حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے مطابق ڈاکٹر جان الیگزنڈر ڈوئی کا عبرتناک انجام(قسط دوم آخر)
ڈوئی پر فالج کا پہلاحملہ
اگر دنیاوی نگاہ سے دیکھا جائے تویہ بہت بڑی کامیابی کا دعویٰ تھا۔ سلطنت ِ برطانیہ پر اس وقت سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس کا بادشاہ ڈوئی کی تنظیم کا ہم خیال نہ سہی صرف ہمدرد بھی بن گیا تھا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ صیہون کی تنظیم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن اسی تقریر میں ایک ایسا واقعہ ہو گیا جس کے بعد سب کی توجہ اس واقعہ کی طرف ہو گئی اور کسی کو اس تحقیق کا خیال نہیں آیا کہ اس دعوے کی حقیقت کیا تھی۔ شام کواس تقریب کے آخر میں ڈوئی ایک میز پر بیٹھ کر مخصوص دعا پڑھ رہا تھا اور ہزاروں کا مجمع اس کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ روٹی کے ٹکڑوں کو برکت دے رہا تھا جو کہ اس کے پیروکاروں میں تقسیم کی جانی تھی۔اس نے اس دعا کے آخری چند فقرے پڑھنے شروع کئے۔
’’اب باغ میں آدھی رات ہو چکی ہے۔
تکلیف اُٹھانے والا نجات دہندہ اکیلا دعا کر رہا ہے۔‘‘
اس دعا کے چند آخری فقرے ہی رہ گئے تھے۔ مجمع ا نتظار کر رہا تھا کہ اب ان کا قائد یہ آخری فقرے پڑھے گا۔لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ اچانک اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو جھٹکا دیا جیسے کوئی گندی چیز اس پر لگ گئی ہو۔پھر اس نے یہ ہاتھ اپنی کرسی کے بازو پر مارا۔جو اس کے نزدیک تھے انہوں نے دیکھا کہ ڈوئی کا جسم جھول رہا ہے۔اس کا رنگ خطرناک حد تک زرد ہو چکا تھا۔ اس نے مڑ کر اپنے ایک قریبی ساتھی کی طرف دیکھا۔ یہ ساتھی اس کے قریب آیا۔پھر اس کے ساتھیوں نے اسے سہارا دیا اور پھر اُٹھا کر اس ہال سے باہر اس کے کمرے میں لے گئے ۔ ڈوئی کو فالج کا حملہ ہوا تھا۔ کچھ دیر میں اس کو ہوش آگئی لیکن اس کے جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہو چکا تھا۔کچھ دنوں میں اس کی طبیعت سنبھلی۔ ڈوئی نے میکسیکو دوبارہ جانے کا ارادہ کیا۔اس کے ساتھیوں نے اسے وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا۔لیکن اس نے یہ ارادہ برقرار رکھا اور میکسیکو کے لیے روانہ ہو گیا۔
(John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, Christ for All Nations Texas, Reprint 1980, p 168-172)
ڈوئی صیہون سے رخصت ہوا اور میکسیکو کی طرف روانہ ہوا۔ شروع میں اس کی تنظیم کی طرف سے انکار کیا گیا کہ اسے فالج کا حملہ ہوا ہے۔ لیکن جلد ہی اس کی طرف سے اور اس کی تنظیم کی طرف سے اس بات کا اعلان کر دیا گیا کہ اسے فالج کا حملہ ہوا ہے۔اس کی طرف سے لیوز آف ہیلنگ میں پیغامات شائع کئے گئے جس میں اس نے لکھا کہ وہ موت کے منہ سے واپس آیا ہے۔اور انہیں یہ نصیحت کی گئی کہ وہ وفادار رہیں۔ صیہون کی بقا کسی ایک شخص سے وابستہ نہیں ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ راستہ میں ڈوئی کو ایک اور فالج کا حملہ ہوا، جس سے اس کی طبیعت ایک اور مرتبہ خراب ہو گئی۔ اور وہ میکسیکو پہنچ کر اس زمین کی طرف نہیں جا سکا جسے اس نے نئے صیہون کو آباد کرنے کے لئے منتخب کیا تھا۔ یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ ڈوئی ہر قسم کے امراض کے علاج کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اسے خود فالج ہو گیا ہے۔ اس نے اپنا جانشین مقرر کر دیا ہے لیکن ابھی اس کا نام خفیہ رکھا جا رہا ہے۔اکتوبر کے آخر تک وہ میکسیکو کے شہر Tampico میں مقیم تھا اور بیماری بدستور شدید تھی اور اس نے اپنی تنظیم کے معاملات دوسرے عہدیداروں کو منتقل کر دیئے تھے۔
(Fergus County Argus, 3 rd October 3rd 1905 p1, Adams County News Oct. 4 1905 p1, The Oregan Mist Oct. 6 1905 p1, Newyork Daily Tribune 2nd October 1905 p1, The Sun October 23 rd 1905 p1)
میکسیکو میں ڈوئی کا قیام دو ماہ تک رہا۔یہاں پر اس نے Tamaulipas کی ریاست میں بیس لاکھ ایکڑ تک کی اراضی خریدنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا۔ میکسیکو کے صدر Diaz کا رویہ ڈوئی کے منصوبے کے ساتھ ہمدردانہ تھا۔ نومبر میں ڈوئی میکسیکو سے واپس آیا۔ اس وقت اس سے اس کی بیماری کے بارے میں سوال ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کے جسم کا بایاں حصہ مفلوج ہو گیا تھا لیکن اب دعاؤں سے بہتر ہو گیا ہے۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ ڈوئی کی صحت نسبتاً بہتر تھی کیونکہ ایک موقع پر اس نے امریکہ میں ایک گھنٹہ کا واعظ بھی دیا۔
(Owingsville Outlook 23 Nov. 1905 p3, The Sun 27 November 1905 p1)
صیہون کی مشکلات
صیہون واپس آکر ڈوئی نے وہاں کے مرکزی گرجا Shiloh Tabernacle میں وعظ کرنے کی کوشش کی۔ جب ڈوئی نے کھڑے ہو کر بولنے کی کوشش کی تو لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے بعد اس نے کرسی پر بیٹھ کر بولنا شروع کیا ۔ اس کی آواز مدھم اور کانپ رہی تھی۔ یہ صورتِ حال اس کے پیروکاروں کے لئے بہت تشویشناک تھی انہیں یہ خوف پیدا ہوا کہ ایک بار پھر ان کی نظروں کے سامنے اسے فالج نہ ہو جائے۔اب اس کی صحت تیزی سے کمزور ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی تنظیم کے تین عہدیداروں کو تمام اختیار منتقل کئے اور صحت کی بحالی کے لئے اپنے بیٹے ، ایک نرس اور دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک بحری جہاز میں جمیکا روانہ ہو گیا۔ان تین عہدیداروں کے نام Sprecher، Judge D. Barnes، Alexander Granger تھے۔ ڈوئی یکم جنوری 1906ء کو جمیکا پہنچا۔ وہاں سے یہ تاریں صیہون موصول ہونی شروع ہوئیں کہ ڈوئی کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ لیکن اس خبر سے صیہون کے کرتا دھرتا عہدیداروں کو کوئی خوشی نہیں ہو رہی تھی۔کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ڈوئی جلد دوبارہ میکسیکو جائے گا اور وہاں اپنے منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کر دے گا۔ صیہون کی مالی حالت کمزور سے کمزور ہو رہی تھی۔ نئے قرض خواہ اپنی رقوم کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ خام مال نہ ہونے کی وجہ سے صیہون کی صنعتیں بہت کم پیداوار پیدا کر رہی تھیں۔ حتیٰ کہ صیہون کے جریدے لیوز آف ہیلنگ کو بھی مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی اشاعت وقتی طور پر روکنی پڑی۔ انہیں صیہون کا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا۔
(The Salt Lake Herald 21 December 1905 p1, Gainesville Daily Sun 20th Dec.1905 p1, Marble Hill Press 14 Dec. 1905 p1, John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, Christ for All Nations Texas, Reprint 1980, p 170-171 )
اس وقت صیہون کی مالی حالت ابتر تھی ۔اس کی صنعتوں سے جو آمدہو رہی تھی اسے خام مال خریدنے یا عملہ کی تنخواہوں کی بجائے ڈوئی کے منصوبوں پر خرچ کیا جا رہا تھا۔پہلے نیو یارک کے منصوبے اور ڈوئی کے عالمی دورہ نے مالی طور پر نقصان پہنچایا تھا اور اب میکسیکو کے منصوبے پر کام شروع کیا جا رہا تھا۔اس وجہ سے صیہون کے عملہ کو تنخواہیں ملنا بند ہو نا شروع ہو گئیں۔ڈوئی طبیعت بہتر ہوتے ہی دوبارہ میکسیکو جا پہنچا۔اس کے مقرر کردہ تین عہدیدار اپنی سی کوششوں میں لگ گئے کہ صیہون کی مالی حالت بہتر بنائی جا سکے۔ اچانک ڈوئی کی تار ملی اس نے ان میں سےSpeicher کو معطل کر دیا ۔اور آسٹریلیا سےWilbur Glenn Volivaکو حکم دیا کہ وہ صیہون پہنچے اور اسے صیہون کے تمام کاروبار اور ملکیت کا مختارِ کل مقرر کر دیا۔Volivaنے آسٹریلیا میں ڈوئی کی تنظیم کے انچارج کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ Voliva تقریباً ایک ماہ کا سفر کر کے صیہون پہنچا۔اس نے کچھ ہفتے حالات کا اور صیہون کی مالی حالت کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا ۔جلد ہی اس پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ صیہون کا دیوالیہ نکلنے والا ہے۔ لیکن یہ بات بھی ظاہر تھی کہ ڈوئی کو با وجود تمام رپورٹوں کے اس بات کا قطعاََ احساس نہیں تھا کہ صیہون کی کشتی ڈوب رہی ہے۔ وہ میکسیکو میں Paradise Plantation Enterpriseکے نام پر لاکھوں ایکڑ خریدنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کر رہا تھا۔
)John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, Christ for All Nations Texas, Reprint 1980, p 173-175)
ڈوئی کے خلاف بغاوت
یکم اپریل کی تاریخ کو ڈوئی پر وار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ صیہون میں اعلان کیا گیا کہ لوگ دوپہر کوShiloh Tabernacle میں جمع ہوجائیں۔ خبریں مشہورہونا شروع ہوگئی تھیں کہ سرکردہ افراد کے ارادے کیا ہیں۔ صبح دس بجے سے ہی لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔مقررہ وقت پر پانچ ہزار کا مجمع موجود تھا۔ معمول کی دعاؤں کے بعد ڈوئی کے مقررکردہ انچارج Voliva نے تقریر شروع کی۔ سٹیج پر دوسرے سرکردہ افراد کے ساتھ ڈوئی کی اپنی بیوی بھی موجود تھی۔ ڈوئی کا بیٹا بھی مجمع میں موجود تھا۔ساری تقریر میں ڈوئی کا ایک کے بعد دوسرا راز افشا کیا گیا۔ جس سٹیج پر کھڑے ہو کر ڈوئی اپنے دعاوی پیش کیا کرتا تھا، اسی پر کھڑے ہو کر Volivaنے اعلان کیا کہ ڈوئی ایک جھوٹا اور منافق انسان ہے۔ اس نے صیہون کی دولت کو بے دردی سے فضول خرچیوں میں اُڑا دیا۔ اور اب صیہون دیوالیہ ہو رہا ہے۔ڈوئی خود عیاشی کی زندگی گزارتا رہا اور اس کے معاونین قلیل تنخواہ میں گزارا کرکے قربانیاں دیتے رہے۔ صیہون کے باشندے جو کبھی ڈوئی کے ایک ایک لفظ کو حرف ِ آخر سمجھتے تھے ، اب اس کے خلاف ان سب الزامات کی با آواز ِ بلند تائید کر رہے تھے۔ کیونکہ انہیںلمبے عرصہ سے تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں۔ وہ صیہون میں جمع کی گئی اپنی رقوم بھی نہیں نکال سکتے تھے۔ اور تو اور ڈوئی کی بیوی بھی ڈوئی پر لگنے والے تمام الزامات کی بھر پور تائید کر رہی تھی۔پھر اس نے اعلان کیا ڈوئی کے گھر کا قیمتی فرنیچر اور دیگر سامان بیچ کر کے ان لوگوں میں رقم تقسیم کی جائے گی جو غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔اس پر زیادہ بلند آواز میں ڈوئی کی بیوی نے داد دی۔ڈوئی کا بیٹا بھی اس کے مخالفین کے ساتھ مل چکا تھا۔پھرVOLIVAنے مجمع سے دریافت کیا کہ وہ کس کو اپنا لیڈر بنانا چاہتے ہیں۔ اس پر مجمع نے متفقہ طور پر اسے اپنا نیا لیڈر بنانے کا اعلان کیا۔ صیہون کے سرکردہ عہدیداروں نے اعلان کیا کہ اب ڈوئی یہاں صرف ایک عام شہری کی حیثیت سے آسکتا ہے ۔ ان کے لیڈر کی حیثیت سے نہیں آ سکتا۔
اب سرکردہ عہدیداروں نے فیصلہ کیا کہ ایک اور قدم اُٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ انہوں نے جائزہ لیاکہ اگر صیہون کے منصوبے کے خلاف دیوالیہ کی کارروائی شروع ہو گئی اوراس وقت ڈوئی جیسا غیر ذمہ دار شخص اس کا مالک ہوا تو یقینی طور پر تمام شہر گھروں سمیت نیلام کر دیا جائے گا اور اس صورت میں اس کے با شندوں کے سر پر چھت بھی نہیں رہے گی۔ مارچ کے آخر میں ایک میٹنگ میں یہ فیصلے حتمی طور پر تیار کئے جا چکے تھے۔چنانچہ Voliva نے مختار کی حیثیت سے ساری املاک اسی تنظیم کے ایک عہدیدار Grainger کے ہاتھ ایک ڈالر کی قیمت پر فروخت کر کے اس کے نام قانونی طور پر حقوق ِ ملکیت منتقل کر دیئے۔ اور تو اور ڈوئی کا اپنا گھر اوراس کا فرنیچر بھی اب ڈوئی کا نہیں رہا تھا۔ ڈوئی کو تار دے کر مطلع کیا گیاکہ اسے برطرف کر دیا گیا ہے۔ اور اس پر دیگر الزامات کے علاوہ تعدد ازدواج کا حامی ہونے کا بھی الزام لگایا گیا ۔ اور یہ اطلاع بھی دی گئی کہ وہ نہ اب ان کا لیڈر ہے اور نہ ہی اس چرچ کا ممبر ہے جس کا بانی وہ خود تھا۔ ڈوئی یہ تار پڑھ کر سناٹے میں آگیا۔ یہ سب کچھ اس کے لیے بالکل غیر متوقع تھا۔ صیہون کی تمام املاک ڈوئی کے اپنے نام پر تھی۔ اس نے آٹھ سو الفاظ کی ایک تار بھیجی اور Graigner کو برطرف کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ جلد وہ ایک تفصیلی خط بھجوائے گا۔
(Lewiston Evening Teller, 2 April 1906 p1, The Billing Gazette 3 April p1, Los Angeles Herald 9 th April 1906, John Alexander Dowie, by Gordon Lindsay, Christ for All Nations Texas, Reprint 1980, p 173-175)
جیسا کہ گذشتہ مضامین میں تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈوئی نے بڑے تکبر سے حضرت مسیح موعود کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ صیہون کے پاس اس بات کا وقت نہیں ہے کہ رک کر ان جیسے لوگوں کو جواب دے۔اور حضرت مسیح ِ موعود نے اعلان فرمایا تھا کہ ڈوئی یہ دعوت قبول کرے یا نہ کرے صیہون پر جلد تباہی آنے والی ہے۔ بعض اخبارات نے جو ڈوئی کے بھی مخالف تھے انہوں نے ڈوئی کی دولت اور طاقت کا ذکر کر کے اور پھر حضرت مسیح موعود کے ظاہری حالات کی طرف اشارہ کر کے گرے ہوئے انداز میں تمسخر کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ ا تنے بڑے منصوبے کی اور اس شہر کی زمین اور تمام املاک اور تمام صنعتوں کی قیمت کیا لگ رہی تھی ؟ صرف ایک ڈالر۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ ورنہ یہ خطرہ تھا کہ سارا شہر بے گھر ہو کر سڑکوں پر پڑا ہو گا اور یہ منصوبہ تمام صنعتوں اور املاک کے ساتھ نیلام ہو رہا ہو گا۔ کیا اب بھی کوئی ذی ہوش کہہ سکتا ہے کہ یہ عظیم نشان پورا نہیں ہوا؟
ڈوئی کی صیہون کیلئے روانگی
اب ڈوئی کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ میکسیکو سے رخصت ہو کر صیہون کی طرف جائے اور حالات کو قابو کرنے کی کوشش کرے۔وہ 5نومبر کو میکسیکو سے روانہ ہوا۔اسی روز اس کی بیوی نے صیہون کے ایک اجلاس میں اس پر مزید الزامات لگائے ۔ اور کہا کہ گذشتہ دو سال سے ڈوئی مجھ پر بہت مظالم کر رہا تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ مزید شادیاں کرے۔ اور میکسیکو میں زمین خریدنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ وہاں پر اپنے پیروکار آباد کرے اور ان میں تعدد ِ ازدواج کو فروغ دے۔ ڈوئی میکسیکو سے روانہ ہوا اور جنوبی امریکہ میں ٹیکساس(TEXAS) میں داخل ہوا۔ یہاں پر اس کے پیروکار ابھی تک اس کے وفادار تھے۔ وہ اس کے استقبال کے لیے آئے۔ ڈوئی نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنے وفادار پیروکاروں کو یہاں پر اتنی تعداد میں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔ اور وہ جنہیں میں اندھیرے سے روشنی میں لے کر آیا وہ مجھ سے باغی ہو گئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے ڈوئی رونے لگا اور اس کے آنسو بہنے لگے۔ پھر اس نے اپنی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کیا مخلوق خالق کو برطرف کر سکتی ہے۔ اپنے معزول قائد کی طرف دیکھو کیا میں ایک مردہ شخص نظر آتا ہوں۔ میں اپنے دشمنوں سے لڑوں گا۔لیکن یہ صورت ِ حال ہر جگہ پر نہیں تھی۔انہی دنوں میں نیویارک میں اس کے مقرر کردہ OVERSEER نے یہ اعلان کیا کہ اگر ڈوئی پاگل ہو گیا ہے تو اس کی وجہ اس کا غصہ اور تکبر ہے۔اب یہ خبریں بھی شائع ہو رہی تھیں کہ ڈوئی کے پاس سفر میں رقم ختم ہو گئی تھی اور اس نے ایک دوست سے پانچ سو ڈالر منگوائے ہیں تا کہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ گو بعد میں ڈوئی نے ان خبروں کی تردید بھی کی۔ 10۔اپریل کو ڈوئی شکاگو پہنچ گیا۔ لیکن صیہون کے اتنے قریب پہنچ کر بھی اس نے صیہون میں فوراً داخل ہونے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہاں پر اس کی مخالفت بہت زیادہ تھی۔ شکاگو پہنچ کر ڈوئی کی طبیعت ایک مرتبہ اور خراب ہوگئی اور اس نے بستر سے چل کر چلنے کی کوشش کی تو فرش پر گر پڑا۔ لیکن اس نے طبی امداد لینے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوگئیں کہ وہ چند دنوں کا مہمان ہے۔ ایک مرحلہ پر اس سے منحرف اس کی بیوی نے بھی شکاگو آکر اس سے ملاقات کی۔لیکن اس کے ساتھی اس بات سے انکار کر رہے تھے کہ اس کی حالت بہت خراب ہے۔
(Los Angeles Herald April 6 1906 p1,The Muskogee Cimeter April 9 1906, Wenatchi Daily World April 1906 p1, Topeka State Journal April 9 1906, The Evening Star 12 April 1906 p1, Wenatchi Daily April 27 1906 p1, The Evening Star April 10 1906 p1)
صیہون میں آمد
بہرحال مئی 1906ء میں ڈوئی نے صیہون میں دوبارہ قدم جمانے کی کوششیں شروع کیں اور شکاگو سے صیہون اپنے گھر میں منتقل ہو گیا۔یکم مئی کو اس کے مخالفین نے اسے ایک چارج شیٹ بھجوا دی۔ اس میں الزامات کے ساتھ ان کی تائید میں لوگوں کی گواہیاں بھی منسلک تھیں۔یہ نظر آ رہا تھا کہ اب صیہون کے مستقبل کا فیصلہ عدالت میں ہو گا۔ اور مئی کے مہینے میں سرکٹ کورٹ میں ابتدائی سماعت شروع بھی ہو گئی۔لیکن اس دوران ڈوئی کی صحت مسلسل خراب ہو رہی تھی اور یہ چیز بھی اسے خاطر خواہ انداز میں مقدمہ لڑنے سے روک رہی تھی۔ اس کے پاؤں پر ورم ہو گیا تھا ۔ اور اس کے دل پر سوزش شروع ہو گئی تھی۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کی تھی کہ اسے Myocarditis کی بیماری بھی شروع ہو گئی ہے۔ایک روز شکاگو میں اپنے ہوٹل میں اس نے صبح بیدار ہو کر اخبار پڑھنا شروع کیا۔ اس اخبار میں یہ خبر تھی کہ ڈوئی اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ ڈوئی نے یہ پڑھ کر ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا ۔ اور کہا کہ ’’یہ بالکل سچ ہے۔‘‘ اس کے ساتھ باقی بچنے والے وفادار ساتھیوں نے اسے ہمت دلائی کہ اب اس کے چرچ کو پہلے سے زیادہ اس کی ضرورت ہے۔اس پر ڈوئی نے رونا بند کیا اور کہا کہ میں اب تقریر کروں گا اور بیس برس زندہ رہوں گا۔ بہرحال مئی میں ڈوئی نے صیہون میں تقریروں اور وعظ کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کی۔ مئی کے آغاز میں جب اس نے پہلی مرتبہ تقریر کی تو چند وفادار ہی اس میں شامل ہوئے۔ ڈوئی نے دوران تقریر ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کیا اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ عین اسی وقت دوسرے مقام پر ہزاروں لوگ اس کے باغی لیڈر Voliva کا خطاب سننے کے لیے موجود تھے۔ پھر 14 مئی کو ڈوئی نے صیہون کےShiloh Tabernacle میں وعظ دیا۔ پہلے ہزاروں لوگ اس کا وعظ سننے آتے تھے۔ اب پانچ سو کے قریب لوگ اس موقع پر موجود تھے اور ان میں سے کئی اس کے مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈوئی نے تقریر شروع کی۔ جب منظوم دعا کا مرحلہ آیا تو روایت کے خلاف کئی لوگ کھڑے نہیں ہوئے۔ اس پر ڈوئی طیش میں آ گیا اور اس نے ان لوگوں کو کہا کہ یا تو کھڑے ہوجائیں یا باہر چلے جائیں لیکن اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا۔ ڈوئی کا چہرہ زرد تھا۔ اس نے اپنی تقریر میں اپنے مخالفین کی مذمت شروع کی۔اس پر ہنگامہ اور مار پیٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ڈوئی کے مخالفین نے ’’چور چور، منافق منافق، جھوٹاجھوٹا‘‘ کے نعرے لگانے شروع کئے۔ کچھ لوگ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ہمارے پیسے واپس کرو۔پولیس طلب کی گئی ۔ ایک سپاہی نے مجمع کو قابو کرنے کی کوشش کی تو ایک خاتون نے چھتری سے اس پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔ایک طرف تو یہ تو تکار چل رہی تھی اور دوسری طرف اب اخبارات میں یہ واضح خبریں شائع ہو رہی تھیں کہ اب صیہون شہرکا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ لوگ کام نہ ہونے اور تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے فاقوں اور مایوسیوں کا شکار ہو رہے تھے۔ بہت سے گھرانوں کے پاس اب کھانے کو بھی کافی رقم نہیں رہی۔ بہت سے لوگ جو کبھی بہت عزم سے یہاں پر آ کر آباد ہوئے تھے اب دوسرے شہروں کو منتقل ہو رہے تھے۔
(Warren Sheaf May 3 1906 p5, Palestine Daily Herald May 12 1906 p6, The Sunday Journal May 13 1906 p1, Bismarck Daily Tribune May 1 1906 p1, Custer County Republican May 10 1906 p1, The Bemidji Daily Pioneer May 9 1906 p1, The Minneapolis Journal, May 14 1906 p1, The Evening Statesman May 9 1902 p2)
مقدمہ اور عدالتی فیصلہ
جون 1906ء میںڈسٹرکٹ عدالت میں مقدمہ شروع ہونا تھا۔ اور عدالت نے فریقین کو سن کر یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا صیہون کی تمام املاک کا مالک ڈوئی ہے یا اس سے باغی ہونے والی نئی انتظامیہ ہے۔ اس مقدمہ کے شروع ہونے سے پہلے ہی یہ خبریں شائع ہونا شروع ہوگئیں کہ ڈوئی کے بیٹے کے ہاتھ ڈوئی کا لکھا ہوا ایک خط لگا ہے جو کہ اس نے سوئٹزرلینڈ کی ایک امیر نوجوان لڑکی کو لکھا تھا۔ یہ لڑکی بہت بڑی جائیداد کی وارث تھی اور ڈوئی کے یورپ کے سفر کے دوران اس کی مرید بن گئی تھی۔ ڈوئی کے بیٹے نے یہ خط اس کے دشمنوں کے حوالے کر دیا تھا اور ان کا دعویٰ یہ تھا اس میں ڈوئی نے اس لڑکی کونا مناسب باتیں لکھی ہیں۔اور وہ اسے عدالت میں پیش کریں گے۔بہر حال اسی مہینے میں یہ مقدمہ شروع ہوا ۔ یہ مقدمہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے لوگوں اور اخبارات کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔جون کے وسط میں ڈوئی اس عدالت میں پیش ہوا ۔ اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ ڈوئی کا کروفر رخصت ہو چکا تھا۔ وہ اب پہلے کی طرح گرج برس نہیں سکتا تھا۔ وہ بہت زیادہ کمزور اور دبلاہو چکا تھا۔ وہ وھیل چیئر پر عدالت میں آیا اور وھیل چیئر پر بیٹھ کر اس نے گواہی دی۔ عدالت کے سوالات پر اس نے اپنی زندگی کے حالات بیان کئے۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے غیب سے آوازیں آئی تھیں کہ ’’آگے بڑھو‘‘۔ جب ڈوئی ان مشکلات کا ذکر کر رہا تھا جن سے گزر کر اس نے صیہون کا چرچ بنایا تھا اور اسے ترقی دی تھی تو اس نے اپنے باغی مرید اور ساتھی Voliva کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن اس کا سابق مرید اب اس سے نظریں ملانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ پہلے جب ڈوئی سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایلیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ وہ ہمیشہ سے ایلیا ہے۔ لیکن بعد میں اس نے کہا کہ اس نے اپنے مریدوں کو صرف یہ کہا تھا کہ وہ ایلیا کی روح اور شان کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ اسے کس طرح یہ خبر دی گئی کہ اس کا یہ مقام ہے ۔ تو اس نے یہ جواب دیا کہ میں یہ نہیں بتا سکتا۔ عدالت سے نکل کر اس نے کہا کہ اب اس کے زیادہ تر معاملات اس کے قانونی مشیروں کے ہاتھوں میں ہیں۔
(The Hawaiin Star June 1 1906 p3, Rock Island Argus Jun 13 1906 p8, Rock Island Argus June 16 1906 p1, Brwnsville Daily Herald June 15 1906 p1, Bemidji Daily Pioneer June 23 1906 p1, Daily press June 16 1906 p1)
جولائی 1906ء کا مہینہ وہ تھا جس میں توقع تھی کہ عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ فیصلہ سے قبل صیہون میں Feast Day کی تقریبات کا وقت آیا۔ ایک سال قبل اس کی تقریبات بڑی شان سے ایک ہفتہ منائی گئی تھیں۔ لیکن اس سال اس روز ڈوئی نے تھوڑے سے لوگوں کے مجمع میں اپنی تقریر کی۔ ایک سال قبل اس کی باتیں سننے کے لیے شہر کے باہر سے بھی ہزاروں لوگ آئے تھے۔ دوسرے مقام پر Voliva نے ہزاروں کے مجمع میں تقریر کی۔لیکن دونوں نے یہ ذکر تک نہیں کیا کہ اس تاریخ کو کیا دن منایا جاتا ہے۔ایک ہفتہ کے بعد عدالت کا فیصلہ متوقع تھا۔ سب کی نظریں اس فیصلہ پر لگی ہوئی تھیں۔جولائی کے آخر میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ اور فیصلہ یہ تھا کہ نہ تو ڈوئی صیہون کا مالک ہے اور نہ ہی نئی قیادت اس کی مالک ہے ۔ اگرچہ کاغذوں میں ڈوئی پورے شہرکا مالک ہے لیکن ان املاک کی حیثیت ایک ٹرسٹ کی ہے اور عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس کی تائید میں ڈوئی کے بیانات بھی پیش کئے۔عدالت نے فیصلہ کیا کہ اپنی مذہبی قیادت کیلئے صیہون کے چرچ کے ممبران ستمبر میں ایک انتخاب کے ذریعہ اپنا قائد منتخب کریں گے۔ اور مالی معاملات کیلئے عدالت نے Hatley نام کے شخص کو Receiver مقرر کر دیا۔ اس طرح قانونی طور صیہون پر ڈوئی کی ملکیت کے حقوق ختم ہوگئے۔اس کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں رہا اور مالی معاملات اس کے مخالفین کے ہاتھ سے بھی نکل گئے۔ اس کے ساتھ اب صیہون کے باسیوں کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ ان میں سے کافی تعداد کو کھانے کو کافی خوارک اور پہننے کو مناسب لباس بھی میسر نہیں ہو رہا تھا۔ چنانچہ جس شخص کو صہیون پر Receiver مقرر کیا گیا تھا، اس نے مدد کی اپیل کی کہ صیہون کے لوگوں کو کھانے کو مناسب خوراک اور پہننے کو مناسب لباس بھی میسر نہیں۔ ان کی مدد کی جائے۔کچھ عرصہ قبل صیہون ایک مثالی شہر سمجھا جا رہا تھا لیکن اب اس کا دیوالیہ نکل رہا تھا۔ بھوک نے اس شہر میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔ شہر کے لوگ بڑی تعداد میں یہاں سے نکل کر دوسرے شہروں میں منتقل ہو رہے تھے۔ یہاں کی فیکٹریاں بند پڑی تھیں ۔ڈوئی نے جن اصولوں پر شہر کو قائم کیا تھا ان میں سے ایک اصول یہ تھا کہ یہاں سؤر کا گوشت نہیں ملے گا۔مگر اب یہاںکھلم کھلا سؤر کا گوشت فروخت ہو رہا تھا۔ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کہ خواہ ڈوئی یہ چیلنج قبول کرے یا نہ کرے، صیہون پر تباہی آنے والی ہے حرف بحرف پوری ہو رہی تھی۔
(The Laclede Blade July 21 1906 p2, The San Francisco Call July 28 1906, Bismarck Daily Tribune p1, Clayton Enterprise August 17 1906 p3)
صیہون میں انتخابات
بہر حال اب اس بات کا فیصلہ کہ صیہون کی قیادت کون کرے گا؟ عدالت کے فیصلہ کے مطابق ایک انتخاب کے ذریعہ ہونا تھا۔ڈوئی نے ایک پہلو سے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور اس انتخاب میں امیدوار کی حیثیت سے کھڑا نہیں ہوا۔ لیکن اس نے اپنے ایک امیدوار Billsکو اس انتخاب میں کھڑا کر دیا۔دوسرا امیدوار اس کے خلاف بغاوت کا قائد Voliva تھا۔ ستمبر 1906ء میںیہ انتخاب منعقد ہوا۔لوگوں کی ٹولیاں مذہبی گیت گاتی ہوئیں ووٹ ڈالنے جا رہی تھیں۔ووٹ ڈالنے والے اشخاص ووٹ ڈالنے کے بعد گھٹنوںکے بل جھک کر دعا کرتے۔ اس موقع پر ڈوئی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر کی کھڑکی میں بیٹھ گیا ۔ اورسڑک پر جانے والے لوگوںکو اپیل کرنے لگا کہ وہ اس کو قیادت سے محروم نہ کریں اور اس کے مقرر کردہ امیدوار کو ووٹ دیں ۔اس وقت اس کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔ جو لوگ کچھ عرصہ قبل اس کے ایک اشارے پر قربان ہونے کو تیار تھے ، آج ڈوئی ان سے اس انداز میں اپیل کرنے پر مجبور تھا۔ جب نتیجہ نکلا تو Voliva کو تقریباً دو ہزار اور ڈوئی کے مقرر کردہ امیدوار کو صرف چھ ووٹ ملے۔ ڈوئی کے لیے یہ صرف شکست نہیں بلکہ توہین بھی تھی۔اب اس کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تھا کہ وہ دوبارہ صیہون کا کنٹرول حاصل کرسکے گا۔ اب ڈوئی کی صیہون میں کوئی حیثیت نہیں رہی تھی۔ بات صرف ڈوئی کے بے اختیار ہونے تک محدود نہیں تھی۔ اب اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا کہ صہیون اپنے دیوالیہ سے باہر آ سکے گا۔ اس پر ساٹھ لاکھ ڈالر کا قرضہ ہو چکا تھا۔ ڈوئی کی فیکٹریا ں اس کے قرض خواہوں کے حوالے کر دی گئیں۔ دوسری طرف Volivaنے یہ اعلان کردیا کہ وہ ایک نیا صیہون آباد کرے گا۔ جس میں غریبوں کو جگہ دی جائے گی اور اس کا پہلا اصول یہ ہو گا کہ اس میں قرض کا کوئی وجود نہیں ہوگا ۔اس نے ایک وعظ میں اعلان کیا کہ اسے تا حیات چرچ کا قائد بنا دینا چاہئے لیکن اس اعلان پر کئی لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا۔
دسمبر کے شروع میں ایک مرتبہ ڈوئی کے سو دو سو عقیدت مند اس کے گھر میں جمع ہوئے تاکہ اس کا وعظ سنیں۔ لیکن جب ڈوئی ان کے سامنے آیا تو انہیں معلوم ہوا کہ ڈوئی کا ذ ہنی توازن بگڑ چکا ہے۔ اس نے ایسی باتیں شروع کر دیں جیسا کہ ڈوئی ایک سپاہی ہے اور اس نے ایک جرنیل کو محاذ پر بھجوایا تھا۔ اور اس کو دشمن نے مار دیا۔ پھرڈوئی اس کی لاش اپنے خیمہ میں لانے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب دنیا کی مختلف حکومتیں اس سے رابطے کر رہی ہیں۔ جب ڈوئی نے ایسی باتیں کیں تو اس کی نرس اسے وہاں سے باہر لے گئی۔
(Aberdeen Herald Sept. 24 1906 p1, The Bemidji Daily Pioneer Sept. 20 1906 p4, The Minneapolis Journal , Brownsville Daily Herald Nov. 30 1906 p1, The Minneapolis Journal Dec. 3 1906 p 2, The Laclede Blade Dec 1 1906 p1)
ڈوئی کی عبرتناک موت
اب ڈوئی کی صحت بہتر ہونے کے امکانات ختم ہوتے جا رہے تھے۔ اس کا ایک بار پھر میکسیکو جانے کا ارادہ تھا مگر اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ۔ اس کی بیوی اور بچہ اسے چھوڑ کر کسی اور شہر منتقل ہوگئے تھے۔ اب اس کی طرف بہت کم لوگوں کو توجہ تھی۔اس شہر میں لوگ اس کے گھر کے قریب روزمرہ کے مشاغل میں مصروف ہوتے اور انہیں اس بات کا کوئی خیال نہ آتا کہ جو شخص کچھ فاصلہ پر زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے ، وہ کبھی ان کا لیڈر تھا۔اس کے ساتھ آخر میں صرف دو ملازم رہ گئے جو باری باری اس کی نگہداشت کرتے۔ایک بار اس کو اپنی ضروریات کیلئے صرف پچاس ڈالر کی رقم کسی مرید عورت سے لینی پڑے۔اسی طرح مارچ 1907ء کا مہینہ آگیا۔پانچ ہفتہ سے ڈوئی پبلک کے سامنے آنا تقریباَبند کر دیا تھا۔کبھی کبھی کوئی اکا دکا معتقد آتا تو اس کے لیے دعا کر دیتا۔ 9مارچ کو رات کے ایک بجے ڈوئی نے بہکی بہکی باتیں شروع کر دیں۔ وہ اس قسم کی تقریر کر رہا تھا جیسے وہ صحت اور عروج کی حالت میں کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے مخالفین کو خوب برا بھلا کہا۔ اور اپنے ذہن کے مطابق گارڈز کو آوازیں دیں کہ وہ گڑ بڑ کرنے والوں کو باہر پھینک دیں۔ پھر اس نے یہ کہنا شروع کیا کہ میں ایک بار پھر آؤں گا اور جہنم کے ان سانپوں کو کتوں کو جو اس وقت صیہون کے اعلیٰ عہدوں پر قابض ہیں کو ختم کردوں گا۔ میں ایک بار پھر جنم لوں گا لیکن پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت اور ہیبت ناک صورت میں جنم لوں گا اور صیہون کو واپس چھین لوں گا ۔جب اس کی حالت بگڑی تو اس کے ملازم نے اس کے دوست JUDGE BARNES کو فون کر کے بلایا ۔ یہ شخص اگر چہ VOLIVA کی کونسل میں شامل تھا لیکن اس کے ڈوئی سے ابھی بھی دوستانہ تعلقات تھے۔ اس کا خیال تھا ڈوئی کا اب ذ ہنی توازن درست نہیں ، اس لئے اسے اس کے افعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے آنے کے پانچ منٹ بعد جان الیگزینڈر ڈوئی ، حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق نہایت حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔اس کے بچے کھچے چندعقیدت مندوں نے یہ اعلان کیا کہ ڈوئی صرف ایک گہری نیند میں چلا گیا ہے اور پھر کسی اور جگہ پر جنم لے گا۔ اس کی آخری رسومات پر بھی جھگڑا ہو گیا ۔ اس کی بیوی اور بیٹے نے اس کے باقی ماندہ پیروکاروں کو اس کی لاش پر آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔اس کی تین مختلف آخری رسومات ادا کی گئیں ۔ بعض نے اس دوران دعا میں اس کو برا بھلا کہا۔ اس کی آخری رسومات اور تدفین کے بعد پولیس کو یہ اطلاع ملی کہ شکاگو کے بعض طبی ادارے ڈوئی کا دماغ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے حصول کیلئے کرائے کے آدمی بھی مقرر کئے گئے ہیں اس لیے اس کی قبر پر پہرا بیٹھانا پڑا۔
(The Salt Lake Herald, March 10 1907 p1, NEW YORK DAILY TRIBUNE MARCH 15 1907 P14, THE SUNDAY STAR MARCH 17 1907 , The Washington Herald March 11 1907 p1)
کسی بھی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو یہ پیشگوئی ایک نہیں کئی نشانوں کو ظاہر کرنے کا سبب بنی۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ اگر ڈوئی اشارتاً بھی میرے مقابل آیا تو حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ اس کے بعد ڈوئی نے اپنے جریدہ میںنہایت ہی گستاخانہ تبصرہ شائع کرایا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکایا۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ ڈوئی اس مقابلہ کو قبول کرے یا نہ کرے صیہون پر جلد تر تباہی آنے والی ہے۔ صیہون کا لفظ اس کے آباد کیے ہوئے شہر کے متعلق بولا جاتا تھا ۔ چنانچہ ساری دنیا نے دیکھا کہ یہ شہر طرح طرح کے مصائب کا نشانہ بنا اور بڑی تعداد میں لوگ اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اگرچہ اس سے قبل وہ ایک مثالی شہر سمجھا جا رہا تھا۔ ڈوئی کا چرچ بھی صیہون کہلاتا تھا ۔ مندرجہ بالا حقائق گواہ ہیں کہ وہ بھی خدا کے غضب کا نشانہ بنا اور جلد ہی کالعدم ہو گیا۔اس کے منادیوں کی فوج بھیZionist Hostکہلاتی تھی۔ چنانچہ اسے بھی ایک عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں اپنا عہد فسخ کرنا پڑا اور اس کی بھاری اکثریت اپنے روحانی پیشوا کو مصائب میں اکیلا چھوڑ کر الگ ہو گئی۔ڈوئی کا منصوبہ تھا کہ وہ دنیابھر میں مختلف مقامات پر صیہون آباد کرے اور اس معاملہ میں میکسیکو کی حکومت بھی اس کے ساتھ تعاون کر رہی تھی۔ یہ منصوبہ بھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ الغرض کسی بھی پہلو سے دیکھا جائے یہی نظر آتا ہے کہ یہ پیشگوئی ایک عظمت کے ساتھ پوری ہوئی ۔
(نوٹ: ابتدائی دو حوالوں کے علاوہ اس مضمون میں درج تمام حوالےLibrary of Congressکے Archives Internet پر موجود ہیں)
٭………٭………٭
(الفضل ربوہ17 دسمبر 2015ء)