ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط نہم۔ آخری)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اٹھارہویں ہدایت
اٹھارہویں بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دلائل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عقلی اور دوسرے ذوقی۔ عقل تو چونکہ کم و بیش ہر ایک میں ہوتی ہے اس لیے عقلی دلائل کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ذوقی دلیل ہوتی تو سچی اور پکی ہے مگر چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ مناسبت ذاتی کے بغیر اس کو سمجھنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا مخالف کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں بھی ذوق سلیم ہوتا اور اس کا دل اس قابل ہوتا ہے کہ اس بات کو سمجھ سکے تو وہ احمدی کیوں نہ ہوگیا ہوتا اور کیوں الگ رہتا۔ اس کا تم سے الگ رہنا بتاتا ہے کہ اس میں وہ ذوق سلیم نہیں ہے جو تمہارے اندر ہے۔ اور ابھی اس کا دل اس قابل نہیں ہوا کہ ایسا ذوق اس کے اندر پیدا ہوسکے۔ اس لیے پہلے اس کے اندر یہ ذوق پیدا کرو اور پھر اس قسم کی دلیلیں اسے سناؤ۔ ورنہ اس کا اُلٹا اثر پڑے گا۔ کئی مبلغ ہیں جو مخالفین کے سامنے اپنی ذوقی باتیں سنانے لگ جاتے ہیں اور اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے کیونکہ مخالفت اس کا ثبوت مانگتا ہے تو وہ دیا نہیں جاسکتا اور اس طرح زک اٹھانی پڑتی ہے۔ پس مخالفین کے سامنے ایسے دلائل پیش کرنے چاہئیں جو عقلی ہوں اور جن کی صحت ثابت کی جاسکے۔
انیسویں ہدایت
انیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کوئی موقع تبلیغ کا جانےنہ دے۔ اسے ایک دھت لگی ہو کہ جہاں جائے جس مجلس میں جائے، جس مجمع میں جائے، تبلیغ کا پہلو نکال ہی لے۔ جن لوگوں کو باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر ایک مجلس میں بات کرنے کا موقع نکال لیتے ہیں۔ مجھے باتیں نکالنے کی مشق نہیں ہے اس لیے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹہ گھنٹہ بیٹھے رہنے پر بھی کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ حضرت مسیح موعودؑ عام طور پر باتیں کر لیتے تھے۔ مگر پھر بھی بعض دفعہ چپ بیٹھے رہتے تھے۔ ایسے موقع کے لیے بعض لوگوں نے مثلاً میاں معراج الدین صاحب اور خلیفہ رجب الدین صاحب نے یہ عمدہ طریق نکالا تھا کہ کوئی سوال پیش کر دیتے تھے کہ حضور مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں اس پر تقریر شروع ہوجاتی۔ تو بعض لوگوں کو باتیں کرنےکی خوب عادت ہوتی ہے۔ اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں چُپ کرانا پڑتا ہے۔ مبلغوں کے لیے باتیں کرنے کا ڈھب سیکھنا نہایت ضروری ہے۔ میر صاحب ہمارے نانا جان کو خدا کے فضل سے یہ بات خوب آتی ہے۔ میں نے ان کےساتھ سفر میں رہ کر دیکھا کہ خواہ کوئی کسی قسم کی بھی باتیں کر رہا ہو وہ اس سے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لیتے ہیں۔
بیسویں ہدایت
بیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ بیہودہ بحثوں میں نہ پڑے۔ بلکہ اپنے کام سے کام رکھے۔ مثلاً ریل میں سوار ہو تو یہ نہیں کہ ترکِ موالات پر بحث شروع کر دے۔ میں نے اس کے متعلق کتاب لکھی ہے مگر اس لیے لکھی ہے کہ میرے لیے جماعت کی سیاسی حالت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور سیاسی طور پر اپنی جماعت کی حفاظت کرنا بھی میرا فرض ہے۔ اگر میں صرف مبلغ ہوتا تو کبھی اس کے متعلق کچھ نہ لکھتا کیونکہ مبلغ کو ایسی باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے ہر وقت اپنے کام کا ہی فکر رکھنا چاہیے۔ اور اگر کہیں ایسی باتیں ہو رہی ہوں جو اس کے دائرہ عمل میں داخل نہیں ہیں تو وہ واعظانہ رنگ اختیار کرے اور کہے کہ اتفاق و اتحاد ہی اچھا ہوتا ہے اور وہی طریق عمل اختیار کرنا چاہیے جس میں کوئی فساد نہ ہو کوئی فتنہ نہ پیدا ہواور کسی پر ظلم نہ ہو۔ اس کے سوا کیا ہو یا کیا نہ ہو اس میں پڑنے کی اسے ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی کہے کہ ہر ایک وہ بات جو فساد، فتنہ اور ظلم و ستم سے خالی ہو اور حق و انصاف پر مبنی ہو اسے ہم ماننے کے لیے تیار ہیں اور اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ جو بات حق و صداقت پر مبنی ہو اسے ہم ہر وقت ماننے کے لیے تیار ہیں۔
اکیسویں ہدایت
اکیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کو اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہیے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں۔ مبلغ کو اپنے اخلاق درست رکھنے بھی نہایت ضروری ہیں۔ مگر اس کے اخلاق کا اثر مخالفین پر اتنا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کے اخلاق پر ہوتا ہے جو ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں۔ مبلغ تو ایک آدھ دن کے لیے کسی جگہ جائے گا اور مخالفین اس کے اخلاق کا اندازہ بھی نہ لگا سکیں گے۔ ان پر تو وہاں کے احمدیوں کے اخلاق کا ہی اثر ہوگا۔ لیکن اگر ان احمدیوں کے اخلاق اچھے نہیں جو ان میں رہتے ہیں تو خواہ انہیں کوئی دلیل سناؤ ان کے سامنے وہاں کے لوگوں کے ہی اخلاق ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں دلیل کا کچھ بھی اثر ان پر نہ ہوگا۔ پس مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں کے متعلق دیکھے کہ ان کے روحانی اور ظاہری اخلاق کیسے ہیں۔ ان کے اخلاق اور عبادات کو خاص طور پر دیکھے اور ان کی نگرانی کرتا رہے۔ جب بھی جائے مقابلہ کرے کہ پہلے کی نسبت انہوں نے ترقی کی ہے یا نہیں۔ یہ نہایت ضروری اور اہم بات ہے اور ایسی اہم بات ہے کہ اگر اخلاق درست نہ ہوں تو ساری دلیلیں باطل ہوجاتی ہیں۔ اور اگر اخلاق درست ہوں تو ایک آدمی بھی بیسیوں کو احمدی بنا سکتا ہے۔ کیونکہ دس تقریریں اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا اثر ایک دن کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مشاہدہ ہوتا ہے اور مشاہدہ کا اثر دلائل سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دیکھو اگر ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ کا اثر بذریعہ کشف دل پر ڈال دیاجائے تو اس کا اتنا اثر ہوگا کہ سارے قرآن کے الفاظ پڑھنے سے اتنا نہ ہوگا۔ کیونکہ وہ مشاہدہ ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا ہے ایک آیت پر عمل کرنا بہتر ہے بہ نسبت سارا قرآن پڑھنے کے۔ اس کا غلط مطلب سمجھا گیا کہ ایک ہی آیت کو لے لینا چاہیے اور باقی قرآن کو چھوڑ دینا چاہیے۔ حالانکہ اس سے مراد وہ اثر ہے جو کسی آیت کے متعلق کشفی طور پر انسان پر ہو۔
تو اخلاق کا نمونہ دکھانا بڑی تاثیر رکھتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن میں آیا ہے
رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(الحجر:3)
کفار مسلمانوں کے اخلاق کو دیکھ کر خواہش کرتے کہ کاش ہم بھی ایسے ہوجائیں۔ یہ اخلاق ہی کااثر ہوسکتا ہے کہ کافربھی مومن کی طرح بننے کی خواہش کرتا ہے۔ اور جب کوئی سچے دل سے خواہش کرے تو اس کو خدا ان لوگوں میں داخل بھی کر دیتا ہے جن کے اخلاق اسے پسند آتے ہیں۔
بائیسویں ہدایت
بائیسویں بات مبلغ کے کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایک حیات اور حرکت ہو۔ یعنی اس میں چُستی، چالاکی اور ہوشیاری پائی جائے۔
حضرت صاحبؑ فرمایا کرتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تاکہ لوگ جاگیں اور تمہاری باتیں سُنیں۔ پس چاہیے کہ مبلغ کے اپنے جسم میں ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا ہوجائے کہ جو زلزلہ کی طرح اس کے جسم کو ہلا دے اور وہ دوسروں میں زلزلہ پیدا کر دے۔ مبلغ جس گاؤں یا شہر میں جائے وہ سو نہ سکے بلکہ بیدار ہوجائے۔ مگر اب تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مبلغ ایک ایک مہینہ کسی جگہ رہ کر آجاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی آیا تھا۔
ان ہدایات پر عمل کرو
یہ بائیس موٹی موٹی باتیں ہیں مگر اس لیے نہیں کہ ان کو سنو اور کان سے نکال دو بلکہ اس لیے ہیں کہ ان پر عمل کرو۔ ہماری ترقی اسی لیے رُکی ہوئی ہے کہ صحیح ذرائع سے کام نہیں لیا جارہا۔ اخلاص اور چیز ہے لیکن کام کو صحیح ذرائع اور طریق سے کرنا اور چیز ۔ دیکھو اگر کوئی شخص بڑے اخلاص کے ساتھ مسجد کے پیچھے مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کی طرف بیٹھ رہے اور کہے کہ میں اخلاص کے ذریعہ مسجد میں داخل ہوجاؤں گا تو داخل نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اگر کسی میں اخلاص نہ بھی ہو اور وہ مسجد میں آنے کا راستہ جانتا ہو تو آجائے گا۔ ہاں جب یہ دونوں باتیں مل جائیں یعنی اخلاص بھی ہو اور صحیح طریق پر عمل بھی ہو تب بہت بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی۔
پس یہ ہدایتیں جو میں نے بتائی ہیں ان پر عمل کرو تاکہ تبلیغ صحیح طریق کے ماتحت ہو۔ یہ ہدایتیں دفتر تألیف میں محفوظ رہیں گی اور ان کے مطابق دیکھا جائے گا کہ کس کس مبلغ نے ان پر کتنا کتنا عمل کیا ہے۔
یہ ٹھیک بات ہے اور میں نے بارہا اس پر زور دیا ہے کہ مبلغ کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ پہنچانا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ مانتے ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچاتے ہی تھے۔ منواتے نہ تھے۔ مگر لوگ مانتے تھے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ پہنچاتے ہی تھے۔ منواتے نہیں تھے۔ مگر لوگ مانتے تھے۔ کیوں؟ اس لیے کہ صحیح ذرائع کے ماتحت پہنچانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مان لیتے ہیں۔
پس ہمارے مبلغ بھی صحیح ذرائع پر عمل کریں گے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ نہ مانیں۔ اگر ہم ان باتوں کو جو میں نے بیان کی ہیں اپنی جماعت کے ہر ایک آدمی میں پیدا کردیں تو ہر سال ہماری جماعت پہلے کی نسبت دُگنی ہوجائے۔ کیونکہ کم از کم ایک شخص ایک کو تو احمدی بنالے اور اگر اس طرح ہونے لگ جائے تو تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری جماعت کس قدر ترقی کر سکتی ہے۔ بیس پچیس سال کے اندر اندر دنیا فتح ہوسکتی ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنی جماعت کو بطور تنزل ایک لاکھ ہی قرار دیں تو اگلے سال دو لاکھ ہوجائے اور اس سے اگلے سال چار لاکھ، پھر آٹھ لاکھ، پھر سولہ لاکھ اس طرح سمجھ لو کہ کس قدر جلدی ترقی ہوسکتی ہے۔ مگر یہ خیالی اندازہ ہے۔ اگر اس کو چھوڑ بھی دیا جائے اور حقیقی طور پر اندازہ لگایا جائے تو دس پندرہ سال کے اندر اندر ہماری جماعت اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ سیاسی طور پر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیں رہ جاتا۔ مگر افسوس ہے کہ صحیح ذرائع اور اصولِ تبلیغ سے کام نہیں لیا جاتا اگر ان سے کام لیا جائے اور ان شرائط کو مدّنظر رکھا جائے جو میں نے بیان کی ہیں تو قلیل عرصہ میں ہی اتنی ترقی ہوسکتی ہے کہ ہماری جماعت پہلے کی نسبت بیس گنے ہوجائے۔ اور جب جماعت بڑھ جاتی ہے تو وہ خود تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اگر اس وقت ہماری جماعت بیس لاکھ ہوجائے تو ہزاروں ایسے لوگ جو چُھپے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہو کر ہمارے ساتھ مل جائیں گے۔
پس ایک انتظام اور جوش کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ اور اس سال ایسے جوش سے کام کرو کہ کم از کم ہندوستان میں زلزلہ آیا ہوا معلوم ہو۔ اور اگر تم اس طرح کرو گے تو پھر دیکھو گے کہ کس قدر ترقی ہوتی ہے۔
(ہدایات زریں، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 573تا600)