان لوگوں کی طرف سے جو اس پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے یہ اظہار شروع ہو گیا کہ وہ اب گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔ ڈوئی کے امیرانہ رہن سہن پر اعتراضات شروع ہو گئے۔ یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوگئیں کہ نیو یارک پر یہ حملہ کرنے کا مقصد ان کی اصلاح نہیں بلکہ ان سے مال و دولت جمع کرنا تھا۔ اب یہ نظر آ رہا تھا کہ یہ مہم ناکام ہونے والی ہے اور اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہونا تو ایک طرف رہا ، منفی اثر پیدا ہو رہا ہے۔ اس ناکامیوں کے پس منظر میں ڈوئی کے منادیوں کی فوج خاموشی سے 2نومبر کو نیویارک سے روانہ ہوئی اور 4 نومبر کو صیہون واپس پہنچ گئی۔
(Warren Sheaf October 29, 1903, The Columbus Weekly Dispatch 29 Oct, 1903 p1, Columbia Courier 6 November 1903, The Indianapolis Journal, 3 November 1903)
اپنی مشکوک ولدیت کا اعلان
نیویارک کی مہم کے دوران ہی ایک اور واقعہ ہوا جس کی وجہ سے خود ڈوئی کی تقریر نے اس کی ولدیت کے جائز ہونے کے بارے میں شکوک پیدا کر دیئے۔پہلے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں کہ ڈوئی اس شخص کا بیٹا نہیں ہے جس کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ڈوئی اور اس شخص کے درمیان خط و کتابت کا حوالہ بھی دیا گیا جو ڈوئی کا باپ کہلاتا تھا۔ اس پر ڈوئی نے 26۔اکتوبر1903ء کو ہزاروں کے مجمع میں ایک تقریر کی۔ اس میں اس نے کہا کہ میری والدہ ایک بہت شریف عورت تھی اور وہ جہاں پر رہائش رکھتی تھی اس کے قریب ایک برطانوی رجمنٹ مقیم تھی۔ اس رجمنٹ کے سپاہی اور افسر میری والدہ کو پسند کرتے تھے۔ اور ان میں سے ایک اعلیٰ خاندان کے افسر نے میری والدہ سے Scotch Marriage کی تھی۔(یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طرح کی شادی میں باقاعدہ شادی نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک مرد اور عورت دو گواہوں کے سامنے یہ کہہ دیتے تھے کہ ہم خاوند اور بیوی ہیں۔اور اسے بے قاعدہ شادی بھی کہا جاتا تھا۔1939ء میں ایک قانون کے ذریعہ اس طرح کی شادیوں کو ختم کر دیا گیا تھا۔) پھر ڈوئی نے یہ انکشاف کیا کہ اس افسر کے رشتہ دار غالباً اس شادی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسے وہاں سے لے گئے۔ اور میری ماں نے حمل کی وجہ سے جان مرے ڈوئی سے شادی کر لی ۔ اور جان مرے ڈوئی نے اسے یقین دلایا کہ اُس افسر سے اس کی شادی صحیح شادی نہیں تھی۔ اس لئے شرمندگی مٹانے کے لیے مجھے جان مرے ڈوئی کی طرف منسوب کیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ میری والدہ کی جان مرے ڈوئی سے شادی درست نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ میری ماں کی شادی مارچ میں ہوئی تھی اور اسی سال شادی کے دو ماہ بعدمیں پیدا ہوگیا تھا۔
جب ڈوئی یہ اعلان کر رہا تھا تو اس کے آنسو بہہ رہے تھے اور جذبات سے جسم کانپ رہا تھا اور مجمع میں موجود بہت سے لوگ بھی رو رہے تھے۔ ڈوئی نے اعلان کیا کہ اسے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس نے جان مرے ڈوئی کو بہت برا بھلا کہا اور کہا کہ یہ ایک منافق شخص ہے۔ اس اعلان کے بعد جان مرے ڈوئی نے بھی بیان دیا ۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ جان الیگزینڈر ڈوئی اسی کا بیٹا ہے۔اور جس سال اس کی ماں سے اپریل میں شادی ہوئی ہے، اس کے اگلے سال اپریل میں اس کی ولادت ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے شادی کا سرٹیفیکیٹ جان الیگزنڈر ڈوئی کو دے دیا تھا۔ اگر یہ اس نے ضائع بھی کر دیا ہو تو سکاٹ لینڈ میں ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جان الیگزینڈر ڈوئی کے دماغ میں خلل ہو گیا ہے جو وہ اس قسم کی باتیں کر رہا ہے۔
( The Indianapolis Journal, 27th October, 1903 p1&5, Butte Inter Mountain, 27 th October 1903 p8, Ocala Evening Star, 14 November 1903, The Saint Paul Globe , 1st Nov. 1903)
اس مرحلہ پر ڈوئی نے اپنے وفد سمیت اس وقت امریکہ کے صدر تھیوڈر رزویلٹ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور پھر یہ اعلان کیا گیا کہ ڈوئی کے پیروکار اگلے انتخابات میں روزویلٹ کی حمایت کریں گے۔
(The Kinsley Graphic 20 November 1903, The Indianapolis Journal 3 November 1903 p1)
صیہون میں مشکلات کا آغاز
ابھی نیویارک کی ناکامی کو ایک ہی ماہ ہوا تھا کہ ڈوئی، اس کا شہر ، اس کی تنظیم اور اس کے شہر کی صنعتیں ایک اور شدید مسئلہ میں مبتلا ہوگئیں۔یہ تنظیم مالی بحران کا شکار ہو گئی۔ اب اس کے پاس معمول کی ادائیگیوں کے لیے نقد رقم نہیں تھی۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔پہلی وجہ یہ تھی کہ صیہون کی قائم کی گئی صنعتوں سے توقع کے مطابق آمد نہیں ہو رہی تھی۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ نیویارک کی مہم پر بے تحاشہ مالی وسائل خرچ کیے گئے تھے۔ توقع یہ تھی کہ جب وہاں کے لوگ بڑی تعداد میں اس تنظیم میں شامل ہوں گے تو اس کے ساتھ اس تنظیم کی آمد میں اچانک اضافہ ہو گا۔ لیکن عملاً وہاں سے اس قسم کی کوئی امید پوری نہیں ہوئی۔ اس صورت حال میں قرض خواہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔ اور فیڈرل کورٹ نے اس شہر اور اس کی صنعتوں پر Receiver مقرر کر دیئے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اس وسیع جائیداد پر اب ڈوئی کا تسلط نہیں رہے گا اور اس کی آمد عدالت کے مقرر کردہ اشخاص حاصل کریں گے تاکہ قرض خواہوں کو ادائیگی کی جا سکے۔ ڈوئی کا کہنا یہ تھا کہ محض عجلت میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے ورنہ موجود اثاثے قرض کی رقم سے بہت زیادہ ہیں۔ اس موقع پرڈوئی نے اپنے پیروکاروں کے ایک بڑے مجمع میں تقریر کرتے ہوئے ان سے دس لاکھ ڈالر جمع کرنے کی اپیل کی لیکن اس اپیل کے جواب میں محض ایک ہزار ڈالر کے وعدے موصول ہوئے۔ یہ ڈوئی کے لیے بہت بڑا دھکا تھا۔چند روز کے بعد ڈوئی نے عدالت میں کچھ کاغذات پیش کئے گئے اورReceiversکو ہٹا لیا گیا ۔اور ڈوئی کو پھر تمام املاک کا نظم و نسق مل گیا۔ لیکن اس سے اس تنظیم کی کمزور مالی حالت سامنے آ گئی۔
(Palestine Daily Herald, December 3, 1903 p1, Commercial Advertiser Dec 3 1903, Columbia Courier Dec. 4 1903, The Laclede Blade 5 Dec. 1903, The Evening Bulletin 9 Dec. 1903 p1, Columbia Courier 11th Dec. 1903 p.1)
آسٹریلیا کا دورہ
معلوم ہوتا ہے کہ ان حالات نے ڈوئی کی توسیع پسندی پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔ بجائے صیہون کے حالات ٹھیک کرنے کے ڈوئی نے یہ فیصلہ برقرار رکھا کہ وہ ایک بین الاقوامی دورہ کرے گا۔ چنانچہ جنوری 1904ء کے آغاز میں ڈوئی صیہون سے روانہ ہوا۔ آسٹریلیا روانہ ہونے سے قبل اس نے امریکہ کے بعض شہروں میں قیام کرنا تھا۔ڈوئی پہلے سان فرانسسکو گیا۔ وہاں جا کر اس کا اصل منصوبہ سامنے آیا۔ وہ ٹیکساس میں ایک نیا شہر آباد کرنا چاہتا تھا۔ اور اس سلسلہ میں مختلف مقامات کا معائنہ کیا گیا۔ ٹیکساس کے ساحل پر ایک جزیرہ Matagorda بھی زیر ِ غور آیا۔ اس جزیرہ کا رقبہ تیس ہزار ایکڑ تھا۔جنوری میں ہی ڈوئی امریکہ سے آسٹریلیا روانہ ہو گیا۔
(Columbia Courier, 8 January, 1904 p1, The Colfax journal 8 January, 1904 p1, New Ulm Review January 13 1904 p1, The Pacific Commercial Advertiser Jan. 28 1904 p1)
آسٹریلیا میں ڈوئی نے پہلے سڈنی میں اور پھر ملبورن میں اپنے اجتماعات منعقد کرنے کی کوشش کی۔ سڈنی میں اس کے اجتماعات کو مشتعل ہجوموں نے درہم برہم کرنے کی کوشش کی۔ایک موقع پر جب ڈوئی اپنی تقریب ادھوری چھوڑ کر جانے لگا تو تقریباً پانچ ہزار کے ہجوم نے اس کا پیچھا کیا۔ ملبورن میں ہجوم نے اس کی تقریب کو درہم برہم کیا۔ آسٹریلیا کے سفر کے دوران ڈوئی نے انگلستان کے بادشاہ کے متعلق منفی تبصرے کیے جس کے نتیجہ میں اس کے خلاف جذبات اور بھی بھڑک اُٹھے۔ اڈیلیڈ (Adelaide) کے میئر نے اسے مطلع کیا کہ اب کوئی پبلک عمارت اس کو استعمال کے لیے نہیں دی جائے گی۔ اور یہ بھی لکھا کہ وہ اپنی قوم کے نام پر ایک بد نما دھبا ہے۔
(Holbrook Argus 27 Feb 1904, The Evening Statesman 17 Feb 1904 Columbia Courier 4 March 1904, Nebraska Advertiser 8 th April 1904, Columbia Courier 1st April 1904)
ڈوئی ہندوستان آنا چاہتا تھا
اس وقت کے اخبارات کے جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ آسٹریلیا کے دورہ کے بعد ڈوئی کا ارادہ ہندوستان جانے کا تھا لیکن کسی وجہ سے عین آخر وقت میں یہ ارادہ منسوخ کر دیا گیا ۔بلکہ اس وقت ایک اخبار نے تو Dowie In India کی سرخی بھی لگا دی تھی ۔اس وقت کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے کچھ اہلکار ہندوستان جائزہ لینے کیلئے گئے بھی تھے۔ Sunday Timesجو پرتھ سے شائع ہوتا تھا، نے Dowie in Indiaکی سرخی لگائی اور اس کے نیچے ڈوئی اور حضرت اقدس مسیح ِ موعود کے بارے میں کئی کالم کی خبر شائع کی۔اس اخبار نے حیرت سے حضرت مسیح موعود کے دعاوی کا ذکر کیا اور کسوف و خسوف کا ذکر بھی کیا۔اس اخبار نے لکھا کہ ڈوئی نے حضرت مسیح موعود کا پہلا چیلنج قبول تو نہیں کیا لیکن اس کے بعد اس نے کم از کم ایک مرتبہ تثلیث سے انکار کیا اور توحید کے نظریہ کو درست قرار دیا۔اس اخبار نے یہ بھی شائع کیا کہ حضرت مسیح موعود نے دوسرے اشتہار میں تحریر فرمایا ہے کہ ڈوئی یہ دعوت قبول کرے یا نہ کرے۔
Calamity will certainly overtake Zion
ترجمہ : صیہون جلد تر تباہی کا شکار ہوگا۔
پھر اس اخبار نے ڈوئی کے بارہ میں لکھا۔
As a Yankee paper surmised, the Hindoo had him in a Corner, and it would be better to stay there. At any rate, it was shortly after this that he took his departure for Australia . And after the disastrous failure of his mission in this country it was to India that he went, possibly ‘ to arrange conditions for a meeting with” his turbaned rival. There is just a possibility that this is what Dowie went to India for. He must recognize that his prophetic cake is dough.
(Williston graphic., April 07, 1904, Sunday Times 29 May 1904)
ترجمہ : جیسا کہ ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ ہندوستان کے رہنے والے شخص نے اسے ایک کونے میں دھکیل دیا ہے اور اس کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ وہیں رہے۔بہر حال اس کے فوراََ بعد (یعنی چیلنج کے بعد) یہی ہوا ہے کہ وہ آسٹریلیا آگیا اور یہاں پر اس کے مشن کو بد ترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور پھر وہ یہاں سے ہندوستان چلا گیا ۔ شاید وہ وہاں پگڑی میں ملبوس اپنے مد ِ مقابل سے ملاقات کا انتظام کرنے گیا ہے۔ اس بات کا امکان ضرور موجود ہے کہ ڈوئی وہاں اس مقصد کے لیے گیا ہے۔ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ اس کا رسالت کا دعویٰ بے حقیقت ہے۔
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودکے دوسرے چیلنج کے چند ماہ کے بعد ہی مغربی دنیا کے اخبارات میں اس بات کا چرچا شروع ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے اشتہار کے بعد ڈوئی مسائل میں گھرتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ابھی تو اسے ان مصائب کا معمولی حصہ بھی نہیں پہنچا تھا جس کا اسے بعد میں سامنا کرنا تھا۔
ڈوئی کی لندن میں آمد
ڈوئی جب لنڈن پہنچا تو اس کے خلاف جذبات بری طرح بھڑکے ہوئے تھے۔کچھ اس کے دعاوی کی وجہ سے اور کچھ برطانیہ کے بادشاہ کے خلاف بیان دینے کی وجہ سے بھی۔ یوسٹن روڈ (Euston Road) پر اس کی تنظیم کا مرکز تھا۔ ڈوئی جب وہاں جاتا تو ہزاروں کا ہجوم اس عمارت کا محاصرہ کر لیتا۔ اور جب ڈوئی اس عمارت سے باہر آتا تو یہ مجمع اس پر آوازیں کستا ہوا اس کا پیچھا کرتا ۔کوئی ہوٹل ڈوئی کو ٹھہرانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہاں تک اس کو نام بدل کرہوٹل میں ٹھہرنا پڑا۔ لیکن جب اس ہوٹل کی انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ یہ ڈوئی ہے تو اس سے درخواست کی گئی کہ وہ یہ ہوٹل چھوڑ دے۔ جب ہالینڈ سے واپسی پر اس نے ہوٹل ڈھونڈنا شروع کیا لیکن سارا دن گزار کر بھی کوئی ہوٹل اسے ٹھہرانے کو تیار نہیں ہوا۔
(Blue Glass Blade, June 26, 1904, The pacific Commercial Advertiser Honululu June 23 1904)
یورپ کے اس دورہ کے دوران ڈوئی جرمنی بھی گیا اور وہاں برلن کے قریب پانچ روزہ مہم کا آغاز بھی کیا ۔ اور یہ اعلان کیا کہ وہ برلن سے چالیس میل کے فاصلہ پر ایک اور صیہون آباد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
(The Jackson Herald June 9 1904, The Bossier Banner June 16 1904)
امریکہ واپسی
جون کے آخر میں ڈوئی انگلستان سے واپس امریکہ پہنچا۔واپسی پر اس کے ساتھ سویڈن کی ایک بہت امیر نوجوان عورت تھی۔ یہ خاتون ڈوئی کی پیروکار بن چکی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ اس نے اپنی دولت ڈوئی کے مشن کے لیے وقف کردی ہے۔ صیہون واپس پہنچنے پر ڈوئی کا شاندار استقبال ہوا۔ ہزاروں لوگ اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ اسے شہر کی ایک بہت بڑی چابی دی گئی۔ صیہون کا بینڈ ایک ترانہ بجا رہا تھا۔ ’’وہ دیکھو ایک فاتح ہیرو آتا ہے۔‘‘ ڈوئی نے بڑے کروفر سے شہر کی بڑی چابی اپنے ہاتھ میں اُٹھائی ہوئی تھی۔ اور وہ اپنی بگھی میں اپنی رہائش گاہ کی طرف جا رہا تھا۔ راستوں کے دونوں طرف لوگ اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔اگر چہ نیو یارک کی مہم ناکام ہو گئی تھی اور اس کی تنظیم شدید مالی بحران سے دوچار تھی ۔لیکن اس کے باوجود ڈوئی کی توسیع پسندی پر کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ دورہ پر روانہ ہونے سے قبل اس نے جنوبی امریکہ میں ایک نیا صیہون آباد کر نے کا اعلان کیا۔ جرمنی جا کر اس نے برلن کے قریب ایک نیا صیہون آباد کرنے کا اعلان کیا۔ اور اب برطانیہ سے واپسی پر اس نے ایک اور اعلان کیا کہ وہ انگلستان میں اپنی تبلیغ کیلئے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ یلغار کرے گا۔ اس نے کہا کہ بہت سے جہازوں میں جنہیں وہgospel ships کا نام دے رہا تھا اس کے پیروکار انگلستان پہنچیں گے اور اپنی مہم کا آغاز کریں گے۔ شاید اپنی مخصوص طبیعت کی وجہ سے اس نے اپنی ناکامی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تھا اور دوسرے ایسی شخصیتوں کے ساتھ خوشامدیوں کا ایسا گروہ بھی ہوتا ہے جو ان کی ہر بات پر واہ واہ کر کے یہ یقین دلاتا رہتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں بہت اچھا کر رہے ہیں۔
(The Hawaiin Star, 7 July 1904, The Bisbee Daily Review 9th July 1904, The Tomahawk July 14th 1904 p2)
ابھی ڈوئی کے دعاوی کا سلسلہ جاری تھا ۔ اس نے ستمبر 1904ء میںFirst Apostle of Christian Catholic Churchہونے کا اعلان کیا۔ یہ دعویٰ سات ہزار کے مجمع میں کیا گیا۔ اس نے اپنے دعوے کی تائید میں بائیبل کے حوالے پڑھے۔ اس وقت اس نے بہت پر تکلف لباس پہن رکھا تھا۔ یہ لباس سفید اور کاسنی رنگ کا تھا اور اس پر سنہرے رنگ کا کام بھی کیا گیا تھا۔اس نے اعلان کیا کہ یہ منصب دائمی ہے۔یہ سب کچھ اس تزک و احتشام سے کیا گیا کہ اس کے بعض مریدوں میں بے چینی پھیل گئی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ ڈوئی یروشلم نہیں پہنچ سکا تھا لیکن وہاں پر اس کا پراپیگنڈا پورے زور و شور سے کیا جا رہا تھا۔وہاں پر اس کی طرف سے یہ اعلانات شائع کیے جا رہے تھے کہ وہ جلد اس مقدس شہر میں سفید گدھے پر سوار ہو کر داخل ہو گا اور دنیا کی تاریخ کا اہم ترین اعلان کرے گا۔
(The Hartford Republican 23rd September 1904 p1, Deming Graphic 18 November 1904)
میکسیکو میں صیہون آباد کرنے کا ارادہ
فروری1905ء میں یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوئیں کہ ڈوئی، اس کی تنظیم کے اعلیٰ عہدیدار اور ان کے اہل ِ خانہ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ پھر اس مرحلہ پر ڈوئی کی وسعت پسندی نے ایک اور رخ اختیار کیا۔ برلن کے قریب تو صرف ایک نیا صیہون بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 1905ء کے آغاز میں ڈوئی نے میکسیکو (Mexico)کی طرف سفر کیا۔ اور جائزہ لینے اور مذاکرات کرنے کے بعد اعلان کیا کہ وہ میکسیکو شہر کے قریب ایک نیا صیہون آباد کرے گا۔ اور اس شہر میں اپنے پیروکار آباد کرے گا۔یہ خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ ڈوئی اس مقام کو آباد کرنے کے لیے بیس لاکھ ایکڑ زمین خرید رہا ہے۔یہ بات دلچسپ ہے کہ اب ڈوئی ایک کے بعد دوسرا دعویٰ تو پیش کر رہا تھا لیکن اس مرحلہ تک اس نے خدا تعالیٰ سے براہ ِ راست وحی پانے کا دعویٰ نہیں کیا تھاگو کہ اس کے پیروکاروں میں یہ بات مشہور تھی کہ ڈوئی کو خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔لیکن میکسیکو سے اس کی تار موصول ہوئی کہ اسے خداتعالیٰ نے خود وحی کے ذریعہ بتایا ہے کہ میکسیکو میں نیا صیہون کس طرح بنایا جائے۔
(The Herald and news 21 April 1905, Demig Graphic 7th April 1905, The Evening Statesman 10th February 1905, Columbia Courier 3 February 1905)
1905ء کے وسط میں ڈوئی کے لیے ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ عدالت میں اس کے خلاف دیوالیہ کے جتنے بھی مقدمات تھے وہ خارج کر دیئے گئے۔تمام قرضے سود سمیت ادا کر دیئے گئے۔ اب صیہون مالی طور پر مستحکم ہو سکتا تھا۔عقل کا تقاضہ یہ تھا کہ اس موقع کو غنیمت جان کر ڈوئی اس استحکام سے فائدہ اُٹھاتا لیکن اس کے نئے منصوبے اسی طرح جاری تھے۔میکسیکو میں بیس لاکھ ایکڑ اراضی حاصل کرنے کا منصوبہ اسی طرح جاری تھا۔ حکومت سے ابتدائی معاہدہ ہو چکا تھا۔ لیکن اتنے بڑے منصوبے میں بھی وہ عجیب طریقے سے وسعت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میکسیکو کی حکومت نے ڈوئی کو اس خریدی جانے والی زمین پر ریلوے کی لائن بچھانے کی اجازت دی ۔ لیکن پھر حکومت پر انکشاف ہوا کہ اس ریلوے لائن کیلئے جو سروے کیا جا رہا ہے۔ اس میںسو میل کاایسا راستہ بھی ہے جس پر ریلوے لائن بچھانے کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ اس پر حکومت کو یہ بھی شبہ ہوا کہ اصل میں امریکہ کی کسی ریل کی کمپنی سے مل کر یہ منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ ڈوئی نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ فرانس کے دارالحکومت کے لئے ایک مہم تیار کر رہا ہے۔ ا س کے لئے دو لاکھ ڈالر اور تین ہزار رضاکاروں کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ اسی منصوبوں پر اکتفا نہیں کی گئی۔ اس نے اپنے پیروکاروں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے اعلان کیا کہ ہر شادی شدہ جوڑا ہر سال بپتسمہ دلانے کے لئے ایک نئے بچے کو لائے گا اور اس کے پیروکار اس کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کریں گے وغیرہ۔ اس کاارادہ اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر مکمل تسلط حاصل کرنے کا تھا۔
(The Capital Journal 20th June 1905, The Evening Statesman 3rd June 1905, The Commoner 21st July 1905)
اس کے ساتھ ہی ڈوئی کے مبالغہ آمیز دعاوی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ 24ستمبر 1905 کو ڈوئی نے ایک اورانکشاف کیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈوئی نے برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے خلاف بیان دیا تھا۔ جس پر اسے شدید ردِ عمل کا سامنا کر پڑا تھا۔ ستمبر کے آخر میں اس نے صیہون میں تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس کی ایک پیروکار نے بادشاہ سے ملنے کا وقت لیا اور بادشاہ کو صیہون تنظیم کا تعارف کرایا اور تعلیمات سے متعارف کرایا۔جس کے نتیجہ میں بادشاہ نے اس تنظیم کے نظریات قبول کر لئے اور اس کے اثر کی وجہ سے اب یورپ کے ہر شاہی خاندان میں ڈوئی کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جا رہا ہے۔
(The Call, 25 September 1905 p1)
(الفضل ربوہ 16 دسمبر 2015ء)