یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی
اخوت و ہمدردی کی نصیحت
ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔ جس کو پوری طاقت دی گئی ہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے، محبت کرے اور اُسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے۔ اگر عفو نہ کیا جائے، ہمدردی نہ کی جاوے، اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرکے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزَد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھاجاتا ہے۔ بھائی کی پردہ پوشی کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لئے اشتہار دے۔ پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟ دنیا کے بھائی اخوت کا طریق نہیں چھوڑتے۔ میں مرزا نظام الدین وغیرہ کو دیکھتا ہوں کہ ان کی اباحت کی زندگی ہے مگر جب کوئی معاملہ ہو تو تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ فقیری بھی الگ رہ جاتی ہے۔ بعض وقت انسان جانور بندر یا کتے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔ یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو۔ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاد دلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔ خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی اُمیدیں ہیں۔ اُس نے وعدہ کیا ہے
جَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ (اٰل عـمران : 56)۔
میں یقیناً جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی۔ مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔ دیکھو ایک دوسروں کا شکوہ کرنا،دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔ اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔ پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے یہ نئی قوم بنائی ہے جس میں امیر، غریب، بچے، جوان، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزّت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جُدا جُدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔
(ملفوظات جلد صفحہ 348تا349۔ایڈیشن1984ء)
ہماری جماعت کو عمل کی ضرورت ہے
یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اﷲ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھائو یہ نکمی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔ پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سُود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھائو اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدمؑ کے وقت سے شروع ہوئی ہے کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبر نہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھائو کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو۔
(ملفوظات جلد3 صفحہ370-371)
جھوٹ کی مذمّت
بدکاری فسق و فجور سب گناہ ہیں۔ مگر یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ شیطان نے جو یہ جال پھینکا ہے اُس سے بجز خدا کے فضل کے کوئی نہیں بچ سکتا۔ بعض وقت یونہی جھوٹ بول دیتا ہے مثلا ًباز یگر نے دس ہاتھ چھلانگ ماری ہو تو محض دوسروں کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان کر دیتا ہے کہ چالیس ہاتھ کی ماری ہے۔ اس قسم کی شرارتیں شیطان نے پھیلا رکھی ہیں اس لیے چاہیے کہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں۔ ہر قسم کے لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کرنے والی ہوں۔ جھوٹ اس قدر عام ہو رہا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ درویش، مولوی، قصہ گو، واعظ اپنے بیانات کو سجانے کے لیے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں اور اس قسم کے اور بہت سے گناہ ہیں جو ملک میں کثرت کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الـحج : 31)
دیکھو یہاں جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے، ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بُت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیںہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔ مدت تک ریاضت کریں تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔
(ملفوظات جلد3صفحہ349تا350۔ایڈیشن 1984ء)