تقدیر الٰہی (قسط نمبر9)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تقدیر کا تعلق اعمال انسانی سے
گو اس وقت تک جو کچھ میں بتا چکا ہوں اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ تقدیر کا وہ مفہوم نہیں ہے کہ جو عوام میں سمجھا جاتا ہے اور جو اسلام کے فلسفیوں نے سمجھا ہے۔ یعنی یہ کہ جو کچھ کرتا ہے بندہ ہی کرتا ہے یا یہ کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے بندہ کا اس میں دخل نہیں ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ ایک درمیانی راستہ ہے جو صحیح اور مطابق تعلیم اسلام ہے۔ لیکن اب میں زیادہ تشریح سے اس امر کو بیان کر دیتا ہوں کہ تقدیر کا تعلق اعمال انسانی سے کیا ہے؟
یاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں تقدیر کئی قسم کی ہے۔ تقدیر عام طبعی اور تقدیر عام شرعی۔ تقدیر خاص طبعی اور تقدیر خاص شرعی۔ ان میں سے اول الذکر تقدیر ہی ہے جو سب انسانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ قوانین مقرر کر دیے ہیں جن کے ماتحت سب کارخانہ عالم چل رہا ہے۔ یعنی ہر ایک چیز میں کچھ خاصیتیں پیدا کر دی ہیں وہ اپنی مفوضہ خدمت کو اپنے دائرہ میں ادا کر رہی ہیں۔ مثلاً آگ میں جلانے کی خاصیت رکھی ہے۔ جب آگ کسی ایسی چیز کو لگائی جائے گی جس میں جلنے کی طاقت رکھی ہوئی ہے تو وہ اسے جلا دے گی اور اس چیز کا جلنا تقدیر کے ماتحت ہوگا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے یہ مقرر نہیں فرمایا کہ فلاں شخص فلاں شخص کے گھر کو آگ لگا دے۔ چیزوں کی خاصیت خدا نے پیدا کی ہے مگر ان کے استعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ چور جب چوری کرتا ہے تو یہ بات بے شک تقدیر ہے کہ جب وہ غیر کے مال کو اٹھا تا ہے تو وہ مال اٹھ جاتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے یہ بات مقرر نہیں کی کہ زید بکر کا مال اٹھا لے۔ زید کو طاقت حاصل تھی کہ خواہ اس کا مال اٹھاتا خواہ نہ اٹھاتا۔ یا مثلاً بارش آتی ہے تو وہ ایک عام قاعدہ کے ماتحت آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اس کے متعلق کوئی خاص حکم نہیں ہوتا کہ فلاں جگہ اور فلاں وقت بارش ہو۔ پس بارش کا آنا ایک تقدیر ہے مگر تقدیر خاص نہیں۔ ایک عام قاعدہ اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ہے۔ اس قاعدہ کے ماتحت بارش آجاتی ہے اور جیسے حالات ہوتے ہیں ان کے ماتحت برس جاتی ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس تقدیر عام کے علاوہ اَور تقدیریں بھی ہیں۔ اور ان میں اللہ تعالیٰ کے خاص احکام نازل ہوتے ہیں۔ اور اس وقت جب وہ تقدیریں نازل ہوتی ہیں تو تقدیر عام کو پھیر کر ان تقدیروں کے مطابق کر دیا جاتا ہے یا تقدیر عام کے قواعد کو توڑ دیا جاتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کے وقت۔ مگر یہ تقدیر ہر ایک کے لیے اور ہر روز نازل نہیں کی جاتی بلکہ یہ تقدیریں خاص بندوں کے لیے نازل ہوتی ہیں یا ان کی مدد کے لیے یا ان کے دشمنوں کی ہلاکت کے لیے۔ کیونکہ خاص سلوک خاص ہی لوگوں سے کیا جاتا ہے۔ یا ان تقدیروں کے نزول کا محرک کسی شخص کی قابل رحم حالت ہوتی ہے جو خواہ خاص طور پر نیک نہ ہو مگر اس کی حالت خاص طور پر قابل رحم ہو جائے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت جوش میں آکر اس کی صفت قادریت کو جوش میں لاتی ہے۔ جو اس مسکین کی مصیبت کو دور کرتی یا اس پر ظلم کرنے والے کو سزا دیتی ہے۔ یہ تقدیر خاص جو نازل ہوتی ہے کبھی انسانی اعضاء پر بھی نازل ہوتی ہے یعنی انسان کو مجبور کر کے اس سے ایک کام کروایا جاتا ہے۔ مثلاً زبان کو حکم ہو جاتا ہے کہ وہ ایک خاص فقرہ بولے اور خواہ بولنے والے کا دل چاہے نہ چاہے اسے وہ فقرہ بولنا پڑتا ہے اور اس کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کو روک سکے۔ یا کبھی ہاتھ کو کوئی حکم ہو جاتا ہے اور کبھی سارے جسم کو کوئی حکم ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت انسان کا تصرف اپنے ہاتھ یا جسم پر نہیں رہتا بلکہ خدا تعالیٰ کا تصرف ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ان کی خلافت کے ایام میں وہ منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بے اختیار ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے۔ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ، یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ یعنی اے ساریہ پہاڑ پر چڑھ جا۔ اے ساریہ پہاڑ پر چڑھ جا۔ چونکہ یہ فقرات بے تعلق تھے لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ کیا کہا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ ایک جگہ ساریہ جو اسلامی لشکر کے ایک جرنیل تھے کھڑے ہیں اور دشمن ان کے عقب سے اس طرح حملہ آور ہے کہ قریب ہے کہ اسلامی لشکر تباہ ہو جائے۔ اس وقت میں نے دیکھا تو پاس ایک پہاڑ تھا کہ جس پر چڑھ کر وہ دشمن کے حملہ سے بچ سکتے تھے۔ اس لیے میں نے ان کو آواز دی کہ وہ اس پہاڑ پر چڑھ جاویں۔ ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ساریہ کی طرف سے بعینہٖ اسی مضمون کی اطلاع آئی اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس وقت ایک آواز آئی جو حضرت عمرؓ کی آواز سے مشابہ تھی جس نے ہمیں خطرہ سے آگاہ کیا اور ہم پہاڑ پر چڑھ کر دشمن کے حملہ سے بچ گئے۔ (تاریخ ابن کثیر اردو جلد 7صفحہ 265۔266)اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی زبان اس وقت ان کے اپنے قابو سے نکل گئی تھی اور اس قادر مطلق ہستی کے قبضہ میں تھی جس کے لیے فاصلہ اور دوری کوئی شَے ہے ہی نہیں۔
پس تقدیر کبھی اعضاء پر جاری کی جاتی ہے اور جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جبر سے کام کراتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جبر سے انسان سے کام لیتا ہے۔ جس میں انسان کا کچھ دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ محض ایک ہتھیار کی طرح ہوتا ہے یا مردہ کی طرح ہوتا ہے جس میں خود ہلنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ وہ زندہ کے اختیار میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہے اس سے کرے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ ایسی ہی تقدیر کے ماتحت تھا اور ان کا کچھ دخل نہ تھا ورنہ ان کی کیا طاقت تھی کہ اس قدر دور اپنی آواز پہنچا سکتے۔
رسول کریم ﷺ کی ذات تو تمام قسم کے معجزات کی جامع ہے۔ آپؐ کی زندگی میں بھی اس قسم کی تقدیر کی بہترین مثالیں پائی جاتی ہیں۔ آپؐ ایک دفعہ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے۔ راستہ میں ایک جنگل میں دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے ٹھہر گئے۔ تمام صحابہؓ ادھر ادھر بکھر کے سوگئے۔ کیونکہ کسی قسم کا خطرہ نہ تھا۔ آپؐ بھی اکیلے ایک جگہ لیٹ گئے کہ یکدم آپؐ کی آنکھ کھلی اور آپؐ نے دیکھا کہ ایک اعرابی کے ہاتھ میں آپؐ کی تلوار ہے اور وہ آپؐ کے سامنے تلوار کھینچے کھڑا ہے۔ جب آپؐ کی آنکھ کھلی تو اس نے دریافت کیا کہ بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے کہا خدا۔ آپؐ کا یہ کہنا تھا کہ اعرابی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ (مسلم کتاب الفضائل باب توکلہ علی اللہ تعالیٰ وعصمۃ اللہ تعالیٰ من الناس) اس وقت اگر ساری دنیا بھی کوشش کرتی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار نہ گرے تو کچھ نہ کرسکتی تھی۔ کیونکہ انسان کو وہاں تک پہنچنے میں دیر لگتی سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی کچھ نہ کرسکتا تھا۔ ایسے خاص اوقات میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لیے خاص تقدیر جاری ہوتی ہے۔ اس اعرابی کے لیے جس کا دماغ صحیح تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو مارے خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر نازل ہوئی کہ اس کا ہاتھ نہ ہلے اور وہ نہ ہلا۔ یہ ایک تقدیر تھی جو ایک خاص وقت ایک خاص شخص کے ایک عضو پر جاری ہوئی۔ لیکن کیا ایسی تقدیروں کے ہوتے ہوئے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ انسان مجبور ہے؟ یہ تقدیریں ہیں۔ لیکن باوجود ان کے انسان مجبور نہیں ہے بلکہ قابل مؤاخذہ ہے۔ کیونکہ یہ تقدیریں ہمیشہ جاری نہیں ہوتیں بلکہ خاص حالتوں میں جاری ہوتی ہیں۔ اور ایسی کوئی تقدیر جاری نہیں کی جاتی جس کے سبب سے انسان مجبور قرار پاسکے۔ اور عِقاب و ثواب کے دائرہ سے نکل جاوے۔
ایک دوسری مثال اس قسم کی تقدیر کی آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اور بھی ملتی ہے۔ رسول کریم ﷺ پر جب عرب کے لوگوں نے اجتماع کر کے وہ حملہ کیا جو غزوہ احزاب کہلاتا ہے تو اس سے پہلے یہود سے آپؐ کا معاہدہ ہوچکا تھا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو یہود اور مسلمان مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس موقع پر ان کا فرض تھا کہ مدد کرتے لیکن انہوں نے اس کے برخلاف آپ کے دشمنوں سے یہ منصوبہ گانٹھا کہ باہر مردوں پر تم حملہ کرو اور شہر میں ہم ان کی عورتوں اور بچوں کو مار ڈالیں گے۔ جب رسول کریم ﷺ لڑنے کے لیے گئے تو کفار نہ لڑے۔ واپس آکر آپؐ نے یہود سے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے۔ ان کو محمد ﷺ جیسا رحیم کریم انسان سزا دیتا تو وہی دیتا جو لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ(زاد المعاد لابن قیم جلد 1صفحہ 424) کے ذریعہ اس نے مکہ والوں کو دی تھی۔ یعنی معاف کر دیتا۔ مگر انہوں نے کہا ہم تیری بات نہیں مانیں گے۔ یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان کے منہ سے جاری کرائی کیونکہ ان کو سالہا سال کا تجربہ تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں سے نہایت نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں۔ جب ان لوگوں سے دریافت کیا گیا کہ تم کس کی بات مانو گے تو انہوں نے حضرت سعدؓ کا نام لیا۔ جب سعدؓ سے دریافت کیا گیا کہ ان کو کیا سزا دی جاوے تو انہوں نے کہا کہ ان کے جتنے تلوار اٹھانے والے جوان ہیں سب قتل کیے جاویں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ و سلم من الاحزاب الخ)یہود کی زبان پر کیوں یہ تقدیر جا ری کی گئی؟ اس لیے کہ محمد ﷺ کی زبان پر ان کے رحم اور ان کے مقام کی وجہ سے یہ تقدیر جاری نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس کے جاری ہونے کا یہ مطلب ہوتا کہ آپ کا دل سخت ہو جاتا۔ مگر کافروں کی زبان پر جاری ہوسکتی تھی کیونکہ ان کے دل پہلے ہی سخت تھے۔ پس یہ تقدیر انہی کے منہ سے اس طرح جاری کروائی کہ ہم تیری بات نہیں مانتے بلکہ فلاں کی بات مانتے ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں تقدیریں جو اعمال پر یا زبان پر جاری ہوتی ہیں یہ شرعی اعمال میں نہیں ہوتیں۔ کیونکہ قیامت کے دن شرعی اعمال کی پُرسش ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبراً حضرت عمرؓ سے نمازیں نہیں پڑھوائیں۔ اگر جبراً کیا تو یہ کیا کہ زبان پر جاری کرا دیا کہ ساریہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ۔ اسی طرح خدا نے یہود کے متعلق یہ نہیں کیا کہ جبراً ان کو نماز سے روک دیتا یا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے دیتا۔ بلکہ صرف ایک سیاسی معاملہ میں جزائے عمل کے متعلق تقدیر نازل کی۔ تو یہ تقدیر شرعی اعمال پر جاری نہیں ہوتی بلکہ ان اعمال میں ہوتی ہے جن میں کوئی بھی عمل ہو اس سے انسان شرعی سزا کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ اگر شرعی اعمال پر تقدیر جاری ہو۔ جبراً چوری کروائی جاوے یا نماز پڑھوائی جاوے تو پھر سزا یا انعام کی وجہ نہیں رہتی بلکہ سزا کا دینا ایسے حالات میں ظلم ہو جاتا ہے جس سے خدا تعالیٰ پاک ہے۔
تقدیر کے نزول کے وقت استعمال اسباب جائز ہے یا نہیں؟
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ جب تقدیر جاری ہوتی ہے تو بندہ کو اسباب کے استعمال کی طاقت ہوتی ہے یا نہیں۔ اور اگر طاقت ہوتی ہے تو پھر اسباب کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ جو تقدیر جو ارح پر جاری ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں انسان کو استعمال اسباب کی طاقت نہیں ہوتی۔
چنانچہ حضرت عمرؓ کی زبان کو جب خاص الفاظ استعمال کرنے کا حکم ہوا تھا ان کی طاقت نہ تھی کہ دنیا کے کسی سامان کو بھی استعال کر کے وہ اپنی زبان کو اس فقرہ کے بولنے سے روک سکتے۔ یا اس کافر کے ہاتھ پر جب تقدیر جاری ہوئی کہ شل ہو کر تلوار اس سے گر جاوے اور محمد رسول اللہ ﷺ پر حملہ نہ کرسکے اس کی طاقت نہ تھی کہ اس کے خلاف کچھ کرسکے۔ اسی طرح جب دل پر تقدیر جاری ہوتی ہے تو اس تقدیر کے خلاف انسان کا میلان ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن جو تقدیریں کہ خو دانسان کے قلب اور جوارح پر جاری نہیں ہوتیں بلکہ دوسروں پر جاری ہوتی ہیں یا اس کے جسم کے ایسے حصوں پر جاری ہوتی ہیں جن کا کام طبعی ہے اس کے ارادہ کے ماتحت نہیں ہے اس وقت ایسے اسباب کے استعمال کی طاقت ہوتی ہے۔
ایسی حالت میں پھر دو صورتیں ہوتی ہیں اول یہ کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیر نازل ہوئی ہے۔ دوم وہ حالت کہ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی تقدیر نازل ہوئی ہے۔ جب اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ تقدیر نازل ہوئی ہے اس وقت اگر یہ اسباب استعمال کرتا ہے تو اسے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تقدیر نازل کی ہے تو اس وقت اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ یا تو اس کو خود اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے بعض اسباب یا کُل اسباب کے استعمال کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ یعنی تقدیر تو ہوتی ہے مگر ان اسباب سے معلق ہوتی ہے۔ مثلاً رسول کریم ﷺ کے لیے فتح پانا مقدر ہوچکا تھا مگر وہ تقدیر معلق تھی جنگ کے ساتھ۔ پس ایسے وقت میں بندہ کے لیے فرض ہوتا ہے کہ بعض یا کُل اسباب کو استعمال نہ کرے۔ اگر کرے گا تو اس کو نقصان پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوگی۔ اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بندہ کو بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ بغیر اسباب کے بھی کام کرسکتا ہے۔ اس کی مثال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔ ایک دفعہ آپ کو کھانسی کی شکایت تھی۔ مبارک احمد کے علاج میں آپ ساری ساری رات جاگتے تھے۔ میں ان دنوں بارہ بجے کےقریب سوتا تھا اور جلدی ہی اٹھ بیٹھتا تھا۔ لیکن جب میں سوتا اس وقت حضرت صاحبؑ کو جاگتے دیکھتا اور جب اٹھتا تو بھی جاگتے دیکھتا اس محنت کی وجہ سے آپ کو کھانسی ہوگئی۔ ان دنوں مَیں ہی آپ کو دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اور چونکہ دوائی کا پلانا میرے سپرد تھا اس لیے ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق ایسی باتوں پر جو کھانسی کے لیے مضر ہوں ٹوک بھی دیا کرتا۔ ایک دن ایک شخص آپ کے لیے تحفہ کے طور پر کیلے لایا۔ حضرت صاحبؑ نے کیلا کھانا چاہا مگر میرے منع کرنے پر کہ آپ کو کھانسی ہے آپ کیوں کیلا کھاتے ہیں آپ نے کیلا مسکرا کر رکھ دیا۔ غرض چونکہ میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کراتا تھا اور تیماردار تھا آپ میری بات بھی مان لیتے تھے۔ انہی دنوں ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب حضرت صاحبؑ کے لیے فرانسیسی سیب لائے جو اتنے کھٹے تھے کہ کھانسی نہ بھی ہو تو ان کے کھانے سے ہو جائے۔ لیکن حضرت صاحبؑ نے تراش کر ایک سیب کھانا شروع کر دیا۔ میں نے منع کیا لیکن آپ نے نہ مانا اور کھاتے چلے گئے۔ میں بہت کڑھتا رہا کہ اس قدر کھانسی کی آپ کو تکلیف ہے مگر پھر بھی آپ ایسا ترش میوہ کھا رہے ہیں۔ لیکن آپ نے پرواہ نہ کی اور سیب کی پھانکیں کر کے کھاتے گئے اور ساتھ ساتھ مسکراتے بھی گئے۔ جب سیب کھا چکے تو فرمایا۔ تمہیں نہیں معلوم مجھے الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی ہے اور اب کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔ اس لیے میں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ادب کے طور پر یہ سیب باوجود ترش ہونے کے کھا لیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ کی کھانسی اچھی ہوگئی اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔
…………………………………(باقی آئندہ)