وبائی امراض کے ایام میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری احتیاطی تدابیر(قسط دوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاپنجاب میں وبائی مرض کے زمانہ میں گورنمنٹ کی احتیاطی تدابیرکی تائید فرمانا
اس مضمون کی گزشتہ قسط میں یہ امر واضح کیا گیاتھا کہ اس تحریر کا مقصد وبائی امراض کے ایام میں دعا پر زور دینے اور خدا تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے ساتھ ساتھ ان موذی وباؤں سے بچنے کے لیے ظاہری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طرزِ عمل احباب کے سامنے پیش کیا جائے۔چنانچہ اسی مناسبت سے اس مضمون کی دوسری قسط درج ذیل ہے۔
حضرت المصلح الموعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’اُسی سال ملک پنجاب میں طاعون پھوٹا اورجبکہ تمام مذہبی آدمی اُن تدابیرکے سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے انسدادِ طاعون کے متعلق نافذکی تھیں۔آپ نے بڑے زورسے اُن کی تائید کی اوراپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ اِن تدابیرکواختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسلام کاحکم ہے۔کہ ہرقسم کی تدابیرجوحفظانِ صحت کے متعلق ہوں اُن پرعمل کیاجائےاوراِس طرح آپ نے امنِ عامہ کے قیام میں بہت بڑاکام کیا۔کیونکہ اُس وقت لوگوں میں عام طورپریہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ گورنمنٹ خودہی طاعون پھیلاتی ہےاورجوتدابیراس کے انسدادکی ظاہرکی جاتی ہیں وہ درحقیقت اِ س وباء کوپھیلانے والی ہیں اوراسلام کے بھی خلاف ہیں۔چنانچہ علماء نے بڑے زورکے ساتھ فتویٰ دے دیاتھاکہ طاعون کے دنوں میں گھرسے نکلناسخت گناہ ہےاوراس طرح ہزاروں جاہلوں کی موت کاباعث ہوگئے۔چوہے مارنے کی گولیاں تقسیم کی گئیں توانہی کو باعثِ طاعون قراردیاگیا۔پنجرے دیئے گئے توان پراعتراض کیاگیا۔غرض اس طرح شورش برپاتھی اوربعض حکامِ سرکار پرحملے بھی ہوئے۔ایسے وقت میں آپ کے اعلان اورآپ کی جماعت کے عمل کودیکھ کردوسرے لوگوں کوبھی ہدایت ہوئی اورآپ نے مسلمانوں کو آگاہ کیاکہ طاعون کے دنوں میں گھروں سے باہرنکلنااوربستی سے باہررہنااسلام کی رُوسے منع نہیں۔بلکہ منع صرف یہ بات ہے کہ ایک شہرسے بھاگ کر دوسرے شہرمیں جائے۔کیونکہ اس سے بیماری کے دوسرے شہروں میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتاہے۔‘‘
(سیرت مسیح موعودعلیہ السلام از حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ 41)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طاعون کے ایام میں اپنے گھرکی فضا کوصاف رکھنا
حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمٰعیل صاحبؓ کی روایت ہے کہ’’ پلیگ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دوا جس کا نام’’درونجِ عقربی ‘‘ہے اور اس کی شکل بچھوکی طرح ہوتی ہے تاگے میں باندھ کر گھر میں کئی جگہ لٹکا دی تھی۔اور فرماتے تھے کہ حکماء نے اس کی بابت لکھا ہے کہ یہ ہوا کو صاف کرتی ہے۔‘‘
( سیرۃ المہدی صفحہ773 روایت نمبر874)
اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے تعامل کے متعلق حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کی روایت ہے۔
’’جب قادیان میں طاعون ہوئی(1902ء اوراس کے قریب)توحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مکان کے صحن میں ایک بڑاڈھیرلکڑیوں کاروزانہ جلایاکرتے تھے۔فرماتے تھے کہ اِس سے طاعون کے جرم ہلاک ہوجاتے ہیں اورخودہمیشہ اوپرکی منزل میں مقیم رہتے تھےاوراحباب کوبھی فرمایاکرتے تھے کہ حتی الوسع اوپرکی منزلوں میں رہاکریں۔‘‘(ذکرِ حبیب ازحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ 83)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ کواحتیاط اختیارکرنےسے متعلق ارشاد
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مسلسل ان مہلک وبائی ایام میں اپنے محبین کو بذریعہ خطوط، زبانی ، اشتہارات تحریرات غرض جس طور ممکن ہوسکتا تھا، احتیاط اورطاعون زدہ علاقوں میں نہ جانے کی تلقین فرمارہے تھے۔اسی طرح کے ایک مکتوب میں آپ نے حضرت نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:
’’قادیان میں تیزی سے طاعون شروع ہو گئی ہے۔ آج میاں محمد افضل ایڈیٹر اخبار البدر کا لڑکا جاں بلب ہے۔ نمونیا پلیگ ہے۔ آخری دم معلوم ہوتا ہے۔ ہر طرف آہ وزاری ہے۔ خدا تعالیٰ فضل کرے۔ ایسی صورت میں میرے نزدیک بہت ہے کہ آپ آخیر اپریل ۱۹۰۵ء تک ہرگز تشریف نہ لاویں۔ دنیا پر ایک تلوار چل رہی ہے۔ خدا تعالیٰ رحم فرمائے۔‘‘
(مکتوباتِ احمدجلددوم صفحہ 286مکتوب نمبر 76)
حضرت مسیح موعودؑ کی افرادِ جماعت کوچندبنیادی ہدایات
یکم اپریل1907ء کو حضورعلیہ السلام صبح کے وقت مع اصحاب باہر سیر کے واسطے تشریف لے گئے۔ راستہ میں حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ ایڈیٹراخبارالبدر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ
’’اخبار میں چھاپ دو اور سب کو اطلاع کر دو کہ یہ دن خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار مجھے بذریعہ وحی فرمایا ہے کہ غَضَبتُ غَضَبًا شَدِیدًا۔ آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتاہے اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ میں اپنی جماعت کے واسطے خدا تعالیٰ سے بہت دُعا کرتاہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے۔ مگر قرآن شریف سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتاہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر ان کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہوگا۔ دیکھو حضرت نوحؑ کا طوفان سب پر پڑا۔ اور ظاہر ہے کہ ہر ایک مرد عورت اور بچے کو اس سے پورے طور پر خبر نہ تھی کہ نوحؑ کا دعویٰ اور اس کے دلائل کیا ہیں۔ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں وہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ لیکن ہر ایک میں کفار کے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ کافر جہنم کوگیا اور مسلمان شہید کہلایا۔ ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ ہم خداتعالیٰ کے حضور دعا میں مصروف ہیں کہ وہ ان میں اور غیروں میں تمیز قائم رکھے لیکن جماعت کے آدمیوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھنے سے کچھ نہیں بنتا ہے جب تک کہ ہماری تعلیم پر عمل نہ کیا جاوے۔ سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو۔ اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق عباد کو ادا کرو اور اعمال ِ صالحہ کو پورا کرو۔ خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دُعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کر دُعانہ کی ہو۔ اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو۔ جس مکان میں چوہے مرنے شروع ہوں اس کو خالی کردو۔ اور جس محلہ میں طاعون ہو اس محلہ سے نکل جاؤ اور کسی کھلے میدان میں جاکر ڈیرہ لگاؤ۔ جو تم میں سے بتقدیر الٰہی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اس کی مدد کرو اور اس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھو لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنے نہیں کہ اس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ۔ بلکہ اس اثر سے بچو۔ اُسے کھلے مکان میں رکھو اور جو خدا نخواستہ اس بیماری سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔اس کے وہی کپڑے رہنے دو اورہوسکے توایک سفیدچادراُس پرڈال دواورچونکہ مرنے کے بعدمیت کے جسم میں ز ہریلااثرزیادہ ترقی پکڑتاہے اس واسطے سب لوگ اُس کے گردجمع نہ ہوں۔حسبِ ضرورت دوتین آدمی اُس کی چارپائی کو اٹھائیں اورباقی سب دوراکھٹے ہوکرمثلاًایک سوگزکے فاصلے پرجنازہ پڑھیں۔جنازہ ایک دعاہے اوراس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سرپرکھڑاہو۔جہاں قبرستان دورہومثلاًلاہور میں سامان ہوسکے توکسی گاڑی یاچھکڑے پرمیت کولادکرلے جاویں اورمیت پرکسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔خداتعالیٰ کے فعل پراعتراض کرناگناہ ہے۔
اس بات کا خوف نہ کرو کہ ایسا کرنے سے لوگ تمہیں بُرا کہیں گے وہ پہلے کب تمہیں اچھا کہتے ہیں۔ یہ سب باتیں شریعت کے مطابق ہیں اور تم دیکھ لو گے کہ آخر کار وہ لوگ جو تم پر ہنسی کریں گے خود بھی ان باتوں میں تمہاری پیروی کریں گے۔
مکرراً یہ بہت تاکید ہے کہ جو مکان تنگ اور تاریک ہو اور ہوا اور روشنی خوب طور پر نہ آسکے اس کو بلا توقف چھوڑ دو کیونکہ خود ایسا مکان ہی خطرناک ہوتاہے گو کوئی چوہا بھی اس میں نہ مرا ہو اور حتی الامکان مکانوں کی چھتوں پررہو۔ نیچے کے مکان سے پر ہیز کرو اور اپنے کپڑوں کو صفائی سے رکھو۔ نالیاں صاف کراتے رہو۔ سب سے مقدم یہ کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اورخداتعالیٰ کے ساتھ پوری صلح کرلو۔
(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ195-194)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی میں پھوٹنے والی وبائی مرض طاعون سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم
’’کسی نے ٹیکہ لگوانے کی بابت دریافت کیا۔فرمایاحدیث شریف میں آیاہے کہ کوئی بیماری نہیں جس کی دوانہ ہو۔ٹیکہ بھی ایک دواہے۔ مسلمانوں کو اگروہ مسلمان بن جاویں تو خداتعالیٰ ہی اُن کا ٹیکہ ہے۔چاہیے کہ جس جگہ بیماری زورپکڑے وہاں نہ جاویں اورجس جگہ ابھی ابتدائی حالت ہوتووہاں سے باہرکھلی ہوامیں چلے جائیں۔مکان،بدن اورکپڑے کی صفائی کا بہت خیال رکھیں… ہماری جماعت کے لئے بہت بہترہے کہ جس جگہ کوئی چوہامرے تووہاں سے نکل جاوےاوردوراندیشی تویہ ہے کہ کہ پہلے ہی سے جگہ تجویزکرلی جاوے اورعام میل جول نہ رکھے۔صرف اپنے زیادہ قریبیوں اوردوستوں سے ملاقات رکھنی چاہیے۔ایسے دنوں میں کثرت سے پرہیزکرنی چاہیےاورگندی اورزہریلی ہواسے علیحدہ رہناچاہیے۔خداتعالیٰ بھی فرماتاہے وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ(المدثر6) اورآنحضرتﷺنےبھی ایسی جگہ پرٹھہرنے سے منع کیاتھا۔جہاں پہلے ایک دفعہ عذاب آچکاتھا۔
(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ313-314)
وبائی امراض میں احتیاط کے پیشِ نظرتعلیم الاسلام ہائی اسکول میں تعطیلات کا ارشاد
29؍مئی1904ء کو حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ ہیڈماسٹرتعلیم الاسلام ہائی اسکول نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں بغرضِ استفسارتحریراًعرض کیاکہ ’’قادیان کے اکثرحصوں سے مدرسہ میں طالبعلم جمع ہوتے ہیں اوردن بھرخلط ملط رہتاہے۔چونکہ گاؤں کے بعض حصوں میں بیماری کازورہے۔اس واسطے اگرحضورمناسب خیال فرماویں تومیراخیال ہے کہ مدرسہ ایک ہفتہ کےلئے بندکردیاجاوے۔‘‘
جس پرحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواباً تحریرفرمایاکہ’’میرے نزدیک تومناسب ہے کہ دس روزتک ان کورخصت دی جاوے۔امید ہے کہ اپریل1904ء تک تغیرِ موسم ہوجاوے گااوراس عرصہ تک ان شاءاللہ طاعون نابود ہوجائے گی ۔واللہ اعلم‘‘
ازاں بعد24؍اپریل1904ء کودوبارہ حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے حضورعلیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ’’گزشتہ تجویزکے مطابق مدرسہ یکم مئی کو کھلناچاہیے مگرتاحال شہرکی صورت ایسی نظرنہیں آتی کہ لڑکوں کوواپس بلانامناسب ہو۔ اس واسطے مناسب معلوم ہوتاہے کہ مدرسہ کچھ دن کے لئے وربندکردیاجائے۔ ورنہ دوتین روزتک طلباء واپس آنے شروع ہوجائیں گے۔ بعد اس کے کہ شہرمیں بالکل امن ہوجائے، تین چارروزمدرسہ کی صفائی وغیرہ کے واسطے بھی مطلوب ہوں گے۔ لہٰذامناسب معلوم ہواکہ مدرسہ15مئی تک اوربند کی اجائےاور طلباء کو اطلاع کردی جائے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور مولوی محمد علی صاحب سے بھی میں نے مشورہ کرلیا ہے۔ اُن کی بھی یہی رائے ہے۔ پھر جو حکم حضورؑ کا ہو۔‘‘
چنانچہ حضورعلیہ السلام نے اس مکتوب کے جواب میں تحریرفرمایاکہ’’میرے نزدیک یہ تجویز بہت مناسب ہے۔ 15 مئی 1904ء تک ضرورمدرسہ بند رہنا چاہیے۔‘‘
(ذکرِ حبیب ازحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ289-290)
وبائی موذی امراض میں خدمتِ خلق کرنے والوں کو احتیاط کی نصیحت
31مارچ1907ء کو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں کسی نے سوال کیاکہ طاعون کااثرایک دوسرے پرپڑتاہے۔ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیاحکم ہے؟
فرمایا’’طبیب اورمعالج کو چاہیے کہ وہ علاج معالجہ کرے اورہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤرکھے۔بیمار کے بہت قریب جانااورمکان کے اندرجانااس کے واسطے ضروری نہیں ہے۔وہ حال معلوم کرکے مشورہ دے۔ایساہی خدمت کرنے والوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنابچاؤبھی رکھیں اوربیمارکی ہمدردی بھی کریں۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ192)
مہلک وبائی مرض سے وفات یافتہ کا جنازہ
حضرت مفتی محمدصادق صاحب رضی اللہ عنہ نے 10؍ اپریل 1904ء کو حضورعلیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں بغرضِ اطلاع تحریراً عرض کیا کہ ’’اللہ دتہ نان پُزکا لڑکا بھٹہ پرفوت ہوگیا ہے۔ اُس کو کہلا بھیجا گیا ہے کہ خود ہی غسل دے کرباہر باہر دفن کر دے اور خود بھی دس روز تک شہر میں نہ آوے۔ اطلاعاً گزارش ہے۔‘‘
اِس عریضہ کے جواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نےجو باوجودیکہ مخلوقِ خدا سے بے پناہ ہمدردی اور محبت کا سلوک فرماتے تھے لیکن شریعت کی پاسداری اوراُس کا خیال ہمیشہ آپؑ کو تمام ترجیحات سے بالاہوتا۔حضرت مفتی صاحبؓ کوجواباًاحتیاط اور اس مہلک وبائی بیماری کےممکنہ خطرات کے پیشِ نظرہدایات دیتے ہوئےتحریرفرمایا ’’معلوم ہوتاہے کہ اِس طاعون کامادہ بہت تیزہے۔ہرگزاُسے شہرمیں نہ آناچاہیےاوروہ لڑکاباہرکاباہردفن کردیاجائے۔اورغالباًیہ نان پُزبھی متاثرہوگا۔شایدبعداس کے وہ بھی طاعون میں گرفتارہوجائے۔بہترہے کہ اس کو بالکل رخصت کردیاجائے۔سناہے کہ شیخ عبدالرحیم کے گھرمیں اس کی لڑکی خدمت کرتی ہے۔اگرچاہے تووہ بھی ساتھ چلی جائے۔اگرلڑکی رہناچاہے تواس کو نہ ملے۔مدرسہ کی صفائی کابندوبست چاہیے۔انگیٹھی سے تپایاجائے۔گندھک کی دُھونی دی جائے۔فینائل چھڑکی جائے۔خداتعالیٰ فتنہ سے بچائے۔‘‘
(ذکرِ حبیب ازحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ 276-277)
وبائی موت کاشکارمخالفین کاجنازہ
ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اور اکثر مخالف مکذب مرتے ہیں اُن کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟فرمایا کہ’’یہ فرضِ کفایہ ہے۔اگرکنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلاجاوے تو ہو جاتا ہے۔ مگر اب یہاں ایک توطاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے دوسرے وہ مخالف ہے۔ خوامخواہ تداخل جائز نہیں۔ خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑدو۔اگر وہ چاہے گاتو اُن کو خود دوست بناوے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے۔خدا نے منہاجِ نبوت پر اس سلسلہ کوچلایا ہے۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگ ابلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤ گے۔‘‘
(ملفوظات جلدپنجم جدیدایڈیشن2016ءصفحہ110)
وبائی علاقہ سے آنے والے شخص سے احتیاط
ایک مرتبہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں آیاکہ قادیان میں ایک روٹی پکانے والاکسی ایسے مقام سے آیاہے جہاں طاعون پھیلی ہوئی ہے۔چنانچہ آپ نے حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ کو تحریرفرمایا:
’’جو شخص روٹی پکانے والا آیا ہے۔سنا ہے کہ وہ ایک سخت طاعون کی جگہ سے آیا ہے اور کئی عزیز اُس کے مرگئے ہیں۔اُ س سے کم از کم دس روزتک پرہیز ضروری ہے۔سنا ہے ایک لڑکا بھی ساتھ ہے اور وہ بیمار ہے،شاید طاعون ہے۔جلد نکال دیا جائےاور جو بھانجا مولوی یارمحمد صاحب کا مر گیا ہے جلد اُس کو دفن کر دیا جائے۔مولوی یار محمد صاحب جنازہ پڑھ لیں۔بہت مجمع جمع نہ ہو۔بلاشبہ وہ طاعون سے مرا ہے۔ پوری احتیاط درکار ہے۔‘‘
(ذکرِ حبیب ازحضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ صفحہ 296)
اگروباکی کثرت ہوجائے توپھراُس علاقہ کو چھوڑنا نہیں چاہیے
9مئی 1903ء کو سیرکے دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’عام لوگوں کاخیال ہے کہ وباسے بھاگنانہ چاہیےیہ لوگ غلطی کرتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایاہے کہ اگروباکی ابتداء ہوتوبھاگ جاناچاہیےاوراگرکثرت سے ہوتوپھرنہیں بھاگناچاہیے۔جس جگہ وباابھی شروع نہیں ہوئی تب تلک اُس حصہ والے اس کے اثرسے محفوظ ہوتے ہیں اوران کااختیارہوتاہے کہ اُس سے الگ ہوجاویں اورتوبہ واستغفارسے کام لیویں۔‘‘
(ملفوظات جلدپنجم جدیدایڈیشن2016ءصفحہ122)
وبازدہ مقام پر جاناگناہ ہے
’’ایک شخص نے دریافت کیاکہ میرے اہلِ خانہ اوربچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کازورہے۔میں گھبرایاہواہوں اوروہاں جاناچاہتاہوں۔ فرمایا’’مت جاؤ لَاتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ(البقرہ196) پچھلی رات کو اٹھ کراُن کےلئے دعاکرو۔یہ بہترہوگابہ نسبت اس کے کہ تم جاؤ۔ایسے مقام پرجاناگناہ ہے۔‘‘
وبائی علاقہ میں جاناحرام موت مرناہے
حضرت چوہدری کریم بخش صاحب نمبرداررائے پورریاست نابھہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں قادیان آیاہواتھا میری بیوی بچے ساتھ تھے۔گھرسے اطلاع آئی کہ میری بھاوجہ پلیگ (طاعون)سے فوت ہوگئی اورمیرے بھائی کی لڑکی بھی فوت ہوگئی ہے۔میں نے حضرت صاحب سے اجازت چاہی۔آپ نے فرمایاجب وہاں پلیگ ہے توہم اجازت نہیں دیتے۔وہ توخودجلتے ہیں تمہیں جلاناچاہتے ہیں۔وہ خودمررہے ہیں تمہیں مارناچاہتے ہیں۔اُن کو لکھ دوحضرت صاحب ہم کو اجازت نہیں دیتے۔جب پلیگ سے امن ہوجائے توپھروہ اطلاع دیں۔اُس وقت تم کو اجازت ملے گی۔میاں کریم بخش! غورکرواگرایک مکان گررہاہواورکوئی کسی کوکہے کہ نیچے آکرکھڑاہوجا۔وہ اُس کوکیاکہے گا۔یہی کہ تومجھے مارناچاہتاہےاور’’میرے نزدیک تو پلیگ زدہ گاؤں میں جاناحرام موت مرناہے۔‘‘باہرسے ہرگزاس طرح پلیگ زدہ جگہ میں نہ جاناچاہیےاورنہ پلیگ والی جگہ سے دوسری محفوظ جگہ یعنی آبادی میں جاناچاہیے۔کیونکہ اس سے وہاں نقصان ہوگا۔
(سیرتِ احمدؑ مرتبہ قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ54)
چونکہ اس مضمون کا براہِ راست طاعون سے کچھ تعلق نہیں ہے تاہم چونکہ وبائی امراض کےضمن میں مرض طاعون کا یہاں متعددمواقع پرذکرآیاہے بایں وجہ ضمناً یہ ذکر کردینابھی مناسب ہوگا کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں یہ مرض ایک لمباعرصہ موجودرہی۔6فروری 1898ء کو آپ علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع فرمایاجس میں آپ علیہ السلام نےعرصہ دوسال سے ہندوستان میں اس مرض کی موجودگی کاذکرفرمایا۔(اس اشتہار کے متعلق قدرے تفصیلی ذکر اس مضمون کے حصہ اول میں کیاجاچکاہے)جبکہ 2؍مئی1908ء کوبمقام لاہورآپ نے فرمایاکہ’’اس سال طاعون کسی قدرکم ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ569)یعنی کم بیش گیارہ سال ہندوستان میں طاعون کی وباموجودرہی۔
ایک موقع پرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اصل میں طاعون نام ہے موت کا۔لغت میں وہ خطرناک عوارض جن کا نجام موت ہوتاہےاُس کانام طاعون ہی رکھاہےاوریہ لفظ لغت کی رُوسے بڑاوسیع ہے۔ممکن ہے کہ اب کسی اوررنگ میں نمودارہوجاوےیااسی رنگ میں آئندہ اوربھی زورسے پھوٹ نکلے…اصل میں طاعون بڑاوسیع لفظ ہے۔اَلطّاعُونُ۔اَلْمَوْتُ۔کل امراضِ دوری کانام۔یہ چیچک ہے۔ذات الجنب ہے۔تپ۔گلٹیاں۔قے۔سکتہ۔اس قسم کی کل امراض اس میں داخل ہیں۔یہ لفظ یادرکھنے کے قابل ہے۔کہ صحابہؓ کے وقت میں بھی ایک قسم کا طاعون پھوٹاتھا۔مگروہ بہت باریک ایک دانہ کی طرح پھنسی ہوتی تھی جوکہ ہتھیلی میں نکلتی تھی۔اکثردیکھاگیاہے کہ غشی اورنیندکی حالت میں اوربعض ہنستے ہنستے ہی اِس دنیاسے چل گزرتے ہیں۔بعض کوخون کے جلاب لگ جاتے ہیں۔بعض کسی کوعلم بھی نہیں ہوتاکہ ہواکیا۔دس آدمی تھے رات اچھے بھلے سوئے،مگرصبح ہوتے ہی اُن میں سے ایک بھی زندہ نہ اٹھا۔غرض اس قسم کے کئی واقعات ہیں کہ ان سے معلوم ہوتاہے کہ اس مرض کا کسی کوپتہ نہیں لگااوراِس کے کئی رنگ ہیں۔
(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ569-570)
کسی احمدی کا طاعون سے مرنے کے حوالے سے آپؑ فرماتےہیں:
’’مخالفین کایہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مرتے ہیں بالکل ناجائزہے۔ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والاکوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتارنہ ہوگا۔ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اول طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتارہوکرنہیں مرتے۔کوئی نبی، صدیق، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا۔حضرت عمرؓ کے مانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی۔مگرکیاحضرت عمرؓ پربھی اس کااثرہواتھا۔عظیم الشان صحابہؓ میں سے کوئی طاعون میں گرفتارنہیں ہوا۔ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغبرگرے ہیں۔کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ اُن میں سے کوئی طاعون سے مراہے۔ہاں اِ س میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنیٰ طبقہ کے مومنین طاعون میں گرفتارہوتے ہیں مگروہ شہیدہوتے ہیں۔خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئے۔ اگرچہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفار جہنم میں گرائے جائیں گے۔ تا ہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی شہیدنہیں ہوا۔ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہو جائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دےگا۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم ایڈیشن1988ء صفحہ218)
جملہ تدبیروں کے بعدآخری ہتھیاردعاہے
وباؤں کے ایام میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کے ظاہری تدبیراور پھرحقیقی اورواحدشافی خداتعالیٰ کی ذات پربھروسہ کے پہلوکے متعلق درج ذیل واقعہ بخوبی روشنی ڈالتاہے۔ حضرت حکیم فضل الدین صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے بھتیجے اوردامادتھے، کی روایت ہے:
’’1907ء میں میرادوسرالڑکاعبدالحفیظ تولّدہوا۔سردی کے ایام تھےاوران دنوں میں بہت زچہ عورتیں تشنج کی مرض سے مررہی تھیں۔زچہ کے لئے یہ مرض بہت خطرناک ہوتی ہے۔سینکڑوں میں سے کوئی ایک بچتی ہوگی۔
میری بیوی حفصہ (بنت حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ) کو بچہ تولّدہونے کے ساتویں دن مغرب کے قریب اس کے آثار معلوم ہوئے۔چونکہ ان دنوں میں یہ وباتھی اس لئے اس کی طرف بہت توجہ ہوگئی۔میں مغرب کے بعدحضرت صاحب کی خدمت میں دوڑاگیااوراُن سے عرض کی ۔آپ نے فرمایایہ توبڑی خطرناک مرض کاپیش خیمہ ہے۔تم فوراًاس کو دس رتی ہینگ دےدواورگھنٹہ ڈیڑھ کے بعدمجھے اطلاع دو۔میں عشاء کے بعد پھرحاضرہوااورعرض کیاکہ مرض میں ترقی ہوگئی ہے۔فرمایادس رتی کونین دے دواورایک گھنٹہ کے بعدپھرمجھے اطلاع دواوریہ نہ سمجھناکہ میں سوگیاہوں۔بے تکلف مردانہ سیڑھیوں سے آوازدو۔میں نے عرض کیااِس وقت مشک کہاں سے لاؤں۔حضورایک مٹھی بھرکرمشک کی لے آئے۔فرمایایہ دس رتی ہوگی۔میں نے عرض کیاحضوریہ زیادہ ہے۔فرمایالے جاؤپھرکام آوے گا۔میں نے وہ لے لی اوردس رتی مریضہ کودے دی۔ایک گھنٹہ بعدپھرگیااورعرض کیاکہ مرض میں بہت اضافہ ہوگیا۔فرمایادس تولہ کسٹرآئل دے دو۔میں نے آکردس تولہ کسٹرآئل دے دیا۔اس کے بعداُس کوسخت قے ہوئی اورقے اِس مرض میں آخری مرحلہ ہوتاہے۔قے کے بعداُس کاسانس اکھڑگیا،گردن پیچھے کوکھچ گئی۔آنکھوں میں اندھیرآگیااورزبان بندہوگئی۔میں پھربھاگ کرسیڑھیوں پرچڑھا۔حضورنے میری آواز سن کردروازہ کھول دیااورفرمایاکیوں خیرہے۔میں نے عرض کیاکہ اب توحالت بہت نازک ہوگئی ہے۔سانس اکھڑگیاہے،گردن کھچ گئی،آنکھوں میں روشنی نہیں،زبان بندہوگئی ہے۔فرمایادنیاکے جتنے ہتھیارتھے وہ توہم نے چلالئے۔اب ایک ہتھیارباقی ہے اوروہ دعاہے۔تم جاؤ،میں دعاسے اُس وقت سراٹھاؤں گاجب اسے صحت ہوگی۔میں یہ سن کرواپس لوٹ آیا۔اوراسے کہااب تجھے کیافکرہے ۔اب توٹھیکیدارنے خودٹھیکہ لے لیاہے۔اُس وقت رات کے دوبج چکے تھے۔میں گھرآیااورمریضہ کواسی حالت میں چھوڑ کردوسرے کمرے میں چارپائی لے کرسورہا۔صبح کو کسی برتن کی آہٹ سے میری آنکھ کھلی۔جب میں نے دیکھاتومیری پائینتی کی طرف میری بیوی کچھ برتن درست کررہی تھی۔میں نے پوچھاکیاحال ہے۔کہاآپ توسورہےاورمجھے دوگھنٹے کے بعداللہ تعالیٰ نے فضل کردیا۔الحمدللّٰہ رب العٰلمین
(سیرتِ احمدؑ مرتبہ قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ170تا172)
ہمارے پیارے اما م سیدناحضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبھی اما م الزمان علیہ السلام کے اسی اسوہ کواپنائے ہوئے ہمیں بارباردعاکے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیرکے التزام کی تلقین بھی فرمارہے ہیں۔
آپ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍مارچ2020ء میں فرمایا’’ جو آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے لیے احتیاطی تدابیر بھی کرتے رہیں اور مسجدوں میں بھی جب آئیں تو احتیاط کر کے آئیں۔ ہلکا سا بخار وغیرہ ہو، جسم کی تکلیف ہو تو ایسی جگہوں پہ نہ جائیں جہاں پبلک جگہیں ہیں اور خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔‘‘
( الفضل انٹرنیشنل 3؍اپریل 2020ءصفحہ9)
آپ خطبہ جمعہ مؤرخہ6؍مارچ2020ء میں فرماتےہیں’’ جیسا کہ حکومتوں اور محکموں کی طرف سے حکومتوں کے اعلان ہو رہے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر پر ہمیں، سب کو عمل کرنا چاہیے…آج کل جو ڈاکٹرز احتیاط بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ صاف رکھیں۔ ہاتھ اگر گندے ہیں تو چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں اور ہاتھوں پر سینیٹائزر (sanitizer) لگا کر رکھیں یا دھوتے رہیں لیکن مسلمانوں کے لیے، ہمارے لیے اگر کوئی پانچ وقت کا نمازی ہے اور پانچ وقت باقاعدہ وضو بھی کر رہے ہیں، ناک میں پانی بھی چڑھا رہے ہیں اور اس سے ناک صاف ہو رہا ہے اور صحیح طرح وضو کیا جا رہا ہے تو یہ صفائی کا ایک ایسا اعلیٰ معیار ہے جو سینیٹائزر کی کمی بھی پورا کر دیتا ہے…پھر یہ ہے کہ آج کل کہا جا رہا ہے مصافحوں سے پرہیز کرو۔ یہ بھی بڑا ضروری ہے۔ کوئی پتا نہیں کس کے ہاتھ کس قسم کے ہیں۔ اس لحاظ سے گو مصافحوں سے تعلق بڑھتا ہے، محبت بڑھتی ہے لیکن آج کل اس بیماری کی وجہ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔
(الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2020ءصفحہ 13تا17)
آپ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 20؍مارچ کواس ضمن میں احتیاطی تدابیرکے حوالہ سے فرمایا’’ہرایک کوبہت احتیاط کی ضرورت ہے۔حکومتی ہدایات پرعمل کریں۔بڑی عمر کے لوگ،بیمارلوگ،ایسی بیماری میں مبتلالوگ جن کی قوتِ مدافعت جسم کی کم ہوجاتی ہےاُن کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔بڑی عمرکے لوگ گھروں سے کم نکلیں اور یہی حکومتی اعلان بھی ہے۔سوائے اس کے کہ بہت اچھی صحت ہوعموماًگھرمیں رہناچاہیے…پھرعموماًڈاکٹرزبھی آجکل یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے جسم کی قوتِ مدافعت بڑھانے کے لئے اپنے آرام پربھی توجہ دینی چاہیے۔اس کے لئےاپنی نیندکوپوراکرناچاہیے۔اپنی نیندپوری کریں…اسی طرح بچوں کوبھی عادت ڈالیں کہ جلدی سوئیں اورجلدی اٹھیں…پھربازاری چیزیں کھانے سے پرہیزکریں ان سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں…پھریہ بھی ڈاکٹرآجکل کہتے ہیں کہ پانی باربارپیناچاہیے۔ضروری ہے کہ ایک گھنٹے بعد،آدھے پونے گھنٹے بعدایک دوگھونٹ پی لیں۔یہ بھی بیماری سے بچنے کےلئے ایک ذریعہ ہے۔ہاتھوں کوصاف رکھناچاہیے اگر سینیٹائزرز (sanitizers)نہیں بھی ملتے توہاتھ دھوتے رہیں …چھینک کے بارے میں میں پہلے بھی کہہ چکاہوں مسجدوں میں بھی اورعام طورپربھی اپنے گھروں میں بیٹھےہوئے بھی رومال آگے رکھ کر،ناک پررکھ کریاڈاکٹرکہتے ہیں بعض کہ بازواپناسامنے رکھ کے اُس پر چھینکیں تاکہ اِدھراُدھرچھینٹے نہ اڑیں۔بہرحال صفائی بہت ضروری ہے اوراس طرف خیال رکھناچاہیے۔لیکن آخری حربہ دعاہے اور یہ دعاکرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کواِس کے شرسے بچائے۔‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 20مارچ2020ء)
حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تازہ ہدایات
پیارے آقا سیدناحضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزان احتیاطی پہلوؤں کوبروئے کارلانے کی ہدایات ارشادفرماتے ہوئے آج کے خطبہ جمعہ (فرمودہ 3اپریل 2020ء) میں فرماتے ہیں۔
ایک موقع پرحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے مفتی صاحب کو فرمایا کہ مکانوں کوروشن رکھیں۔ آج کل گھروں میں (طاعون کے دنوں کی بات ہے) خوب صفائی رکھنی چاہیے۔کپڑوں کو بھی ستھرارکھناچاہیے۔پھرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایاآج کل دن بہت سخت ہیں اورہوازہریلی ہےاورصفائی رکھنا سنّت ہے۔ قرآنِ شریف میں بھی لکھاہےوثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ(المدثرآیت6،5)
پھرایک موقعے پرفرمایاوہ لوگ جن کے شہروں میں اور دیہات میں طاعون شدت کے ساتھ پھیل گیاہے۔ اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں۔ اپنےمکانوں کی صفائی رکھیں اورانہیں گرم رکھیں اورضروری تدابیرحفظِ ماتقدم کی عمل میں لائیں اورسب سے بڑھ کریہ کہ سچی توبہ کریں۔پاک تبدیلی کرکے خداتعالیٰ سے صلح کریں۔راتوں کواٹھ اٹھ کرتہجد میں دعائیں مانگیں۔ہرایک قسم کے فسق وفجور،خیانت اورغلط کاری کی راہ سے اپنے آپ کوبچائیں۔اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خداکے اِس عذاب سے بچاسکے گی۔ ونعم ماقیل۔
حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہراحمدی کوتوفیق دے کہ وہ اِ ن دنوں میں خاص طور پردعاؤں پرزوردے۔حکومت کی ہدایات پرعمل بھی کریں۔گھروں کوبھی صاف رکھیں۔ دھونی بھی دینی چاہیے۔ڈیٹول وغیرہ کے اسپرے بھی کرتے رہیں۔ وہ مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پرفضل فرمائےاورحم فرمائے۔ ان دنوں میں دعاؤں پرخاص زوردیں۔اللہ سب کواِس کی توفیق دے۔(خطبہ جمعہ 3اپریل2020ء)
نیزجیساکہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے وبائی امراض کے مواقع پر ظاہری تدبیرکاایک طریق ادویات کااستعمال بھی تجویزفرمایا۔آج اس زمانہ میں خواہ وہ ڈینگی کی وبائی مرض ہویاایبولاکی صورت میں متعدی بیماری یاپھرحالیہ کوروناوائرس کی موذی وبا،ہرموقع پرہمارےپیارے آقاحضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبھی اُسی طرح اپنے پیارے افرادِ جماعت کے لیے ادویات تجویزفرمارہے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:
’’ بعض ہومیو پیتھی دوائیاں بہت شروع میں مَیں نے ہومیوپیتھ سے مشورہ کر کے بتائی تھیں جو حفظِ ماتقدم کے طور پر بھی ہیں اور بعض علاج کے طور پر بھی۔ ان کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ایک ممکنہ علاج ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد علاج ہے یا اس وائرس کا ہومیوپیتھک کو پتا ہے۔ یہ ایسی وائرس ہے جس کا کوئی علم نہیں لیکن اس کے قریب ترین اس قسم کی بیماری کا جو ممکنہ علاج ہو سکتا تھا اس کے مطابق یہ دوائیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں شفا بھی رکھے۔ اس لیے استعمال کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں جیسا کہ اعلان ہو رہے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 6مارچ2020ء الفضل انٹرنیشنل 17؍مارچ 2020ءصفحہ 13تا17)
خاکسار مضمون کااختتام حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی اس دعا پرکرتاہےکہ ’’ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔اللہ تعالیٰ دنیا کو آفات سے بچائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ6؍مارچ2020ءالفضل انٹرنیشنل 3؍اپریل 2020ء صفحہ9)
٭…٭…٭
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم مصباح الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُسوہ اور ارشادات یکجا کرکے ان ایّام میں جبکہ تمام دنیا کو ایک خطرناک وبائی مرض کا سامنا ہے ، عالمگیرجماعت کے لئے گرانقدر خدمت انجام دی ہے۔ انسان کامل کے غلام کامل کا اُسوہ اور ارشادات افراد جماعت کے لئے سرمایہ حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مضمون نگار کو بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے نوازے۔آمین۔
ماشاء اللہ پہلی قسط کی طرح یہ بھی بہت تحقیقی موادپرمشتمل مضمون ہے۔
great efforts … نٸ نسل کی کتاب سے دوری پاٹنے کی ایک زبردست
کوشش۔۔۔۔۔۔۔ کلام الا ما م کا بہترین انتخاب۔۔۔۔۔۔ جزاكم الله