ارشاد ِنبوی ﷺ
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ مال دار تھے ۔ ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سے سب سے زیادہ عمدہ باغ بیرؔحا نامی تھاجو حضرت ابوطلحہ ؓ کو بہت پسند تھا اور مسجد (نبویؐ)کے سامنے بالکل قریب تھا ۔ آنحضرت ﷺ بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ جب تک تم اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہیں کرتے نیکی کو نہیں پا سکتے ۔ تو حضرت ابو طلحہؓ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ پر اس مضمون کی آیت نازل ہوئی ہے اور میری سب سے پیاری جائیداد بیرؔحا کا باغ ہے۔ مَیں اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرےگا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کرے گا۔ حضورؐ اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مَصرف میں لائیں ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ واہ واہ! بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے ، بڑا نفع مند ہےاور جو تُو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ چنانچہ ابو طلحہؓ نے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔
(بخاری کتاب التفسیر باب لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون)