خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍اپریل 2020ء

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں وبائی امراض سے بچنے کی تلقین

موجودہ حالات میں خاص طور اپنے پیاروں، عزیزوں، ساری جماعت اور پوری انسانیت کے لیے دعائیں کرنے کی تحریک

انتہائی مخلص کارکن اور خادمِ سلسلہ ، ممبر عملہ حفاظت خاص محترم ناصر احمد سعید صاحب کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍اپریل 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 10؍اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمدصاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل کورونا کی وبا کی وجہ سے جو دنیا کے حالات ہیں اُس نے اپنوں اور غیروں سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ لوگ خط لکھتے ہیں اور اپنے پیاروں،قریبی رشتےداروں کی بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہیں، اگر جسم کم زور ہو تو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اِس وبا کو لے ہی نہ لے۔احمدیوں میں سے کچھ کو اس بیماری کا حملہ ہوا بھی ہے۔ سب کو ایک پریشانی نے گھیرا ہوا ہےاوردنیا کو کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ آج کل کے زمانے کے متعلق قرآن کریم میں یہی فرماتا ہے کہ وقال الانسان مالھا انسان کہہ اٹھے گا کہ اُسے ہوکیا گیا ہے؟

حضرت مصلح موعودؓ نے آج سےتقریباً سو سال پہلےاِس آیت کی مختصر وضاحت فرمائی تھی کہ پہلے ایک آدھ وبا یا ابتلا آتے تھے لیکن اب یہ زمانہ ایسا ہے کہ ابتلاؤں کے دوازے کُھل گئے ہیں۔ مَیں بھی گذشتہ کئی سالوں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد اور آپؑ کے دنیا کو آفات سےہوشیار کرنے کے بعدطوفان،زلزلے اور وبائیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔عمومی طور پر یہ آفات انسان کو ہوشیار کرنےکےلیے آرہی ہیں کہ تم حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرو۔ پس اِن حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے زیادہ جھکنا چاہیے اوردنیا کو ہوشیار بھی کرنا چاہیے۔ بعض وبائیں،بیماریاں یا طوفان ایسے ہوتے ہیں کہ قدرتی طور پر اُس کا اثر بشمول مؤمنین کے سب پر پڑتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ مؤمن ان مشکلات سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے گزر جاتا ہے۔
بعض لوگ ایسے تبصرے کردیتے ہیں کہ یہ وبا نشان کے طور پر ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جیسا کہ مَیں نے کہا عمومی طور پر حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد سے زمینی اور آسمانی بلائیں بہت بڑھ گئی ہیں لیکن اس وبا کو حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے کے طاعون کے ساتھ مِلانا یہ درست نہیں۔ طاعون حضورؑ کےلیے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوا تھا حضورؑ نے اس کا اعلان بھی فرمایا تھا اس لیے اُس طاعون کی علیحدہ حیثیت تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جب قہرِالٰہی نازل ہوتا ہے تو پھر بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا۔ دیکھو طوفانِ نوح سب پر پڑا ، ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد ،عورت اور بچے کو اِس سے پوری طرح خبر نہ تھی کہ نُوح کا دعویٰ اور دلائل کیا ہیں۔ اسی طرح اسلامی جہاد جو آنحضرتﷺ کے واسطے نشان تھا اُس میں فتوحات بھی ہوئیں لیکن بعض جگہ شکستیں بھی ہوئیں۔ ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے نشان ہے، ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ فرمایا سب سے اوّل حقوق اللہ کو ادا کرو اپنے نفس کوجذبات سےپاک رکھو۔پھر حقوق العباد کو ادا کرو۔ خدا پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ دعا کرتے رہو۔ اس کے بعد ظاہری اسباب کی رعایت رکھو۔ جو تم میں سے طاعون میں مبتلا ہوجائے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہم دردی کرو لیکن ہم دردی کے یہ معنی نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہوجاؤ۔ حضورِ انور نے فرمایا اِس بات سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جو بھی مدد کرنے والے ہیں انہیں ماسک پہننا اور اس طرح کی دوسری احتیاطوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اسی طرح بِلا وجہ لوگوں کے گھروں میں آنے جانےسے بھی بچنا چاہیے۔ یہاں یو۔کے میں حکومت نے چہل قدمی کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت دی ہے تو اُن قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔ خدام الاحمدیہ کے رضاکار جو انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں وہ دعاؤں اور تمام احتیاطوں کے ساتھ مدد کے فریضے کو انجام دیں۔ بےاحتیاطیوں سے بچیں اور بِلا وجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ جہالت ہے کوئی بہادری نہیں۔

طاعون سےمرنے والوں کی نسبت حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ وہ شہید ہے اس کے لیے غسل اور کفن کی ضرورت نہیں۔حضورِ انور نے فرمایا یہاں تو حکومت نےغسل اور کفن پہنانے کی کچھ حد تک اجازت دی ہوئی ہے۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں گھروں کی صفائی بہت زیادہ کرو۔ کپڑوں کی صفائی رکھو اور نالیاں بھی صاف کراتے رہو۔ حضورِانور نے فرمایا کہ غیرترقی یافتہ ممالک جہاں نالیاں کھلی ہوتی ہیں یہ بہت ضروری چیز ہے کہ نالیاں صاف رکھی جائیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں سب سے مقدّم یہ ہے کہ اپنے دِلوں کو صاف کرو اور خداتعالیٰ سے پوری صلح کر لو۔حضورِانور نے فرمایا ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا دروازہ کُھلا ہے ۔ اس یقین کے ساتھ خداتعالیٰ کے آگے جھکیں کہ خداتعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہوکر اُس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے کِس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ اپنے لیے،اپنے پیاروں، عزیزوں ، ساری جماعت اور عمومی طور پرپوری انسانیت کےلیے دعائیں کرنی چاہئیں۔

دنیا میں بشمول احمدیوں کے بہت سےا یسے لوگ ہیں جن کے پاس احتیاط کے، علاج کےسامان نہیں۔ کھانے پینے کی سہولتیں نہیں۔اللہ تعالیٰ اُن پر بھی اور ہم پر بھی رحم فرمائے۔ جماعتی طور پر ہم کوشش کرتے ہیں کہ اِن حالات میں خوراک وغیرہ اور علاج کی سہولتیں ہر احمدی تک ، بلکہ غیروں تک بھی ، جہاں ضرورت ہو پہنچائیں لیکن پھر بھی کمی رہ جاتی ہے۔ہم یہ خدمت خالصتاً ہم دردی کے جذبے سے کرتے ہیں لیکن بعض متعصب میڈیا کے ذرائع اور نام نہاد علما یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ احمدی یہ خدمت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ اِن کی تبلیغ کے رستے کھلیں۔ ہمیں اِن الزاموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ہمارے جذبے کو جانتا ہے۔

حضورِ انورنے احمدی تاجروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اِن دنوں میں اپنی چیزوں پرغیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں بلکہ کھانے پینے کی چیزوں اورضروری لازمی اشیا کم ازکم منافع پر بیچیں۔ یہی خدمتِ انسانیت کے دن ہیں جس کی حضرت مسیح موعودؑنے بھی تلقین فرمائی ہے کہ ہم دردی کاجذبہ پیدا کرو۔ حقوق العباد کی ادائیگی اور اِس ذریعے سے خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی یہی دن ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہر ایک کو، جو بھی کاروباری لوگ ہیں اس کی توفیق عطافرمائے کہ وہ ان حالات میں بجائےغیرضروری منافعوں کے ہم دردی کے جذبے کے تحت اپنے کاروباروں کو چلائیں۔

اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطافرمائے۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِ انور نے ایک انتہائی مخلص کارکن اور خادمِ سلسلہ محترم ناصر احمد سعید صاحب کا ذکرِ خیر فرمایا۔ مرحوم 5؍اپریل کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ 1951ء میں ڈسکہ ضلع سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔1973ء میں ان کا تقرر بطور کارکن حفاظتِ خاص ہوا۔ حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد 1985ءمیں اِن کا ربوہ سے لندن تبادلہ ہوگیا۔ خلافتِ ثالثہ سے لےکر خلافتِ خامسہ میں اب تک اِن کوڈیوٹی کی سعادت ملی۔پس ماندگان میں اہلیہ کُلثوم بیگم صاحبہ اور ایک بیٹے خالد سعید صاحب ہیں۔

مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ان کو بڑا سچّا پیار کا تعلق تھا۔دلی خواہش تھی کہ خلافت کے دَر پر جان نکلے۔ اِن کی روح کامحور صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ تھی۔بڑی ایمان داری اور مستعدی سے ڈیوٹی دیتے۔ اگر بصیغہ راز کوئی پیغام ہوتا تو ہمیشہ اُسےراز رکھتے۔ایک موقعے پر اپنے ایک ساتھی کارکن کے کہنے پر کہ مجھے کوئی نصیحت کریں آپ نے کہا کہ یہاں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا اور زبان بند رکھنا اور اس کے ساتھ دعا کرتے رہنا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ نصیحت عمومی طور پر ہر واقفِ زندگی ،ہر کارکن اور ہر عہدےدار کے لیے ضروری ہے۔

اپنے عزیز و اقارب سے نہایت پُرخلوص محبت کا سُلوک رکھتے، بہت سے ضرورت مند اقربا کی خاموشی سے امداد کرتے رہتے۔مہمان نوازی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مَیں اِن کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ جماعت کی خدمت کےلیے ربوہ آئے تھے۔بہت سے لوگوں نے اِن کے عمدہ اخلاق کی تعریف کی ہے، ہر ملک سے خط آرہے ہیں۔ یقیناً سب لکھنے والوں نے جو بھی لکھا ہے اُس میں بڑی حقیقت ہے۔ بڑے بےلوث ہوکر خدمت کرنے والےاور کامل اطاعت کرنے والے تھے۔ ان کی وفات ایسے حالات میں ہوئی ہے کہ زیادہ افراد جنازے میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اس وجہ سے مَیں بھی کسی وقت بعد میں اِن کا جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔اپنے عہد کو وفا سے نبھاتے ہوئے یہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ یہ اُن لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ یہ شہید ہیں ۔ تمام احمدی جن کی اس بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اُن سے بھی رحم اور مغفرت کا سُلوک فرمائے۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ کیا ہے ہماری تو یہی دعا ہے کہ ہر ایک اللہ تعالیٰ کا رحم اور مغفرت حاصل کرنے والا ہو۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button