حقیقت بیعت اور اس سے فیض پانے کی راہ
یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشو و نما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشو و نما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اُسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا۔ صوفیوں نے بعض جگہ لکھا ہے کہ اگر مرید کو اپنے مرشد کے بعض مقامات پر بظاہر غلطی نظر آوے تو اسے چاہیے کہ اس کا اظہار نہ کرے اگر اظہار کرے گا تو حبط عمل ہو جاوے گا (کیونکہ اصل میں وہ غلطی نہیں ہوتی صرف اس کے فہم کا اپنا قصور ہوتا ہے) اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں اس طرح سے بیٹھتے تھے جیسے سر پر کوئی پرندہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان سر اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ یہ تمام ان کا ادب تھا کہ حتی الوسع خود کبھی کوئی سوال نہ کرتے۔ ہاں اگر باہر سے کوئی نیا آدمی آکر کچھ پوچھتا تو اس ذریعہ سے جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے نکلتا وہ سن لیتے صحابہ کرامؓ بڑے مؤدب تھے اس لئے کہا ہے کہ الطریقۃ کلھا ادبٌ۔ جو شخص ادب کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر شیطان اس پر دخل پاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کی نوبت ارتداد کی آجاتی ہے۔ اس ادب کو مدّ نظر رکھنے کے بعد انسان کو لازم ہے کہ وہ فارغ نشین نہ ہو۔ ہمیشہ توبہ استغفار کرتا رہے اور جو جو مقامات اسے حاصل ہوتے جاویں ان پر یہی خیال کرے کہ میں ابھی قابلِ اصلاح ہوں اور یہ سمجھ کر کہ بس میرا تزکیہ نفس ہو گیا وہاں ہی نہ اڑ بیٹھے۔
منافق کون ہے
یاد رکھو منافق وہی نہیں ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا یا زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر دل میں اس کے کفر ہے۔ بلکہ وہ بھی منافق ہے جس کی فطرت میں دو رنگی ہے اگرچہ وہ اس کے اختیار میں نہ ہو۔ صحابہ کرامؓ کو اس دو رنگی کا بہت خطرہ رہتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہؓ رو رہے تھے تو حضرت ابو بکرؓ نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو؟ کہا کہ اس لئے روتا ہوں کہ مجھ میں نفاق کے آثار معلوم ہوتے ہیں۔ جب میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہوتا ہوں تو اس وقت دل نرم اور اس کی حالت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر جب اُن سے جدا ہوتا ہوں تو وہ حالت نہیں رہتی۔ ابوبکرؓ نے فرمایا کہ یہ حالت تو میری بھی ہے۔ پھر دونو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گئے اور کُل ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم منافق نہیں ہو۔ انسان کے دل میں قبض اور بسط ہوا کرتی ہے۔ جو حالت تمہاری میرے پاس ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔
تو اب دیکھو کہ صحابہ کرامؓ اس نفاق اور دو رنگی سے کس قدر ڈرتے تھے۔ جب انسان جرأت اور دلیری سے زبان کھولتا ہے تو وہ بھی منافق ہوتا ہے۔ دین کی ہتک ہوتی سنے اور وہاں کی مجلس نہ چھوڑے یا اُن کو جواب نہ دے تب بھی منافق ہوتا ہے۔ اگر مومن کی سی غیرت اور استقامت نہ ہو تب بھی منافق ہوتا ہے۔ جب تک انسان ہر حال میں خدا کو یاد نہ کرے تب تک نفاق سے خالی نہ ہو گا اور یہ حالت تم کو بذریعہ دعا حاصل ہو گی۔ ہمیشہ دعا کرو کہ خدا تعالیٰ اس سے بچاوے۔ جو انسان داخل سلسلہ ہو کر پھر بھی دو رنگی اختیار کرتا ہے تو وہ اس سلسلہ سے دور رہتا ہے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے منافقوں کی جگہ اسفل السافلین رکھی ہےکیونکہ ان میں دو رنگی ہوتی ہے اور کافروں میں یکرنگی ہوتی ہے۔
ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت
صوفیوں نے لکھا ہے کہ اگر چالیس دن تک رونا نہ آوے تو جانو کہ دل سخت ہو گیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا(التوبہ82)
کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت مگر اس کے بر عکس دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ہنستے بہت ہیں۔ اب دیکھو کہ زمانہ کی کیا حالت ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ انسان ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتا رہے بلکہ جس کا دل اندر سے رو رہا ہے وہی روتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ کر خشوع اور خضوع سے دعا میں مشغول ہو اور بالکل عجز و نیاز سے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گِر پڑے تاکہ وہ اس آیت کے نیچے نہ آوے۔ جو بہت ہنستا ہے وہ مومن نہیں۔ اگر سارے دن کا نفس کا محاسبہ کیا جاوے تو معلوم ہو کہ ہنسی اور تمسخر کی میزان زیادہ ہے اور رونے کی بہت کم ہے۔ بلکہ اکثر جگہ بالکل ہی نہیں۔ اب دیکھو کہ زندگی کس قدر غفلت میں گذر رہی ہے اور ایمان کی راہ کس قدر مشکل ہے گویا ایک طرح سے مرنا ہے اور اصل میں اسی کا نام ایمان ہے۔
ایمان کی حقیقت
جب لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔ کیا ہم نماز نہیں پڑھتے۔ کیا ہم روزہ نہیں رکھتے۔ ان لوگوں کو حقیقت ایمان کا علم نہیں ہے۔ اگر علم ہوتا تو وہ ایسی باتیں نہ کرتے۔ اسلام کا مغز کیا ہے اس سے بالکل بیخبر ہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ کی یہ عادت قدیم سے چلی آئی ہے کہ جب مغز اسلام چلا جاتا ہے تو اس کے از سرِ نو قائم کرنے کے واسطے ایک کو مامور کر کے بھیج دیتا ہے تاکہ کھائے ہوئے اور مرے ہوئے دل پھر زندہ کئے جاویں مگر ان لوگوں کی غفلت اس قدر ہے کہ دلوں کی مردگی محسوس نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ:113)
یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے اور نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جاوے گویا اس کے قویٰ خدا تعالیٰ کے لئے مر جاتے ہیں گویا وہ اس کی راہ میں ذبح ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اس اسلام کا نمونہ دکھلایا کہ ارادہ الٰہی کی بجا آوری میں اپنے نفس کو ذرا بھی دخل نہ دیا اور ایک ذرا سے اشارہ سے بیٹے کو ذبح کرنا شروع کر دیا۔ مگر یہ لوگ اسلام کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ جو کام ہیں ان میں ملونی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ان میں سے رسالہ جاری کرتا ہے تو اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ روپیہ کماوے بال بچے کا گذارہ ہو۔ ابھی حال میں ایک شخص کا خط آیا ہے۔ لکھتا ہے کہ میں نے عبد الغفور کے مرتد ہونے پر اس کی کتاب ترک اسلام کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کیا ہے۔ امداد فرمادیں۔ ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اسلام کیاشئے ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نفخ روح اس میں نہیں لیکن رسالہ لکھنے کو تیار ہے۔ ایسے شخص کو چاہئے تھا کہ اوّل تزکیۂ نفس کے لئے خود یہاں آتا اور پوچھتا اور اول خود اپنے اسلام کی خبر لیتا لیکن عقل، دیانت اور سمجھ ہوتی تو یہ کرتا۔ مقصود تو اپنی معاش ہے اور رسالہ کو ایک بہانہ بنایا ہے۔ ہر ایک جگہ یہی بدبُو آتی ہے کہ جو کام ہے خدا کے لئے نہیں، بیوی بچوں کے لئے ہے۔ جو خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا اس کا ہو جاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت کا ہاتھ اس کے کاموں سے معلوم ہو جاتا ہے اور آخر کار انسان مشاہدہ کرتا ہے کہ ایک غیب کا ہاتھ ہے جو اُسے ہر میدان میں کامیاب کر رہا ہے۔ انسان اگر اس کی طرف چل کر آوے تو وہ دوڑ کر آتا ہے اور اگر وہ اس کی طرف تھوڑا سا رجوع کرے تو وہ بہت رجوع ہوتا ہے۔ وہ بخیل نہیں ہے۔ سخت دل نہیں ہے۔ جو کوئی اس کا طالب ہے تو اس کا اوّل طالب وہ خود ہوتا ہے۔ لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے اگر ایک مکان کے دروازے بند کر دیوے تو کیا روشنی اس کے اندر جاوے گی؟ ہر گز نہیں۔ یہی حال انسان کے قلب کا ہے۔ اگر اس کا قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے موافق نہ ہو گا اور نفسانی جذبات کے تلے وہ دبا ہوا ہو گا تو گویا دل کے دروازے خود بند کرتا ہے کہ خدا کا نور اور روشنی اس میں داخل نہ ہو۔ لیکن اگر وہ دروازوں کو کھولے گا تو معاً نور اس کے اندر داخل ہو گا۔
(ملفوظات جلد 6صفحہ 173تا177۔ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭