بین المذاہب ہم آہنگی اوراسلامی جمہوریہ پاکستان
بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کیے بغیرپاکستان میں اخلاقی اورمالی انقلاب نہیں آسکتا
اجتماعی عقل کا فقدان مذہبی غلط فہمیوں ،تشدداور غیرمنصفانہ سماجی رویوں کو جنم دیتا ہے
٭…محمدضیاء الحق نقشبندی روزنامہ جنگ کی آن لائن اشاعت مؤرخہ 15؍فروری 2020ء زیرعنوان ‘‘بین المذاہب ہم آہنگی ’’ میں لکھتے ہیں کہ
‘‘وقت کی ضرورت ہے کہ ہم تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اور یکساں سلوک کریں۔ کثیر مذہبی ریاست کی حیثیت سے پاکستان مذہبی اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیازی سلوک، عدم توازن اور اُنہیں نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہے۔
اقلیتوں کی اپنی کثیر جہتی اہمیت ہے۔ لہٰذا یہ نظریہ پاکستانی عوام کے تمام طبقات کو قبول کرنا چاہیے کہ بین المذاہب ہم آہنگی آبادی کے مذہبی معاملات کو مثبت طور پر ترقی دےگی جس سے اخلاقی اور مالی انقلاب آئے گا۔پاکستان میں تعلیمی سیمینار، یونیورسٹیوں، میڈیا، ورکشاپس اور جلسوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دینا انتہائی ضروری ہے۔
اجتماعی عقل کا فقدان، مذہبی غلط فہمیوں، اقلیتوں کے لیے غیر منصفانہ انتخابی طریقہ کار، جہاد کی غلط بیانی، جزوی اور متعصبانہ مذہبی گفتگو، غیرمسلموں کی پاکستان سے ہجرت، اقلیتوں کے مقدس مقامات کا عدم تحفظ، غیرمنصفانہ سماجی و اقتصادی وسائل کی تقسیم، قومی تعلیمی نصاب میں بنیادی اسلامی مآخذ کا شامل نہ ہونا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان متنوع ثقافتی، نسلی اور مذہبی پسِ منظر کے لوگوں کا گھر ہے۔ اس طرح کے تغیرات مختلف گروہوں کے مابین غلط فہمیاں اور تنازعات پیدا کرتی ہیں۔ چاہے وہ پورے ملک میں مسلمانوں میں فرقہ وارانہ تشدد ہو، زبان کی ہنگامہ آرائی ہو یا غیرمسلموں کے خلاف مسلسل تشدد۔
پاکستان میں بیشتر تشدد دوسرے عقائد کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ گذشتہ کچھ عشروں کے دوران، مذہبی رہنمائوں کے ذریعہ خصوصاً نوجوانوں میں فرقہ وارانہ تشریحات کے فروغ نے تنازعات کو جنم دیا، ایسے افراد یا گروہ پیدا ہوئے جنہوں نے دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔
یہاں تک کہ ہمارا نظامِ تعلیم بھی متعصبانہ اور غلط رائے کی حمایت کرتا ہے۔ مثلاً جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی اُن کو نصاب میں شامل کرنا، اس طرح کے نصاب سے بچوں کی غیرمسلموں اور ان کے اعتقاد کی طرف امتیازی بنیاد تیار ہوتی ہے جو اُن کی باقی زندگی میں زیادہ پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
اس طرح کے بنیادی نظریات کو تب ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے جب ہر شخص دوسرے مذاہب کو جانتا ہو اور اپنے بنیاد پرست اقدامات کے حقیقی انجام کو سمجھتا ہو۔ 15تا29سال کی عمر کی نصف سے زیادہ آبادی کے ساتھ نوجوان پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی سمت تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
قائداعظم نے اسلامی اصولوں کے تحت ہی کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، مساجد، مندروں اور گرجا گھروں میں جانے کے لیے۔’’
( بحوالہ : https://jang.com.pk/news/733993 )
جمہوریت اقلیت کو اکثریت کےجذبات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے ورنہ یہ جمہوریت نہیںاکثریت کا جبر ہے
٭…مکرم رفیع عامرصاحب کا ایک فکرانگیز کالم آن لائن جریدہ “ ہم سب” کی اشاعت مؤرخہ 3؍مارچ 2020ء میں زیرعنوان “ نریندرمودی،ختم نبوت اور جمہوریت” شائع ہوا ہے۔ اس کا منتخب حصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
“جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے بھی زیادہ مقدس چیزیں ہیں جن میں سرفہرست شہری حقوق ہیں۔ پاکستان سمیت جمہوری دنیا کے تمام آئینوں میں ایسی شقیں رکھی گئی ہیں جو مقننہ کو پابند کرتی ہیں کہ وہ کوئی ایسی قانون سازی نہیں کرے گی جس سے شہریوں کے حقوق متاثر ہوتے ہوں یا حقوق میں امتیاز رکھا جائے۔ ایسی قانون سازی کے نتیجے میں عدلیہ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے منسوخ کر دے۔
یہ سب کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ جب نریندر مودی کی پارٹی نے شہریت کا نیا بل پاس کیا تو بی جے پی کے دانشوروں کا ارشاد تھا کہ ایسا کرنے کی اجازت انہیں جمہوریت نے دے رکھی ہے۔ یہ حقیقت کے بالکل بر عکس ہے۔ یہ جمہوریت نہیں اکثریت کا جبر ہے جو شہری حقوق میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ افسوس ہوا کہ بھارتی عدلیہ نے اس قانون سازی کو منسوخ نہیں کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح جمہوری نظام تو موجود ہے لیکن جمہوری عمل میں بہت سے سقم ہیں۔
ادھر پاکستانی حلقوں میں بھی اس قانون کی واضح مذمت کی گئی اور اسے بجا طور پر جمہوریت کی روح سے روگردانی کہا گیا۔ ہم بھارت کے تناظر میں تو جمہوریت اور اکثریت کے جبر میں فرق جان چکے ہیں لیکن شاید خود احتسابی سے کتراتے ہوئے اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔
پاکستان میں کئی دفعہ اکثریت اپنی رائے بالجبر نافذ کر چکی ہے جس کی سب سے بڑی مثال 1974ء میں پاکستانی پارلیمان کا احمدی پاکستانیوں کو غیر مسلم قرار دینا تھا۔ غیر مسلم صرف لیبل نہیں بلکہ اس کی زد میں احمدیوں کے شہری حقوق آتے ہیں۔ یہ وہ سیڑھی تھی جس پر چڑھ کر بعد میں جنرل ضیا ءالحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس پاس کیا جس کے تحت احمدیوں پر وہ پابندیاں لگائی گئیں جو دنیا کے کسی بھی پیمانے پر بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
میں بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان میں مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتی ہے اور انہیں یہ رائے رکھنے کا حق ہے۔ اگر کبھی کسی نے ان کا یہ حق چھیننے کی کوشش کی تو جمہوریت پسند ایسے اقدام کی بھی مخالفت کریں گے۔ جیسے کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے کو غیر مسلم سمجھے اور قرار دے، اسی طرح آر ایس ایس کے بنیاد پرستوں کو بھی یہ رائے رکھنے کا حق حاصل ہے کہ بھارتی ہونا ہندو ہونے سے مشروط ہے۔ لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اکثریت رکھنے کی بنا پر اپنی رائے ریاست پر مسلط کر دے۔ یہ جمہوریت نہیں، اکثریت کا جبر ہے۔
دنیا میں احمدیوں سے مماثلت رکھنے والی ایک اَور جماعت بھی ہے جس کی بنا امریکہ میں رکھی گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عمومی طور پر مورمنز کہا جاتا ہے۔ یہ یسوع مسیح کے علاوہ اٹھارہ سو پانچ میں پیدا ہونے والے جوزف سمتھ کو اپنا نبی مانتے ہیں اور اسی پر بس نہیں۔ یہ اس کے بعد آنے والے ہر جماعتی سربراہ کو بھی نبی مانتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ ان کے نظریات مسیحیت سے خاصے مختلف ہیں، یہ لوگ خود کو مسیحی ہی کہتے ہیں۔ بہت سے مسیحی رہنماؤں کے مطابق ان لوگوں کے پاس خود کو مسیحی کہنے کا حق نہیں لیکن امریکی ایوان نمائندگان کا کوئی رکن سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کبھی پارلیمان میں یہ بل پیش کرے کہ مورمنز کو غیر مسیحی قرار دیا جائے۔ بفرض محال کوئی ایسی قرارداد پیش کر بھی دے اور کسی معجزے کے نتیجے میں امریکی پارلیمان اس قرارداد کو منظور بھی کر لے تو امریکی عدلیہ ایک دن میں اس قرارداد کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے گی کیونکہ ریاست کا تعلق شہریوں کے حقوق و فرائض سے ہوتا ہے ، ان کے عقائد سے نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت ایسے مسائل میں جذباتی ہوا کرتی ہے جو کہ درست بھی ہے اور انہیں اس کا حق بھی ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ریاست عوام کے جذبات کو مدنظر رکھ کر کچھ اقدام کر دے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ یہاں مجھے اختلاف ہے۔
ریاست کبھی بھی نہ جذباتی ہو سکتی ہے اور نہ ہی جذبات کا احترام کرنا اس کا کام ہے۔ ریاست کا کام اکثریت کے جذبات پر اقدام کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس اقلیت کو اکثریت کے جذبات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس میں پاکستانی اور بھارتی ریاستیں، دونوں ناکام ہوئیں۔ یہ جمہوریت نہیں، اکثریت کا جبر ہے جس میں دو بھیڑیوں اور ایک بھیڑ میں ووٹنگ کروائی جاتی ہے کہ رات کے کھانے میں کیا ہوگا۔’’
بحوالہ: https://www.humsub.com.pk/303148/rafi-aamir-12/
(مرسلہ:احمد طارق مرزا، آسٹریلیا)