حضرت مسیح موعود کی غیرت دینی اور قبولیت دعا کا ایک عظیم نشان
ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی کی ہلاکت۔ 9 مارچ 1907ء
ڈاکٹر ڈوئی کے شہر صیہون کا نظارہ جو اب تفریح گاہ ہے
خاکسار کو 2003ء میں ایک شادی پر امریکہ جانے کا موقع ملا۔ تفریحی مقامات دیکھنے کے بعد ایک دن جان الیگزینڈر ڈوئی کے شہر صیہون بھی جانے کاپروگرام بنایا۔ صیہون شکاگو سے تقریباً ایک گھنٹہ کی کار ڈرائیو پر واقع ہے۔ ڈوئی کے گھر جاتے ہوئے صیہون میں احمدیہ مشن ہاؤس کے پاس سے گزرے لیکن ٹھہرے نہیں کیونکہ فیصلہ کیا کہ شہر دیکھ کر ظہر کی نماز بیت الذکر میں آکر ادا کریں گے اور دوسرے احباب جماعت سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ ہم ڈوئی کے گھر اور اردگرد کے علاقے میں تقریباً ایک گھنٹہ تک پھرتے رہے۔ ظہر کی نماز تک واپس مشن ہاؤس آگئے۔
خیال آیا کہ جان الیگزینڈر ڈوئی کی رہائش گاہ اور شہر کے متعلق احباب کی دلچسپی کے لئے کچھ لکھوں۔
ڈاکٹر ڈوئی کی پیدائش 1847ء میں Edinburgh سکاٹ لینڈ میں ہوئی۔ جب اس کی عمر ابھی 13 سال کی تھی اور اس کے والدین اس کو ساتھ لے کر آسٹریلیا سیٹل ہونے کے لئے چلے گئے۔ لیکن ڈاکٹر ڈوئی اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے لئے پھر انگلستان آیا اور Edinburgh University میں داخلہ لیا اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد جب آسٹریلیا واپس گیا تو ایک چرچ میں دس سال تک ایک پادری کی حیثیت سے کام کیا۔
اس کے بعد اس نے International Divine Healing Association بنالی اور اعلان کیا کہ یسوع مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے سے بیماروں کو شفا دینے کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ طاقت اور کرشمہ اس کو خداتعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ اس فلاسفی کو آگے بڑھانے کے لئے 1888ء میں آسٹریلیا چھوڑ کر امریکہ آگیا۔ دو سال تک مغربی ساحل پر اپنی تعلیم کا پرچار کرتا رہا۔ 1890ء میں شکاگو میں منتقل ہوگیا۔ چرچوں کے باہر یہ کھڑے ہو کر اپنا لیکچر شروع کر دیتا تھا۔ شروع شروع میں کوئی بھی اس کو سننے کو تیار نہ تھا۔ لیکن 6 سال کی مسلسل کوشش کے بعد کچھ لوگوں نے اس کی باتوں میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ اس کے پیش نظر اس نے اکتوبر 1895ء سے اپریل 1896ء تک ایک بڑا ہال شکاگو میں کرایہ پر لیا۔ اس میں لیکچر دیتا رہا جو اس کیلئے بہت کامیاب ہوا۔ اس نے اپنی اس کامیابی کے نتیجہ میں فروری 1896ء میں اپنے نئے فرقہ کی بنیاد کا اعلان کیا جس کا نام کرسچن کیتھولک چرچ رکھا۔ ڈاکٹر ڈوئی ایک مقرر تھا اور Convincing Power کے ساتھ قدآور انسان ہونے کے ناطے ایک خاص کشش کا حامل تھا ۔لوگ اس فرقے میں تھوڑے ہی عرصے میں غیر معمولی تعداد میں شامل ہوئے۔ اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے مریدوں کے لئے ایک نیا شہر بسانے کا منصوبہ بنایا۔ جو بعد میں صیہون کے نام سے مشہور ہوا۔
شہر صیہون
ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی نے اپنے دائرہ اختیار کو بڑھانے کے لئے اور اپنے مریدوں کو ایک جگہ بسانے کے لئے اس شہر کی جولائی 1900ء میں بنیاد رکھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس شہر میں اس کے 2 لاکھ مرید رہائش رکھ سکیں گے۔ پلیننگ کے لحاظ سے جدید طرز پر ایک مثالی شہر کے طور پر پلین کیا گیا۔ سڑکیں بہت چوڑی چوڑی رکھیں۔ 6000 ایکڑ زمین جو ڈوئی نے اس شہر کے لئے خریدی وہ اپنے مریدوں سے قرض لے کر لی اور بعد میں ان کو آباد کرنے کے لئے سستی قیمت پر فروخت کی۔ اس میں مختلف قسم کی فیکٹریاں، سکول، کالج، دفاتر، مارکیٹ اور مذہبی ادارے تعمیر کروائے۔ ان اداروں کی 1/10 آمدنی وہ چرچ کے لئے وصول کرتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر منصوبہ کے مطابق چل پڑا اور دور دور سے اس کے مرید اپنے گھروں کو فروخت کرکے یہاں آباد ہونے کے لئے آگئے۔ ڈوئی نے، جو نام بھی بائیبل میں موجود تھے، اس شہر کی گلیوں اور سڑکوں کے لئے وہ سب نام چنے۔ اس طر ح یہ شہر ایک مذہبی شہر کے طور پر وسعت پذیر ہوا اور لوگوں نے اس کو چرچوں کا شہر کہنا شروع کر دیا۔ اگرچہ شروع میں بڑی تیزی سے اس کی توسیع ہوئی لیکن اپنے پورے Target تک نہ پہنچ سکا۔
یہ شہر اپنی خوبصورتی، وسعت اور عمارت کے لحاظ سے تھوڑے ہی عرصہ میں امریکہ کے مشہور شہروں میں شمار ہونے لگا۔ اس کا اپنا اخبار ”لیوز آف ہیلنگ” بڑی تعداد میں شائع ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔
جان الیگزینڈر ڈوئی کا گھر
یہ گھر جان الیگزینڈر ڈوئی کے لئے نئے شہر صیہون میں 1901ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے 25 کمرے ہیں اور تین منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت اس پر نوے ہزار ڈالر (54لاکھ روپے) لاگت آئی تھی۔ آجکل میرے اندازہ کے مطابق اس کی قیمت 50 کروڑ روپے سے کم نہ ہوگی۔
سطح زمین پر لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے کمرے ہیں۔ پہلی منزل پر رہائش اور لائبریری اور دوسری منزل پر حفاظتی عملہ اور مہمانوں کے لئے کمرے ہیں۔ اس کے اندر دو سیڑھیاں ہیں۔ ایک ڈوئی کے اپنے استعمال کے لئے اور ایک نوکروں کے استعمال کے لئے۔ اس کا طرز تعمیر اور باہر سے شکل Architecturily بہت ہی خوبصورت ہے۔ لیکن یقینا ایک مذہبی رہنما کا گھر نہیں لگتا۔
غسلخانہ کے لئے سامان یورپ سے لایا گیا۔ کھانے والے کمرہ میں ایک بہت ہی بڑی میز ہے۔ جس کے اردگرد 16 کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ کتابوں کے لئے الماریاں ہیں جن پر اس وقت 50ہزار ڈالر لاگت آئی تھی۔ کھانے کے چینی کے برتن رکھنے کے لئے 16 فٹ لمبی ایک الماری ہے۔ ہر طرف ڈوئی اور اس کی بیوی کی فوٹو لگی ہوئی ہیں۔
9 مارچ 1907ء کو پہلی منزل پر جان الیگزینڈر ڈوئی کی ہلاکت ہوئی۔ اس وقت اس کے خاندان کا کوئی بھی فرد گھر میں موجود نہ تھا۔ گھر سے کوئی 5 منٹ پیدل سفر کرنے کے بعد ایک عام قبرستان ہے جس کے آخر میں اس کی قبر ہے۔ سرہانے کی طرف ایک پتھر پر ڈوئی کا نام لکھا ہوا ہے اوریہ پتھر بھی ایک طرف جھکا ہوا تھا۔ کیونکہ اب اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔
ڈوئی کی وفات کے بعد اس گھر میں ڈوئی کے کچھ مریدوں نے رہائش اختیار کرلی۔ لیکن زیادہ دیر تک اس کی دیکھ بھال کے لئے رقم مہیا نہ کرسکے۔ اس لئے اس کو فروخت کرنے کے لئے اعلان کر دیا۔ فلاڈلفیا(Philadelphia) کی ایک امیر خاتون نے اس گھر کو 1910ء میں اپنی رہائش کے لئے خرید لیا۔ یہ خاتون 1942ء تک اس میں رہی اور اس کی وفات کے بعد اس گھر کو ایک بار پھر فروخت کرنے کا اعلان ہوا۔ جان الیگزینڈر ڈوئی کے کچھ مریدوں نے ایک Great Lakes Bible Institute بنایا اور اس بار اس گھر کو خرید کر اس میں سکول چلایا۔ یہ سکول 1954ء تک چلتا رہا۔ اس کے بعد اس کو فروخت کرنے کا اعلان ہوا۔ اس دفعہ ایک جوڑے Mr./Mrs. D.C. Huntly نے اس گھر کو اپنی رہائش کے لئے خرید لیا۔ Mr. Huntly، 1967ء میں 84 سال کی عمر میں جب فوت گئے تو Mrs. Huntly کے لئے اس گھر کی دیکھ بھال ممکن نہ تھی اس لئے اس کو فروخت کرنے کے لئے مارکیٹ میں دے دیا اور وہاں ایک Real Estate Agency کے مالک Mr. Wesley Ashland نے Mrs. Huntly سے اس گھر کو اس کے پاس فروخت کرنے کے لئے کہا تاکہ وہ اس کو ایک تاریخی عمارت کے طور پر محفوظ کرلے۔ Mr. Ashland نے ایک Zion Historial Society بنائی۔ وہ اس کا صدر بن گیا اور مسٹر ہنٹلی سے یہ مکان 18500 ڈالر میں خرید لیا۔
اس وقت تک اس گھر کی حالت بہت ہی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ اس کو اصلی حالت میں بحال کرنے کے لئے بھاری رقم کی ضرورت تھی تاہم لوگوں سے تحفے مانگے گئے۔ گورنمنٹ نے بھی کچھ امداد دی اور اس بلڈنگ کو 60 سال کے بعد کسی حد تک پھر اس کی اصلی صورت میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
خاکسار کو اپنے دوستوں کے ہمراہ اس گھر کو 2003ء میں دیکھنے کا موقع ملا۔ گھر باوجود اپنی شان و شوکت کے ایک افسردہ ماحول کا حامل ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کو صرف اس لئے محفوظ کررکھا ہے تاکہ وہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں جو طاقت اور تکبر کے نشہ میں اپنے مقام کو بھول جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کے بندوں کے خلاف بغاوت سے باز نہیں آتے۔ اس گھر کو دیکھنے کے لئے پانچ ڈالر کا ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سطح زمین پر دفاتر ہیں اس لئے وہاں آپ بغیر ٹکٹ کے گھوم سکتے ہیں ہم جب ٹکٹیں لے کر اوپر کی دو منزلیں دیکھ کر نیچے آئے تو ایک بوڑھا انگریز اپنے ایک بچے کے ساتھ کمروں میں پھر رہا تھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا وہ جان ڈوئی کے مرید ہیں تو انہوں نے بتایا وہ تو صرف شہر میں سیر کے لئے آئے تھے۔ ویسے ہی گھر کو دیکھنے کے لئے آگئے ہیں۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ کو ڈوئی کے ذاتی کمروں اور چیزوں کو دیکھنا ہے تو اوپر پہلی اور دوسری منزل پر ضرور جائیں۔ اس پر انہوں نے کہا پانچ ڈالر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس دوران چھ افراد پر مشتمل ایک اور پارٹی آئی وہ اوپر نیچے دونوں منزلوں کو دیکھنے کے لئے اوپر چلے گئے۔ پتہ چلا وہ بھی احمدی ہیں۔
اس طرح ٹرسٹ کو اس گھر کی دیکھ بھال کرنے کے لئے جو رقم درکار ہے اس میں احمدیوں کا کافی Contribution ہے کیونکہ احمدی اس گھر کو دیکھنے کے لئے دور دور سے تشریف لاتے ہیں۔
ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی کا انجام
ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی نے 1900ء کے ابتداء میں یہ دعویٰ کیا کہ جو کچھ میں تمہیں کہوں گا تمہیں اس کی تعمیل کرنی ہوگی۔ کیونکہ میں خدا کے مطابق پیغمبر ہوں۔ ڈاکٹر ڈوئی، ہمارے پیارے نبی رسول کریم ۖ کا شدید دشمن تھا اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتا تھا کہ جس طرح ممکن ہو دین کو بدنام اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
حضرت اقدس مسیح موعود کو جب اس شخص کے دعاوی کا علم ہوا تو آپ نے 8اگست 1902ء کو اسے ایک چٹھی لکھی جس میں اسے مباہلہ کا چیلنج دیا۔
”غرض ڈوئی بار بار کہتا ہے کہ عنقریب یہ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ بجز اس گروہ کے جو یسوع مسیح کی خدائی مانتا ہے اور ڈوئی کی رسالت، اس صورت میں یورپ و امریکہ کے تمام عیسائیوں کو چاہئے کہ بہت جلد ڈوئی کو مان لیں تا ہلاک نہ ہو جائیں”۔
جب ڈاکٹر ڈوئی نے حضرت مسیح موعود کے خط کا کوئی جواب نہ دیا تو حضرت اقدس نے 1903ء میں ایک اور مرسلہ کے ذریعہ اس چیلنج کو دہرایا۔ آپ نے لکھا:۔
”میں عمر میں ستر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے پچاس برس کا جوان ہے لیکن میں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ کیونکہ مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا۔ بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے۔ وہ اس کا فیصلہ کرے گا اور اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا … تب بھی یقینا سمجھو کہ اس کے صیہون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے”۔
ڈوئی چونکہ ایک عیاش آدمی تھا اور صیہون کا شہر بھی اس نے اپنے مریدوں سے قرضے حاصل کرکے آباد کیا تھا اس لئے ایک طرف تو شہر کی رونق میں کمی آنے لگی اور دوسری طرف جو سرمایہ جمع تھا وہ ڈوئی کی عیاشیوں میں خرچ ہونے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈوئی کا وقار کم ہونا شروع ہو گیا۔ اس مہلک مالی بحران کو دور کرنے کے لئے ڈوئی نے میکسیکو میں ایک زمین خریدنے کا ارادہ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ایک دفعہ یہ زمین خرید لی گئی تو صیہون کی ساری مالی مشکلات دور ہو جائیں گی۔ چنانچہ اس زمین کی خرید کے لئے اپنے صیہونی مریدوں سے قرضہ حاصل کرنا چاہا اور اس غرض سے ستمبر 1905ء کی آخری اتوار کو ایک غیر معمولی جلسہ کا اعلان کیا۔ اس جلسہ کی تیاری بڑے اہتمام سے کی گئی۔ جب ڈوئی اپنے زرق برق لباس میں جس کو وہ اپنا پیغمبری لباس کہا کرتا تھا۔ ملبوس ہو کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا تو تمام مجمع کی نگاہیں اس انتظار میں اس پر جم گئیں کہ دیکھیں مسٹر جان الیگزینڈر ڈوئی اب کیا اعلان فرماتے ہیں۔
مسٹر نیو کوب نے، جو ڈوئی کا سوانح نگار ہے، لکھا ہے: ”ڈوئی اس روز اپنی فصاحت کے معراج پر تھا۔ وعظ کے بعد Lords Supper کی تقریب تھی جس کے بعد ڈوئی سفید لباس پہن کر پھر اپنے مریدوں کے سامنے آیا۔ پہلے دعائیہ ترانہ گایا گیا۔ بائیبل سے بعض آیات پڑھنے کے بعد مسیح کا خون اور گوشت روٹی اور شراب کی صورت میں خاص لباس میں ملبوس نائبین کے ذریعے سے تمام حاضر الوقت ارادت کیشوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب اصل تقریب قریب التکمیل تھی۔ ڈوئی کو صرف چند اختتامی الفاظ کہنا تھے جس کے بعد جلسہ برخواست ہو جانا تھا۔ ان آخری الفاظ کے لئے لوگ توجہ کے ساتھ منتظر تھے۔
اچانک ڈوئی نے اپنے دائیں ہاتھ کو زور سے جھٹکا دیا۔ جیسے کہ کوئی گندہ کیڑا اس کے بازو کو آچمٹا ہو۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ کو زور زور سے کرسی کے بازو پر مارا۔ لوگ اس غیرمعمولی حرکت سے کچھ حیران سے ہو گئے۔
ڈوئی کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ گرنے ہی لگاتھا کہ اس کے دو مریدوں نے اسے سہارا دیا اور گھسیٹتے ہوئے اسے ہال سے باہر لے گئے”۔
غرض ڈوئی پر عین اس وقت فالج کا حملہ ہوا جبکہ صیہون شہر کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لئے میکسیکو میں جائیداد خریدنے کی سکیم اپنے پورے عروج پر پہنچ رہی تھی۔ خدائے ذوانتقام و قادر مطلق نے آج اس کی زبان کو بند کر دیا جس سے وہ آنحضرت ۖ کی شان عالی کے خلاف بدزبانی کیا کرتا تھا۔ بعد میں وہ صرف آہستہ آہستہ گفتگو کر سکتا تھا۔ جب اس کی صحت روز بروز گرنے لگی تو ڈاکٹری مشورہ کے مطابق اسے بحالی صحت کے لئے میکسیکو اور جمیکا کے سفر پر روانہ ہونا پڑا۔ مگر اب اسے اپنے نائبین پر اعتماد نہ تھا۔
اس لئے ڈوئی نے اپنے آسٹریلیا مشن کے انچارج اووریروالو کو اپنا قائم مقام مقرر کیا اور اسے چارج لینے کے لئے کہتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ اسے 4000 ڈالر ماہوار (جو آجکل کے حساب سے کم ازکم 10 لاکھ روپے ہوں گے) بھجوا دیا کریں۔ کیونکہ اووریر والوا کا آسٹریلیا فوری طور پر آنا ممکن نہیں تھا اس لئے درمیانی وقفہ کے لئے ڈوئی نے صیہون کا انتظام اپنے تین مریدوں کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا۔
جب آسٹریلیا سے قائم مقام انچارج اووریروالوا 12 فروری 1906ء کو صیہون پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ انتظامیہ کے پاس تو کوئی رقم نہیں۔ اخبار لیوز آف ہیلنگ بند ہو چکا ہے۔ بلکہ ملازمین کو تنخواہیں تک بھی نہیں ملیں۔ تو اس کے پیش نظر اس نے ڈوئی کو 4000ڈالر بھیجنے سے انکار کر دیا۔ جب ڈوئی کو اس کی اطلاع ملی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا اور مارچ 1906ء میں تار دے کر اووریروالوا کو اپنی جانشینی سے برخاست کر دیا۔ 31 مارچ 1906ء کو یہ تار اوور یروالوا کو صیہون میں ملا اس کے اگلے دن اس نے ایک عام میٹنگ بلوائی اور چرچ کے تفصیلی حالات ہیگ کو بتاتے ہوئے یہ بتایا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے ذاتی حساب میں زائن کا چھ لاکھ ڈالر حاصل کر چکا ہے اور زائن کی انڈسٹری میں 25 لاکھ ڈالر کے حصے بک چکے ہیں اور مٹھائی بنانے کے کارخانے کے ڈیڑھ لاکھ ڈالر سے زائد کے حصے فروخت ہو چکے ہیں۔ تو مریدوں نے فوری طور پر ڈوئی کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا اور ایک دوسری میٹنگ میں انہوں نے اووریروالوا کو اپنا قائد چن لیا اور ڈاکٹر ڈوئی کو تار کے ذریعہ اس فیصلہ کی اطلاع کر دی۔
ڈوئی نے جب یہ تار پڑھا، صحت پہلے ہی برباد ہوچکی تھی، رہی سہی عزت بھی خاک میں ملتی نظر آئی۔ فوراً رخت سفر باندھ کر شکاگو روانہ ہو گیا۔ شکاگو پہنچ کر اس نے اسی روپے کے بل پر جو وہ لوگوں کا غبن کر چکا تھا۔ مسٹر والویا کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لئے قانون کی خدمات حاصل کیں۔ شکاگو کی ایک عدالت میں دو ہفتے تک یہ مقدمہ چلتا رہا۔ عدالت نے ڈوئی کو صیہون کی جائیداد واپس کرنے کی بجائے اس پر ایک ریسیور مقرر کر دیا اور ہدایت کی کہ صیہونی چرچ کے ممبر آراء شماری کے ذریعہ اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ 18 ستمبر کو یہ انتخاب ہوا جس میں والویا، ڈوئی کے صرف ایک سو ووٹوں کے مقابلہ میں ہزار ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوا۔
ان دنوں بیماری کی ایسی کوئی قسم نہ تھی جس میں ڈوئی مبتلا نہ تھا جس کی وجہ سے اس کی رہی سہی قوت بھی ختم ہورہی تھی۔
بیماری کے دنوں میں صرف دو تنخواہ دار حبشی اس کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر لے جاتے تھے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس کا مفلوج اور بے حس جسم بھاری پتھر کی طرح ان کے ہاتھوں سے گرجاتا اور ڈوئی اس طرح سے زمین پر گرتا جیسے ایک بے جان پتھر کسی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرپڑا ہو۔ ڈوئی اس قسم کی ہزاروں مصیبتیں سہتا ہوا آخر 9 مارچ 1907ء کو اس جہان سے رخصت ہوا۔
ڈوئی کی موت پر حضرت اقدس مسیح موعود کے تاثرات
حضرت اقدس مسیح موعود کو جب ڈوئی کی اس طرح حسرت ناک موت کا علم ہوا تو آپ نے اسے ایک عظیم الشان معجزہ قرار دیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
”اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہندوستان کے لئے ایک کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے۔ وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے کیونکہ اور نشان جو میری پیشگوئیوں سے ظاہر ہوئے ہیں وہ تو پنجاب اور ہندوستان تک ہی محدود تھے اور امریکہ اور یورپ کے کسی شخص کو ان کے ظہور کی خبر نہ تھی لیکن یہ نشان پنجاب سے بصورت پیشگوئی ظاہر ہو کر امریکہ میں جا کر ایسے شخص کے حق میں پورا ہوا جس کو امریکہ اور یورپ کا فرد فرد جانتا تھا اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی بذریعہ تاروں کے اس ملک کے انگریزی اخباروں کو خبر دی گئی۔
…جس ہلاکت اور تباہی کی اس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا۔ اس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا مگر اس کا شراب خوار ہونا ثابت ہو گیا اور وہ اس اپنے آباد کر دہ شہر صیہون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اس کو جواب دیا گیا اور اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہو گئے اور اس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے۔ پس اس طرح پر وہ قوم میں ولد الزنا ثابت ہوا اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں۔ یہ تمام لاف و گزاف اس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلت اس کو نصیب ہوئی اور آخر کار اس پر فالج گرا اور ایک تختہ کی طرح چند آدمی اس کو اٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجا نہ رہے اور یہ دعویٰ اس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا جاتا ہوں اور لوگ بوڑھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا۔ آخر کار مارچ 1907ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مر گیا۔
اب ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا معجزہ ہوگا۔ … خداتعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اس کو ہلاک کیا۔ میں جانتا ہوں کہ اس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہوگئی۔ کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا۔ نہ اس کی طرح شہرت ان کی تھی اور نہ اس کی طرح کروڑہا روپیہ کے وہ مالک تھے … اگر میں اس کو مباہلہ کے لئے نہ بلاتا اور اگر میں اس پر بددعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا (دین) کی حقیقت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا”۔
(حقیقة الوحی۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ 516,511)
(بحوالہ الفضل ربوہ. جمعہ 9 مارچ 2007ء)