نبوت و خلافت کے متعلق اہلِ پیغام اور جماعت احمدیہ کا موقف
’’ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہودؑ کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا بیان فرمایاہے اس سے کم و بیش کرنا موجبِ سلبِ ایمان سمجھتے ہیں‘‘
انبیائے کرام کے ظہور کے نتیجے میں آنے والا انقلاب معاشرے کو عموماً دو حصوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ یعنی ایمان لانے والے اور انکار کرنے والے۔ لیکن اس معاشرتی تقسیم میں بعض ایسے نفوس بھی دکھائی دیتے ہیں جو ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے اپنی سمت متعیّن کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اگرچہ اُن کی زبانیں وحیٔ الٰہی کی صداقت کے اقرار کا اظہار کرتی ہیں تاہم اُن کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوتا۔ نتیجۃً جب کبھی وہ حالات کوموافقت سے مخالفت میں بدلا ہوا پاتے ہیں تو اُن کے دلوں میں موجود پوشیدہ بیماری ظاہر ہونے لگتی ہے۔ دینی احکامات کو دنیاوی عینک لگاکر دیکھتے چلے جانے سے آہستہ آہستہ اُن کی راہیں جماعتِ مومنین سے جُدا ہونے لگتی ہیں اور آخرکار وہ ایسی بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے نہ صرف آگے بڑھنے کے راستے محدود ہوجاتے ہیں بلکہ واپسی کا سفر بھی مسدود ہوتا چلا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام میں بھی ایسے کئی گروہ وقتاً فوقتاً اپنے ذاتی اور قبائلی عناد کو لے کر سر اٹھاتے رہے۔ رسول خداﷺ کی اُن میں موجودگی بھی اُن کی پوری اصلاح کا باعث نہ بن سکی اور بالآخر نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور قبائلی عناد نے ان پر بہت حد تک غلبہ کرلیا۔ یہی کیفیت آپﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دورسعید میں بھی نظر آتی ہے۔ اور حضور علیہ السلام کی وفات کے فوراً بعد بعض دلوں میں پوشیدہ مرض کے جراثیم دفعۃً پھیلتے اور اطاعتِ امام سے روگرداں دکھائی دیتے ہیں ۔ ان حالات کے نتیجے میں ہی حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ جیسا جسمانی لحاظ سے کمزور مگر ایمانی قوت سے لبریز، توکّل اور تعلق باللہ کے ارفع مقام پر فائز وجود ان منافقین کے مقابل ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر آپؓ کے وصال کے بعدجب اس فتنے نے پورے زور سے سر اٹھایا تو حدیث مبارکہ کے مطابق نوراللہ سے منور مومنین کی بصیرت کے سامنے تمام ترشاطرانہ چالیں ناکام ہوگئیں ، بزعم خود علمی و عقلی برتری اور منافقانہ طرز عمل بھی کسی کام نہ آسکا۔ اور اگرچہ بظاہر جماعت احمدیہ دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ ایک فریق نے مرکز احمدیت میں اپنے آقا و مطاع کی پیشگوئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وصیت کے مطابق خلافت احمدیہ کی اطاعت کا اقرار کرتے ہوئےامیرالمومنین کے حضور سرتسلیم خم کیا اور دوسرے فریق نے لاہور کو مرکز بناکر اپنے بنیادی عقائد سے ہی انحراف کا آغاز کردیا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اپنی کم عمری کے باوجود حکمت اور دعاؤں کے ساتھ اس الٰہی جماعت کی ایسی کامیاب قیادت فرمائی کہ جس کا خواب بھی کبھی غیرمبائعین نے نہ دیکھا تھا۔ چشمۂ خلافت سے آبیاری کے نتیجے میں شجر احمدیت کی بابرگ و بار شاخیں زمین کے کناروں تک پھیلتی چلی گئیں ۔ اور اس شجر کی ہر باثمر شاخ اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی گئی کہ قدرتِ ثانیہ (خلافتِ احمدیہ) کے پیچھے بھی وہی دستِ قدرت کارفرما ہے جس نے قدرتِ اولیٰ کے ذریعے اس سلسلے کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کی بسرعت ترقیات اور غیرمعمولی فتوحات کی خوشخبریاں عطا فرمائی تھیں ۔
دوسری طرف غیرمبائعین کی تذبذبی حالت پر نگاہ کی جائے تو اہلِ ایمان کی سوچ ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ ایک نبی برحق کی غلامی کا دَم بھرنے والے دنیوی خوف سے کیوں کر اپنے سابقہ عقائد سے منحرف ہوگئے۔ ایسے کیا حالات درپیش ہوئے کہ ‘‘صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا’’ کے عظیم الشان روحانی مقام پر فائز ہونے کے بعد وہ اپنے ایمان و ایقان میں شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ایسے دعوے کرنے لگے جن کی صداقت پر اُن کے اپنے دل بھی کبھی مطمئن نہ ہوپائے اور نہ ہی اُن کے ذہن اور زبانیں اس تحریف کی کوئی توجیہ پیش کرسکیں ۔
الغرض جب ہم انصاف کی نظر سے فریقین کے حالات موجودہ کا مشاہدہ کرتے ہیں تو خداتعالیٰ کی فعلی شہادت اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ آسمان کے خدا نے کس کی معمولی مساعی کو قبول فرماتے ہوئے عظیم الشان کامیابیوں سے اس کا دامن بھر دیا۔ پس ہماری آئندہ نسلوں اور احمدیت کی آغوش میں آنے والی سعید روحوں کے لیے تاریخ کے اُس باب سے شناسائی بھی ضرور ی ہے کہ مُرسلِ صادق کی غلامی کا دَم بھرنے والا ایک گروہ، آپؑ کی جسمانی وفات کے فوراً بعد نہ صرف یہ کہ اپنے سابقہ عقائد پر خط تنسیخ کھینچتے ہوئے آخر کیوں اپنی ذاتی خواہشات، خاندانی تفاخرات اور ذہنی و علمی لغزشوں کو اپنی منزل مقصود سمجھ بیٹھا۔ بلکہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی بیعت کے ظاہری اقرار کے بعد رسالہ ‘‘الوصیت’’ میں بیان فرمودہ قدرت ثانیہ کی خوشخبری کو قبول کرنے سے ہی یکسر انکار کردیا۔ پس اس حوالے سے آج ہمارے زیر تعارف کتاب غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے جو ‘‘نبوّت و خلافت’’ کے موضوع پر اہل پیغام اور جماعت احمدیہ کے موقف کے حوالے سے شائع کی گئی ہے۔ ہر دو فریق کے بنیادی عقائد میں اختلافات کے آغاز اور بڑھتے چلے جانے والے فاصلوں کی منظرکشی کرنے والی (A5 سائز کے محض 60 صفحات پر مشتمل) اس مختصر سی کتاب میں گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
اس کتابچے کی تالیف کا پس منظر یہ ہے کہ خلافتِ ثالثہ کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد 10؍جون 1966ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کی زیرصدارت منعقد ہونے والے ماہوار علمی اجلاس میں چار علمائے سلسلہ نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ بعدازاں جیّد علمائے کرام کے تحقیقی مضامین ایک کتابچے کی صورت میں پہلی بار 1977ء میں شائع ہوئے۔ 2010ء میں اس کتابچہ کا تیسرا ایڈیشن نظارت نشرواشاعت قادیان کے زیراہتمام طبع ہوا۔
علمی اجلاس میں پہلی تقریر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی تھی جس کا موضوع تھا: غیرمبائعین کی طرف سے 1914ء تک پیش کیے جانے والے حوالہ جات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کا بیان۔
مقرر موصوف نے بیان کیا کہ سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں تمام احمدی پروانوں کی طرح شمع روحانیت کے گرد گھومتے تھے اور حضور علیہ السلام کے اس مقام کو خوب پہچانتے تھے کہ ’’اب بجز محمدیؐ نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو۔ پس اِس بِنا پر مَیں اُمّتی بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ 20)
چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے (جو بعدازاں غیرمبائعین کے پہلے امیر منتخب ہوئے)حضور علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں خود تحریر کیا کہ ’’یہ سلسلہ سچّے معنوں میں آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین مانتا ہے اور یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ کوئی نبی خواہ وہ پرانا ہو یا نیا، آپؐ کے بعد ایسا نہیں آسکتا جس کو نبوّت بدوں آپؐ کے واسطہ کے مل سکتی ہو۔ آنحضرتﷺ کے بعد خداتعالیٰ نے تمام نبوّتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کردیے، مگر آپؐ کے متّبعینِ کامل کے لیے جو آپؐ کے رنگ میں رنگین ہوکر آپؐ کے اخلاقِ کاملہ سے ہی نُور حاصل کرتے ہیں اُن کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ گویا اُسی وجود مطہّر اور مقدّس کے عکس ہیں ۔ مگر عام مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آپؐ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپؐ سے چھ سو سال پہلے نبی ہوچکے تھے دوبارہ آئیں گے جس سے ختم نبوّت کا ٹوٹنا لازم آتا ہے۔‘‘
(’ریویو آف ریلیجنز‘ مئی 1908ء )
اسی طرح مولوی صاحب کی ایک تقریر حضورعلیہ السلام کی وفات کے بعد شائع ہوئی جس میں وہ کہتے ہیں:
’’خدا نبی پیدا کرسکتا ہے، صدیق بنا سکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کرسکتا ہے۔ … ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا وہ صادق تھا، خدا کا برگزیدہ اور مقدّس رسول تھا۔‘‘
(اخبار الحکم 18؍جولائی 1908ء)
ایک اور غیرمبائع لیڈر مولوی عمرالدین صاحب شملوی حدیث
’’لَانَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘
کی تشریح میں رقمطراز ہیں :
’’آپؐ کے بعد کوئی نبی نہ ہونے کے یہ معنے ہوئے کہ کوئی ایسا رسول نہیں ہے جو صاحبِ شریعت جدیدہ ہو یا نبوّتِ تشریعی کا مدّعی ہو۔ اور ایسا نبی ہوسکتا ہے جو آنحضرتﷺ ہی کا غلام ہو جیسا کہ مُلّا علی قاری جیسے محدّث نے حدیث
لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمُ لَکَانَ نَبِیًّا
کی شرح میں ان معنوں کو صاف تسلیم کیا ہے۔‘‘
(اخبار پیغام صلح 16؍ستمبر 1913ء)
جناب میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی (غیر مبائع)کا ایک قصیدہ اخبار ’’پیغام صلح‘‘ 28؍دسمبر 1913ء میں شائع ہوا جس کے دو اشعار یوں تھے:
سمجھ لو اَے عزیزو! ہاں سمجھ لو
نہ تعلیمِ مسیحا کو بھلائیں
نبی، مُلہَم، مجدّد وہ ہیں سب کچھ
زباں سے ہم بھی یونہی کہتے جائیں
اسی طرح ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب آف لاہور (غیرمبائع) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ‘‘غُلِبَتِ الرُّوْم’’ کے پورا ہونے پر اپنے مضمون میں تحریر کیا: ’’اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ وہ خدا کی بات آج پوری ہوتی ہے۔ دنیا پر ثابت کرتی ہے کہ وہ کلام خدا کا کلام ہے، جو اس کا لانے والا تھا وہ اللہ کا سچّا مُرسل ہے۔‘‘
(ضمیمہ پیغام صلح 27؍جولائی 1913ء)
پھر غیرمبائع ڈاکٹر بشارت احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’حاصل کلام یہ کہ نبی اور رسول ہوں گے مگر ساتھ ہی اُمّتی بھی ہوں گے کیونکہ اس طرح بسبب اُمّتی ہونے کے اُن کی رسالت و نبوّت ختمِ نبوّت کے منافی نہ ہوگی۔‘‘
(اخبار پیغام صلح 24؍افروری 1914ء)
ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا: ’’یہ اُس (اللہ) کا فضل ہے کہ ہم موٹی سمجھ کے انسانوں کے لیے اُس نے ہر زمانہ میں انبیاء، اولیاء، صلحاء کے وجود کو پیدا کیا۔‘‘
(ضمیمہ اخبار پیغام صلح 5؍مارچ 1914ء)
الغرض مقرر موصوف نے سرکردہ غیرمبائعین کے 21 بیانات پیش کیے ہیں جن میں مولوی محمد علی صاحب کے دو ایسے بیانات بھی شامل ہیں جن میں انہوں نے عدالت کے روبرو بیان دیتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوّت کا اقرار کیا۔ چنانچہ 16؍جون 1904ء کو حضور علیہ السلام کی موجودگی میں مولوی کرم الدین مستغیث کی طرف سے جرح پر مولوی صاحب نے کہا کہ ’’مرزا صاحب دعویٰ نبوت کا اپنی تصانیف میں کرتے ہیں ۔ یہ دعویٰ اس قسم کا ہے کہ مَیں نبی ہوں لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لایا۔ ایسے مدّعی کا مکذّب قرآن شریف کی رُو سے کذّاب ہے۔‘‘
(ورق مسل صفحہ 362)
اسی طرح حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زمانۂ خلافت میں کئی بار مشترکہ اعلان میں (اہل پیغام لیڈران نے)حضور علیہ السلام کی نبوت کا برملا اقرار کیا۔ چنانچہ ایک اعلانِ عام میں لکھا کہ ’’ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے سچّے رسول تھے اور اس زمانہ کی ہدایت کے لیے دنیا میں نازل ہوئے اور آج آپ کی متابعت میں ہی دنیا کی نجات ہے …‘‘
(اخبار پیغام صلح 7؍ستمبر 1913ء)
مذکورہ اعلان کے چند روز بعد اہلِ پیغام کا ایک اَور حلفیہ مشترکہ اعلان شائع ہوا جس میں انہوں نے خداتعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہا کہ ’’ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہودؑ کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں اور جو درجہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنا بیان فرمایاہے اس سے کم و بیش کرنا موجبِ سلبِ ایمان سمجھتے ہیں ۔ ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی نجات حضرت نبی کریمﷺ اور آپؐ کے غلام حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد ہم اِس کے خلیفہ برحق سیّدنا و مرشدنا و مولانا حضرت مولوی نورالدین خلیفۃالمسیحؑ کو بھی سچّا پیشوا سمجھتے ہیں ۔‘‘
(اخبار پیغام صلح 16؍اکتوبر 1913ء)
نیز بعدازاں منحرف ہوجانے والے شیخ عبدالرحمٰن مصری صاحب نے 1935ء میں (بطور ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ)جماعت احمدیہ کا متّفقہ عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھا: ’’مَیں نے 1905ء میں بیعت کی تھی۔ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسی طرح کا نبی یقین کرتا تھا اور کرتا ہوں جس طرح خدا کے دیگر نبیوں اور رسولوں کو یقین کرتا ہوں ۔‘‘
علمی اجلاس میں کی جانے والی دوسری تقریر محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کی تھی جس کا موضوع تھا: خلافتِ احمدیہ و بیعت خلافت۔
مقرر موصوف نے غیرمبائعین کے اس موقف کو ردّ کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد شخصی خلافت نہیں ہوگی کیونکہ بقول اُن کے حضورؑ نے انجمن کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔
اس لیکچر میں حضرت مسیح موعودؑ کے دو قسم کے ارشادات پیش کیے گئے۔ ایک وہ جن میں آنحضرتﷺ کے بعد اُمّت محمدیہ میں خلافت کے دائمی طور پر جاری رہنے کا ذکر ہے۔ اور دوسرے جن سے خالصۃً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوگا۔ مثلاً حضورؑ نے اپنی کتاب ’’حمامۃالبشریٰ‘‘ میں یہ حدیث درج فرماکر کہ ’’خود مسیح موعود یا اُس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ارضِ دمشق کی طرف سفر کرے گا‘‘ یہ گواہی دی ہے کہ آپؑ کے بعد متعدّد خلفاء ہوں گے اور اُن میں سے کوئی ایک دمشق کا سفر بھی کرے گا۔
اسی طرح رسالہ الوصیّت میں حضورؑ نے آیت استخلاف درج کرکے قدرت ثانیہ کے آنے کی خوشخبری دی اور اس کی نشانیاں بالوضاحت بیان فرمادیں جن سے یہ نتائج نکالے جاسکتے ہیں کہ اوّل: قدرتِ ثانیہ خلفاء ہی کا نام ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مثال حضورؑ نے دی۔ دوم یہ کہ خلافت آیت استخلاف کی مصداق ہوگی۔ سوم یہ کہ انبیاء کے بعد سخت ابتلاؤں کا آنا مقدّر ہوتا ہے اور ان ابتلاؤں کا خلفاء کے ذریعے زائل کیا جانا اللہ تعالیٰ کی سنّتِ قدیمہ ہے۔ اور یہ کہ ’’اب ممکن نہیں کہ خداوند تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کردیوے‘‘۔ چہارم یہ کہ خلافت کا سلسلہ دائمی ہوگا اور سلسلہ احمدیہ کے استحکام کا باعث بنے گا۔ پنجم یہ کہ قدرت ثانیہ کا ظہور حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد ہوگا جیسا کہ فرمایا: ’’وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں‘‘۔ پس یہاں انجمن مراد نہیں ہوسکتی جو کہ حضورؑ کی زندگی میں قائم ہوچکی تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ ’’سبز اشتہار‘‘ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں : ’’دوسرا طریق انزالِ رحمت کا ارسالِ مُرسلین و نبیّین وائمہ و اولیاء و خلفاء ہے تا اُن کی اقتداء و ہدایت سے لوگ راہِ راست پر آجائیں اور اُن کے نمونہ پر اپنے تئیں بناکر نجات پاجائیں ۔ سو خداتعالیٰ نے چاہا کہ اس عاجز کی اولاد کے ذریعہ سے یہ دونوں شقیں ظہور میں آجائیں۔‘‘ یہ ارشاد بتلاتا ہے کہ حضورؑ کی جماعت میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوگا اور بعض خلفاء حضورؑ کی اولاد میں سے بھی ہوں گے۔
مقرر موصوف نے حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے متعدد حوالے پیش کیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؓکی نظر میں بیعتِ خلافت کی کیا اہمیت تھی اور خلیفہ کا کیا مقام تھا۔ مثلاًحضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد جب آپؓ کی خدمت میں اس ذمہ داری کو اٹھانے کی درخواست کی گئی تو حضورؓ نے فرمایا: ’’اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سُن لو کہ بیعت بِک جانے کا نام ہے۔‘‘
(بدر2؍جون 1908ء)
پھر منصبِ خلافت پر فائز ہوجانے کے بعد فرمایا: ’’تمام قوم کا میری خلافت پر اجماع ہوگیا ہے۔ اب جو اجماع کے خلاف کرنے والا ہے وہ خدا کا مخالف ہے۔ … پس کان کھول کر سنو، اب اگر اس معاہدہ کے خلاف کروگے تو
اَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ
کے مصداق بنوگے۔‘‘
(بدر 21؍اکتوبر 1909ء)
ایک اَور تقریر میں حضورؓ نے فرمایا: ’’مَیں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے۔ … نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اَور بن سکتا ہے۔ پس جب مَیں مر جاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اُس کو آپ کھڑا کردے گا۔ … مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔‘‘
(بدر 4؍جولائی 1912ء)
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے متعدد مواقع پر قرآن و حدیث سے خلافت کی اہمیت بیان کرکے ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ نیز اس حوالے سے انجمن کے کردار کو بھی خوب کھول کر بیان فرمادیا۔ مثلاً ایک موقع پر فرمایا: ’’مجھے نہ کسی انسان نے، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا ہے اور نہ مَیں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے۔ پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا ہے اور نہ مَیں اس کے بنانے کی قدر کرتا ہوں اور اس کے چھوڑ دینے پر تھوکتا بھی نہیں ۔ اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رِدا کو مجھ سے چھین لے۔‘‘
(بدر4؍جولائی 1912ء)
اسی طرح حضورؓ نے خلافت راشدہ کی طرز پر جماعت احمدیہ میں بھی شخصی خلافت جاری رکھنے سے متعلق بارہا ارشادات فرمائے۔ حتّٰی کہ مرض الموت میں اپنے دست مبارک سے وصیّت تحریر کرتے ہوئے رقم فرمایا: ’’میرا جانشین متّقی ہو، ہردلعزیز۔ عالم باعمل…‘‘۔
(الحکم 7؍مارچ 1914ء)
اس علمی لیکچر میں خلافت کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے چند غیرمبائعین کے بیانات بھی شامل ہیں جو خلافتِ ثانیہ کے قیام سے قبل دیے گئے تھے۔ چنانچہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے تو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے فوراً بعد اُس مجمع میں اس کا اظہار کردیا تھا جس میں خواجہ کمال الدین صاحب، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب شامل تھے۔ چنانچہ ان تمام احباب نے اپنے دستخط کرکے جو درخواست حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے حضور پیش کی اس میں آپؓ سے بیعتِ خلافت لینے کی درخواست کی گئی تھی۔ پھر عام بیعت کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے بطور ’سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ‘ یہ اطلاع تمام جماعتوں میں بھجوائی کہ قادیان میں موجود احمدیوں نے ’’حضرت حاجی الحرمین الشریفین جناب حکیم نورالدین سلمہٗ کو آپؑ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔‘‘ نیچے معتمدین کے اسماء میں شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب کے نام بھی شامل ہیں ۔
(الحکم 28؍مئی 1908ء)
انہی معتمدین کی طرف سے یہ اعلان بھی شائع ہوا کہ ’’حضرت مولانا نورالدین صاحب کی بیعت الوصیّت کے خلاف ہرگز نہ تھی بلکہ اس کے عین مطابق اور جائز تھی۔‘‘
(اخبار پیغام صلح 19؍اپریل 1914ء)
علمی اجلاس میں تیسری تقریر محترم میر محمود احمدناصر صاحب کی تھی۔ آپ کے تحقیقی مقالے کا عنوان تھا: 13؍مارچ 1914ء کے بعد نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام کا موقف۔
مقرر موصوف نے بیان کیا کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب جو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی بیعت کے وقت یہ لکھ رہے تھے کہ ’’کُل قوم کی گردنیں الٰہی ارادہ سے اُس کے آگے جھک گئیں اور قریب ڈیڑھ ہزار کے آدمیوں نے ایک ہی وقت میں بیعت کی اور ایک بھی متنفّس باہر نہ رہا کیا مرد اور کیا عورتیں‘‘۔ لیکن حضورؓ کی وفات کے فوراً بعد آپ نے ’’ایک نہایت ضروری اعلان‘‘ کے تحت لکھا: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی حکم وصیّت میں یا کسی دوسری جگہ ہرگز ہرگز ایسا نہیں پایا جاتا جس کی رُو سے اُن لوگوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں ، دوبارہ کسی شخص کی بیعت کی ضرورت ہو۔‘‘
(اخبار پیغام صلح 15؍مارچ 1914ء)
گویا اہل پیغام کے عقائد اور مسلک میں یہ پہلی تبدیلی تھی جو حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے فوراً بعد پیدا ہوئی۔
اہلِ پیغام نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی وفات پر دوسرا موقف یہ اختیار کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کسی خلیفہ یا امیر کے ماتحت نہ ہوگی بلکہ انجمن اپنے فیصلوں میں آزاد اور خودمختار ہے اور اس کے فیصلے قطعی ہیں جن کو ردّ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں جب تک کوئی مامور اس کے خلاف اللہ تعالیٰ سے الہام نہ پائے۔
(اخبار پیغام صلح 22؍مارچ 1914ء)
چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد منعقد ہونے والے انجمن کے پہلے اجلاس کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اجلاس میں پانچ غیرمرید اور سات مرید اور اہل بیت کے قریبی رشتہ دار حاضر تھے۔ اس لیے جو کچھ چاہا کیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح نے مولوی شیرعلی صاحب کو ولایت جانے کا حکم دیا تھالیکن افسوس کہ آپؓ کا حکم بھی آپؓ کے ساتھ ہی قبر میں دفن کردیا گیا اور مولوی شیرعلی صاحب اس کارخیر سے محروم رہ گئے اور حضرت خلیفۃالمسیح برحق کے ارشاد کی اس طرح سے نافرمانی اور تذلیل کی گئی۔ ذیل کے ممبران نے حضرت خلیفۃالمسیح کے حکم کی اس طرح تذلیل ہوتی دیکھی تو اُن سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے: 1۔ مجددالدین حضرت مولانا محمد علی صاحب۔ 2۔ جناب شیخ رحمت اللہ صاحب۔ 3۔ جناب مرزا یعقوب بیگ صاحب۔ 4۔ جناب ڈاکٹر سیّد محمد حسین صاحب۔
(اخبار پیغام صلح 12؍اپریل 1914ء)
پس یہ عجیب تضاد تھا کہ ایک طرف تو انجمن کو خلافت کی بیعت اور نگرانی سے بالا قرار دیا جارہا تھا اور دوسری طرف انجمن کے فیصلوں کو اپنے منشاء کے خلاف پاکر اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا جارہا تھا۔ دراصل انسان جب ایک صداقت کا انکار کرتا ہے تو اُس کے نتیجے میں اس کو دوسری بہت سی صداقتوں کا خون کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ پھر اہل پیغام کو اس کے بغیر چارہ نہ رہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا ہی انکار کردیں تاکہ بعد میں خلافت کے اجرا کا معاملہ ہی پیدا نہ ہو۔
اہل پیغام نے نبوّت سے انکار کے لیے یہ علمی دلیل پیش کی کہ ظلّی اور بروزی تو صوفیاء کے سلسلہ کی اصطلاح ہے نہ کہ انبیاء کے سلسلہ کی۔ اور نبوّت کی ایسی تقسیمیں جیسی کہ مستقل نبی، غیرمستقل نبی، جزوی نبی، طفیلی نبی، شرعی نبی، غیرشرعی نبی، نبوّتِ ناقصہ اور نبوّتِ کاملہ وغیرہ الفاظ کب کسی نبی نے بتلائی ہیں ۔ قرآن و حدیث اور صحفِ انبیاء میں ایسے لفظ کہیں نہیں ۔
(ماخوذ از ’’اخبار پیغام صلح‘‘ 12؍اپریل 1914ء)
الغرض خلافت کے انکار سے متعلق اہلِ پیغام کا جوش انکارِ نبوّت پر منتج ہوا اور حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بلند مقام کی وضاحت کے لیے ظلّی اور بروزی نبی کے جو الفاظ استعمال کیے تھے اُن کو اہلِ پیغام نے حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے کُلّی انکار کا ذریعہ بنالیا۔ حالانکہ یہ الفاظ آپؑ کے مقامِ نبوّت کی نفی نہیں کرتے بلکہ اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اصل نبوّت، نبوّتِ محمدیہؐ ہے باقی سب نبوّتیں اور سب روحانی مقامات و درجات نورِ محمدیؐ کا پرتَو اور ظِلّ ہیں ۔ پس جو وجود کامل طور پر فنا فی الرسول ہوگیا اور آنحضورﷺ کا کامل ظلّ بنا وہ اِس لائق ٹھہرا کہ ظلّی نبی کے عظیم لقب سے ملقّب ہو۔ لیکن آنحضرتﷺ سے پہلے کے انبیاء بوجہ آنحضورﷺ کے جُزوی ظلّ ہونے کے، اس لقب سے ملقّب نہ ہوئے۔
علمی اجلاس میں آخری تحقیقی مقالہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے پیش کیا جس کا موضوع تھا:
نبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔
مقرر موصوف نےخلافتِ ثانیہ کے آغاز سے پہلے اور بعد کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام کا موقف بیان کرتے ہوئے بتایا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں مہدی موعود کے لیے آنحضورﷺ نے چار مرتبہ صراحت سے نبی اللہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ میرے اور اُس کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوگا (ابوداؤد)۔ یعنی ایک مَیں نبی ہوں اور ایک وہ نبی ہوگا۔ اسی طرح ایک موقع پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ اس اُمّت کے سب سے افضل فرد ہیں سوائے اس کے کہ کوئی نبی پیدا ہو۔ (کنوزالحقائق)۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ نے عربی اور اردو کے کئی الہامات بیان فرمائے ہیں جن میں آپؑ کو نبی اور رسول کے مقام پر سرفراز فرمایا گیا ہے۔ مثلاً
جَرِیُ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآءِ۔
یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حُلّوں میں ۔ ایک الہام یہ تھا: ’’دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا‘‘۔ یہ سلسلہ متواتر 23 سال تک جاری رہا۔ تاہم حضورؑ نے ابتدائی دَور میں مسلمانوں کے عام مشہور عقیدے اور مروّجہ اصطلاحات کے مطابق نبوّت کی تعریف یہ کی کہ نبی، رسول اور مُرسل جیسے الفاظ کو ظاہر پر محمول کرنے کی بجائے ان کی تاویل کرتے ہوئے بمعنی محدّث قرار دیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ پر کبھی کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ اپنے دعویٰ کو سمجھ نہ سکے ہوں ۔ آپ شروع سے آخر تک اُس مقام کو سمجھتے رہے جس پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے۔ ہاں صرف اس دعویٰ کے نام میں آپ احتیاط کرتے رہے یعنی آیا اس کا نام نبوّت رکھا جائے یا محدّثیت‘‘۔
(حقیقۃالامر صفحہ 10)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’محدّث بھی ایک معنے سے نبی ہی ہوتا ہے …کیونکہ وہ خداتعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایک شرف رکھتا ہے۔ اُمورِ غیبیہ اس پر ظاہر کیے جاتے ہیں اور رسولوں اور نبیوں کی وحی کی طرح اس کی وحی کو بھی دخلِ شیطان سے مُنزّہ کیا جاتا ہے اور مغزِ شریعت اس پر کھولا جاتا ہے اور بعینہٖ انبیاء کی طرح مامور ہوتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآوازِ بلند ظاہر کرے اور اُس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجبِ سزا ٹھہرتا ہے۔‘‘
(توضیح مرام صفحہ 18)
لیکن پھر وحیٔ الٰہی کے تواتر نے آپؑ کے خیال میں یوں تبدیلی کی کہ فرمایا: ’’بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اِس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔‘‘
(حقیقۃالوحی صفحہ 1540)
حضور علیہ السلام کے متعدد ارشادات پیش کرتے ہوئے (جن سے نبی کے مختلف مفاہیم کا اظہار ہوتا ہے) مقرر موصوف نے بتایا کہ قریباً 1901ء سے لے کر وفات تک حضور علیہ السلام نے برملا اور کثرت کے ساتھ نیز پوری تصریح کے ساتھ اپنی ذات پر نبی، رسول اور مُرسَل کے الفاظ کا اطلاق فرمایا ہے۔ مثلاً فرمایا: ’’مَیں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔ اور مَیں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلّیت کاملہ کے مَیں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدیؐ شکل اور محمدی نبوت کا کامل اِنعکاس ہے۔‘‘
(نزول المسیح صفحہ 5)
پھر فرماتے ہیں : ’’جس جس جگہ مَیں نے نبوّت یا رسالت سے انکار کیا ہے، صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ مَیں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والانہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لیے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علمِ غیب پایا ہے، رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے مَیں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے۔ … مَیں باوجود نبی اور رسول کے لفظ سے پکارے جانے کے خدا کی طرف سے اطلاع دیا گیا ہوں کہ یہ تمام فیوض بلاواسطہ میرے پر نہیں ہیں بلکہ آسمان پر ایک پاک وجود ہے جس کا روحانی افاضہ میرے شاملِ حال ہے یعنی محمد مصطفیٰﷺ۔ اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس میں ہوکر اور اس کے نام محمدؐ اور احمدؐ سے مسمّٰی ہوکر مَیں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 6-7)
چنانچہ اگر کبھی کسی اخبار یا کسی فرد کی طرف سے یہ اظہار کیا گیا کہ گویا حضورؑ نے دعویٔ نبوت سے انکار کیا ہے تو حضورؑ نے اس کی تردید کی اور اپنے مندرجہ بالا دعویٰ کو دہرایا۔ حتّٰی کہ آپؑ کی وفات سے محض تین روز قبل جب ’’اخبارعام‘‘ میں ایک ایسی ہی خبر شائع ہوئی تو آپؑ نے فوری طور پر اخبار کے ایڈیٹر کو خط لکھا جو حضورؑ کی وفات کے دن اخبار میں شائع ہوا۔ اس میں بھی آپؑ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’مَیں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر مَیں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو مَیں کیونکر اس سے انکار کرسکتا ہوں ۔ مَیں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں ۔ مگر مَیں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا مَیں اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتا ہوں یا اسلام کا کوئی حکم منسوخ کرتا ہوں ۔ میری گردن اُس جُوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے۔ سو مَیں صرف اس وجہ سے نبی کہلاتا ہوں کہ عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیشگوئی کرنے والا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلدسوم صفحہ 597)
یہی وجہ ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے بھی بارہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کا اعلان فرمایا۔ بلکہ حضرت مصلح موعودؓ نے 1915ء میں مؤکد بعذاب قسم کھاکر اعلان فرمایا کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جس طرح آپؑ کو نبی مانتا تھا اُسی طرح آج بھی مانتا ہوں ۔ پھر حضورؓ نے مولوی محمدعلی صاحب کو بھی ایسی ہی قسم کھانے کی دعوت دی۔
(الفضل 23؍ستمبر 1915ء)
1928ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ’’نبوّت کے متعلق جناب مولوی محمد علی صاحب کی وہ تمام تحریرات جو اختلاف سے پہلے کی ہیں ایک جگہ جمع کردی جائیں تو مَیں اُن پر دستخط کردوں گا اور اعلان کردوں گا کہ میرا بھی یہی عقیدہ ہے۔‘‘
(الفضل 9؍اکتوبر 1928ء)
دراصل یہ مولوی محمد علی صاحب کے بدلے ہوئے عقائد پر گہری طنز تھی۔
1944ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے لاہوری فریق پر آخری دفعہ اتمام حجّت کرتے ہوئے مولوی محمد علی صاحب کو دعوتِ مباہلہ دی۔
(رسالہ الفرقان قادیان جون 1944ء)
گویا حضرت مصلح موعودؓ کا موقف مسئلہ نبوت پر ساری زندگی ایک ہی رہا لیکن مولوی صاحب کا موقف اختلاف کے بعد بدل گیا۔ وہ لکھتے ہیں : (حضرت مسیح موعودؑ) ’’اُن معنوں میں نبی اور رسول تھے جن معنوں میں اس امّت کے دوسرے مجدّد بھی نبی اور رسول کہلاسکتے ہیں۔‘‘ (میرے عقائد صفحہ 6)۔ اسی طرح ایک جگہ لکھا: ’’اِس اُمّت میں جس قسم کی نبوّت مل سکتی ہے وہ حضرت علیؓ کو ضرور ملی ہے۔‘‘
(النبوّۃ فی الاسلام صفحہ 115)
جبکہ حضور علیہ السلام تو فرماچکے تھے: ’’غرض اس حصہ کثیر وحیٔ الٰہی اور امورِ غیبیہ میں اس اُمّت میں سے مَیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اُمّت میں سے گذر چکے ہیں ان کو یہ حصۂ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے مَیں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور یہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی۔‘‘
(حقیقۃالوحی صفحہ 391)
نیز یہ بھی فرمایا کہ ’’اس اُمّت میں آنحضرتﷺ کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں ۔ اور ایک وہ بھی ہوا جو اُمّتی بھی ہے اور نبی بھی۔‘‘
(حقیقۃالوحی حاشیہ صفحہ 30)
بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں کہ ’’خداتعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ مَیں اُس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو اُن کی بھی اُن سے نبوّت ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت صفحہ 317)
پس اہلِ فکر و دانش خود غور فرمائیں کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے ظاہر ہونے والے نشانات تو اتنے ہیں کہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو اُن کی نبوّت بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن غیرمبائعین کے نزدیک ان نشانوں سے حضور علیہ السلام کی اپنی نبوّت بھی ثابت نہیں ہوتی۔
الغرض یہ مختصر کتابچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور خلافت احمدیہ کی صداقت کے ایسے دلائل سے مزیّن ہے جن کا جواب اہل پیغام قیامت تک نہیں دے سکیں گے۔ پس یہ امر واقعہ ہے کہ ایک صدی قبل رقم ہونے والا تاریخ احمدیت کا یہ دردناک باب گواہ ہے کہ خلافت احمدیہ ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقی جانشین اور الٰہی تائیدیافتہ نظام ہے۔ اس بات کا اقرار اہل پیغام کی نیک فطرت روحیں اپنے قلم سے نہ بھی کرسکیں تو اُن کے دل اس کا اقرار ضرور کرتے ہیں اور اُن کی زبانیں اس کا اظہار بھی کردیتی ہیں ۔ چنانچہ ایک سعید فطرت غیرمبائع عالم نے بھی خاکسار کو نصیحت کی تھی کہ ’’ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں‘‘۔ اس نصیحت کے حوالے سے جو واقعہ خاکسار نے 1995ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تحریر کیا تھا، حضورؓ کے ارشاد کی روشنی میں وہ کئی مؤقر جرائد کی زینت بنایا گیا جسےاختصار سے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ خلافت کے نتیجہ میں خداتعالیٰ نے احمدیوں پر جو افضال نازل فرمائے ہیں ، اُنہیں وہ لوگ کس طرح دیکھتے ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہیں ۔ اور یہ بھی کہ خداتعالیٰ جس وجود کو اس منصب جلیلہ پر فائز فرماتا ہے، اُس کے ظاہری مقام اور روحانی استعدادوں میں غیرمعمولی ترقیات عطا فرماتے ہوئے اس کی محبت دلوں میں بٹھا دیتا ہے۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ 1987ء میں جب خاکسار لاہور میں زیرتعلیم تھا اور احمدیہ ہوسٹل ’’دارالحمد‘‘ میں قیام تھا تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ’’لاہوری جماعت‘‘ کے پاس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جو تبرکات موجود ہیں، اُن کی زیارت کی جائے۔ چنانچہ ہوسٹل کے قریب ہی واقع غیرمبائعین کے مرکز ’’دارالسلام‘‘ پہنچا۔ وہاں خاکسار کا مستقل رابطہ جس شریف النفس بزرگ شخصیت کے ساتھ تھا وہ وہاں کی مرکزی لائبریری کے انچارج تھے اور جن کا اسم گرامی غالباً قاضی عبدالاحد صاحب تھا۔ وہ دارالسلام کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔ قریباً 1960ء سے لاہوری جماعت میں شامل تھے۔ میرا زیادہ تر وقت اُن کے پاس ہی گزرتا۔ اکثر اُن کے ساتھ بہت ہی دلچسپ گفتگو ہوا کرتی۔ مثلاً ایک روز جب ہم جناب عبدالمنان عمر صاحب (ابن حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ) سے ملنے جارہے تھے تو وہاں کے قبرستان کے پاس سے گزرے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا بہشتی مقبرہ ہے؟ موصوف نے بتایا کہ اُن کے پاس بہشتی مقبرہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں رسالہ الوصیت میں دو بشارتیں دی تھیں ۔ ایک خلافت کی اور دوسری بہشتی مقبرہ کی۔ اور آپ نے ان دونوں کو قبول نہیں کیا۔
اسی طرح ایک روز اُن کے پاس لائبریری میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں ایک ایسا شخص آیا جس نے یہ معلوم ہوتے ہی کہ مَیں ربوہ سے آیا ہوں ، نہایت دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدکلامی شروع کی اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ذات گرامی سے متعلق تو خصوصاً بکواس کی انتہا کردی۔ میرے لیے یہ صورت حال بڑی عجیب تھی۔ قاضی صاحب نے اُن سے بارہا خاموش ہوجانے کے لیے کہا اور بار بار یہ بھی کہا کہ ایسا کلام کرنا ہماری تعلیم نہیں ہے اور یہ نہ صرف ایک مہمان کے ساتھ بہت زیادتی ہورہی ہے بلکہ اُن لوگوں (یعنی خلفائے کرام) کے ساتھ بھی جو یہاں موجود ہی نہیں ہیں اور خدا کو پیارے ہوچکے ہیں …۔ بہرحال جب قاضی صاحب کی کوششیں اُس شخص کو خاموش نہ کرواسکیں تو مَیں اُٹھ کر دوسری طرف چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اُس شخص کو (غالباً جبراً) رخصت کرکے قاضی صاحب میرے پاس تشریف لائے اور بہت معذرت کرنے لگے۔ تب مَیں نے اُن سے کہا کہ گذشتہ تین ماہ کے دوران میرے مشاہدہ کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ کے اکثر ساتھی محض ذاتی تعصب اور شدید بغض کے نتیجے میں ہمارے خلفائے کرام کے بارہ میں بدزبانی کرتے ہیں ۔ اور میرا خیال ہے کہ جس شخص کے خلاف جس خلیفہ کے زمانے میں کوئی تعزیری کارروائی ہوئی ہو تو وہ اُسی خلیفہ سے ذاتی دشمنی میں بڑھنے لگتا ہے اور بدزبانی سے بھی باز نہیں آتا۔
مَیں نے قاضی صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی بد زبانی کا معاملہ تو مَیں اللہ تعالیٰ پر ہی چھوڑتا ہوں ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب تک میں آپ کے پاس صرف اس لیے آتا رہا ہوں کہ ہماری بحث علمی بنیادوں پر تھی۔ لیکن آج حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے بارے میں جو الفاظ اُس شخص نے کہے ہیں ، مَیں آئندہ آپ کے پاس بھی نہیں آؤں گا۔ لیکن آخری بار آپ سے صرف یہ پوچھتا ہوں کہ کیا یہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ تعلیم ہے جس کی طرف آپ مجھے اور دوسرے احمدیوں کو بلاتے ہیں ؟
اگرچہ انہوں نے مجھے آئندہ آنے کے لیے تو نہیں کہا لیکن شرمندگی کے ساتھ یہ ضرور کہنے لگے کہ ’’میں نے تو کبھی ایک لفظ بھی آپ کے بزرگوں کے خلاف نہیں کہااور یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آجائیں اور آپ نے ہمیں جو باتیں بھی بتائی ہیں وہ سب درست ہیں ۔‘‘
مَیں نے اُن کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، اُس کا تو یہی مطلب ہوا کہ دل سے آپ بھی یہی جانتے ہیں کہ حقیقی احمدیت کا مرکز ربوہ میں ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’یہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔ … لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ کا تعلق جس طرف اب ہے، آئندہ بھی اُسی طرف رہے۔‘‘
مَیں ابھی اُن کے فقروں کو سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ بولے ’’اصل میں تو احمدیت اور حضرت مسیح موعودؑ کا نام ہی ہے جو ہم دونوں لیتے ہیں ۔‘‘
مَیں نے عرض کیا کہ آپ کا شمار لاہوری جماعت کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے اور آپ یہاں پر امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں ، یہاں کے سب لوگ آپ سے نہایت محبت اور عزت سے ملتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مَیں دراصل آپ کی نسبت احمدیت کی حقیقی تعلیم کے زیادہ قریب ہوں ، تو پھر آپ بھی کیوں ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوجاتے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میری بہت سی مجبوریاں ہیں جو میں ہی جانتا ہوں ۔ تیس سال سے یہاں ہوں ۔ ……(انہوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے اور اپنی بعض دیگر ذاتی مجبوریوں کا ذکر بھی کیا۔ )
تب مَیں نے پوچھا کہ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ آپ مجھے یہ نصیحت کررہے ہیں کہ مَیں جہاں اب ہوں ، آئندہ بھی وہیں رہوں ۔
اس پر قاضی صاحب نے بڑے تأسف اور کرب کے ساتھ (جس کا شدید اظہار ان کے چہرے سے عیاں تھا) یہ جواب دیا کہ ’’آپ کے پاس خلافت ہے اور ہم اس سے محروم ہیں ۔‘‘
قاضی صاحب کی یہ بات سن کر خوشی سے میرے جذبات قابو میں نہ رہے۔ کیونکہ دراصل یہی تو وہ نتیجہ تھا جس تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں ہماری بحث ہوا کرتی تھی۔ پھر مَیں نے ان سے کہا آپ یقیناً درست فرما رہے ہیں لیکن اب براہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ آپ خلافت کو کیوں مقدّم سمجھتے ہیں ۔ اور ایسا کیا ہے جو خلافت نے ہمیں دیا ہے اور آپ اُس سے محروم ہیں ؟ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ ’’خلافت نے آپ کو جو جرأت دی ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اور باوجود ضیاء الحق کے آرڈیننس کے آپ لوگوں نے اپنی تبلیغ اور دوسری سر گرمیوں میں کمی نہیں کی بلکہ آپ کے خلیفہ صاحب نے ہر مشکل وقت میں ایسا فیصلہ کیا ہے جس نے آپ کی جماعت کے بچے بچے کو ہر قسم کی مشکل کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ہمت دی ہے۔ ……‘‘
مجھے یہ معلوم کرکے نہایت درجہ مسرّت ہورہی تھی کہ ایک شریف النّفس غیرمبائع کے نزدیک خلافت کا کیا مقام ہے اور خلیفۂ وقت کا وجود کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
پھر میرے یہ پوچھنے پر کہ مذکورہ بالا نتیجے تک پہنچنے کے پس منظر میں ایسا کونسا واقعہ ہے جسے وہ فراموش نہیں کرسکتے محترم قاضی صاحب نے اپنا یہ واقعہ بیان کیا کہ 1974ء میں احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے فسادات کے دنوں میں اُنہیں راولپنڈی کی احمدیہ مسجد نُور (مری روڈ) کے قریب ہی کسی جگہ (اندرونِ محلہ)جانا تھا۔ لیکن وہ تنگ گلیوں میں سے گزرتے ہوئے، احمدیہ مسجد کے قریب پہنچ کر راستہ بھول گئے اور کوشش کے باوجود بھی مسجد کو تلاش نہ کرسکے۔ کسی دوسرے شخص سے اس لیے ’احمدیہ مسجد‘ کے بارے میں نہیں پوچھا کہ کہیں وہ احمدیت کا ایسا دشمن نہ نکل آئے کہ اِن کے لیے مصیبت کھڑی کردے۔ لیکن جب تلاش کرتے کرتے تھک گئے تو ایسے میں ان کی نظر ایک دس سالہ بچے پر پڑی۔ انہوں نے اُسے اکیلا دیکھ کر پوچھا کہ ’’بیٹے! یہاں مرزائیوں کی مسجد کہاں ہے؟‘‘ اس پر بچے نے پوچھا: ’’کیا آپ احمدی ہیں ؟‘‘۔ قاضی صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے سوچا کہ ہوں تو مَیں احمدی ہی لیکن کہیں یہ بچہ شور کرکے مجھے پکڑوا نہ دے۔ اس لیے فوراً جھوٹ بول دیا اور کہا ’’نہیں‘‘۔ تب اُس بچے نے کہا: ’’میں احمدی ہوں، آئیے میں آپ کو اپنی مسجد میں لے جاتا ہوں ۔‘‘
اور پھر وہ بچہ انہیں اپنے ساتھ لیے مسجد کی طرف چلنے لگا۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں کچھ چلنے کے بعد اُس نے دُور سے ہی احمدیہ مسجد کی نشاندہی شروع کردی۔ تب قاضی صاحب نے اُسے کہا کہ تم اب واپس جاؤ، آگے میں خود ہی چلا جاؤں گا۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد قاضی صاحب بڑے دُکھ سے کہنے لگے کہ ’’اُس بچے کی جرأت آج آپ کی ساری جماعت میں نظر آتی ہے اور ہم اس سے محروم ہیں ۔ اس لیے میں دل سے آپ کو کہتا ہوں کہ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکات سے فیضیاب فرماتا چلا جائے- آمین