شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام: آپؑ کی دعاؤں کا بیان
آپؑ کی دعاؤں کا بیان
سُمِعَ الدُّعَاءُ۔
یعنی تیری دعا سنی گئی
دُعَاءُکَ مُستَجَابٌ۔
یعنی تیری دعا مقبول ہے
(الحکم مؤرخہ 7فروری 1903ء جلد 7 نمبر 5صفحہ16 بحوالہ تذکرہ صفحہ378)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ بیان فرماتےہیں :
‘‘دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِیہ عاجز اپنی زندگی کا مقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو رب العرش تک پہنچ جائیں ۔اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آجایا کرے …’’
(مکتوبات جلد اوّل صفحہ 530،مکتوب نمبر16بنام میر عباس علی شاہ صاحب)
آپؑ خدا کے حضور بڑے ابتہال کے ساتھ یو ں گویا ہوتے ہیں کہ
‘‘اے ربّ العالمین ! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کرسکتا تو نہایت ہی رحیم وکریم ہے اور تیرے بےغایت مجھ پر احسان ہیں ۔میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں ۔میرے دل میں اپنی خالص محبّت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما ۔اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہوجائے۔میں تیری وَجْہِ کَرِیْم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔رحم فرما ۔اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچاکہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔آمین ۔ثمّ آمین’’
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ235)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگا کرتا ہوں:۔
اوّلؔ۔ اپنے نفس کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ خدا وند کریم مجھ سے وہ کام لےجس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضاکی پوری توفیق عطا فرمائے۔
دوؔم۔پھر اپنے گھر کے لوگوں کے لئے دعامانگتا ہوں کہ ان سے قُرَّۃُ عَیْن عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیّات کی راہ پر چلیں۔
سوؔم۔پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں ۔
چہاؔرم۔پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نا م بنام۔
پنجؔم۔ اور پھر ان سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں۔ خواہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ یا نہیں جانتے۔”
(ملفوظات جلددوم صفحہ4-5)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اگر کوئی تائیدِ دین کے لئے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے جو شخص چاہے کہ ہم اس سے پیار کریں ۔اور ہماری دعائیں نیاز مندی اور سوز سے اس کے حق میں آسمان پر جائیں وہ ہمیں اس بات کا یقین دلا دے کہ وہ خادمِ دین ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔’’
(ملفوظات جلددوم صفحہ 7)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ یہ میری دعائیں خداتعالیٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پیچھے میں ایسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں لیکن وہ لوگ جن کی آنکھیں زنا کرتی ہیں اور جن کے دل پاخانہ سے بد تر ہیں اور جن کو مرنا ہرگز یاد نہیں ہے۔ میں اور میرا خدا ان سے بیزار ہیں۔ میں بہت خوش ہوں گا اگر ایسے لوگ اس پیوند کو قطع کر لیں۔ کیونکہ خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونہ سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اوّل درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو۔ لیکن وہ مفسد لوگ جو میرے ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور یہ کہہ کر کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا پھر وہ اپنے گھروں میں جا کر ایسے مفاسد میں مشغول ہو جاتے ہیں کہ صرف دنیا ہی دنیا ان کے دلوں میں ہوتی ہے نہ انکی نظر پاک ہے نہ ان کا دل پاک ہے اور نہ ان کے ہاتھوں سے کوئی نیکی ہوتی ہے اورنہ اُن کے پَیر کسی نیک کام کے لئے حرکت کرتے ہیں۔وہ اس چوہے کی طرح ہیں جو تاریکی میں ہی پرورش پاتا ہے اور اسی میں رہتا اور اسی میں مرتا ہے وہ آسمان پر ہمارے سلسلہ میں سے کاٹے گئے ہیں۔ وہ عبث کہتے ہیں کہ ہم اس جماعت میں داخل ہیں کیونکہ آسمان پر وہ داخل نہیں سمجھے جاتے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ619)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہیئے کہ خداتعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دور کر دے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔’’
(ملفوظات جلدہفتم صفحہ39)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘میں اس بیمار دار کی طرح جو اپنے عزیز بیمار کے غم میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس ناشناس قوم کے لئے سخت اندوہ گیں ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اے قادر ذوالجلال خدا! اے ہادی اور راہنما! ان لوگوں کی آنکھیں کھول اور آپ ان کو بصیرت بخش اور آپ ان کے دلوں کو سچائی اور راستی کا الہام بخش ’’
(مکتوبات احمد جلداوّل حصہ اول صفحہ357)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اے میرے محسن اورمیرے خدا میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پُر معصیت اور پُر غفلت ہوں۔ تُو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اوراحسان پر احسان کیا۔ تُو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پُر گناہ پر رحم کر اور میری بیباکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرےاورکوئی چارہ گر نہیں۔ آ مین ثم آمین۔’’
(مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 10 مکتوب بنام حضرت خلیفہ اول)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اے میرے خدا میری فریاد سن کہ میں اکیلا ہوں۔اے میری پناہ! اے میری سِپَر ! اے میرے پیارے!مجھے ایسا مت چھوڑ۔میں تیرے ساتھ ہوں۔اور تیری درگاہ پرمیری روح سجدے میں ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ573)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اے خداوند قادر مطلق اگرچہ قدیم سے تیری یہی عادت اور یہی سنت ہے کہ تو بچوں اور اُمیوں کو سمجھ عطا کرتا ہے اور اس دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کی آنکھوں اور دلوں پر سخت پردے تاریکی کے ڈال دیتاہے۔مگر میں تیری جناب میں عجز اور تضرع سے عر ض کرتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بھی ایک جماعت ہماری طرف کھینچ لا جیسے تُو نے بعض کو کھینچا بھی ہے اور ان کو بھی آنکھیں بخش اور کان عطا کر اور دل عنایت فرما تا وہ دیکھیں اور سُنیں اور سمجھیں اور تیری اس نعمت کا جو تُو نے اپنے وقت پر نازل کی ہے قدر پہچان کر اس کے حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہو جائیں۔اگر تُو چاہے تو تُو ایسا کر سکتاہے کیونکہ کوئی بات تیرے آگے اَنْ ہونی نہیں۔آمین ثم آمین۔ ’’
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3ص120)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘یا الٰہی میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتاہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے ۔مجھے کوئی قدرت نہیںاور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور توہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میں بہترہے بلحاظ دین اور دنیا کے تو توُ اسے میرے لئے مقدر کردے اور اسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے۔اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے توتُو مجھ کو اس سے باز رکھ۔’’
(اخبار البدر جلد1نمبر10ص8،7)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اول توبہ نصوح کر کے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں۔جس کی پہلی رکعت میں سورہ یٰسین اور دوسری میں اکیس مرتبہ سورہ اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر و کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک جو مسیح موعود اور مہدی اور مجددالوقت ہونے کا دعوٰی کرتا ہے کیا حال ہے۔ کیا صادق ہے یا یہ کاذب۔اور مقبول ہے یا مردود اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما تا اگر مردُود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں۔اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہو جائیں۔ ہمیں ہر ایک فتنہ سے بچا ہر ایک مقدرت تجھ کو ہی ہے۔آمین
یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتہ کریں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر کیونکہ جو شخص پہلے ہی بُغض سے بھرا ہوا ہے اوربدظنی اس پرغالب آگئی ہے اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی بُرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پُر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ ص 512)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘‘اور مَیں دُعا کرتا ہوں کہ خدا اِس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنا دے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خوابگاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدّم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی۔ اور خدا کیلئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
پھر مَیں دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔
پھر مَیں تیسری دفعہ دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور و رحیم تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچّا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں۔اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تُو راضی ہے۔ اور جن کو تُو جانتا ہے کہ وہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے۔ اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کیساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔اٰمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔’’
(رسالہ الوصیۃ روحانی خزائن جلد 20صفحہ316-318)
(…………باقی آئندہ)