کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے
اَخلاقِ الٰہیہ
سورۂ فاتحہ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رَبّ الْعٰلَمِيْنَ بیان کی ہے جس میں تمام مخلوقات شامل ہے۔ اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کامیدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ تمام چرند، پرند اور کُل مخلوق اس میں آجاوے۔ پھر دوسری صفت رحمٰن کی بیان کی ہے جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاًکرنی چاہیے اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے۔ غرض اس سورۂ فاتحہ میں جو اﷲ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہیے۔ اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔ اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے۔ خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں۔ اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہیے۔
اَخلاقِ عالیہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کُرتہ بھی دے دیا ہے۔ اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ جبتک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی۔ زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔ دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔ پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔ ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے البتہ وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے علانیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا اور خطرناک دشمنی کرتا ہے۔ اس کامعاملہ اور ہے۔ جیسے صحابہ کو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی، تو پھر باوجود تعلّقاتِ شدیدہ کے ان کو اسلام مقدم کرنا پڑا۔ اور ایسے واقعات پیش آئے جن میں باپ نے بیٹے کو یا بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ مراتب کا لحاظ رکھا جاوے۔
گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی
ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سُست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زَد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے۔ جو لوگ بالجہر دشمن ہو گئے ہیں اُن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی نہیں کی بلکہ ابوجہل کا سر کٹنے پر سجدہ کیا۔ لیکن جو دوسرے عزیز تھے جیسے امیر حمزہ جن پر ایک وحشی نے حربہ چلایا تھا تو باوجودیکہ وہ مسلمان تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر سے الگ چلا جا،کیونکہ وہ قصہ آپ کو یاد آگیا۔ اس طرح پر دوست دشمن میں پوری تمیز کر لینی چاہیے اور پھر اُن سے علیٰ قدرِ مراتب نیکی کرنی چاہیے۔
کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو
اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوتی۔ کیا ساری گندم تخم ریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے۔ بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں۔ بعض کسی اور طرح قابلِ ثمر نہیں رہتے۔ غرض اُن میں سے جو ہو نہار ہوتے ہیں اُن کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا۔ خدا تعالیٰ کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی كَزَرْعٍ ہوتی ہے۔ اسی لیے اس اصول پر اس کی ترقی ضروری ہے۔ پس یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں۔ ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔ تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔
تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى (المائدۃ :3)
کمزور بھائیوں کا بار اُٹھائو۔ عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جائو۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضرور ی ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتائو کرے۔ دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہیے۔ بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں۔ معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خلق کو گمراہ کرتے ہیں۔ لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے۔ کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔ اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم ، ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کاموجب ہوتی ہیں۔ یہاں مدرسہ ہے، مطبع ہے مگر کیا اصل اغراض ہمارے یہی ہیں، یا اصل امور اور مقاصد کے لیے بطور خادم ہیں؟ کیا ہماری غرض اتنی ہی ہے کہ یہ لڑکے پڑھ کر نوکر یاں کریں یا کتابیں بیچتے رہیں۔ یہ تو سِفلی اُمور ہیں ان سے ہمیں کیا تعلق۔ یہ بالکل ابتدائی امور ہیں۔ اگر مدرسہ چلتا رہے تب بھی بنظرِ ظاہر بیس برس تک بھی یہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا جو اس وقت علیگڑھ کالج کی ہے۔ یہ امر دیگر ہے کہ اگر خدا چاہے تو ایک دم میں اسے علیگڑھ کالج سے بھی بڑا بنادے مگر ہماری ساری طاقتیں اور قوتیں اسی ایک امر میں خرچ ہوجانی ضروری نہیں ہیں۔
(ملفوظات جلد3صفحہ345تا348۔ایڈیشن 1984ء)